خصوصی رپورٹ : طاہر تنولی
وزارت اوورسیزکے ماتحت محکمہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کے 1976ء میں قیام کا مقصد ملک کے نجی شعبہ کے آجران اور ان کے ملازمین کو رجسٹر کرکے ان آجران سے کنٹری بیوشن وصول کرنا اور پھر ان کے رجسٹرڈ ملازمین کو سماجی بیمہ کے تحت بڑھاپے، معذوری اور ان کی وفات کی صورت میں ان کے لواحقین کو تاحیات پنشن فراہم کرنا تھا ۔
لیکن طویل عرصہ سے وفاقی حکومت اور وزارت کی جانب سے محنت کشوں کے مسائل سے عدم دلچسپی اور لاپرواہی کے باعث یہ قومی فلاحی ادارہ شدید انتظامی اور مالی بحران اور سنگین بدعنوانیوں کا شکار ہوگیا ہے ۔
آخر وفاقی حکومت زلفی بخاری کے چہیتےای او بی آئی کے ریٹائرڈ نااہل اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کو ایک بار پھر ادارہ پر مسلط کرنے کی خواہش مند کیوں ہے؟
سابق چیئرمین ای او بی آئی اظہر حمید کی غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ میں بدترین لوٹ مار اور سیاہ کارناموں کی ہوشرباء داستان سامنے آگئی ۔
بتایا جاتا ہے کہ غریب محنت کشوں کی پنشن کے اس قومی ادارہ میں جس بڑے پیمانے لاقانونیت، غبن، کرپشن، اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا بازار گرم ہے اس کی مثال اور کسی وفاقی ادارہ میں ملنا مشکل ہے ۔
لیکن اس فلاحی ادارہ میں لوٹ مار کے مرتکب طاقتور کرپٹ افسران کیخلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی نہ ہونے کے باعث نہ صرف ان کرپٹ افسران کے حوصلے بلند ہورہے ہیں بلکہ اب سننے میں آیا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اس مافیا کے سرغنہ اور ای او بی آئی کے سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کے سر پر ایک بار پھر ای او بی آئی کے چیئرمین کا تاج سجانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ۔
ای او بی آئی کی اس ابتر صورتحال کے باوجود وزیر اعظم عمران خان اور ان کے چہیتے معاون خصوصی زلفی بخاری اور وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل اسلام آباد کے اعلیٰ حکام اس قومی فلاحی ادارہ کے بدترین انتظامی اور مالی معاملات، پنشن فنڈ میں اربوں روپے کے غبن، کرپشن اور خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات اعلیٰ افسران اور ان کے ماتحت جونیئر اور چہیتے افسران کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال، سنگین انتظامی اور مالی بدعنوانیوں اور سب سے بڑھ کر ای او بی آئی کے لاکھوں بوڑھے، معذور اور بیوگان پنشنرز کو درپیش سنگین مسائل سے مسلسل چشم پوشی اختیار کئے بیٹھے ہیں ۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی جانب سے حکومت کی کرپشن کے خاتمہ کی پالیسیوں کے برخلاف وہ اس قومی فلاحی ادارہ کو کرپشن سے پاک کرنے اور کرپٹ ترین افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے، اس ادارہ کو مسائل کے گرداب سے نکالنے اور اسے مزید مستحکم بنانے کے بجائے ان کی اولین ترجیح صرف اور صرف ای او بی آئی کے پچھلے نااہل، متنازعہ اور کرپٹ چیئرمین اظہر حمید کو مزید 3 برس کیلئے اس فلاحی ادارہ پر مسلط کرنا ہے ۔
اظہر حمید کی آمرانہ پالیسیوں، نااہلی اور ناقص کارکردگی کے باعث ای او بی آئی کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کے سیاہ کارناموں کی تفصیلات جان کر قوم کو دن میں تارے نظر آئیں گے ۔
اظہر حمید آڈٹ سروس آف پاکستان کے گریڈ 21 کے افسر تھے جنہیں وفاقی حکومت نے مارچ 2019 کو دو برس کی مدت کے لئے ای او بی آئی کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔
اظہر حمید نے اپنے عہدہ کا چارج سنبھالنے کے بعد ای او بی آئی کی ترقی اور اصلاحات کے بلند وبانگ دعوے تو بہت کئے لیکن درحقیقت انہوں نے اپنے دو برس کے مختصر عرصہ میں اپنے مخصوص آمرانہ مزاج اور اپنی ناقص پالیسیوں، عدم مشاورت اور صلاحیتوں کے فقدان کے باعث اس قومی فلاحی ادارہ کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے ۔
اظہر حمید کی نااہلی، ناقص کارکردگی اور پنشن فنڈ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا درست اندازہ ای او بی آئی کے فرانزک آڈٹ کے ذریعہ ہی سامنے آسکے گا ۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق اظہر حمید کی ماہانہ تنخواہ 372,518 روپے تھی اس طرح انہوں نے اپنے دو برس کی مدت میں ای او بی آئی سے کل 8,940,432 روپے وصول کئے ۔ جبکہ اظہر حمید کی جانب سے مال مفت دل بے رحم کی طرح غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے حاصل کی گئیں پرکشش مراعات کے اعداد وشمار خاصے ہوشرباء ہیں ۔
ذرائع سے حاصل شدہ دستاویزات کے مطابق سابق چیئرمین اظہر حمید نے اپنے دو برسوں کے دوران ای او بی آئی سے اپنے علاج ومعالجہ ( اسپیشلسٹ ڈاکٹروں) کی مد میں 1,360,088 روپے، لیبارٹریز ٹیسٹوں کی مد میں 1,318,088 روپے، ادویات کی مد میں 1,276,898 روپے، ڈرائیور کی مد میں 1,713,685 روپے، گھریلو ملازم کی مد میں 2,020,188 روپے، قانونی طور پر حقدار نہ ہونے کے باوجود دو اعزازیوں کی مد میں 2,161,908 روپے، ٹرانسفر اخراجات کی مد میں 2,302,395 روپے، انٹر نیٹ چارجز کی مد میں 6,793,134 روپے، ہوٹل میں قیام کی مد میں 8,279,018 روپے، ڈیلی الاؤنس کی مد میں 9,212,618 روپے، مقامی سفری اخراجات کی مد میں 9,248,618 روپے، ٹیلیفون کی مد میں 9,355,927 روپے، گاڑی کے پٹرول کی مد میں 9,360,419 روپے اور گاڑی کی مرمت کی مد میں9,377,539 روپے وصول کئے ۔
جبکہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن اور ای او بی آئی اپیلیٹ اتھارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے اجلاس میں شرکت کی فیس 25,000 روپے یومیہ کے علاوہ دو طرفہ ہر اجلاس میں شرکت کے لئے بزنس کلاس ہوائی ٹکٹ، پانچ ستارہ ہوٹل میں طعام و قیام اور لاکھوں روپے مالیت کے ٹی اے ڈی اے بلز بھی وصول کئے ۔
دستاویزات کے مطابق سابق چیئرمین اظہر حمید کی جانب سے دو برسوں میں پرکشش مراعات اور دیگر سہولیات کی مد میں وصول کردہ کل رقم 73,780,523 (سات کروڑ سینتیس لاکھ اسی ہزار پانچ سو تئیس) روپے بنتی ہے ۔ دیکھا جائے تو اظہر حمید کسی تجارتی اور کاروباری ادارہ کے سربراہ نہیں تھے۔
بلکہ وفاقی حکومت انہیں ملک کے لاکھوں بیمہ دار افراد اور پنشنرز کے 400 ارب روپے مالیت کے پنشن فنڈ کا نگہبان مقرر کیا گیا تھا ۔ جس پر پورا اترنے میں وہ قطعی ناکام رہے ۔سابق چیئرمین ای او بی آئی اظہر حمید کی جانب سے ملک کے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے کروڑوں روپے کی بھاری رقوم بٹورنے سے ان کا اصل چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے اور اس سے ان کی مکارانہ ذہنیت کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
ذرا سوچئے اگر انہیں ایک بار پھر ای او بی آئی کا چیئرمین مقرر کردیا گیا تو وہ اب کیا کیا نئے گل کھلائیں گے اس کا اندازہ ان کے ماضی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
قانون کے مطابق کوئی بھی سرکاری ملازم 60 برس کی عمر کے بعد سرکاری ملازمت کا اہل نہیں ۔ لیکن سنا ہے کہ اس واضح قانون کے باوجود ای او بی آئی کے معاملات میں وزیر اعظم کے انتہائی چہیتے معاون خصوصی زلفی بخاری کی پراسرار دلچسپی اور پس پردہ مقاصد کے پیش نظر اس انتہائی نااہل اور کرپٹ افسر اظہر حمید کو ایک بار پھر 3 برس کی مدت کے لئے ای او بی آئی پر مسلط کیا جارہا ہے ۔ جو ای او بی آئی کے موجودہ 90 لاکھ بیمہ شدہ افراد اور 4 لاکھ سے زائد بوڑھے، معذور اور بیوگان پنشنرز کی قسمت سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔
ای او بی آئی کی 45 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی جانب سے اپنے ایک انتہائی چہیتے اور جی حضوری افسر اظہر حمید کی ای او بی آئی میں 3 برسوں کے لئے دوبارہ تقرری سراسر غیر قانونی اور بھونڈے انداز میں کی جارہی ہے ۔
اس مقصد کے لئے سب سے پہلے اظہر حمید نے دوران ملازمت وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری اور ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی ملی بھگت سے 2 دسمبر 2020 کو بورڈ کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کر کے چیئرمین کے عہدہ پر مزید 3 برسوں کے لئے خود اپنی تقرری کی منظوری حاصل کی ۔ جو سراسر غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے ۔ کیونکہ ایک تو ادارہ کا بورڈ آف ٹرسٹیز ای او بی آئی کے چیئرمین کی مدت ملازمت میں توسیع کا کسی طور بھی مجاز نہیں ہے ۔ دوسرے اس بورڈ کی اپنی دو سالہ مقررہ مدت بھی نومبر 2015 میں ختم ہوچکی تھی ۔ اس سلسلہ میں مزید پیش رفت کرتے ہوئے اگلے مرحلہ میں 3 اپریل کو وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان اسلام آباد کی جانب سے اظہر حمید کو دوبارہ ای او بی آئی پر مسلط کرنے کے لئے دو غیر معروف اخبارات میں ایک چھوٹا سا اشتہار بعنوان ‘اسامی خالی ہے” شائع کرایا گیا ۔ جس میں ای او بی آئی کے چیئرمین کے عہدہ کے لئے امیدواروں کے لئے مقررہ شرائط و ضوابط صرف اور صرف اپنے خاص الخاص اور چہیتے امیدوار اظہر حمید کے کوائف، تعلیم اور عمر کو مد نظر رکھتے ہوئے مقرر کی گئیں تھیں ۔ 3 مئی کو وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل کے دفتر میں کل چھ امیدواروں کے انٹرویو کئے گئے ۔ انٹرویو بورڈ ڈاکٹر عشرت حسین، مشیر وزیراعظم برائے ادارہ جاتی اصلاحات اور سادگی، ڈاکٹر محمد ہاشم پوپلزئی، سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل اور خاتون جوائنٹ سیکریٹری پر مشتمل تھا ۔
جبکہ انٹرویو میں چیئرمین ای او بی آئی کی اسامی کے لئے درج ذیل امیدوار شامل تھے ۔1- اظہر حمید ولد عبدالحمید سابق چیئرمین ای او بی آئی2- ڈاکٹر رحمت عباد خان پی ایچ ڈی، سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ای او بی آئی3- بریگیڈیئر(ر) زاہد نواز مان ستارہ امتیاز ملٹری ولد محمد نواز4- بریگیڈیئر(ر) ڈاکٹر محمد افضل سلیمی ستارہ امتیاز ملٹری ولد چوہدری عبدالستار سلیمی5- عمر سعید ملک ولد محمد سعید ملک6- بریگیڈیئر (ر) سعید احمد ولد محمد اصغر لیکن دیگر امیدواروں کی تعلیمی قابلیت اور پیشہ ورانہ تجربہ کے باوجود صرف اور صرف معاون خصوصی زلفی بخاری کی خصوصی دلچسپی کے باعث ای او بی آئی کے چیئرمین کے عہدہ کے لئے متوقع امیدواروں میں اظہر حمید کا پلڑا بھاری رہا ۔
