مقبول خان

تحریر… مقبول خان


ٹریفک قوانین کی پامالی نے کراچی کی سڑکوں کو شہریوں کا مقتل بنا دیا ہے۔ ٹریفک کے جان لیوا حادثات میں تشویشناک اضافہ نہ صر ف ٹریفک قوانین کی پامالی کا شاخسانہ ہے، بلکہ اسے کراچی کے اس غیر منظم ٹرانسپورٹ سسٹم کا نتیجہ بھی کہا جا سکتا ہے، جسے عالمی سطح پر دنیا کا بد ترین ٹرانسپورٹ سسٹم قرار دیا گیا ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں اور بد ترین ٹرانسپورٹ سسٹم کوجان لیوا حادثات سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ہے، یہاں یہ امر قابل زکر ہوگا کہ تین عشرے قبل کراچی میںتسلسل کے ساتھ ٹریفک کے جان لیوا حادثات میں اضافے کے نتیجے میں کراچی میں نسلی اور لسانی بنیادوں پر سیاست کا آغاز ہواتھا،

کراچی اب تک نسلی اور لسانی سیاست کے شکنجہ سے آزاد نہیں ہوسکا ہے۔ کراچی کی اہم شاہراہیں اور سڑکیں 10ہزار کلو میٹر پر مشتمل ہیں،جن پر یومیہ 36لاکھ چھوٹی بڑی گاڑیاں رواں دواں رہتی ہیں، جنہیں کنٹرول کر نے کیلئے ٹریفک اہلکاروں اور افسران کی تعدادمحض 32ہزار ہے، اس طرح تین کلومیٹر سڑک پر ٹریفک کنٹرول کر نے کیلئے صرف ایک اہلکار مقرر ہے، جس کی وجہ سے کراچی میں ٹریفک قوانین کی پامالی روز مرہ کا معمول اور سڑک حادثات میں تشویشناک اضافہ ہورہاہے۔ شہرقائد میں ٹریفک حادثات اور ان میں ہلاکتوں کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ تین سال میں ایک ہزار سے زائد اموات اور 10 ہزار کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے تھے۔دنیا بھر میں نومبر کا تیسرا ہفتہ گزشتہ 25 برس سے روڈ ٹریفک حادثات کا شکار ہونے والوں کی یاد میں منایا گیا۔’سندھ پولیس ایکسیڈنٹس انالیسز اینڈ ریسرچ سینٹر’ کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں 2018 میں 400 سے زائد اموات ہوئیں۔ جب کہ 2019 میں 350 سے زائد جب کہ رواں برس اب تک 300سے زائد افراد حادثات میں جاںبحق ہو چکے ہیں۔

تاہم ان اعداد و شمار میں ان حادثات میں زخمیوں کی تعداد سے متعلق کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ان حادثات میں زخمی ہونے والوں کی اصل تعداد اور مکمل صحت یاب ہونے والوں کی تعداد کتنی ہے۔اس کے علاوہ ان حادثات میں کتنے افراد دوران علاج چل بسے۔ یا پھر لمبے عرصے کے لیے کومے میں چلے گئے یا پھر عمر بھر کے لیے معذور ہوگئے۔ اس سے متعلق بھی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔حکام کے مطابق ایسے واقعات میں گزشتہ چند برس میں زخمی ہونے والے افراد کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 8 سے 10 ہزار کے قریب ہے۔انچارج سندھ پولیس انالیسز سینٹر علی محمد سہاگ کا کہنا ہے کہ اس بارے میں جو اعداد و شمار موجود بھی ہیں وہ بھی انتہائی پریشان کن ہیں۔ ادارے نے محکمہ صحت سندھ کو ایسے افراد کا ڈیٹا فراہم کرنے کی درخواست کی تاکہ اصل صورتِ

