تحریر : طاہر تنولی
پاکستان دنیا کے جس خطے میں موجود ہے اس میں اس وقت کئی واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں 20 سال کے طویل قیام کے بعد امریکہ اور نیٹو کی افواج کی واپسی کا عمل جاری ہے بلگرام ایئربیس خالی ہو چکا ہے اور 5 جولائی تک نیٹو اور امریکی فوجوں کی زیادہ تر نفری افغانستان سے جا چکی ہو گی۔
اس وقت افغان انتظامیہ اور امریکہ افغان مستقبل کے بارے میں کسی یقینی اور حتمی نتیجے یا فیصلے پر نہیں پہنچ پا رہے کہ غیرملکی فوج کی واپسی کے بعد وہاں کون سا نظام کام کر سکے گا۔ امریکہ نے مستقبل کا فیصلہ کابل انتظامیہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات پر چھوڑ دیا تھا مگر طالبان کابل انتظامیہ سے بات کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے جس کے بعد مختلف افغان عمائدین، علماء، سرداروں، سیاسی رہنمائوں پر مشتمل بین الافغان جرگہ تشکیل دیا گیا جس نے دوحہ جا کر طالبان نمائندوں سے مذاکرات کئے جس دوران کئی امور پر اتفاق ہوا مگر امریکہ فوجوں کی واپسی کے بعد کابل میں حکومت کس طرح بنے گی یا کابل میں اقتدار کون سنبھالے گا اس بارے میں کوئی فیصلہ نہ ہو سکا
جس کے بعد امریکی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ نے اس حوالے سے پاکستان سے رابطہ کیا کہ طالبان لیڈرشپ جس کے بارے میں امریکہ کا خیال ہے کہ اس پر پاکستان کا اثر موجود ہے یہ دبائو ڈالا جائے کہ وہ اس معاملے میں پیشرفت کریں تاہم پاکستان کا مؤقف ہے کہ ہمارے کہنے اور ہماری کوششوں سے طالبان قیادت نا صرف امریکہ سے مذاکرات پر تیار ہوئی بلکہ ان مذاکرات کے نتیجے میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا جس پر اب عملدرآمد ہو رہا ہے۔
پاکستان کا افغانستان کے بارے میں شروع سے مؤقف ہے کہ وہاں غیرملکی مداخلت بند ہونی چاہئے اور افغانوں کو اپنے حکمرانوں کے بارے میں خود فیصلہ کرنے دیا جائے۔ وہاں کی حکومت اور ادارے دہشت گردوں اور پاکستان سے بھاگ کر وہاں جانے والے کالعدم تحریک طالبان کی حمایت نہ کریں اور پاکستان میں دہشت گردی روکی جائے۔ پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ پاکستان میں امن افغانستان میں امن سے وابستہ ہے۔ پاکستان نے 2017 میں پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف حتمی کارروائی کر کے دہشت گردی کا خاتمہ کیا اس دوران پاکستان نے پاک افغان سرحد پر خاردار تار لگانے اور حفاظتی قلعے تعمیر کرنا شروع کئے اور اب تک 76 فیصد سرحد پر یہ کام مکمل ہو چکاہے۔ پاکستان نے افغانوں کے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر آمد پر پابندی لگا دی۔
جس کے بعد طورخم اور چمن کے راستے داخلے کے وقت کاغذات کی جانچ پڑتال کا کام شروع ہوا۔ نئے حالات میں پاکستان کی فوج اور وزارت خارجہ اس حوالے سے بہت سی ملاقاتوں اور رابطوں میں رہی۔ اس حوالے سے پاک فوج اور اس کے ادارے آئی ایس آئی نے تقریباً ایک ہفتہ قبل وزیراعظم وفاقی وزراء کو آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر میں اہم بریفنگ دی تھی جس میں اس حوالے سے پاکستان کو درپیش حالات، امریکہ کے مؤقف، افغانستان اور طالبان قیادت کے نکتہ نظر پر تفصیلاً بریفنگ دی گئی اور پاکستان کو ان حالات میں کیا کرنا چاہئے اس حوالے سے غوروفکر کیا گیا اور اہم فیصلے کئے گئے۔
