امتیاز حسین عباسی
انٹرویو،،، مقبول خان،،خالد غوری ،،طاہر تنولی

امتیاز سپر مارکیٹ کاروباری دنیا کی ایک ایسی ہوشربا داستان ہے، جس کا آغاز 65سال قبل1955میں کراچی کے علاقے بہادر آباد میں قائم ہونے والی کریانہ کی ایک دکان سے ہوتا ہے۔ امتیاز سپر مارکیٹ کی اس داستان میں کاروبار کی ترقی کے وہ تمام عوامل بشمول انتھک محنت، دیانتداری ،اشیاء کا معیار برقرار رکھتے ہوئے کم منافع کا حصول، گاہک کی عزت ،خوش اخلاقی،اور خریداری کیلئے بہترین ماحول کی فراہمی بھی شامل ہے۔امتیاز حسین عباسی بنیادی طور پر کاروباری شخصیت کے مالک ہیںجو پاکستان کے طول عرض میں بسنے والی عباسی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، وہ دوران تعلیم ہی اپنے والد صاحب کے کاروبار میں شامل ہو گئے تھے ۔ والدصاحب کی کریانہ کی دکان میں کام شروع کر نے والے امتیاز عباسی نے اپنے مضبوط ارادوں اور ذہانت کی بنیاد پر ترقی کرتے ہوئے سپر اسٹور کی ایک ایمپائر کھڑی کرکے اس کو امتیاز سپر مارکیٹ کا نام دیا، اوراس کو پاکستان کی سب سے بڑے چین نیٹ ورک میں تبدیل کیا۔ اس وقت پاکستان کے 5 بڑے شہروں میں 11 امتیازسپر مارکیٹ کام کررہی ہیں ، رواں سال اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا ، امتیاز عباسی کا شمار پاکستان میں ٹیکس دینے والوںمیں آٹھویں نمبرپر ہے، امتیاز عباسی کی کاروباری ترقی اور کامیابی کی جدوجہد کے حوالے سے جیل چورنگی پر پریسٹیج ٹاور کے ساتویں فلور پر واقع ان کے ہیڈ آفس میں ان کا تفصیلی انٹرویو کیا جو سوال جواب کی صورت میں قارئین کی خد مت میں پیش ہے۔

سوال : امتیاز سپر مارکیٹ کی ابتدا،کامیابی اور ترقی کی داستان کہاں اور کب سے شروع ہوتی ہے۔
امتیاز عباسی : امتیاز سپر مارکیٹ کی دستان کا آغاز 1955 میں ہوا ،بہادر آباد کراچی میں میرے والد صاحب نے کریانہ کی دکان کھولی تھی۔ میں 1967 میں والد صاحب کے ساتھ ان کے کاروبار میں شامل ہوا، والد صاحب کی سرپرستی میںکاروباری تربیت حاصل کی، والد صاحب نے مجھے مال خریدنے سے لے کر فروخت کرنے کے طریقے سکھائے ، کاروباری رموز سے آگاہ کیا،اس کے ساتھ اخلاقی تربیت بھی کی، کیونکہ کاروبار کی کامیابی میں اخلاق کا اہم کردار ہوتا ہے۔ 1970 میں والد صاحب کے کاروبار کو مکمل طور پر سنبھال لیا میں نے ابتدائی طور پرسرکۂ تیار کرکے کراچی میں بذریعہ تین پہیوں والے 4 عدد سائیکل رکشوں کے ذریعے کراچی کو چار حصوں میں تقسیم کرکے اس کی سپلائی شروع کی ،جس میں مجھے کامیابی ہوئی۔ اس دوران ملک میں آٹے اور چینی کا بحران شروع ہوگیا۔ یہ دونوں اشیاء نایاب ہوگئیں، حکومت نے آٹے اور چینی کی فراہمی کیلئے راشن کارڈ اسکیم شروع کی، جس کے ذریعے ہر خاندان کو آٹا و چینی اس کی ضرورت کے مطابق رعائتی قیمت پر فراہم کرنا تھامیں نے بھی راشن شاپ کا لائسنس حاصل کیااور عوام کو سستا آٹا و چینی فراہم کرنا شروع کیا یہ کام اس قدر وسیع ہوا کہ اُس وقت ہمارا شمار چند بڑی لائسنس شاپ میں ہوتا تھا ، پندرہ دن کی بنیاد پر اس اسکیم کے زریعے تقریباً 35000 خاندانوں کو راشن فراہم کیا ، بعد ازاں جب یہ بحران ختم ہوا اور میری توجہ دوبارہ اپنی کریانہ کی دکان کی جانب مرکوز ہوئی، ا اس وقت ہم اپنے اسٹور کو
کافی حد تک جدید خطوط پر استوار کرچکے تھے، 1975 میں سنگا پور چلا گیا وہاں میں نے محمدی اسٹور دیکھا جو کہ وہاں کا سب سے بڑا ریٹیل اسٹور تھا، میں نے اس اسٹور کو اپنے بزنس کا رول ماڈل بنایا اور پاکستان آکر اس کی منصوبہ بندی شروع کی اس دوران 1997 میں رائس مل بھی لگائی، 2001 میں پہلی امتیاز سپر مارکیٹ عوامی مرکز کراچی میں قائم کی۔ اس کے بعد 2006 میں ناظم آباد، 2008 میں ڈی ایچ اے ،اور 2010 میں گلشن اقبال ،اور ملیر کینٹ کراچی سے ہوتے ہوئے ہم نے پنجاب کا رخ کیا ،جہاں 14 کروڑ کی آبادی ہے گجرانوالہ ، فیصل آباد، اسلام آباد، لاہور، سیالکوٹ اور گجرات میں امتیاز سپر مارکیٹ قائم ہو چکی ہیں، جہاں ہمیں عوام کی بھرپور پزیرائی حاصل ہوئی۔