حال کا اندازہ لگایا جا سکے۔
مندرجہ بالا اجمال کی روشنی میں کراچی میں ٹریفک حادثات اور اس کے نتیجے میں ہلاکتوں اورمعذور ہونے والوں زخمیوں کی تعداد میں اضافہ کے اسباب کا تعین کیا جاسکتا ہے، اس مختصر تمہید میں جو اسباب ہمارے سامنے آتے ہیں ان میں کراچی کی سڑکوں پر گاڑیوں کی بھر مار، غیر منظم ٹرانسپورٹ سسٹم ، ٹریفک اہلکاروں کی کمی،ٹریفک قوانین سے عدم آگاہی اور ان کی پامالی شامل ہے۔ یہاں ہم ان عناصر کے حوالے سے پیدا ہونے والے اسباب کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
ٹریفک کی بھر مار
کراچی کی دس ہزار کلو میٹر طویل سڑکوں پر مجموعی طور پر یومیہ36لاکھ چھوٹی بڑی گاڑیاںرواں دواں رہتی ہیں، ان میں سب سے زیادہ موٹر سائکلیں ہیں، جن کی تعداد27لاکھ ہے، اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس سے ٹریفک حادثات میں بھی اضافہ ہورہا ہے ، سڑکوں پرگاڑیوں کی تعداد اور حادثات کی شرح میں بھی مسل اضافہ ہورہا ہے ، جو ٹریفک مینجمنٹ کے فقدان کا شاخسانہ ہے ۔محکمہ ایکسائز کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں یومیہ 700سے زائد رجسٹرڈ کی جاتی ہیں، یہاں یہ امر قابل زکر ہوگا کہ دس سال قبل محکمہ ایکسائز میں یومیہ رجسٹر ہونے والی موٹر سائیکلوں کی تعداد340تھی،کراچی کی سڑکوں پر چلنے والے آٹو رکشاؤں کی تعداد 50ہزار ہے، آن لائن ٹیکسیوں اوردوسری ٹیکسیوں کی تعداد بھی تین ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے،جبکہ نجی کاروں کی تعداد بھی دو لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے، بڑی بسیں کم و بیش دو ہزار اور منی بسوں اور کوچز کی تعداد 5ہزار سے زیادہ ہے،جبکہ چنگچی رکشاؤں کی تعداد بھی ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی ہیوی ٹریفک کی تعداد ایک لاکھ دس ہزار ہے، جن میں سب زیادہ آئل اور واٹر ٹینکرز ہیں،ان کی تعداد سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 73ہزار ہے،13ہزار دس وھیلر ٹرک، 22وہیلر ٹرالرز کی تعداد10ہزار ہیں، ڈمپرز کی تعداد 7ہزارہے، جبکہ6وھیلرز ٹرکوں کی تعدادچار ہزار ہے، اس کے علاوہ لوڈنگ سوزوکی اور اسکول وینز سمیت دیگر گاڑیوں کی تعداد بھی لاکھوں میںہے۔ ڈی آئی جی ٹریفک کے مطابق کراچی میں پانی کی قلت کے باعث شہر کی سڑکوں پر واٹر ٹینکرز کی آمد و روانگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، واٹر ٹینکرز کی تعداد 8ہزار سے زائد ہے ، اور ہر ٹینکر24گھنٹوں میں کم سے کم چار مرتبہ ہائڈرنٹس آتا اورجاتا ہے، اس طرح 32ہزار مرتبہ تو واٹر ٹینکرز کراچی کی سڑکوں پر یومیہ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ٹریفک حادثات
کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، غیر سرکاری اعداوو شمار کے مطابق کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں رواں سال کے دوران 200سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ درجنوں افراد معذور بھی ہوئے ہیں، ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد میں ٹریفک حادثات میں وہ زخمی شامل نہیں ہیں، جو دوران علاج جاں بحق ہوئے ہیں، سرکاری اعداو شمار کے مطابق یکم جنوری سے 31اکتوبر 2020کے دوران 147جان لیوا حادثات ہوئے جس میں 154افراد ہلاک ہوئے ہیں،جبکہ زخمیوں کی تعداد 135تعداد بتائی جاتی ہے۔ بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے، ٹریفک حادثات میںہلاک ہونے والوں کی زیادہ تعدادنوجوان موٹر سائکل سواروں اور پیدل چلنے والے راہگیروں کی ہے۔ جو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں، جلدبازی، تیز رفتاری اور غیر معیاری ڈرائیونگ کا شاخسانہ ہے، سڑک پر حادثات میں راہگیروں کی ٹریفک قوانین سے عدم آگہی اور جلد بازی کا عنصر بھی شامل ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ کراچی میں 50فیصد سے زائد موٹر سائکل سواروں اور آٹو رکشہ ڈرائیورز کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے، واٹر ٹینکرز سے ہونے والے حادثات اور ان کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی بھی تعداد زیادہ ہوتی ہے، ڈی آئی جی ٹریفک کے مطابق کراچی میں دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک کی آمد ورفت پر پابندی ہے، لیکن کراچی میں پانی کی شدید قلت کے باعث واٹر ٹینکرز کی آمد ورفت پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی ہے۔ کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں میں زیادہ تر موٹر سائکل سوار اور رکشہ ڈرائیورز ہیں، دوسرے نمبر پر منی بسز اور کوچز کے ڈرائیور ہیں۔