جبکہ ای او بی آئی کی گزشتہ 45 سالہ تاریخ میں آج تک ادارہ کے چیئرمین کی تقرری کے لئے اخبارات میں اشتہار شائع کرانے کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ای او بی آئی کے چیئرمین کے عہدہ پر تقرری کا طریقہ کار ای او بی آئی قانون مجریہ 1976 کی شق 8A میں واضح طور پر درج ہے ۔ جس کے تحت وفاقی حکومت ماضی میں بھی گریڈ 21 کے کسی سینئر اور باصلاحیت افسر کو 3 برس کی مدت کے لئے چیئرمین مقرر کرتی رہی ہے ۔ لیکن موجودہ صورت حال میں وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی اس معاملہ میں پراسرار دلچسپی، پس پردہ مقاصد اور ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اپنے چہیتے افسر اظہر حمید کی ای او بی آئی کے چیئرمین کے عہدہ پر 3 برس کے لئے دوبارہ تقرری کی کوششوں نے حکومت کے تمام مروجہ قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں ۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی جانب سے اپنے چہیتے لیکن نااہل اور کرپٹ افسر اظہر حمید کو ایک بار پھر ای او بی آئی کے چیئرمین کے عہدہ پر فائز کرنے میں ان کی گہری دلچسپی اور قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیوں سے ان کے مخصوص ذاتی مفادات کے حصول کی بو ظاہر ہوتی ہے ۔
ای او بی آئی کے قابل اعتماد ذرائع کا کہنا ہے معاون خصوصی زلفی بخاری کی جانب سے اپنے جی حضوری افسر اظہر حمید کو تمام قواعد و قوانین کی دھجیاں بکھیر کر دوبارہ ای او بی آئی کے چیئرمین کے عہدہ پر فائز کرنے کا مقصد انہیں اپنا آلہ کار بنا کر ای او بی آئی کی ذیلی تعمیراتی کمپنی پاکستان رئیل اسٹیٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی (PRIMACO) کے لاہور میں فائیو اسٹار ہوٹل اور اسلام آباد میں سنی پلیکس سنیما جیسے برسوں سے زیر التواء اربوں روپے مالیت کے میگا تعمیری منصوبوں سے ذاتی فوائد حاصل کرنا اور ان پر ہاتھ صاف کرنا ہے۔
ذرائع کے مطابق معاون خصوصی زلفی بخاری نے اکتوبر 2019 میں ای او بی آئی کے ایک میگا تعمیری منصوبہ OEC ٹاور اسلام آباد کی 20 سالہ مدت معاہدہ کرایہ داری کی تقریب کے موقعہ پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ کافی عرصہ سے خالی پڑی تھی اور اب اس عمارت کے کرائے کی بدولت ای او بی آئی کو 300 ملین روپے سالانہ کی آمدنی متوقع ہے ۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میسرز انفنیٹم انوویشن نامی جس کمپنی کو او ای سی ٹاور اسلام آباد کرائے پر دیا گیا تھا وہ کمپنی ای او بی آئی کی جانب سے کرائے کی رقوم کے بار بار کے تقاضوں کے باوجود کرائے کی ادائیگی میں ناکام رہی ہے ۔ اس کمپنی کا عاصم نامی مالک زلفی بخاری کا فرنٹ مین بتایا جاتا ہے ۔واضح رہے کہ 2006 میں ای او بی آئی کے ایک سابق فوجی چیئرمین اور صدر پرویز مشرف کے قریبی ساتھی بریگیڈیر (ر) اختر ضامن نے خلاف ضابطہ طور پر پاکستان رئیل اسٹیٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی، پرائماکو (PRIMACO) قائم کی تھی ۔
ای او بی آئی کا چیئرمین بھی بربنائے عہدہ اس کمپنی کا چیئرمین ہوتا ہے ۔ گزشتہ 16 برسوں میں ای او بی آئی پنشن فنڈ کے اربوں روپے کے اخراجات کے باوجود پرائماکو کی کارکردگی انتہائی مایوس کن اور ناقص رہی ہے ۔ اس تعمیراتی اور سرمایہ کاری کمپنی نے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کی خطیر رقوم سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں فائیو اسٹار ہوٹل، سنی پلیکس سنیما اور شاپنگ سنٹروں سمیت اربوں روپے کی لاگت سے کئی میگا تعمیری منصوبے شروع کئے تھے ۔ جن کے تعمیراتی اخراجات بڑھتے بڑھتے اربوں روپے سے بھی تجاوز کر گئے لیکن یہ تاحال پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے ۔
جبکہ پنشن فنڈ سے سنیما اور پانچ ستارہ ہوٹل چلانے کی اجازت نا تو ای او بی آئی کا قانون دیتا ہے اور نہ ہی یہ ای او بی آئی کے بس کی بات ہے ۔پرائماکو اپنے قیام کے وقت سے ہی بحرانی کیفیت میں مبتلا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں پرائماکو کے متعدد سی ای اوز کو بھاری کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے سنگین الزامات کے تحت برطرف کیا گیا ہے ۔
اس وقت بھی ایک ریٹائرڈ بریگیڈیر پرائماکو کے سی ای او کے عہدہ پر فائز ہیں۔ پرائماکو کے ان تعمیراتی منصوبوں میں او ای سی ٹاور بھی شامل تھا ۔ 2010ء میں اس کی تعمیری لاگت کا تخمینہ 600 ملین لگایا گیا تھا جو بعد ازاں پرائماکو کی ناقص کارکردگی اور کرپشن کی بدولت 500 گنا اضافہ کے ساتھ 3.6 ارب تک تجاوز کرگیا تھا۔ دیکھا جائے تو پرائماکو نامی تعمیراتی اور سرمایہ کاری کمپنی ای او بی آئی کے لئے ایک سفید ہاتھی بن چکا ہے ۔اظہر حمید کے ای او بی آئی میں دوبارہ تعیناتی سے ای او بی آئی اور پرائماکو کے تعمیراتی منصوبوں میں کیا کیا گل کھلائے جاتے ہیں اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
بتایا جاتا ہے کہ سابق چیئرمین اظہر حمید کی ای او بی آئی کے محنت کشوں کے امانتی پنشن فنڈ کے بلا دریغ استعمال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اظہر حمید 18 فروری کو اپنی ریٹائرمنٹ کے دن ای او بی آئی پنشن فنڈ سے یکمشت 46 لاکھ روپے کی خطیر رقم بٹور کر لے گئے تھے ۔