افغان امور اور پاکستان کو درپیش دیگر معاملات پر منتخب سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے، حالات سے آگاہی دینے اور پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے ذہنوں میں موجود سوالات کا جواب دینے کے لئے قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی برائے دفاع کا بند کمرے کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہائوس میں طلب کیا گیا۔ اس اجلاس میں کمیٹی کے اراکین کے علاوہ، اپوزیشن لیڈر اور تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کمیٹی کے ارکان کو تفصیلی بریفنگ دی۔
انہوں نے ارکان کو داخلی و خارجی اور قومی سلامتی کے حوالے سے ابھرتے ہوئے جیوپولیٹیکل سٹرٹیجک ماحول سے آگاہ کیا اس اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک ہوئے۔ بریفنگ میں عالمی سطح پر سفارتی تعلقات کے علاوہ افغانستان اور کشمیر سمیت اہم مسائل پر قومی مفاد پر مبنی پالیسی بھی زیربحث آئی۔ شرکاء نے تفصیلی اور معلوماتی بریفنگ کے ذریعے مختلف چیلنجوں کی نشاندہی کرنے اور پاکستان کو درپیش امور پر وضاحت اور حقائق فراہم کرنے پر فوجی قیادت کے کردار کو سراہا۔ اس دوران کمیٹی کے ارکان نے اپنے سوالات بھی کئے جن کا جواب آئی ایس آئی کے سربراہ نے تفصیلاً اور وضاحت کے ساتھ دیا۔ بعض سوالات کا جواب آرمی چیف نے بھی دیا۔ اس طویل نشست جو آٹھ گھنٹے سے زائد جاری رہی سیاسی قیادت نے اپنی پوری رائے دینے کے بعد اٹھائے جانے والے اقدام کا مکمل ساتھ دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ قوم فوج، ملکی ادارے اپنے وطن کے مفاد میں اکٹھے ہیں اور اس حوالے سے پوری قوم کی ایک سوچ ہے
جس کا اظہار اس بریفنگ، سوالات، جوابات اور آخر میں اتفاق رائے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس اہم ترین اجلاس میں جس میں اعلیٰ فوجی قیادت موجود تھی۔ اپوزیشن اور پارلیمان کی تمام مدعو کردہ قیادت بھی موجود وزیراعظم عمران خان شامل نہیں ہوئے۔ وزیراعظم کی عدم موجودگی نے اس اجلاس کی اہمیت کو گہن لگا دیا ہے۔ سوال ہے کہ وہ کون سی اہم مصروفیات تھیں کہ وزیراعظم اس اہم ترین اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔ اس حوالے سے مبصرین اور عالمی ذرائع ابلاغ بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کا ماضی میں رویہ بھی مبصرین کے سامنے ہے جب بھارت پاکستان میں فوجی طیاروں کے ذریعے بالاکوٹ تک پہنچ گیا تھا۔ پاکستان جوابی کارروائی کر چکا تھا
اس وقت بھی ایک اہم اجلاس جس میں اپوزیشن اور پارلیمانی پارٹیاں شریک تھیں وزیراعظم تشریف نہیں لائے۔ وزیراعظم قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی بہت کم حاضر ہوتے ہیں وہ اس وقت آتے ہیں جب ان کا خطاب سننے کے لئے پورا ایوان کئی میٹنگوں کے بعد پُرامن بیٹھنے پر تیار ہوتا ہے۔ اس وقت قوم کو اہم معاملات پر آگے بڑھنے کیلئے وزیراعظم اپنے اس رویے میں تبدیلی لائیں تاکہ قومی اتفاق رائے حقیقی معنوں میں قومی اتفاق نظر آئے اور بن سکے۔
نوائے بروج میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