سوال: مستقبل کے کیا منصوبے ہیں اور اس میںکس طرح کے چیلنجز در پیش ہیں؟
امیتاز عباسی: میرا خیال ہے اس طرح کی معیاری اور سٹی سپر مارکیٹ کی تعداد پورے پاکستان میں 100 تو ہونی چاہیے یہی ہمارا ٹارگٹ ہے ہم ا اس پر کام کررہے ہیں، جلد ہی پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی امتیاز سپر مارکیٹ قائم کر دی جائینگی۔ یہ عوام کی ایک خدمت ہے اور ہم اسی جذبہ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ اس ہدف کے حصول میںتھوڑی بہت مشکلات تو آئیں گی ،لیکن ہم ان کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھیں گے۔ سابقہ تجربوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اب ہماری یہ کوشش ہے کہ پرانے اسٹورز کے سائز میں اضافہ کیا جائے اور نئے اسٹورز کیلئے بڑی جگہ لی جائے ،خریداروں کا زیادہ رش ہونے کی وجہ سے عوام کو پریشانی کا سامنا ہوتا ہے، خریداروں کے لیے وسیع پارکنگ کا بھی انتظام کررہے ہیں ۔ہم اپنی سپلائی کی چین کو بھی مضبوط کررہے ہیں تاکہ کسی بھی چیز کمی واقع نہ ہو۔
سوال: امتیاز سپر مارکیٹ کا دعویٰ ہے کہ ہم پاکستان میں ڈپارٹمنٹل اسٹورز کی سب سے بڑی چین ہیں۔ اس میں کتنی حقیقت ہے؟
امیتاز عباسی: ہمارے اسٹور سے خریداری کرنے والوں کا بڑا حصہ درمیانی (اوسط) آمدنی رکھنے والے طبقے سے ہے، اس بات کے پیش نظر ہم نے مصنوعات اور اشیاء کو قدرے سستی رکھنے کے ساتھ معیار کو بھی برقرار رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے خریداروں کی آمدکا تسلسل جاری رہتا ہے۔ پاکستان میں دیگر اسٹورز کا رقبہ یقیناً زیادہ ہوگا۔لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ نمبرز آف خریدار کس کے زیادہ ہیں، الحمداﷲ پاکستان کے دیگر اسٹوروں کی نسبت ہمارے خریداروں کی تعداد بہت زیادہ ہے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر 90 ہزار افراد ہمارے اسٹورز سے خریداری کرتے ہیں جو لازمی طور پر بڑی تعداد ہے جو کسی اور سپر اسٹورز پر نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں اور یہ کسی حدتک صحیح بھی ہے، ہمارا مقصد زیادہ برانچیں کھول کر زیادہ پیسہ کمانا نہیں بلکہ ہم اپنے خریداروں کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں۔

سوال ؛عام گھریلو استعمال کی اشیاء کے علاوہ کونسے دیگر برانڈ آپ کے اسٹورز پر دستیاب ہیں؟
امیتاز عباسی: امتیاز سپر مارکیٹ بنیادی طور پر ایک سپر اسٹور کی طرز پر کام کرتا ہے جس میں سوئی سے لے کر انٹرنیشنل برانڈ کی تمام ضروری اشیاء نہ صرف دستیاب ہیں بلکہ مارکیٹ سے کم ریٹ پر فروخت کیلئے موجود ہیں ایسے تمام برانڈز جو پاکستان میں اپنا نیٹ ورک رکھتے ہیں ہماری برانچوں میں موجود ہیں۔
سوال: آپ اپنے گاہکوں کو کس طرح کی سہولیات فراہم کررہے ہیں؟
امتیاز عباسی: ہمارے زیادہ تر اسٹورز سینٹرلی ایئرکنڈیشن ہیں اور بہترین ماحول اور مستعد عملہ ہمہ وقت اپنے خریداروں کی خدمت پر مامور ہے، ہم اس کام کو خدمت سمجھتے ہیں میرے تین اصول ہیں (1) مخلوق خدا کی بھلائی اور لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا جس سے اﷲ اور مخلوق دونوں راضی ہوجائیں (2) عوام کو روزگار فراہم کرنا اس وقت ہمارے پاس 9 ہزار سے زائد افراد کام کررہے ہیں، ایک فرد کے ساتھ خاندان کے 5 افراد کو شا مل کیا جائے تو یہ تعداد 45 ہزار ہو جاتی ہے، اﷲ نے مجھے 45 ہزار افراد کی کفالت کے قابل بنایا ہے، جس پر اپنے مالک کا شکر گذار ہوں (3) میں اپنے اسٹاف اور کسٹمرز کی عزت پر یقین رکھتا ہوں، اور اپنے اسٹاف کو بھی کہتا ہوں کہ کسٹمرز کی عزت دل
جان سے کی جائے اور ان کی خدامت کریں خواہ وہ 10 روپے کی خریداری کرئے ہمارے لیے محترم ہے۔
سوال: امتیاز اسٹور مارکیٹ میں روزانہ کتنے افراد شاپنگ کرتے ہیں؟
امتیاز عباسی: ہمارے اندازہ ہے کہ اس وقت کراچی کی تمام برانچوں میں روزانہ 90 ہزار افراد خریداری کرنے آتے ہیں ، جو ہم پر اور امتیاز سپر مارکیٹ پر عوام کے اعتماد کا مظہرہے ، ہر ماہ کے شروع اور آخر میں ان خریداروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، عوام کے اعتماد کی بنیاد ی وجہ ہمارا معیار اور مارکیٹ سے رعائتی قیمت پر اشیاء کی دستیابی ہے۔ ہم طلب اور رسد دونوں پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اشیاء صرف میں کمی واقع نہیں ہونے دیتے اور نہ ہی ان کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں، ادویات کے حوالے سے ، ہم صرف وہ ادویات رکھتے ہیں جو کہ لائسنس یافتہ کمپنیز بنارہی ہوں۔
سوال: قیمتوں پر اتنا زیادہ کنٹرول کس طرح ممکن ہے؟
امتیاز عباسی: امتیاز سپر مارکیٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ اشیاء کی قیمت مارکیٹ سے کم ہوں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کئی کمپنیز سے ہم سالانہ خریداری کرتے بلکہ یوں کہیں کہ کہ ہم ان سے پورا مال خریدتے ہیں یعنی وہ صرف ہمارے لیے ہی پروڈکشن کرتی ہیں اس کے علاوہ کئی اشیاء ہم خود بھی تیار کرتے ہیں۔
سوال: امتیاز سپر کارڈ بنانے کے کیا فوائد ہیں؟
امتیاز عباسی: یہ ہماری سپر مارکیٹ کا ایک ڈسکائونٹ کارڈ ہے جو کہ باآسانی بنایا جاسکتا ہے ہمارے کسی بھی برانچ سے اس کے کارڈ کے ذریعے شاپنگ کرنے والے خریداروںکو مزید ایک فیصدڈسکائونٹ دیا جاتا ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس وہ رجسٹرڈ بھی ہوجاتا ہے جس کے زریعے وہ ہماری پروموشنل ایکٹویز میں شامل رہتا ہے۔
سوال: کراچی میں پارکنگ ایک بڑا ایشو ہے خریداروں کو اس حوالے سے خریداروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
امتیاز عباسی: امتیاز سپر مارکیٹ نے اپنے ہر اسٹور پر پارکنگ کیلئے بڑا احاطہ رکھا ہوا پریشانی یہ ہے کہ خریدار، اس پارکنگ ایریاکو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کر تے۔ جس کی وجہ سے اکثر یہ ایشوز آتے رہتے ہیں ہمارا اسٹاف اس کو کنٹرول کرتا ہے، کسٹمرز کیلئے Wallet پارکنگ بھی رکھی ہے، میں پھر کہوں گا کہ عوام کی تربیت کی ضرورت ہے،سہولیات موجود ہونے کے باوجود غلط پارکنگ کرتے ہیں، حکومتی سطح پر یہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال :دوران کرونا امتیاز سپر اسٹورز میں کتنے افراد متاثر ہوئے؟
امتیاز عباسی: ہمارے اسٹاف کے 900 افراد متاثر ہوئے جن میں سے 2 کا انتقال ہوگیا، متاثر افرد کی ہم نے بھرپور مالی مدد کے ساتھ علاج بھی کروایا اور ان کے گھروں کو مسلسل سپورٹ کیا،الحمد اللہ ان کی تنخواہ بھی جاری رکھی تھیں۔
سوال : اچانک امتیاز سپر مارکیٹ نے اپنا لوگو کیوں تبدیل کیا؟
امتیاز عباسی: دنیا بھر میں ہر 10 سال میں کمپنیاں اپنے لوگوز میں ترمیم وقت کے حساب سے کر تی رہتی ہیں لیکن ہماری اس طرف توجہ کم تھی
تقریباً 35 سال بعد ہم نے اپنا لوگو انٹرنیشنل ماہرین کی نگرانی میں وقت کی ضرورت کے حساب سے تبدیل کیا ہے

Leave a Reply