انہوں نے 23 لاکھ روپے کی رقم ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈ گولف کلب کراچی کی رکنیت فیس اور بقیہ 23 لاکھ روپے کی رقم لیو انکیشمنٹ اور پنشنرز کی اپیلوں کی سماعت کی مد میں وصول کی ۔ جس سے اظہر حمید کی غریب محنت کشوں کے 400 ارب روپے مالیت کے پنشن فنڈ کی امانت میں خیانت اور پنشنرز دشمن ذہنیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اظہر حمید کی ادارہ کے چیئرمین کے عہدہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مال مفت دل بے رحم کی طرح ناصرف ای او بی آئی کے وسائل، گاڑیوں اور دیگر سہولیات کا بلا دریغ اور بھرپور استعمال کر رہے ہیں ۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ای او بی آئی کے انتظامی اور مالی معاملات میں بھی مداخلت کرتے ہوئے ادارہ میں ڈیپوٹیشن اور کلیدی عہدوں پر لگائے ہوئے اپنے چہیتے افسران کو غیر قانونی احکامات بھی دے رہے ہیں ۔ اس کی زندہ مثال 4 مئی کو وزارت کے دفتر اسلام آباد میں منعقد ہونے والے چیئرمین کی اسامی کے انٹرویو کے لئے دیگر امیدواروں کے برعکس ای او بی آئی کے سابق چیئرمین اظہر حمید ایئرپورٹ سے ای وزارت کے دفتر اور دیگر ذاتی مصروفیات کے لئے او بی آئی کی سرکاری گاڑی ہنڈا سوک GU-992 معہ پٹرول اور ڈرائیور ڈھٹائی سے استعمال کرتے رہے ۔
لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ معاون خصوصی زلفی بخاری کے اپنے عہدہ سے مستعفی ہونے کے باوجود وزارت کی ویب سائٹ پر ان کی تصویر اور عہدہ حسب سابق موجود ہے اور اسی طرح ان کے چہیتے افسر اور سابق چیئرمین ای او بی آئی اظہر حمید کی ریٹائرمنٹ کے باوجود ای او بی آئی کی ویب سائٹ پر ان کی تصویر اور چیئرمین کا عہدہ اب تک موجود ہے اور چار ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اسے وہاں سے ہٹایا نہیں گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اظہر حمید کی ای او بی آئی کے چیئرمین کے عہدہ پر مزید 3 برسوں کے لئے غیر قانونی تقرری کے لئے انٹرویو کرنے والی ٹیم کے سربراہ وزارت کے سیکریٹری اور ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر ڈاکٹر محمد ہاشم پوپلزئی اس اسامی کے لئے انٹرویو کرنے کے تین دن بعد سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوگئے تھے ۔ جس سے اس معاملہ میں معاون خصوصی زلفی بخاری کی پراسرار دلچسپی اور عجلت بازی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
واضح رہے کہ ماضی میں بھی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2010 اور 2013 کے دوران ای او بی آئی جیسے فلاحی ادارہ میں ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر آکر تعینات ہونے والے چیئرمین ظفر اقبال گوندل اور ان کے ٹولے واحد خورشید کنور ڈائریکٹر جنرل انوسٹمنٹ، نجم الثاقب صدیقی فنانشل ایڈوائزر، بورڈ آف ٹرسٹیز کے ارکان اور دیگر اعلیٰ افسران کی جانب سے ملک کے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ میں نام نہاد سرمایہ کاری کے نام پر اراضیوں اور املاک کی مشکوک خریداری میں اربوں روپے کی لوٹ مار اور غبن کیا گیا تھا ۔ تقریباً 64 ارب روپے مالیت کے بدنام زمانہ میگا لینڈ اسکینڈل کے عنوان سے 2013 سے سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس کے تحت تاحال زیر سماعت ہے ۔
ظفر اقبال گوندل اینڈ کمپنی کی جانب سے اس میگا لینڈ اسکینڈل سے ای او بی آئی پنشن فنڈ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔لیکن افسوس سات برسوں کا طویل وقت گزرنے جانے کے باوجود وفاقی حکومت، وزارت کے اعلیٰ حکام، ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز اور ادارہ کی نااہل انتظامیہ کی لاپرواہی اور عدم دلچسپی کے باعث اس میگا لینڈ اسکینڈل کے مرکزی ملزم ظفر اقبال گوندل اور اس کے دیگر ساتھی افسران اپنے زبردست اثر ورسوخ کی بناء پر ضمانتوں پر ہیں اور تاحال قرار واقعی سزاؤں سے بچے ہوئے ہیں ۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس کیس35/2011 کے گزشتہ سات برسوں سے التواء میں پڑے رہنے سے ملک کے لاکھوں محنت کشوں اور بوڑھے پنشنرز کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے ۔اس طرح ای او بی آئی پنشن فنڈ میں اربوں روپے کا غبن کرنے اور لوٹنے کھسوٹنے والی 2010 تا 2013 کی سابق انتظامیہ کے کرپٹ ترین اعلیٰ افسران کو قرار واقعی سزائیں نہ ہونے کے باعث ای او بی آئی میں ایک بار پھر ہر سطح پر سنگین بدعنوانیوں اور بدانتظامیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا دور دورہ ہے اور لگتا ہے کہ ادارہ کی موجودہ ڈیپوٹیشن انتظامیہ بھی ماضی کی کرپٹ ترین ظفر اقبال گوندل اینڈ کمپنی کے نقش قدم پر چل رہی ہے اور غریب محنت کشوں کے چندے کی آمدنی سے چلنے والے اس فلاحی ادارہ کے مالی و دیگر وسائل کا نہایت بیدردی سے استعمال کر رہے ہیں ۔
