چھ ماہ کے دوران 119 افراد جاں بحق ہوگئے۔ رپورٹ کے مطابق شہر قائد میں 102 خطرناک جبکہ 37 معمولی حادثات رپورٹ ہوئے رواں سال کے 6 ماہ میں 139 ٹریفک حادثات رونما ہوئے جن میں 119 افراد جاں بحق اور 136 زخمی ہوئے

کراچی ( رپورٹ طاہر تنولی )ٹریفک پولیس کے روڈ ایکسیڈنٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے ابتدائی 6 ماہ میں شہر قائد میں ٹریفک حادثات کی شرح گزشتہ سال سے بھی تجاوزت کر گئی ہے۔ 6 ماہ کے دوران 119 افراد جاں بحق ہوگئے۔ رپورٹ کے مطابق شہر قائد میں 102 خطرناک جبکہ 37 معمولی حادثات رپورٹ ہوئے رواں سال کے 6 ماہ میں 139 ٹریفک حادثات رونما ہوئے جن میں 119 افراد جاں بحق اور 136 زخمی ہوئے۔

ٹریفک حادثات کی بنیادی وجوہات میں جہاں سڑکوں کی خراب حالت شاہراہوں پر اسٹریٹ لائٹس نہ ہونا ہے وہیں دوسری جانب موٹر سائیکلوں پر سوار نوجوانوں کی جلد بازی بھی حادثات کا سبب بن رہی ہے۔ اس سلسلے میں ٹریفک پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شاہراہوں پر ایسے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو روکا جاتا ہے جو نہ صرف کم عمر ہوتے ہیں بلکہ ان کے پاس لائسنس بھی نہیں ہوتا اور وہ ایک دوسرے کو کرتب دکھانے کے دوران حادثات کا شکار ہوتے ہیں

کیونکہ غلطی کسی کی بھی ہو موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا شخص زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ گزشتہ سال کے 12 ماہ میں 92 حادثات میں ایک معمولی اور 74 خطرناک حادثات رپورٹ ہوئے تھے گزشتہ سال 92 حادثات میں 83 افراد جاں بحق اور 65 زخمی ہوئے تھے۔ خطرناک ٹریفک حادثات ٹریلرز اور ٹرکوں کے باعث ہوئے۔ رواں سال کے 6 ماہ میں سب سے زیادہ ضلع غربی میں 39 خطرناک حادثات ہوئے جبکہ گزشتہ سال بھی 36 خطرناک حادثات غربی میں ہی ہوئے تھے۔

ٹریفک پولیس کی رپورٹ میں حادثات کی جن وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے وہ سو فیصد درست ہیں۔ کراچی میں صوبائی انتظامیہ اور بلدیاتی حکام نے ان وجوہات کو دور کرنے پر کبھی توجہ نہیں دی جبکہ دنیا بھر میں کاسمو پولیٹن اور اتنی آبادی کے پر ہجوم شہروں میں شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے فول پروف انتظامات کیے جاتے ہیں کراچی میں قوانین موجود ہونے کے باوجود ان پر سختی سے عملدرآمد کے لیے کبھی کوششیں یا اقدامات نہیں کیے گئے ٹریفک حادثات کی تین بڑی وجوہات ٹوٹی سڑکیں، اسٹریٹ لائٹس کی بندش اور ریس لگاتی گاڑیاں بتائی گئی ہیں لیکن یہ تینوں وجوہات صوبائی انتظامیہ اور پولیس حکام کے علم میں ہے کراچی میں رہنے والوں کو سالہا سال سے جو گلے شکوے رہے ہیں۔

ان کا تعلق بھی ان ہی محکموں سے ہے کون ہیں جانتا کہ سڑک پر گٹر بند ہونے سے گندہ پانی جمع ہوجائے تو سڑک کے ٹوٹنے تک اسے صاف کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ سڑک ٹوٹنے کے 6 ماہ تک اس کی مرمت نہیں ہوپاتی۔ گزشتہ سال بارشوں میں تباہ ہونے والی سڑکوں کی مرمت 8 ماہ بعد کی گئی بلکہ یونیورسٹی روڈ کے متاثرہ حصوں کی مرمت اس سال ہونے والی متوقع بارشوں سے ایک ماہ پہلے ہوئی ہے۔ سڑکوں کے بیچوں بیچ کھلے گٹر موت کا باعث بنتے ہیں۔

ہیروئنچی سڑکوں اور فلائی اوورز کے گرد لگائے گئے جنگلے دن دیہاڑے اکھاڑ لے گئے اور بیچ کر حاصل ہونے والے رقم دھوئیں میں اڑا دی لیکن کسی ڈی ایم سی صوبائی انتظامیہ یا پولیس حکام کو انہیں پکڑنے، سز دینے کی توفیق نہ ہوئی یہی حال سڑکوں پر لگی اسٹریٹ لائٹس کا ہے۔ سولر لائٹس کی مدت ختم ہونے کے بعد ان کی بحالی کی کسی کو فکر نہیں، رات کے اوقات میں اکثر سڑکوں کی اسٹریٹ لائٹس بند رہنے سے حادثات کے علاوہ جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور وہ اندھیری سڑک کے کسی کونے میں کھڑے ہو کر گاڑیوں کو روکتے اور اطمینان سے لوٹ کر اندھیرے میں غائب ہوجاتے ہیں

گٹروں کے ڈھکنے غائب ہونے سے آئے روز حادثات ہوتے ہیں لیکن کسی کو اشک شوئی کی توفیق نہیں ہوتی۔ دن کے اوقات میں شاہراہوں پر لمبے لمبے ٹرالروں، کنٹینروں اور واٹر ٹینکروں کی قطاریں حادثات کا سبب بنتی ہیں۔ موٹر سائیکل سوار اپنی جلد بازی کے سبب خود بھی نقصان اٹھاتے ہیں بلکہ گاڑیوں کا بھی بیڑہ غرق کرتے ہیں۔ موٹر سائیکلوں پر دن اور رات کے اوقات میں کھڑے ہو کر بیٹھ کر یا لیٹ کر کرتب دکھانے والے نوجوان اور انڈر ایج ڈرائیور ٹریفک کے لیے مستقل خطرہ ہیں لیکن یہ سب وجوہات پولیس اور انتظامیہ کے علم میں ہے۔

عام شہری اس مسئلہ پر سراپا احتجا ہیں کہ انتظامیہ اور پولیس سب کچھ جانتے بوجھتے سخت قوانین پر عملدر آمد سے کیوں ہچکچاتی ہے۔ شاہراہ فیصل پر موٹر سائیکلوں کے لیے ایک لین بنائی گئی ہیلمٹ لازمی قرار دیا گیا ہیوی ٹریفک کے لیے اوقات مقرر کیے گئے ان تمام قوانین پر عملدرآمد کرانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہفتہ پولیس منانے سے حادثات میں کمی نہیں ہوئی، اس کے لیے سنجیدگی سے کوئی لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply