اہم مہروں کو یقین ہو چلا ملک میں نئے انتخابات کی منزل اب زیادہ دور نہیں رہی

پیپلز پارٹی، تحریک انصاف نے غیر اعلانیہ طورپر سیاسی سرگرمیوں کو اچانک بڑھا دیا
کراچی(تجزیہ:طاہر تنولی) قومی سیاست میں اس وقت پس پردہ نہ جانے ایسی کون سی پیش رفت ہورہی ہے کہ سندھ اور پنجاب میں انتخابی سیاست کے بہت سے اہم مہروں کو یہ یقین ہوچلاہے کہ ملک میں نئے انتخابات کی منزل اب زیادہ دور نہیں رہی ہے۔ انہوں نے اگلے عام انتخابات سے قبل نئے سیاسی آشیانوں کی تلاش شروع کردی ہے۔
سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کی سندھ میں جی ڈی اے چھوڑکر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اسی سلسلے کی کڑی بیان کی جاتی ہے۔ کچھ اور سیاسی پنچھی بھی اپنے ٹھکانے بدلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ پنجاب میں کئی نامور سیاسی شخصیات کی سابق صدر آصف زرداری سے حالیہ ملاقاتیں اور تازہ رابطے بھی اسی ضمن میں ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے میں ابھی دوسال سے زائد عرصہ باقی ہے لیکن ملکی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے غیر اعلانیہ طورپر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو اچانک بہت زیادہ بڑھادیا ہے اور لگتا ہے۔
کہ انہوں نے ابھی سے بھرپور انداز میں اپنی انتخابی تیاریوںکا آغازکردیاہے۔ کئی باخبر سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم عمران خان ملک میں سیاسی استحکام لانے اور قومی معیشت کی درستگی کیلئے حالیہ دنوں اپنی کچن کبیٹ کے ساتھ جو اہم مشاورت کرتے ہیں اس موقع پر قبل از وقت انتخابات کا انعقاد بھی ایک سنجیدہ آپشن کے طورپر زیرغور آیاہے۔ کچھ حلقوں کاکہناہے کہ عمران خان نے اہم سیاسی فیصلوں کے حوالے سے اپنا ذہن بنالیا ہے، کسی بھی وقت انکی جانب سے کوئی بڑا سیاسی فیصلہ سامنے آسکتا ہے۔ بنی گالہ کے سیاسی مشیروں کا خیال ہے۔
کہ پی ٹی آئی کی موجودہ مخلوط حکومت اپنی موجودہ جمہوری ٹرم کی نصف مدت کے دوران پارلیمنٹ میں واضح اکثریت نہ ہونے کے باعث اپنے انتخابی منشور اور سیاسی وعدوںکو پورا کرنے سے قاصر رہی اور اس عرصے میں وہ عوامی خدمت کرنے سے زیادہ اپنے سیاسی حلیفوںکے ناز نخرے اٹھانے میں مصروف رہی لیکن اس وقت جبکہ قومی معیشت میں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں اور حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر بالکل غیر موثر ہوچکاہے۔
ایسے میں موجودہ حکومت اگر قبل از انتخابات کا رسک لینے کیلئے تیار ہوجاتی ہے تو اس میںکوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ اس وقت اپوزیشن کی دوبڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سنگین اختلافات کی جو نوعیت ہے ایسے میں اس بات کا امکان کم ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ پھر سے کسی ایک سیاسی پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوسکے۔ حکومتی مشیروںکا خیال ہے کہ اگر آئندہ چند ماہ کے دوران وفاقی حکومت کچھ عوام دوست اقدامات کے ذریعے عوام کو رام کرنے کے جتن کرنے کی سنجیدہ کوشش کرے تو لوگ ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کو ووٹ دیکر پہلے سے زیادہ بڑی کامیابی دلاسکتے ہیں۔
وفاقی حکومت قبل از وقت انتخابات کا خطرہ مول لیتی ہے یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب اس کی جانب سے تعمیراتی شعبے کی ترقی، آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر آنکھ بند کرکے عمل درآمدنہ کرنے کے عزم اور امریکہ کی ڈکٹیشن نہ لینے جیسے اعلانات درحقیقت عوام کی نظروں میں اپنی ساکھ بہتر بنانے اور انکی ہمدردی حاصل کرنے کی کوششوں کے مترادف سمجھے جاسکتے ہیں۔
پیپلزپارٹی بھی اسی جانب بڑھ رہی ہے کہ الیکشن کے ممکنہ انعقاد سے قبل اپنی تیاریوں کو تیز کیا جائے، آصف علی زرداری گزشتہ دنوں نہ صرف پنجاب میں الیکٹیبلز سے اہم ملاقاتیں کی ہیں بلکہ سندھ میں بھی اپنی پارٹی کو پوری طرح متحرک ہونے کا اشارہ دیدیا ہے۔ سابق صدر نے کراچی کے کچھ ایسے انتخابی حلقوں کی نشاندہی کرکے پارٹی رہنمائوں کو وہاں عوامی رابطہ بڑھانے، سیاسی کام کرنے اور پارٹی دفاتر قائم کرنے کی ہدایات دی ہیں،
دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا وفاقی اور پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے بجٹ کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ بھی الیکشن بجٹ معلوم ہوتا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں مسلم لیگ (ن) نے بڑا محتاط رویہ اپنا رکھاہے، حیران کن طریقے سے وہ تمام حالات کا خاموشی سے جائزہ لے رہی ہے، اس نے اپنے سیاسی پتے کسی کے سامنے ظاہر نہیںکئے ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہبازگل کی ہفتہ کوکراچی میں پریس کانفرنس سے بھی ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے کہ ملک کے سیاسی حالات نئی کروٹ لینے والے ہیں، انکا کہناہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنا سی وی لیکر واشنگٹن جارہے ہیں۔
اگر ملک میںکسی تبدیلی کا فی الوقت کوئی امکان نہیں اور تمام معاملات معمول کے مطابق چل رہے ہیں تو وزیر اعظم کے معاون خصوصی کو بے وقت یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ انہوں نے بلاول بھٹو کے دورہ امریکہ پر ایک طنزیہ تبصرہ کیا، اسی طرح چند روز قبل پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کوکڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ بہت سے باخبر لوگوں کا کہناہے کہ بلاول کی ملتان کے مخدوم پر تنقید بے موقع نہیں تھی،
انہوں نے اپنی اس بیان بازی کے ذریعے وزارت عظمی کے ممکنہ امیدواروں کی فہرست سے شاہ محمود قریشی کا نام نکلوانے کی بھرپور کوشش کی ہے، اس منصب کیلئے بلاول بھٹو زرداری خود بھی امیدوار ہوسکتے ہیں۔