لیکن تحریک انصاف کی انصاف کی علمبردار حکومت کے دور میں ان کرپٹ اور طاقتور افسران کی گرفت کرنے والا کوئی نہیں ۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ میں کروڑوں اور اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات کے تحت مُعطل شدہ ای او بی آئی کے تین اعلیٰ افسران محمد ایوب خان، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فنانس ہیڈ آفس آصف آزاد، ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس اور عاصمہ عامر ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فنانس ہیڈ آفس گزشتہ 6 برسوں سے مسلسل گھر بیٹھے بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات، بھاری میڈیکل بلز، 1800سی سی گاڑی، ڈرائیور، سینکڑوں لٹر پٹرول، گھریلو ملازمین کی تنخواہیں، ٹیلی فون بلز، گاڑیوں کی مرمت کی جملہ سہولیات سے فیضیاب ہو رہے ہیں ۔ یہ تینوں معطل شدہ اعلیٰ افسران ای او بی آئی پر زبردست بوجھ بن گئے ہیں ۔ جلد یا بدیر ادارہ کو ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا ۔لیکن نااہل اور کرپٹ سابق چیئرمین اظہر حمید کی منتخب کردہ ڈیپوٹیشن انتظامیہ کی چشم پوشی کے باعث ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ان طاقتور اور کرپٹ افسران کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے اور ان تینوں کرپٹ اعلیٰ افسران کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ ان اعلیٰ افسران نے بھی ای او بی آئی کے خلاف مختلف عدالتوں میں کیسوں پر کیس دائر کر رکھے ہیں ۔ جس پر ای او بی آئی پنشن فنڈ سے وکلاء کی بھاری فیسوں، عدالتی امور کے اخراجات اور ادارہ کے افسران کے بھاری ٹی اے ڈی اے بلوں کی مد میں لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں ۔ جس کے باعث یہ کرپٹ اور طاقتور افسران ای او بی آئی جیسے فلاحی ادارہ پر کلنک کا ٹیکہ اور زبردست مالی بوجھ بن گئے ہیں ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی کے سابق اور نااہل چیئرمین اظہر حمید نے ہیڈ آفس کراچی میں واقع ہونے کے باوجود وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی دو برس کی مدت کا زیادہ عرصہ اسلام آباد میں گزارا تھا اور وفاقی حکومت اور خصوصاً معاون خصوصی زلفی بخاری کی خوشنودی کے حصول اور بزرگ پنشنرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے ادارہ کے پاس مناسب پنشن فنڈز نہ ہونے اور کنٹری بیوشن کی وصولی کی رقوم میں بیحد گراوٹ کے باوجود محض حکومت کی خوشنودی اور پنشنرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے شعبدہ بازی کے ذریعہ ای او بی آئی کی پنشن میں 6500 روپے سے 8500 روپے ماہانہ کے اضافہ کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا تھا ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اظہر حمید نے پچھلے برس معاون خصوصی زلفی بخاری کو اپنی لچھے دار باتوں کے ذریعہ شیشہ میں اتار کر اور مقررہ طریقہ کار کے مطابق ای او بی آئی پنشن فنڈ اور اثاثہ جات کی ایکچوریل ویلیویشن کرائے بغیر اور وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر پنشن میں اضافہ کا اعلان کرادیا تھا ۔ جبکہ ای او بی آئی قانون کے تحت پنشن میں اضافہ سے قبل پنشن فنڈ اور ادارہ کے اثاثہ جات کی ایکچوریل ویلیویشن کرانا لازمی ہے اور اس مقصد کے لئے ادارہ ہر تین برس کی مدت میں پنشن فنڈ اور اثاثہ جات کی ایکچوریل ویلیویشن کرانے کا پابند ہے ۔ لیکن انتہائی شاطر و چالاک اظہر حمید یہاں اپنی شعبدہ بازی میں بالکل مات کھا گیا ۔ کیونکہ جب پنشن میں اضافہ کا یہ معاملہ حتمی منظوری کے لئے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا تو وفاقی وزیر قانون سید فروغ نسیم نے قانونی نکتہ اٹھاتے ہوئے ای او بی آئی قوانین 1976 کے مطابق پنشن میں اضافہ کے لئے ایکچوریل ویلیویشن رپورٹ طلب کی ۔ جس پر معاون خصوصی زلفی بخاری اور اظہر حمید سٹپٹا گئے اور بغلیں جھانکنے لگے اور پنشنرز سے کھلواڑ کا ان دونوں کا مشترکہ منصوبہ بری طرح ناکام ہوگیا تھا ۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی جانب سے ایکچوریل ویلیویشن رپورٹ کے بغیر پنشن میں اضافہ پر اعتراض کے بعد اظہر حمید نے وفاقی حکومت اور معاون خصوصی زلفی بخاری کو اس شرمندگی سے بچانے کے لئے ایک اور نیا جال بچھایا اور اس مقصد کے حصول کے لئے اظہر حمید نے زلفی بخاری کی ملی بھگت سے پیپرا قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ادارہ کے اثاثہ جات، بجٹ اور پنشن فنڈ کی من پسند ایکچوریل ویلیویشن کے لئے کھلے مقابلے کے ذریعہ اخباری ٹینڈر جاری کئے بغیر کراچی کی ایک غیر معروف ایکچوریل کمپنی میسرز سر کنسلٹنٹس پرائیویٹ لمیٹڈ کراچی کو 20 لاکھ روپے فیس کے عوض ای او بی آئی کے اثاثہ جات اور پنشن فنڈ کے خود ساختہ اور جعلی اعداد و شمار پر مبنی ایکچوریل ویلیویشن رپورٹ تیار کرانے کا ٹھیکہ دیدیا اور اس جعلی ایکچوریل ویلیویشن رپورٹ کو معاون خصوصی زلفی بخاری کی آشیرباد سے وفاقی حکومت کو پیش کرکے وزیر اعظم عمران خان اور معاون خصوصی زلفی بخاری کی عزت بچانے میں کامیاب ہوگیا تھا ۔
لہٰذاء ای او بی آئی کی اس مشکوک ایکچوریل ویلیویشن رپورٹ کی بنیاد پر وفاقی حکومت نے بالآخر کابینہ اجلاس میں 6500 سے 8500 روپے پنشن میں اضافہ کی منظوری دیدی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی کے اثاثہ جات اور پنشن فنڈ کی یہ ایکچوریل ویلیویشن رپورٹ مشکوک ہونے کے باعث تاحال صیغہ راز میں رکھی ہوئی ہے ۔
