چینی صدر کے سامنے اور ملکہ ایلزبتھ کے محل میں فن کا مظاہرہ کیا ،سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ایران ،سابق صدر ضیاء الحق کے ساتھ جنوبی کوریااور بے نظیربھٹو کے ساتھ ترکمانستان کے سفر کئے ،عالمی ایوارڈ یافتہ اور سنتور بجانے کے ماہر فنکار غیاث الدین افسر سے خصوصی انٹرویو

انٹرویو:محمد سلمان سلطان

عالمی ایوارڈ یافتہ ناموں میں ایک نام غیاث الدین افسر کا بھی آتا ہے جن کا تعلق الہ آبا د کے علمی وادبی گھرانے سے ہے ،اسکول کے زمانے سے پہلے نعت پڑھنے سے ابتداء کی اور نعت کی جگہ موسیقی نے لے لی ،اسکول کے اساتذہ نے حوصلہ افزائی کی جو آج تک جاری ہے ،اسکول کے بعد کالج میں آئے ،گورنمنٹ اردو کالج سے ایم اے کیا ،نجی محفلوں سے فن کا مظاہر ہ شروع کیا ،اس کے بعد فن کی تکمیل کے لئے کئی نامور اساتذہ سے تربیت حاصل کی ،کلاسیکل ،نیم کلاسیکل ،گیت غزلیں اور علاقائی موسیقی کی تربیت باقاعدگی سے حاصل کی ،ابتدائی اساتذہ میں آفتاب موسیقی،استاد علی خان صاحب اور ذاکر حسین فہیم کے نام قابل ذکر ہیں۔

سوال:شوبز کی زندگی میں پہلاقدم کب اورکیا سوچ کے رکھا ؟
جواب:ریڈیوپاکستان کراچی میںآٹھ سال کی عمر میں شرکت سے ابتداء کی ،کالج اور یونیورسٹی کے پروگرام ’’بزم طلبا ریڈیو پاکستان ‘‘میں شرکت کرتے رہے ،بزم طلبا سے ایک سلسلہ وار پروگرام ’’شہر کراچی گھوم کے دیکھ‘‘ ڈیڑھ سال تک مزاحیہ نغمہ ،طریبہ گیت ،ہر پیر کو جاتے تھے جس کے بول تھے ’’چل چل میری گھوڑا گاڑی لے کر عالیشان سواری ‘‘ اس میں یہ ہو تا تھا کہ ہر کالج میں جاتے تھے اور فن کا مظاہرہ کرتے تھے ،گھوڑا گاری پر بیٹھے ہوئے ہیں لڑکا اورلڑکی گانا گاتے ہوئے آتے تھے،وہ شہر کراچی میں گھومتے ہوئے جہاں جہاں جارہے ہوتے تھے اس کی منظرکشی کررہے ہوتے تھے ،اس کا اصل نام ’’منظوم خاکہ‘‘تھا۔اسی طرح ایک سلسلے وار نغمہ پروین شاکر کا لکھا ہوا ،اس زمانے میں پروین شاکر بھی میرے ساتھ کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں ان ہی کا لکھا ہوا نغمہ ہرہفتے گاتے تھے ،
دیکھومجھے جو دید ہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو کہ جو گوش نصیحت نیو ش ہو
میرا اپنا کمپوز کیا ہوا ایک مشہو ر نغمہ ’’کاریں نگاہ پانی کے یا میرے مولا پانی دے ‘‘یہ نغمہ بے حد مشہور ہوا ،بے شمار ایوارڈ ملے اور اسی پر مجھے اعلیٰ پرفارمنس گلوکار ی کا ایوارڈ بھی ملا ،بعد ازاں موسیقی کے دیگر پروگراموں میں حصہ لیتا رہا،ترقی کرتے کرتے ریڈیو پاکستان میں اول درجہ کے فنکاروں میں شمار ہونے لگا۔