22 خطر ناک مقامات
رواں سال کے ابتدائی 6ماہ میں 250 افراد مختلف ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوگئے۔ ٹریفک پولیس نے ٹریفک حادثات کے حوالے سے 22 بلیک اسپاٹ کی نشاندہی کی ہے۔ جنہیں شہر میں 22 مقامات کو حادثات کے حوالے سے انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔سندھ پولیس ایکسیڈینٹ انالائز اینڈ ریسرچ سینٹر کے ا ترجمان نے بتایا کہ شہر کی سب سے زیادہ خطرناک سڑک حب ریور روڈ ہے۔مائی کولاچی بائی پاس این ایل سی کٹ پر بھی حادثات بڑھ گئے ہیں۔ قیوم آباد کے پی ٹی انٹرچینج پل بھی بلیک اسپاٹ میں شامل ہے۔بلیک اسپاٹ صرف گاڑیوں کے لئے نہیں بلکہ پیدل چلنے والوں کے لئے بھی ہے۔ شہرمیں حادثات کی وجہ انجینئرنگ فالٹ اورکہیں قانون پر عمل درا?مد نہ ہونا بھی ہوتا ہے۔رواں سال پیدل چلنے والے 50 افراد بھی حادثات میں جاں بحق ہوئے۔ان حادثات کی بڑی وجہ غلط جگہ سے سڑک کو عبور کرنا ہے۔نرسری برج کے نیچے بھی حادثات اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔بلیک اسپاٹ میں لانڈھی منزل پمپ،اسٹیل ٹاؤن روڈ،کورنگی چمڑا چورنگی اختر کالونی سگنل،جناح برج بھی شامل ہیں۔شہرمیں رواں سال ٹرک کی ٹکر سے36 افراد اور تیز رفتارٹرالرز نے 54 افراد کی جان لی۔ ڈمپر کے باعث 23 اور واٹر ٹینکرز نے 28 افراد کی جان لی۔سال 2019 میں 375 جبکہ سال 2018 میں 390 افراد حادثات میں جاں بحق ہو ئی لیکن رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں ہی اب تک 250 افراد جان سے جاچکے ہیں۔پولیس افسران کے مطابق ہیوی گاڑیوں کے حادثات کو روکنے کے لئے ہیوی وہیکل میں اسپیڈ گورنسس لگانے کی ضرورت ہے تاکہ
شہر میں ہیوی گاڑیاں مخصوص رفتار سے ذیادہ تیز نہ چل سکیں۔کراچی میں گاڑیوں کی حالت بھی تشویش ناک ہوگئی ہے۔صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے زیرِانتظام فٹنس ڈپارٹمنٹ غیر فعال ہوگیا۔ پورے سندھ میں صرف چار انسپکشن انسپکٹرز موجود ہیں اور20اسامیاں خالی ہیں ۔ شہر میں ایجنٹس گاڑی کی انسپکشن کروائے بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ بنوانے میں مصروف ہیں۔کراچی میں ہیوی ٹریفک کی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
ٹریفک اہلکاروں اور انفرا اسٹرکچر کی کمی
کراچی کا مجموعی رقبہ600کلومیٹر بتایاجاتا ہے، جبکہ اس شہر کی شاہراہوں اور سڑکوں کی طوالت دس ہزار کلو میٹر بتائی جاتی ہے، کراچی کی سڑکوں پر یومیہ 36لاکھ چھوٹی بڑی گاڑیاں رواں دواں رہتی ہیں، جنہیں کنٹرول کرنے کیلئے صرف 32ہزار ٹریفک پولیس اہلکار اور افسران ریکارڈ پر ہیں، جن میں سڑکوں پر ڈیوٹی دینے والے اہلکار وں کی تعداد 25ہزار کے لگ بھگ ہے، جبکہ شہر میں ٹریفک پولیس چوکیوں کی تعداد 200بتائی جاتی ہے،جو اس شہر کی سڑکوں کی طوالت اور گاڑیوں کی تعداد کے مطابق انتہائی کم ہے، کراچی کی بیشتر سڑکوں اور زیلی راستوں میں ٹریفک پولیس اہلکار دور دور تک نظر بھی نہیں آتے ہیں۔ اس کے ساتھ کراچی کی سڑکوں اور شاہراہوں پر جو انڈر بائی پاسز اور برج بنائے گئے ہیں،وہ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں بنائے گئے تھے۔شہر میں چھوٹی بڑی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کی وجہ سے ناکا فی ہوچکے ہیں، کراچی میں ٹریفک جام جو روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔اس کے وجہ چھوٹی بڑی گاڑیوں میں اضافے کے ساتھ انفرااسٹرکچر کی کمی بھی ہے۔

Leave a Reply