بتایا جاتا ہے کہ سابق چیئرمین اظہر حمید اور اس کے خاص دست راست اور فرنٹ مین محمد نعیم شوکت قائم خانی ڈائریکٹر کوآرڈینیشن کے علاوہ ای او بی آئی کے تمام اعلیٰ افسران اس اہم رپورٹ کے مندرجات سے قطعی لاعلم ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں مشکوک ایکچوریل ویلیویشن رپورٹ کے متعلق مسلسل خبریں آنے کے بعد حال ہی میں حکومت پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل آڈٹ (سوشل سیفٹی نیٹ) نے 27 اپریل کو ایک خط کے ذریعہ ای او بی آئی کی انتظامیہ سے اس ایکچوریل ویلیویشن رپورٹ کی اصل کاپی طلب کرلی ہے ۔ جس کے باعث ادارہ کی ڈیپوٹیشن انتظامیہ میں سخت کھلبلی مچی ہوئی ہے ۔جبکہ سابق چیئرمین اظہر حمید نے پنشن میں اضافہ کے اپنے اس خودساختہ کارنامہ کی آڑ میں ذاتی فوائد سمیٹتے ہوئے اور انتہائی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران اسلام آباد میں اپنے دو ماہ قیام کی مدت کے 8 لاکھ روپے ٹی اے ڈی اے کی مد میں وصول کر لئے اور اسی طرح اس نام نہاد کارنامہ کی بنیاد پر پچھلے برس بورڈ آف ٹرسٹیز کو گمراہ کرتے ہوئے اور اپنے منہ میاں مٹھو بن کر اپنی خود ساختہ اعلیٰ کارکردگی کو بنیاد بناتے ہوئے پنشن فنڈ سے اپنی تنخواہوں کے مساوی دو عدد اعزازیئے بھی وصول کرلئے تھے۔جبکہ واضح رہے کہ ای او بی آئی ایمپلائیز سروس ریگولیشنز مجریہ 1980 کے مطابق ای او بی آئی کے ملازمین میں نائب قاصد کے عہدہ سے لے کر ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ تک کے 12 عہدوں کو ادارہ کے مستقل ملازمین میں شمار کیا جاتا ہے ۔ جب کہ ادارہ میں وفاقی حکومت کی جانب سے ڈیپوٹیشن پر تعینات چیئرمین اظہر حمید کا شمار ای او بی آئی کے ملازمین میں نہیں کیا جاتا ۔ کیونکہ وہ چیئرمین کی حیثیت سے ادارہ میں وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اپنی اسی جدا گانہ حیثیت سے وہ ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن بھی مقرر ہیں ۔ لیکن بد دیانت اور نااہل سابق چیئرمین اظہر حمید نے اپنے مقدس امانتی منصب کا لحاظ کئے بغیر ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی ملی بھگت سے خلاف ضابطہ طور پر اپنی ذات کے لئے دو ماہ کی تنخواہوں کے مساوی دو اعزازیئے وصول کرلئے ۔
سابق چیئرمین اظہر حمید ادارہ کے مستقل ملازمین کی آڑ میں ناصرف خود اپنے لئے دو اعزازیوں سے فیضیاب ہونے میں کامیاب ہوا بلکہ مال مفت دل بے رحم کی طرح خلاف ضابطہ طور پر اپنے خاص دست راست، انتہائی چہیتے، نان کیڈر اور انتہائی جونئیر افسر اور بیک وقت تین کلیدی عہدوں پر فائز محمد نعیم شوکت قائم خانی، ڈائریکٹر کوآرڈینیشن، اسٹاف افسر برائے چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن کے لئے بھی دو دو تنخواہوں کے مساوی دو عدد اعزازیئے منظور کرانے میں کامیاب رہا۔اسی طرح سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید نے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے اس وفاقی ادارہ میں ایک مخصوص صوبہ سے تعلق رکھنے والے انتہائی جونیئر اور نان کیڈر افسران کے گروپ کی مکمل سرپرستی کرتے ہوئے ادارہ میں بڑے پیمانے پر لسانیت اور منافرت کو فروغ دیا اور اس مقصد کے ایک انتہائی چالاک اور عیار صفت جونیئر ترین افسر طاہر صدیق عرف طاہر صدیق چوہدری، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے ذریعہ ادارہ کے دیانتدار اور تجربہ کار کے افسران کیخلاف سخت انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بناتے ہوئے کے ان کے افسران کے خلاف خودساختہ اور من گھڑت الزامات عائد کر کے نا صرف انہیں ہراساں کرایا گیا بلکہ انہیں مختلف تادیبی کارروائیوں کا نشانہ بناکر دور افتادہ علاقوں میں تبادلے بھی کرائے گئے اور یہاں تک کے انہیں ان کی جائز ترقیوں اور سہولیات سے بھی محروم کر دیا گیا۔
اسی طرح سابق اور نااہل چیئرمین اظہر حمید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ادارہ میں خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن کے ذریعہ کلیدی عہدہ پر تعینات خاتون اعلیٰ افسر شازیہ رضوی، ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ ( ای او بی آئی میں آنے سے قبل بدعنوانیوں کے الزامات میں ریفرنس میں نامزد شدہ ) نے بھی ادارہ کے مستقل ملازمین کے اعزازیہ کی فائل اس بات سے مشروط کر کے منظور کی تھی کہ چھ ماہ کا عرصہ ملازمت مکمل نہ ہونے کے باوجود اسے بھی اس کی تنخواہوں کے مساوی اعزازئیے ادا کئے جائیں ۔
لہٰذاء اس بنیاد پر ادارہ میں ڈیپوٹیشن پر تعینات دیگر اعلیٰ افسران ناصرہ پروین خان فنانشل ایڈوائزر، ظفر علی بزدار ڈائریکٹر بی اینڈ سی اسلام آباد ، محمد اعجاز الحق ڈائریکٹر جنرل آپریشنز نارتھ ( جن کے پاس ڈائریکٹر جنرل آپریشنز ساؤتھ کا اضافی چارج بھی ہے)، میاں عثمان علی شاہ، ڈپٹی ڈائریکٹر، پرسنل اسٹاف افسر برائے معاون خصوصی زلفی بخاری ( تنخواہیں اور مراعات ای او بی آئی سے وصول کرتے ہیں اور پرسنل اسٹاف افسر برائے معاون خصوصی زلفی بخاری اسلام آباد میں خدمات انجام دیتے ہیں) عاصم رشید ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس اور جبران حسین اسسٹنٹ ڈائریکٹر ریجنل آفس حسن ابدال ( یہ دونوں بااثر افسران خلاف ضابطہ طور پر وزارت کے دفتر اسلام آباد میں تعینات ہیں لیکن بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات اور جملہ سہولیات ای او بی آئی سے وصول کر رہے ہیں) چیئرمین کے چہیتے افسر اور ڈائریکٹر جنرل آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس حکومت پاکستان سے خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر ای او بی آئی میں تعینات ثاقب حسین، اسسٹنٹ ڈائریکٹر آڈٹ ڈپارٹمنٹ، نے بھی خلاف ضابطہ طور پر دو دو اعزازیئے وصول کئے ۔