بچوں کے پروگراموں میں بھی کافی گیت مشہور ہوئے اس میں افشاں کا سب سے پہلا گیت جب بہت چھوٹی سی تھی کرسی پر کھڑے ہوکر میرے ساتھ گایا ریڈیو پاکستان سے جو میرے ساتھ ڈیوٹ تھا ۔خوش بخت شجاعت بھی یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ پڑھتی رہی ہیں۔نئی نسل کے باصلاحیت نوجوانوں کیلئے ٹیلی ویژن سے پروگراموں کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے ایک پروگرام ’’فروزا ‘‘ کیا،پہلی پہلی مرتبہ نوجوانوں کوانٹروڈیوس کیا گیا ،پہلی مرتبہ خوش بخت شجاعت نے اس پروگرام میں میزبانی کے فرائض انجام دیئے،اس میں پروین شاکرنے بھی پہلی مرتبہ شرکت کی ،اس میںبھی یہی گیت ’’کاریں نگاہ پانی کے یا میرے مولا پانی دے ‘‘گا کے ٹیلی ویژن سے پرفارمنس ابتداء کی ۔ بعدازاںٹیلی ویژن پر موسیقی کے دیگر پروگراموں میںشرکت ہونے لگی ،اسی طرح بے شمار نغمے ٹیلی ویژن پر گاتا رہا ، ایک پروگرام ’’سچ جمع جھوٹ بٹہ دو ‘‘جسے معر وف ہدایت کار عاصم جلالی نے ڈائریکٹ کیا تھا ،یہ بھی ایک منظو م خاکہ تھا ،یہ اسٹو ری کچھ یوں ہے کہ میاں بیو ی سفر میں کھڑتے ہوتے ہیں اور وہ گانا گاہ کر ٹیکسی والے کو بلاتے تھے۔
’’او ووووٹیکسی والوںکورنگی چھوڑ دو‘‘
ہم میاں بیوی کو جانا ہے کورنگی ،کورنگی چھوڑ دو ‘‘
بیوی منی بیگم تھیں ، بیوی بھی ٹیکسی والوں کو بلاتی اور پھر شوہر ’’اوو ٹیکسی والو کورونگی چھوڑدو‘‘اس میں پاکستانی گلوکار حفیظ کا کردار ٹیکسی ڈرائیور کاتھا ،اس پروگرام میں قابل ذکر بات یہ تھی کہ منی بیگم کا پہلا ڈیوٹ تھا جو میرے ساتھ ٹیلی ویژن پر اس نے گایاتھا۔


نجی محفلوں سے اسٹیج پرفارمنس ابتدا ء ہوئی، کراچی اسٹیج اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں اور اسی طرح دنیا کے تقریباََ35 ممالک میں پرفارم کرتے ہوئے فن کی تکمیل کی جس میں سرکاری سطح کے پروگرام ،وزیراعظم ہائوس ،پریذیڈنٹ ہائوس،گورنر ہائوس ،وزیراعلیٰ ہائوس ،کمشنر ہائوس میں بھی فن کا مظاہرہ کیا۔اسلام آباد میںسعودی عرب کے شاہ خالد کی آمد پر ترتیب دیئے ہوئے پروگرام میں شرکت کی اور اسے آرگنائز بھی کیا۔بے شمار اسناد اور ایوارڈ حاسل کیے ،حضرت امیر خسرو کی 100سالہ برسی کے موقع پر سرکاری سطح پر پروگرام بھی آرگنائز کیا۔فنکارہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے وزارت ثقافت اسلام آباد میں نوکری کی آفر ہوئی ،پروگرام آرگنائزر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے پروگرام ایگزیکٹیو ،ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر تک ترقی کی ۔16گریڈ کے افسر پر تعینات ہوئے اور 2001ء میں ریٹائرمنٹ ہوگئی ۔
پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں رہتے ہوئے فن کی بے پناہ خدمت کی،بچوں کیلئے ایک کیسٹ ’’بچوں کا اقبال ‘‘کمپوز کی اور ترتیب دی ،کیسٹ میں علامہ اقبال کے مشہور نغمے پروڈیوس کیے۔اسلام آباد کے تقریباََ 350بچوں نے اس میں پرفارم کیا ،کیسٹ کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی اوریونیسکو کی طرف سے سراہا گیا،دنیا میں ثقافتی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کی ،جس میں امریکہ،کینیڈا،برطانیہ ،تھای لینڈ ،ہانگ کانگ، چین ،مڈل ایسٹ سمیت 35ممالک شامل ہیں۔ان ممالک میں بے شمار ایوارڈ زحاصل کیے ۔آرٹ ایشین فیسٹیول ہانگ کانگ میں بحیثیت پاکستانی موسیقار ایوارڈ حاصل کیا ،قابل ذکر مقام یہ تھا کہ چین کے صدر کے سامنے پرفارم کیا ،مانچسٹر میں ملکہ الزبتھ کے محل میں بھی پرفارم کیا،اسی طرح سرکاری سطح پر بڑے بڑے اداروں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ایران گئے ،بے نظیر بھٹوکے ساتھ ترکمانستان بھی گئے ،صدر ضیاء الحق (مرحوم )کے ساتھ جنوبی کوریا کا سفر کیا ،خصوصی طیارے میں سفر کرتے تھے ۔
سوال:آپ نے شروعات تو نعت سے کی اس کے بعد گلوکاری پھرگلوکاری کیوں چھوڑدی ؟اس کی بنیادی وجہ کیا تھی ؟
جواب :بے شمار آڈیو ویڈیو کیسٹ کیں آخر میں ایک کیسٹ راجہ چینگز سلطان جو انگریزی کے بڑے شاعر ہیں ، امریکہ سے ایوارڈیافتہ اور بہت بڑے پینٹر آرٹسٹ ہیں ،ان کی لکھی ہوئی کیسٹ کررہا تھا کہ اس دوران میرا گلا خراب ہوا آواز بیٹھنا شروع ہوئی تو میں نے کینسل کردی اور جب آواز ٹھیک ہوئی تو میں پھر گیا ایک گانا کیا پھر آواز بیٹھنے لگی تو پھر میں نے ڈاکٹر کو دکھایا تو ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کے گلے میں انفیکشن ہوگیا ،ٹیسٹ اور ایکسرے کرائے تو پتہ چلا کے گلے میں دو ڈاٹ ہیں جو کہ اکثر گلوکاروں کے ہوجاتے ہیں اور زیادہ گلوکاری کرنے سے دو ڈاٹ آپس میں ٹکرانے کے بعد سوجن ہوجاتی ہے ،ڈاکٹر نے کہااس کی سرجری ہوتی ہے اور جب میں نے سرجری کیلئے بات کی تو کسی نے بتایا کہ اس کی پہلے BIOPHSYہوگی ،ایک عزیز ڈاکٹر ہیں انہوں نے کہا کہ جب آپ کو تکلیف نہیں ہے تو آپریشن نہ کرائیں آپ نے اپنی زندگی میں سب کچھ تو کرلیا ہے بس احتیاط کرلو گلوکاری چھوڑ دو ۔

سوال:سنتوربجانے کا شوق کب اور کیسے پیدا ہوا؟
جواب :شوق کی تسکین کیلئے کچھ تو چاہیے تھا تو میں نے موسیقی شروع کردی اور سنتو ر مجھے بچپن سے پسند تھا اور سنتو ر کا کوئی استاد نہیں تھا پاکستان میں ایک دو تھے جو میری دسترس سے باہر تھے تو میں نے خود ہی ریاض کرنا شروع کردیا اور اتفاق سے صدر ضیاء الحق (مرحوم)جنوبی کوریا جارہے تھے تو اس گروپ کے اند ر ایک ستاربجانے والوں نے بھی جانے تھا وہ اور شوکت علی ڈیلی گیشن سے آرہے تھے رکنے کے بعد ان کو واپسی جنوبی کوریا جاناتھا اب ان کا آخری وقت تک انتظارکرتے رہے پھر پتہ لگا کے کچھ لوگ سعودی عرب چلے گئے عمرے