
صحافی عثمان جامعی کراچی سینئر قلمکار ہیں،شاعری ان کا ایک مستند حوالہ ہے۔بطور مزاح نگار بھی ان کی ایک شناخت ہے،کہانیوں کی صورت میں بھی اپنی تخلیقات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
ہم یہاں عثمان جامعی کی کتاب سر سید سینتالیس سیکٹر انچارج (نوشابہ کی ڈائری ) ناول کا سر سر ی جائزہ لینے سے قبل اس کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پولیٹکل فکشن لکھنا آسان کام نہیں،پاکستان میں ناول اور افسانہ نگاروں کے لئے سیاسی واقعات کو بنیاد بنا کر ناول یا افسانہ لکھنا انتہائی دشوار ہے،
کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میںنادیدہ قوتوں، سیاسی تشدد پسندی اور انتہا پسند مذہبی عناصرکے خوف سے 99فیصد قلمکاروں نے حقائق نگاری کو اپنے لئے شجر ممنوعہ بنا لیا ہے۔ اگر ہم کراچی کے صحافتی حلقوں میں پولیٹیکل فکشن کے حوالے سے جائزہ لیں،تو ہمیںبہت کم نام ایسے نظر آتے ہیں، جنہوں نے سیاسی موضوعات پر ناول اور افسانے تحریر کئے ہوں، پولیٹیکل فکشن لکھنے والوں میں محمود شام، اشرف شاد، احفاظ الرحمٰن، اور زاہدہ حنا،نعیم آروی کے نام نظر آتے ہیں، اب اس میدان میں عثمان جامعی بھی اپنی کتاب سر سید،سینتالیس سیکٹر انچارج کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار ممکن نہیں ہوگا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے حوالے سے حقائق کے ساتھ کسی موضوع پر لکھنا کتنا کٹھن کام ہے۔یہاں اس بات کو واضح کرنا بھی ضروری تھا، کہ اہالیان کراچی کی اکثریت 1980کے وسط تک دائیں
بازو کی جماعتوں بالخصوص جمعیت علماء پاکستان اور جماعت اسلامی کی حامی اور ووٹر تھی۔
عثمان جامعی نے اپنی کتاب سرسید سینتالیس سیکٹر انچارج میں گذشتہ تین عشروں کی اس داستان کو موضوع بنایا ہے جس نے کراچی کے شہریوں بالخصوص خود کو مہاجر کہلانے والوں کی دوسری اور تیسری نسل کو خود شناسی،اجتماعی نفسیاتی اور معاشرتی تبدیلی کا پیغام دیاہے، عثمان جامعی نے اس حساس موضوع کو جس احتیاط کے ساتھ ہنستے کھیلتے قلمبند کیا ہے ،وہ بلاشبہ قابل تعریف ہے۔ کتاب میں ایم کیو کے قیام کے ساتھ اس کے پروان چڑھنے کے دوران جو سیاسی مزاحمت بالخصوص پنجابی پختون اتحاد کے حوالے سے کچھ حقائق اور واقعات بھی اس میں شامل کئے گئے ہیں۔ عثمان جامعی کی اس کتاب کو اگر ایم کیوایم کے آغاز سے 22اگست2016کے انجام تک کی حقیقت سے قریب تین عشروں تک پھیلی ہوئی داستان کہا جائے توغلط نہ ہوگا۔کتاب میں ایم کیو ایم کے نشیب وفراز کا زکر کرتے ہوئے کارکنوں اور عہدیداروں کے کردار پر بھی اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔
اسس کتاب کے سرسری مطالعہ سے 1992میں آفاق احمد کی سربراہی میں ایم کیو ایم کی پہلی تقسیم، مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ کا سفر،بعد ازاں سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی قیادت میں پاک سر زمین پارٹی کا قیام ،جیسے اہم موضوعات پر بھی احتیاط کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہوئے بین السطور میں اسکے اسباب بھی اختصار کے ساتھ بیان کر نے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں پولیس تشدد کے حوالے چیرا لگانے سمیت کچھ نئی اصطلاحات سامنے آئیں، جن میں قتل ماورائے عدالت، چادر اور چار دیواری کی پامالی، اس کے علاوہ کراچی کے کچھ خود مختار ،اور نو گو ایریاز کا قیام، ادھر لیاری، ادھر کٹی پہاڑی،حکیم محمد سعید شہید، عظیم احمد طارق کا قتل، عمران فاروق کا قتل ،اور ان کا شہید انقلاب کہلانا سمیت کتاب میں بہت کچھ پڑھنے کیلئے موجود ہے۔جس سے کراچی کی سیاسی تاریخ ایک ایسا پہلو سامنے آتا ہے
،جسے کچھ لوگ تاریک اور کچھ روشن قرار دیتے ہیں۔ عثمان جامعی نے کراچی کی سیاسی کہانی کو قلمبند کرنے میں سادگی اور غیر جانبداری کو نہ صرف ملحوظ رکھا بلکہ اسے طوالت دینے سے بھی گریز کیا ہے، اسے دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کراچی کی اس سیاسی کہانی میں قارئین پر کوئی نظریہ مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔اس کتاب کو اگرکراچی کی سیاسی کہانی کے ساتھ اسے ایم کیو ایم کے عروج و زوال کی داستان کہا جائے تو غلط نہین ہوگا۔
ناول سر سید سینتالیس (نوشابہ کی ڈائری )کواٹلا نٹس پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے، اس کا سرورق فاروق احمد نے سادہ لیکن جازب نظر بنایا ہے،یہ کتاب کراچی کی سیاسی مراحل سے آگاہی سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے پڑھنے کے قابل ہے۔