دو ڈھائی عشروں سے شہری اداروں میںسیا سی جماعتوں کی مداخلت میں اضافہ ہوا، ادروں میں سیاسی کارکنوں کی بھرتیاں کی گئیں، سیاسی طور پر بھرتی ہونے والوں میں نہ تو مطلوبہ فنی صلاحیت تھی،اور نہ ہی ا تجربہ تھا، جس سے اداروں کی کار کردگی متاثر ہوئی، اور کرپشن بڑھنا شروع ہوئی، اب یہ عالم ہے کہ کسی پروجیکٹ کی این او سی لینے سے تکمیل کے آخری مرحلے تک رشوت کا بازر گرم ہوچکا ہے
انٹرویو،، مقبول خان،طاہر تنولی

محسن ابو بکر شیخانی المعروف محسن شیخانی پاکستان میں تعمیراتی صنعت کا ایک معتبر حوالہ ہیں، تعمیراتی شعبہ سے انہیں پیشہ ورانہ دلچسپی ورثہ میں ملی ہے، ان کے والد ابوبکر شیخانی بھی اپنے وقت میں کراچی کے معروف تعمیرات کار(بلڈر) تھے، محسن کئی برسوں سے اس شعبہ سے وابستہ ہیں، انہوں نے تعمیراتی صنعت کے فنی اور پیشہ ورانہ رموزاپنے والد ابو بکر شیخانی سے سیکھے ۔ اب محسن شیخانی کا شمار نہ صرف ملک کے معروف بلڈرز اور ڈیولپرز میں ہوتا ہے، بلکہ وہ پاکستان کے ڈیولپرز اور بلڈرز کی نمائندہ تنظیم آباد کے چار مرتبہ چیئر مین بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ آباد کی متعدد سب کمیٹیوں بشمول لاء اینڈ آرڈر،ریونیو و امور اراضی وغیرہ کے کنوینر بھی ر ہ چکے ہیں۔ محسن شیخانی آباد کی سنٹرل ایگزیکٹو اور ریجنل ایگزیکٹو کمیٹیوں کے ممبر بھی رہے ہیں۔انہوں نے آباد کے چیئرمین کی حیثیت سے ریئل اسٹیٹ انڈسٹری کی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔وہ پاکستان میں تعمیراتی صنعت کی ترقی اور اس کے فروغ کو ملکی صنعتی ترقی کا موثر ذریعہ سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ تعمیراتی صنعت کی ترقی سے نہ صرف ملک میںروزگار کے مواقع بڑھتے ہیں بلکہ عوام کا معیار زندگی بھی بلند ہوتا ہے۔ محسن شیخانی حنا ہاؤسنگ پروجیکٹس کے ڈائریکٹر ہیں، ان کے کریڈٹ پر الخلیج ٹاورز، اور دی کمفرٹس جیسے اہم اور شاندارتعمیراتی پروجیکٹس بھی ہیں۔ گذشتہ دنوں محسن شیخانی کے دفتر میں ان سے وزیر اعظم ہاؤسنگ اسکیم ،تعمیراتی شعبے کی اہمیت اور اس کے فروغ کیلئے آباد کی کوششیں اور حکومتی اقدامات کے حوالے سے گفتگو کی جس کی تفصیلات نذر قارئین ہیں۔
سوال،،،بلڈرز اور ڈیولپرز کی تنظیم آباد کے قیام کے کیا اغراض و مقاصد تھے، اور یہ کس حد تک پورے ہورہے ہیں؟؟
محسن شیخانی،،،قیام پاکستان کے وقت نئے ملک میں تعمیراتی شعبہ غیر منظم تھا، اس شعبہ کے غیر منظم ہونے کی وجہ سے وقت گذرنے کے ساتھ مشکلات اور مسائل میں اضافہ ہونا شروع ہوا،25سال بعد تعمیراتی شعبہ سے وابستہ چند بڑے لوگوں نے شعبہ کو درپیش مسائل حل کرنے کیلئے ایک تنظیم بنانے پر اتفاق کیا، جس کے نتیجے میں 1972میں ایسو سی ایشن آف آل پاکستان بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کا قیام عمل میں آیا، اس کے بانی ارکان میںفاروق حسن، ایچ اسلام الدین،ایس ایچ شریف، شیخ رحمت اللہ، اے پی سیال، سید مظہر علی، سید عابد علی زیدی، ایس جی ایچ قادری، احسن محمد،ایس اے رضا زیدی، نور السین احمد، آفتاب الرحمٰن، رکن الدین خان اور ستار مستی خان شامل تھے۔ جبکہ موجودہ عہدیداروں میں چیئر مین فیاض الیاس، سینئر وائس چیئر مین محمد ایوب،وائس چیئر مین عارف شیخانی، چیئر مین سدرن ریجن انجینئر دانش، چیئر مین ندرن ریجن اینجینیئر ایم اکبر شیخ، جبکہ فیصل موسیٰ میمن چیئر مین سب ریجن حیدرآبادہیں۔ آباد نہ صرف اپنے ممبران کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے، بلکہ پاکستان میں تعمیراتی شعبہ کو فروغ دینے کیلئے ہمہ وقت خوشاں ہے، تعمیراتی شعبہ سے ملک میں روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں، اور لوگوں کا معیار زندگی بھی بلند ہوتا ہے۔
سوال،،،وزیر اعظم کا نیاپاکستان ہاؤسنگ پروگرام میں آباد کے کردار پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالیں؟؟
محسن شیخانی،،،وزیر اعظم بننے سے قبل عمران خاں صاحب نے آباد کادورہ کیاتھا، اس موقعہ پر ہم نے انہیں لوکاسٹ ہاؤسنگ کی تجویز دی تھی اور کہا تھا کہ ملک میں بارہ ملین مکانات کی کمی ہے، اگر اس میں سے نصف مکانات بھی تعمیر کر دئے جائیں تو اس سے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام کی مشکلات میں کافی حد تک کمی ہوسکتی ہے، انہیں اس حوالے سے بھی بریف کیا گیا تھا کہ مکانات کی کمی کی وجہ سے غیر منظم انداز میں کچی آبادیا بڑھ رہی ہیں، اور سماجی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے،جرائم بھی بڑھ رہے،کیونکہ کچی آبادیاں عام طور پیشہ افراد کی کمین گاہیں ہوتی ہیں،اور وہ وہاں کے نوجوانوں اور بچوں کو لالچ اور ترغیب دے کرجرائم کی دنیا میں لے آتے ہیں، عمران خان نے ہماری اس ترغیب کو سراہا،اور وعدہ کیا تھا کہ وہ موقعہ ملنے پر اس تجویز پر عملدرا ٓمد کرینگے، عمران خان نے اپنے اس وعدے کو پورا کرنے کیلئے لوکاسٹ ہاؤسنگ اسکیم کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا،اور وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعداس پر عملدرآمد کیلئے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کا اعلان کردیا،جہاں تک وزیر اعظم کے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام پر عملدرآمد کا تعلق ہے، تو اس حوالے سے پروگرام کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے،پروگرام کے 70فیصد حصہ پر سرکاری سطح پر عملدرآمد کیا جائیگا، جبکہ 30فیصد پر نجی شعبہ کے تحت عملدرآمد کیا جائیگا۔نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کا 30فیصدنجی شعبہ کو بذریعہ بڈنگ دیا جائیگا۔سرکاری سطح پر 700مربع فٹ تعمیراتی یونٹ کی مجموعی قیمت 21لاکھ روپے ہوگی،جبکہ اس رہائشی یونٹ کی مارکیٹ ویلیو 40لاکھ روپے ہوگی اس میں زمین کی قیمت شامل نہیں ہوگی، زمین کی قیمت الاٹی سے نہیں لی جائیگی، اس رقم میں بھی تین لاکھ روپے حکومت کی جانب سے الاٹی کو سبسڈی دی جائیگی ،جبکہ الاٹی کو صرف دو لاکھ روپے ادا کرنے ہونگے، باقی 16لاکھ روپے کی بینک فنانسنگ ہوگی، جو الاٹی اس رہائشی یونٹ میں رہتے ہوئے آٹھ سے دس ہزار روپے ماہانہ بینک کو ادا کرے گا۔