کیلئے اور کچھ لوگ آگئے اور میں ریاض تو کرتا رہتا تھا اسی دوران خالد سعید بٹ کی نظر مجھ پر پڑگئی انہیں نے مجھے بہت سراہا اور مجھے کہا آپ جنوبی کوریا جاکر پرفارم کریں اور میری غیر ملکی پہلی پرفارمنس جنوبی کوریا کی تھی ،جب ہم سفر کر کے وہاںپہنچے تو پروڈیوسر نے دس منٹ کا وقت دیا کہ آپ تیار ہوجائیں جو کہ مشکل ترین کام تھا اور سنتور کے تار ملانے میں کم سے کم بیس منٹ تو لگتے ہیں تو ایک فنکارعبدالغفور ہمارے ساتھ تھے انہوں نے میری پریشانی دیکھ کر مجھے کہا آپ خود تیار ہوجائیں اور یہ بتا دیں کہ کس راگ میںملانا ہے ،میں نے کہا ایمن کے اندرٹیون کردیں تو جیسے ہی میں تیار ہوکر آیا تو میر ا نام اسٹیج پر پکاراگیا ،تو جو ساتھ فنکار تھے انہوں نے سنتو ر کی ٹیون سیٹ کردی تھی ،مجھے دس منٹ کا آئٹم بجانا تھا اور سامنے صدر ضیاء الحق (مرحوم )اورکوریا کے وزیراعظم بھی موجو د تھے اور پاکستانی ثقافتی گروپ کی پرفارمنس پورے کوریا میں آن ائیر جارہی تھی ،میں نے ایک منٹ میں سنتو ربالکل چیک کرلیا اور میں نے ایک آئٹم بجایا ہی تھا کہ وہاں موجود کرائوڈ نے تالیاں بجادیں تو میری جان میں جان آگئی ،اور پھر ایک آئٹم ختم ہوا تو دوسرا شروع کیا اور جب ختم ہوا تو لوگوں نے کھڑے ہو کے سراہا ، مجھے اسٹیج پر گانے کا تجربہ تو تھا بس مجھے اپنے فن کا ڈر تھا کہ سنتو رکہیں خراب نہ بج جائے بس یوں ہی پھر میری حوصلہ افزائی ہوتی رہی ۔
سوال :پاکستان میں سنتور سازوں کا مستقبل کیا ہے؟
جواب :سنتور تاروں کا اورانتہائی مشکل ساز ہے ،کشمیر کا ایک مخصوص ساز کہلا تا ہے ،کشمیر کے اندر100سال سے سنتو ر بجایا جارہا ہے ، اس تاروں کے ساز سے ملتے جلتے بے شمار دنیا میں ساز ہیں لیکن وہ اپنی اپنی شکل کے ساز ہیں اور بجانے کا طریقہ بھی الگ ہے ۔پاکستان میں اس کی مشکلات کی وجہ سے کوئی سیکھتا نہیں ہے ،اس کو استعمال کرنا بھی موسیقاروں کے بس کا کام نہیں ہے ،سنتور کی کمرشل ویلیو نہیں ہے ،سنتور بجانے والے جو لوگ تھے آہستہ آہستہ وفات پا گئے ،پورے کراچی میں سنتوربجانے والا ایک کامل تھا ،جو ریڈیو پاکستان سے بھی بجا یا کرتا تھا ،اسی طرح لاہور میں بھی ایک تھا ،ہر شہر میں مخصوص سنتو ر بجانے والے افراد تھے ۔سنتور کے دو اقسام ہیں ،ایک ہوتا ہے ریزویشن جو گلوکار کے ساتھ بجا یا جاتا ہے اور دوسراسو لوسٹ، سولوسٹ جو ہے وہ انفرادی طور پر بجایا جاتا ہے ۔میں نے سولوسٹ سے ہی شروعات کی ۔سنتور آج تک میں نے کسی استاد سے نہیں سیکھا،صرف اور صرف گوگل پر سرچنگ کر تا ہوں۔میں نے سنتور دنیا کے بیشتر ممالک میں بجایا ،عراق میں جب بجا یا جیسے امریکہ کل حملہ کرنے والا ہے عراق میں او ر رات کو میں بغداد کے اندرپرفارم کررہا تھا اورصبح ہمارے روانہ ہوتے ہی فائرنگ شروع ہوئی ۔