
کراچی (نامہ نگار خصوصی)پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور نے کہا ہے کہسعید غنی اسکولوں کو باڑہ بنانا چاہتے ہیں جہاں وزر اء اپنی گائے اور بھینسیں باندھ سکیں۔ صوبہ سندھ میں شعبہ تعلیم مسلسل زبوں حالی کا شکار ہے۔پیپلز پارٹی کے وزراء این ای ڈی اور آئی بی اے دونوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ این ای ڈی یونیورسٹی کا یہ اعلان انتہائی مایوس کن ہے کہ اس دفعہ میٹرک کی بنیاد پر داخلے دئیے جائیں گے۔
بنا امتحان لئے اگلی جماعت میں پروموٹ کرنا پیپلز پارٹی کی ہی ایجادات میں سے ایک ہے۔ وہ 70 کی دہائی میں بھی یہی ذہنیت رکھتے تھے اور آج بھی ان کا یہی حال ہے۔ دنیا ترقی کر رہی ہے اور پیپلز پارٹی کی مہربانیوں سے سندھ مسلسل پیچھے جا رہا ہے۔ کیاکراچی بورڈ کے پاس اتنی استطاعت بھی نہیں ہے کہ امتحان مناسب طریقے سے لے سکے؟ صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی کا کبھی شعبہ تعلیم سے کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی انہوں نے بہت زیادہ تعلیم حاصل کی ہے۔
انہیں اس بات سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ تعلیم کے میدان میں سندھ کے نوجوانوں کو آگے لے کر آئیں۔یہ بات کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے کہ میٹرک کی بنیاد پر این ای ڈی یونیورسٹی طلبا کو داخلہ دے۔ انٹر بورڈ آن لائن امتحانات لے۔ کراچی میں بہت سے تعلیمی اداروں کے پاس لیب کی سہولیات موجود ہیں جنہیں اس مقصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کام ان کے بس کا نہیں ہے تو شام کے وقت نیشنل اسٹیڈیم میں امتحانات کا انتظام کیا جائے۔کیا سعید غنی یہ چاہتے ہیں کہ سرکاری ملازمتوں کی طرح اعلی تعلیمی اداروں میں داخلے بھی فروخت کریں؟ ایچ ای سی اس معاملے پر اپنا پالیسی بیان دے۔
پاسبان سندھ کے نوجوانوں کے مستقبل سے کسی کو بھی کھیلنے کی اجازت نہیں دے گی۔ پاسبان پریس انفارمیشن سیل سے جاری کردہ بیان میں میٹرک کے نتائج کی بنیاد پر این ای ڈی یونیورسٹی میں داخلے دیئے جانے کے اعلان پرشدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پی ڈی پی کے چیئرمین الطاف شکور نے مزید کہا کہ کوٹہ سسٹم پر آئے ہوئے ان لوگوں میں اسٹریٹجک صلاحیتیں مفقود ہیں۔بورڈ کی نااہلی سے تنگ آکر پہلے ہی انٹر کے نتائج کو داخلوں میں پچاس فیصد ویٹج دی جاتی ہے اور بہت سے ادارے تو انٹر کے نتائج کو مانتے ہی نہیں ہیں بلکہ اپنے داخلہ ٹیسٹ کی بنیاد پر داخلے دیتے ہیں۔
اس شرمناک صورتحال پر پیپلز پارٹی کے وزرا کو کوئی شرم بھی نہیں آتی ہے کیونکہ انہیں معاملات کی گہرائی کا علم ہی نہیں ہے۔ اگر ہو بھی جائے تو کرپشن کو اپنا حق سمجھنے والے اس پر شرمائیں گے کیوں؟ این ای ڈی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ہر دور میں میرٹ کو برقرار رکھنے کے لئے مسلسل جدوجہد کی ہے۔وزیر تعلیم کے پاس اتنی صلاحیت بھی نہیں ہے کہ غیر معمولی صورت حال میں شعبہ تعلیم کو بچانے کے لئے غیر معمولی اقدامات کر سکیں؟ اگرطلبہ انٹر کا امتحان نہیں دیں گے تو آگے چل کر انہیں باہر اور کچھ ملکی جامعات میں بھی اعلی تعلیم کے لئے داخلے میں مشکلات آئیں گی۔ ان مسائل کے متعلق سوچنا سعید غنی کے بس کی بات نہیں ہے۔پی ایچ ڈی میں داخلے کے لئے ایچ ای سی نے اٹھارہ سال کی تعلیم کی شرط رکھی ہے۔ دو سال کی انٹر کی تعلیم جب شمار نہیں ہوگی تو یہ طالبعلم ایم ایس اور پی یچ ڈی کیسے کریں گے؟
بیرون ملک تعلیم کیسے حاصل کرسکیں گے؟ کورونا کے دوران امتحانات کے طریقہ کار پر ویسے ہی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سرے سے امتحانات ہی نہیں لیں گے تو پھر صورت حال اور خراب ہو جائے گی۔ یہی صورت حال رہی تو میٹرک انٹر کا نظام سرے سے ختم ہو جائے گا، لوگ کیمبرج سسٹم کو پوری طرح اپنا لیں گے اور پیپلز پارٹی کے بیرونی آقا بھی ان سے خوش رہیں گے۔ کوٹہ سسٹم کی مہربانیوں سے حالت اب یہ ہوگئی ہے کہ ہم میں انٹر کے امتحانات لینے کی صلاحیت بھی نہیں رہی ہے