نجی شعبے کی جانب سے اسی رقبے کے رہائشی یونٹ کی مجموعی قیمت 24لاکھ روپے ہوگی، جس میں سے تین لاکھ روپے حکومت کی جانب سے سبسڈی دی جائیگی، تین لاکھ روپے الاٹی دے گا، باقی 18لاکھ روپے کی معمولی مارک اپ کے ساتھ بینک فنانسنگ ہوگی، جس کی ماہانہ قسط دس سے بارہ ہزاروپے تک ہوگی۔نجی شعبہ تمام متعلقہ اداروں کی منظوری لے گا، جس میں حکومت کا تعاون بھی شامل ہوگا۔
سوال،،، نیا پاکستان ہاؤسنگ پرو گرام پر عملدرآمدکے حوالے سے بعض حلقوں میں شکوک شبہات بھی پائے جاتے ہیں، کیونکہ اس پر عملدرآمد میں تاخیر ہورہی ہے، آپ کا اس تاثر کے حوالے سے کیا موقف ہے؟؟
محسن شیخانی،،،نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام پر شکوک و شبہات درست نہیں ہیں،مجھے پورا یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس پروگرام پر عملدرا ٓمد میں سنجیدہ ہیں،کیونکہ وزیر اعظم تعمیراتی شعبے کو معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی سمجھتے ہیں، وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ تعمیراتی شعبے سے مزید72صنعتیںوابستہ ہیں، اگر تعمیراتی شعبہ فعال ہوگا تو ان صنعتوں میں بھی پیداواری سرگرمیاں تیزہو جائیں گی ،اس لئے وزیر اعظم اس پروگرام پر عملدرآمد کیلئے ممکنہ اقدامات بھی کر رہے ہیں،بلاشبہ اس پروگرام پر عملدرآمد میں کچھ تاخیر ہوئی ہے، لیکن اس کی بھی وجوہات ہیں، نیا ہاؤسنگ پروگرام کے اعلان پر آئی ایم ایف سمیت کئی عالمی اداروں کے اعتراضات سامنے آئے، انہیں دور کرنے کیلئے کچھ وقت لگا، اس کے ساتھ ہی پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کرونا کووڈ19کی لپیٹ میں آگئے، لاک ڈاؤن کے باعث پیداواری عمل بری طرح سے متا ثر ہوا،جب کرونا کی شدت میں کمی ہوئی تو ہر ملک نے اپنی معاشی پالیسی خود مرتب کی، لاک ڈاؤن کی نر می کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے سب سے پہلے تعمیراتی صنعت کی بحالی کا اعلان کیا، اس کے ساتھ پالیسی بھی دی، اور تعمیراتی و رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو مراعات اور ریلیف کا بھی اعلان کیا گیا، وزیر اعظم نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام پر عملدرآمد میں سنجیدہ ہیں، پینجاب، بلوچستان اور کے پی کے میں اس پروگرام پر عملدرآمد کا آغاز ہوچکا ہے، سندھ میں کچھ رکاوٹیں، توقع ہے کہ ایک دوماہ میں انہیں بھی دور کر لیا جائیگا، وزیر اعظم ہر ہفتے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے اجلاس کی صدارت کرتے ہیں، اور پروگرام پر پیش رفت کا جائزہ لیتے ہیں، ان اجلاسوں میں نیپڈیک کے افسران، چاروں صوبوں کے متعلقہ وزراء اور سکریٹری شرکت کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے جیسے ہی اس پروگرام پر عملدرآمد شروع ہوگا، ملکی معیشت بھی تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائیگی۔