اس طرح کرتے کرتے مجھے میرٹ ہوٹل والوں نے آفر دی ،آپ ہمارے ادارے میں پرفارم کیا کریں ۔میرٹ ہوٹل کا انٹرنیشنل قومی ترانہ ہوتا ہے اس میں پاکستان سے جانا تھا ،نغمہ پاک سرزمین شاد باد میں نے سنتو ر سے بجایا ۔سنتور میںدوسائڈ تار ہوتے ہیں تو میں نے ایک سائڈ کے تار سب کاٹ دیئے ،سنتور میں نے خود اپنے حساب سے بنایا ،سنتور کی ٹیونگ کا طریقہ میں نے اپنا ایجاد کیا ،یہ کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ سنتوربجانے میںآسانی ہوگئی تھی ۔
سوال :کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ ایران مرحوم نے پاکستان کو سنتور کا تحفہ دیا تھا اس کی کیا تفصیلات ہیں ؟
جواب :حقیقت تو یہی ہے کہ جب ذوالفقار بھٹو ایران گئے تھے تو شہنشاہ ایرا ن نے سنتور تحفے میں دیا تھا ،اور پھر ذوالفقار بھٹو نے ضیا محی الدین کو دے دیا تھاضیا ء محی الدین اس زمانے میںادارے کے سربراہ تھے ،ضیاء محی الدین نے پی آئی اے آرٹ اکیڈمی کے دفتر میں دے دیا جو بنجمن سسٹر کے باپ وکٹر بنجمن بجایا کرتے تھے پھر اُن کا انتقال ہوگیاجب میں اسلام آباد گیا تو وہاں دیکھے بہت سارے مختلف سازکچرے میں پڑے تھے تو میں نے سنتور اٹھا کر بجانے شروع کردیااور پھر میں نے وہاں کے پرسنل آدمی سے کہا کہ یہ سنتور میں لے لو تو انہیں نے کہا لے لیں بس وہ آج تک سنتور میں نے سنبھال کر رکھا ہے ۔
سوال:کرونا کی وبا سے فنکار کس حد تک متاثر ہوئے ہیں ؟
جواب :جس طرح دنیا میں ہر شعبے میں کرونا سے دبائو پڑھا ہے اسی طرح فنکار بھی متاثر ہوئے جبکہ فنکار تو ڈیلی ویجز والے لوگ ہیں وہ تو پہلے متاثر ہوئے ہیں ،یہ سب خوشیوں کے کام ہیں ،غم میں تو فنکار کا کام نہیں ہے ۔ فنکار میں بھی دودرجے ہیں ،ایک تو وہ جو کسی کو ٹیلی ویژن پر دیکھ کر بولتا ہے میں بھی گلوکاری شروع کردوں ، گلوکاری کی تو آس پاس بیٹھے لوگوں نے تعریف کردی بس ایسے وہ گلوکار بن جاتے ہیں ،خاص طور پر فی میل جو ہیں ان میں یہ رحجان زیا دہ پایا جاتا ہے ۔
سوال:کیا نئے پاکستان میںشوبز سے تعلق رکھنے والے افراد متاثر ہوئے ؟
جواب :سب سے اچھا دور فنکار وں کیلئے ذوالفقار علی بھٹو کا تھا ،اس لئے کہ بے شمار سرگرمیاں اور بے شمار ذرائع تھے ،بھٹودور میں پیسوں کا مسئلہ نہیں فن کامقابلہ ہوتا تھا،اب پیسے والوں کے ہاتھ میں آگیا ہے ۔آج کل کے دور میں ثقافت میں کوئی نئی بات نظر نہیں آئی بلکہ اور پیچھے جارہے ہیں ،جس طرح ہر جگہ کرپشن ہے اسی طرح کلچرل اور ثقافت کے فروغ کیلئے جو ادارے بنے ہیں وہ سب کرپٹ ہیں ۔اصلی فنکار جو ہیں 80گز کے مکان میں ٹین کی چھت میں رہائش پذیر ہیں۔جو دو نمبر فنکار ہیں و ہ لاکھوں روپے لے کر پرفارمنس کررہے ہیں۔یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کراچی کی سڑکوں پر گھوڑا جو ہے اصطبل میں بندھا ہوا ہے اور گدھا جو ہے وہ سڑکوں پر دوڑ رہا ہے ۔


