آڈیٹر جنرل کے مطابق2008سے2021تک 1400ارب کی کرپشن سندھ میں ہوئی


سندھ میںکسی اپوزیشن ممبرکو پے اے سی چیئرمین تو دور ممبرشپ نہیں دی گئی


کراچی؛قائد حزب اختلاف سندھ اسمبلی و پی ٹی آئی کے مرکزی نائب صدر حلیم عادل شیخ نے کہاہے کہ بلاول زرداری قومی اسمبلی میں پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں مگر سندھ میں ان روایات کو پیپلز پارٹی نے دفن کردیا ہے، 2018میں سندھ اسمبلی بننے کے بعد جسے ہی پبلک اکاؤنٹ کمیٹی بنی اس میں چیئرمین شپ اپوزیشن کو دینی چاہیے تھی مگر اپوزیشن کو اس میں ممبرشپ بھی نہیں دیگی۔

حلیم عادل شیخ نے کہاہے کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق سال2008سے2020اور21تک 1400ارب کی کرپشن سندھ میں ہوئی ہے۔ پی اے سی میں اپوزیشن کاکوئی ممبر تو نہیں مگر فریال تالپور اور شرجیل میمن جیسے ممبر ہیں جن پر اربوں روپے کرپشن کے کیسز چل رہے ہیں، کیا یہ 1400 ارب کرپشن کی تحقیقات کریںگے؟

حلیم عادل شیخ نے کہاہے کہ وفاق میں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں تمام قائمہ اور اسٹینڈنگ کمیٹیر کے ممبر بھی اپوزیشن پارٹیوں اور بلاول زرداری خود بھی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ سندھ میںکسی بھی اپوزیشن ممبرکو قائمہ، اسٹینڈنگ کمیٹی میں چیئرمین تو دور ممبرشپ بھی نہیں دی گئی۔ ہر سال حکومت پابند ہوتی ہے کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کو ہاؤس میں پیش کیا جائے۔

حلیم عادل شیخ نے کہاہے کہ2018 میں حکومت بننے کے بعد سندھ اسمبلی میں صرف 2017 اور 18 کی رپورٹ پیش کی گئی، دو سال گزر گئے دو مالی سال کی آڈٹ رپورٹ پیش نہیں کی گئی جس میں 2018 اور19میں 222ارب کی اور2020اور21میں282ارب کی کرپشن آڈیٹر جنرل رپورٹ میں آچکی ہے۔ یہ عمل بھی پارلیمانی روایت کی خلاف ورزی ہے۔

حلیم عادل شیخ نے کہاہے کہ2021میں ہر مالی سال کے اختتام سے پہلے جنوری اور مارچ کے درمیان پری بجٹ بحث ہوتی ہے، اس دفعہ پری بجٹ پرگفتگو نہیںکرائی گئی، اپوزیشن کے سخت موقف کے بعد مئی میں پری بجٹ بحث کرائی گئی اور تھرڈ کوارٹر کی ایگزیکیوشن رپورٹ بھی شامل نہیں کی گئی، یہ بھی رولز کی خلاف ورزی ہے۔

حلیم عادل شیخ نے کہاہے کہ بجٹ سیشن کے آخری حصے میں اپوزیشن لیڈر بمعہ اپنے پارلیمینٹری لیڈرز کے اسپیکر سے ملنے گئے، اسپیکر نے کہا کہ آپ جاکر پارلیمینٹری افیئر کے وزیر اور سینیئر وزیر سے بات کریں، اسکے بعد اپوزیشن لیڈر پارلیمینٹری لیڈرز کے ہمراہ وزرا سے کوریڈور میں بات کررہے تھے تو انہیں باتوں میں لگاکر پیچھے پانچ منٹ میں بجٹ پاس کرالیا گیا اور وزیراعلیٰ فوری اجلاس سے روانہ ہوگئے۔

حلیم عادل شیخ نے کہاہے کہ ہر جگہ پر باتیں اور مذاکرات ہوتے ہیں لیکن یہ روایت بھی پہلی دفعہ سامنے آئی۔ جب بجٹ سیشن شروع ہوا تو اس میں پیپلز پارٹی نے تمام پارلیمانی روایت کی تباہی کردی۔ قومی اسمبلی میں بجٹ بحث کی شروعات اپوزیشن لیڈرکرتے ہیں، سندھ اسمبلی میں آخری تقریر اپوزیشن لیڈرکی ہوتی ہے جس کے بعد وزیرخزانہ بحث کو سمیٹتے ہیں مگر اپوزیشن کی جانب سے جو تجاویز اور اعتراضات لگائے گئے اسکا نہ کسی وزیر نے جواب دیا اور نہ ہی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریرکو سمیٹا۔

حلیم عادل شیخ نے کہاہے کہ بجٹ سیشن میں اپوزیشن کے تین پارلیمانی لیڈرز جن میں جی ڈی اے کے حسنین مرزا، پی ٹی آئی کے بلال غفار، ایم ایم اے کے عبدالرشید کو تقریر کرنے سے روکا گیا اور اپوزیشن لیڈر کو بھی تقریر سے روکا گیا۔ سندھ حکومت کے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے اپوزیشن کو احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑا گو کہ احتجاج کا طریقہ کسی کو پسند ہوگا کسی کو نہیں ہوگا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب جمہوریت کو قتل کردیا گیا تو اسکا جنازہ نکلنا ہی تھا اس پر اسپیکر نے اپوزیشن کے8اراکین کو سیشن سے نکال دیا۔معطلی صرف اجلاس کے اندرکی ہوتی ہے اسمبلی بلڈنگ کی نہیں، جب ممبران اسمبلی کے مرکزی گیٹ پر پہنچے تو انہیں اندر جانے سے روک دیا گیا، مرکزی گیٹ پر پولیس کے ذریعے پہلے ان8ممبرز کو روکا گیا جب اپوزیشن لیڈراور دیگر ممبران انہیں بتانے کیلئے پہنچے کہ پابندی صرف اسمبلی ہال کیلئے ہے بلڈنگ کے لئے نہیں تو پولیس نے دروازے بند کرکے تالے لگادئے، یہ بھی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بلاول زرداری کی سندھ میں پارلیمانی روایات ہیں۔

Leave a Reply