سوال،،،کراچی میں غیر قانونی تعمیرات اور کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے،جس سے کراچی میں تیزی سے شہری مسائل پیدا ہورہے ہیں، اس پر آباد کے رہنما کی حیثیت سے آپ کا کیا موقف ہے؟؟
محسن شیخانی،،،اس حوالے سے آباد کاموقف واضح ہے، کہ شہر میں غیر قانونی تعمیرات کی قطعی طور پر نہیں ہونی چاہئے، اس حوالے سے متعلقہ اداروں کے بلا امتیاز قانونی کارروائی کرنا چاہئے، ان سے نہ صرف شہری مسائل پیدا ہو رہے ہیں، بلکہ انسانی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہو رہے ہیں، اس وقت 120گز یا اس سے زیادہ جگہ پر کثیرالمنزلہ غیر قانونی عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں، نہ تو ان عمارتوں کی تعمیر میں میں کسی بھی چیز کی اجازت نہیںلی جاتی ہے ، اور نہ ہی ان کا نقشہ منظور ہوتا ہے ،ان کی وجہ سے شہری مسائل پیدا ہورہے ہیں،شہر کے رہائشی علاقوں میں کئی منزلہ عمارتیں تعمیر کرنے کا چلن عام ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے گلیاں بھی تنگ ہو چکی ہیں۔گذشتہ چھ ماہ کے دوران رہائشی علاقوں میں کئی کثیرالمنزلہ عمارتیں زمیں بوس ہوچکی ہیں، اس نوعیت کے سانحات میں تنگ گلیوں کی وجہ سے ریسکیو کے کام میں سخت مشکلات پیش آتی ہیں، ریسکیو کے ذریعہ ملبے تلے دبنے والے زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے میں سخت دشواری کا سامنا ہوتا ہے، بلاشبہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ متعلقہ شہری اداروں کو پابند کرے کہ کسی قیمت پر غیر قانونی عمارتیں تعمیر نہ ہونے دی جائیں۔ جہاں تک شہر میں کثیرا لمنزلہ عمارتوں کی تعمیر کا تعلق ہے ، اگر کثیر المنزلہ عمارت قانونی طور پر تعمیر کی جارہی ہے، اس میں لازمی طور پر انفرا اسٹرکچر، پارکنگ اوروینٹی لیشن دی جاتی ہے، قانونی کثیرالمنزلہ عمارت کی تعمیر میں زمین سے لے کرعمارت کے مکمل ہونے تک تمام قانونی تقاضوں کو پورا کیا جاتا ہے، ہر چیز کا ریکارڈ ہوتا ہے۔
سوال،،،تعمیراتی صنعت کے حوالے سے جو شہری ادارے کام کر رہے ہیں،ان کی کارکردگی کے حوالے سے آباد کے عہدیدار اور ممبران کس حد تک مطمین ہیں؟؟
محسن شیخانی، ،،تعمیراتی صنعت کی بقا اور اس کے فروغ میں شہری اداروں کا کردار اہم ہوتا ہے، انہیں لاگ بک میں درج قواعد وضوابط کے تحت بلڈرز کو سہولتیں فراہم کرنا ہوتی ہیں، جبکہ ایس بی سی اے کا کام تعمیراتی عمل کی مانیٹرنگ ہوتا ہے، لیکن کے الیکٹرک سمیت دیگر شہری ادارے لاگ بک کو فالو نہیں کرتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ دو ڈھائی عشروں سے شہری اداروں سیا سی جماعتوں کی مداخلت میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے ان ادروں میں