پہلے زمانے میںہوتا تھا کہ کتنا ریاض ،کتنی اسٹرگل کر رہے ہیں اور آج کل کے دور میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنا پیسہ ہے اور کتنے بڑے باپ کے بیٹے ہو ۔غریب کا کام نہیں ہے گلوکاراور فنکاربننا ۔آج کے دور میں دیکھ لیں جتنے بھی گلوکار ہیں جتنا مہنگا ساز خریدتے ہیں اور اتنا ہی مہنگا گانا گارہے ہوتے ہیں ۔
سوالـ:آج جس مقا م پر ہیں جن لوگوں کی بدولت آپ پہنچیں کیا کہیں گے ان کے بارے میں ؟
جواب:ریڈیوپاکستان کے معروف پروڈیوسر محترم یاور مہدی ،پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے ڈائریکٹر جنرل خالد سعید بٹ اور نیشنل پرفارم آرٹ یوتھ کراچی کے ڈائریکٹر غلام حیدر صدیقی نے میری فنکارہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے حوصلہ افزائی کی اور تربیت میں بہت زیادہ رہنمائی فرمائی ۔این ایس ایف کے اسٹوڈنٹ لیڈ راورریٹائرڈ پروڈیوسر اقبال لطیف کو یاور مہدی نے کہا کہ غیاث الدین افسر بلاصلاحیت فنکارہیںکالج میں ا ن کا داخلہ کرادواوریاورمہدی نے داخلے کیلئے 10روپے بھی دیئے اورپھریوں ہواکہ کالج میں داخلہ ہوگیا،کالج کے پرنسپل نے مجھے بلایا اور کہا مقابلے میںپہلے انعام کے سوروپے ہیں اور دوسرے انعام کے پچاس روپے ہیں تو میں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہر ہ کرتے ہوئے بہت انعام وصول کئے اور ساتھ ہی اردوکالج سے بنائی گئی سلور جوبلی میں سب سے زیادہ ایوارڈ زلینے والوں طلباء میں میرا نام تھا ،سو سے زیادہ ایوارڈ لیے اور اپنے قد سے زیادہ بڑی ٹرافی حاصل کیں۔
1975ء میں میرے دوست غلام محی الدین ،اخلاق فلم انڈسٹری لاہور چلے گئے تھے تو مجھے بھی فلموں میں گلوکاری کی آفر ہوئی ایک میرے قریبی عزیز احمد رشدی ہیں انہوں نے مجھے کہا کہ ہر گلوکار کوئی محمد رفیع نہیں بنتا ،ہر اداکار کوئی دلیپ کمار نہیں بنتا ،کرو وہ جو سمجھ میں آئے لیکن اس ملک میں فنکار کی عزت نہیں ہے ،جب تک تمہاری کوئی آمدانی ہو تو تم فن کی بھی خدمت کرسکتے ہو ،فن سیکھ بھی سکتے ہو سب کچھ کرسکتے ہو پیسہ ہونا چاہیے، انہوں نے مجھے سمجھا یا تو میں نے لاہور جانا چھوڑ دیا اور پھر میں نے ملازمت شروع کردی تھی۔
سوال:آخر میں قارئین کو کیاپیغام دینا چاہیں گے ؟
جواب :کسی بھی فیلڈ میں جو بھی کام کریں بغیر استاد کے نہ کریں، استاد سے رہنمائی اور علم ضرور حاصل کریں ۔سارے ساز ناپید اورہماری شناخت ختم ہوتی جارہی ہے ۔اسی طرح سنتور بھی ہے ،زندہ رکھنے کیلئے نوجوان نسل آگے آئیں۔

Leave a Reply