سیاسی کارکنوں کی بھرتیاں کی گئیں، سیاسی طور پر بھرتی ہونے والوں میں نہ تو مطلوبہ فنی صلاحیت تھی،اور نہ ہی انہیں اس کا تجربہ تھا، جس سے اداروں کی کار کردگی متاثر ہوئی، اور کرپشن بڑھنا شروع ہوئی، اب یہ عالم ہے کہ کسی پروجیکٹ کی این او سی لینے سے تکمیل کے آخری مرحلے تک رشوت کا بازر گرم ہوچکا ہے، جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہورہا ہے، حتمی طور پر بلڈرز مشکلات اور خریدار زائد قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے ہم کئی بار حکومت کو یہ تجویز دے چکے ہیں تمام شہری اداروں کو ڈیجیٹلائز کیا جائے، اس سے نہ صرف مین ٹو مین (براہ راست رابطہ ) ختم ہوگا بلکہ سسٹم بھی بہتر ہوگا، جس کے نتیجے میں کرپشن کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
سوال،،، رہائشی اور کمرشل تعمیراتی منڈوبوں میں اکثر پارکنگ کی جگہ نقشے میں موجود ہوتی ہے، لیکن جب پروجیکٹ تعمیر ہوجاتا ہے ،تواس میں پارکنگ کی جگہ نہیں ہوتی ہے،اگر رکھی بھی جاتی ہے تو وہ نقشے میں رکھی گئی جگہ سے کم ہوتی ہے،جس کی وجہ سے اب رہائشی علاقوں میں بھی پارکنگ کے مسائل پیدا ہورہے ہیں؟؟
محسن شیخانی،،،قانون کے تحت پلاٹ کے سائز کی مناسبت سے پارکنگ اور اوپن اسپیس کیلئے 30فیصد جگہ چھوڑنا پڑتی ہے، اگر آباد کے ممبر نے کہیں بھی اس طرح کی خلاف ورزی کی ہے،تو مجھے اس کی نشاندھی کریں ،میں اس کا ازالہ کراؤنگا، میں یہاں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ پروجیکٹ مالک کو نقشے میں 20فیصد تک ترمیم کی اجازت ہوتی ہے،اس ترمیم کیلئے قانون کے تحت اس مقررہ پنالٹی بھی ادا کرنا پڑتی ہے، اس سے زیادہ اسے اجازت نہیں ہے، جہاں تک غیر رجسٹرڈ بلڈرز کا تعلق ہے، وہ نقشے میں جو کچھ تبدیلی کرتے ہیں، اس میں اداروں کی مرضی بھی شامل ہوتی ہے، کوئی بھی بلڈر ایس بی سی اے اور دیگر شہری اداروں کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا، بعض اوقات تو وہ ایسے بلڈرز کو راستہ بھی خود ہی بتا تے ہیں۔
سوال،،،کراچی پریس کلب کے ممبران کو جو پلاٹوں پر آباد نے تعمیرات کی پیشکس کی ہے، اس کی کیا تفصیلات ہیں ؟؟
محسن شیخانی،،،اس حوالے سے کراچی پریس کلب کے عہدیداروں سے کئی سال سے بات چیت چل رہی ہے، پہلے یہ تجویز دی گئی تھی، کہ 200گز بیچ کر 200گز پر تعمیرات کرلیں، کچھ لوگ تیار بھی ہوئے، لیکن عملدرآمد نہ ہوسکا،اگر وہاں تعمیرات شروع ہوجائیں تو علاقہ ڈیولپ ہوسکتا ہے، اس کی مارکیٹ ویلیو بھی بڑھ سکتی ہے، میں ذاتی طور پر ممبران کو پیشکش کرتا ہوں کہ ایک ہزار مربع فٹ پر تعمیراتی لاگت 22سے24لاکھ روپے تک اائے گی، اس میں دو بیڈروم معہ اٹیچڈ باتھ روم،اور ایک ڈرائنگ روم، اور لاؤنج شامل ہوگا، جس پر بلنک کی سرمایہ کاری کی ماہانہ قسط 16سے17لاکھ روپے ہوگی، اگر آپ وہاں رہنا نہ چاہیں تو اسے کرائہ پر دے سکتے ہیں، جس سے آپ کو 30سے35ہزار روپے ماہا نہ کی آمدنی ہوسکتی ہے۔