اظہر حمید نے اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لئے ای او بی آئی کے ہیڈ آفس میں قائم آڈٹ ڈپارٹمنٹ کا ہی خاتمہ کردیا تھا ۔ تاکہ آڈٹ ڈپارٹمنٹ قوانین کے مطابق ان کی جانب سے کئے گئے غیر قانونی مالی معاملات میں کوئی اعتراض نہ لگا سکے ۔اظہر حمید کے دور میں ای او بی آئی مطلق العنانیت، لاقانونیت اور بے ضابطگیوں کا گڑھ بنا رہا ۔ اس کی ایک مثال ای او بی آئی پنشن تقسیم کرنے والے بینک الفلاح کے معاہدہ کی مدت میں غیر قانونی طور پر ایک برس کا اضافہ اور اربوں روپے کی بھاری رقوم کی عدم واپسی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ ای او بی آئی اور بینک الفلاح کے درمیان آجران سے کنٹری بیوشن کی وصولیابی اور پنشنرز کو پنشن تقسیم کرنے کی غرض سے 3 اگست 2015ء کو پانچ برس کی مدت کے لئے ایک معاہدہ ہوا تھا ۔ جس کے تحت بینک الفلاح کسی بھی ٹرانزیکشن پر ای او بی آئی سے 26 روپے فی کس وصول کرتا ہے ۔ اس معاہدہ کی مدت 2 اگست2020ء میں ختم ہوچکی ہے ۔
لیکن چیئرمین اظہر حمید نے پس پردہ مقاصد کے تحت کووڈ19 کی آڑ میں پیپرا قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بینک الفلاح کے معاہدہ کی مدت میں ایک برس کا اضافہ کردیا تھا ۔ جس کے منفی نتائج اب بینک الفلاح کی جانب سے بزرگ پنشنرز کے لئے دن بدن بڑھتی ہوئی مشکلات کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔جبکہ ای او بی آئی کی ڈیپوٹیشن اور نااہل انتظامیہ کی غفلت ولاپرواہی سے ہر ماہ بینک الفلاح کو پنشن کی تقسیم کے لئے ادا کی جانے والی بھاری رقوم کی بروقت جانچ پڑتال نہ ہونے کے باعث بینک الفلاح میں ای او بی آئی کی خطیر رقوم بے مقصد پڑی رہ گئی ہیں، جن کی مالیت ڈھائی ارب روپے بتائی جاتی ہے۔ اظہر حمید کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ اسکینڈل سامنے آگیا ہے جس پر موجودہ انتظامیہ نے اس معاملہ کی تحقیقات اور غفلت کے مرتکب ذمہ دار افسران کے تعین کے لئے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے ۔
اب دیکھنا ہوگا کہ اس ماضی کی روایات کی طرح اس تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پر بھی کوئی کارروائی ہوتی ہے یا اسے بھی دفن کردیا جائے گا۔ دوسری جانب جوں جوں ای او بی آئی اور بینک الفلاح کے معاہدہ کی مدت کے خاتمہ کا وقت قریب آرہا ہے ۔ بزرگ پنشنرز کے لئے بینک الفلاح کی کارکردگی انتہائی مایوس کن اور ناقص ہوتی جارہی ہے ۔ ان مسائل میں بزرگ پنشنرز کو مہینے کی پہلی تاریخ کو پنشن کی عدم ادائیگی، نئے اے ٹی ایم کارڈ کے اجراء اور بائیو میٹرک کے لئے بینک برانچوں میں طویل قطاریں اور انتظار، نئے اے ٹی ایم کارڈ کی فراہمی میں غیر معمولی تاخیر اور سب سے بڑھ کر پنشن اے ٹی ایم کارڈ کی ایکٹیویشن کے لئے بینک کی نام نہاد ہیلپ لائن پر بزرگ اور بیمار پنشنرز کو گھنٹوں انتظار کی کوفت اور اس مد میں موبائل فون کے سینکڑوں روپے کے بیلنس کا ضیاع جیسے اہم مسائل کا سامنا ہے ۔ جس کے باعث ہزاروں پنشنرز اپنی پنشن سے محروم ہوگئے ہیں ۔ لیکن اس مسئلہ کو فوری طور پر حل کرنے کے بجائے ای او بی آئی اور بینک الفلاح کی انتظامیہ دونوں اپنی جان چھڑانے کے لئے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں اور اس اہم مسئلہ پر عدم دلچسپی کا مظاہرہ اور چشم پوشی سے کام لے رہے ہیں ۔ جس کے باعث ای او بی آئی کے رجسٹرڈ ہزاروں آجران اور لاکھوں پنشنرز شدید مشکلات کا شکار ہیں ۔
سابق چیئرمین اظہر حمید پر یہ بھی الزام ہے کہ ان کے دور میں محنت کشوں اور پنشنرز کی بھلائی کے لئے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے تعاون سے اشیاء صرف پر 10 فیصد رعایت، ریلوے کرایوں میں خصوصی رعایت اور صاحب فراش پنشنرز کے گھر پر تصدیقی سہولت اور پنشن کی فراہمی جیسے بلند و بانگ دعوے تو بہت کئے گئے تھے، لیکن یہ سب سراب ثابت ہوئے ۔اسی طرح آجران اور اداروں کی رجسٹریشن اور کنٹری بیوشن کی وصولی میں بھی ان کی کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ۔ جس کے باعث ادارہ کو ہر ماہ لاکھوں پنشنرز میں پنشن تقسیم کرنے کے لئے اپنی انوسٹمنٹ انکم سے رقم حاصل کرنا پڑتی ہے ۔ جس سے مستقبل قریب میں ادارہ کے پنشن فنڈ پر بیحد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پس پردہ مقاصد کے تحت ای او بی آئی میں رجسٹرڈ شدہ آجران اور ملازمین کی صحیح تعداد ، ماہانہ کنٹری بیوشن کی وصولیابی، پنشنرز کی کل تعداد اور پنشن کی ماہانہ رقوم کی تقسیم کے درست اعداد وشمار پس پردہ مقاصد کے تحت اسٹیک ہولڈرز اور عوام الناس سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں ۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے تمام سرکاری، نیم سرکاری اور خودمختار اداروں کو اپنے اپنے اداروں کی خدمات، کارکردگی، اجلاسوں کی تفصیلات، منصوبہ جات، اطلاعات اعلانات اور کامیابیوں کو ادارہ کی ویب سائٹ پر آویزاں کرنے کی واضح ہدایات ہیں ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق چیئرمین اظہر حمید نے اپنے سیاہ دور میں اپنے دفتر کو سرکاری مہمان خانہ بنایا ہوا تھا ۔ جہاں ادارہ کے خرچہ پر چیئرمین آفس کے نائب قاصدین سارا سارا دن چیئرمین کے خاص مہمانوں کی خدمت گیری میں مصروف رہتے تھے اوراس دوران ادارہ کے افسران جب بھی اہم فائلیں اور ضروری امور کے لئے چیئرمین سے ملنے جاتے تو ان کا انتہائی چہیتا اسٹاف افسر اور فرنٹ مین محمد نعیم شوکت قائم خانی انہیں ٹہلادیا کرتا تھا ۔ سابق چیئرمین اظہر حمید کا خاص دست راست اور ادارہ میں ڈپٹی چیئرمین کے نام سے مشہور محمد نعیم شوکت قائم خانی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ 2007ء میں محمد نواز نامی ایک کوالیفائیڈ امیدوار کا حق مارکر ای او بی آئی میں بھرتی ہوا تھا ۔ اس کے خلاف 2018-11-26 کو گورنمنٹ آڈیٹرز کی جانب سے سنگین آڈٹ پیرا بھی موجود ہے ۔ جس میں محمد نعیم شوکت قائم خانی کی محمد نواز نامی ایک کوالیفائڈ امیدوار کی جگہ بھرتی کئے جانے اور پھر ترقیوں پر ترقی سے نوازے جانے کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی سفارش کی گئی تھی ۔ لیکن ای او بی آئی کی بدعنوان انتظامیہ نے نعیم شوکت کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی کرنے کے بجائے اسے ادارہ کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا ہے ۔
بتایا جاتا ہے کہ محمد نعیم شوکت قائم خانی ادارہ کا انتہائی جونیئر اور نان کیڈر افسر ہے ۔ جو چیئرمین کی ذاتی سرپرستی میں غیر قانونی طور پر سیکریٹریٹ گروپ کی سیٹ پر قابض ہے ۔ محمد نعیم شوکت قائم خانی کے بااثر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے پاس بیک وقت تین کلیدی عہدے اور لامحدود اختیارات ہیں ۔ جن میں ڈائریکٹر کوآرڈینیشن، ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن اور اسٹاف افسر برائے چیئرمین شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ محمد نعیم شوکت مختلف شعبوں کا فوکل پرسن اور ادارہ کا خودساختہ ترجمان بھی بنا ہوا ہے ۔ سابق چیئرمین اظہر حمید کے دو سالہ دور میں محمد نعیم شوکت قائم خانی اظہر حمید کا دم چھلہ بن کر ادارہ کے تمام غیر قانونی امور میں اظہر حمید کا دست راست اور رازداں رہا ہے اور ماہانہ بھاری ٹی اے ڈی اے اور ہر قسم کی پرکشش مراعات اور سہولیات سے فیضیاب ہوتا رہا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر نیب یا ایف ائی اے محمد نعیم شوکت قائم خانی سے تحقیقات کریں تو انتہائی سنسنی خیز انکشافات سامنے آئیں گے ۔ای او بی آئی کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ ڈیپوٹیشن افسران ای او بی آئی میں بھاری بھاری تنخواہوں اور پرکشش مراعات و سہولیات سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے ہوئے دوپہر میں دفتر آکر سہ پہر میں گھر چلے جاتے ہیں ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ای او بی آئی ہیڈ آفس سمیت ادارہ کے ملک بھر میں قائم کسی بھی ریجنل آفس میں افسران کے لئے یومیہ حاضری اور پابندی وقت پر عملدرآمد نہیں ہوتا ۔ ای او بی آئی ایمپلائیز سروس ریگولیشنز 1980 کے مطابق سوائے چیئرمین کے تمام اعلیٰ افسران اور اسٹاف ملازمین کو دفتر میں موجود حاضری رجسٹر میں یا بائیو میٹرک نظام کے تحت اٹینڈنس مشین پر اپنی حاضری درج کرنا لازم ہے ۔ لیکن اس طریقہ کار پر ادارہ کے ہیڈ آفس سمیت ملک بھر کے تمام بی اینڈ سی دفاتر، ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی دفاتر اور ریجنل آفسوں میں صبح ٹھیک 9 بجے حاضری پر سوائے چھوٹے ملازمین کے کوئی افسر یا اعلیٰ افسر بالکل عمل نہیں کرتا ۔ بلکہ خود کو قانون سے بالا سمجھنے والے بعض اعلیٰ افسران نے تو حاضری کے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مقررہ حاضری سسٹم سے نجات پانے کے لئے حاضری رجسٹر سے اپنے نام تک ختم کرادیئے ہیں ۔ جس کے باعث ای او بی آئی میں افسران کی حاضری، غیر حاضری اور رخصت کے نظام کا خاتمہ ہونے سے افسران کی حاضری اور رخصت کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے ۔
ادارہ میں افسران کے مقابلہ میں صرف اور صرف اسٹاف ملازمین کی حاضری پر زور دیا جاتا ہے اور اکثر اس مسئلہ پر انہی چھوٹے ملازمین کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے ۔ اس صورتحال کے باعث ادارہ کے دفاتر میں روزانہ حاضری کے مسئلہ پر تنازعات پیدا ہوتے ہیں ۔ ای او بی آئی میں حاضری سسٹم کے خاتمہ کے باعث پورے ادارہ کا نظم و نسق تباہ ہوچکا ہے ۔ جس کی وجہ سے ادارہ کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ شازیہ رضوی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی سربراہی میں ای او بی آئی کی شتر بے مہار انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور نااہلی کے باعث ادارہ بیشتر افسران میں بلا منظوری رخصت اور آؤٹ اسٹیشن چلے جانے کا رحجان پایا جاتا ہے اور یہ افسران رخصت کے دوران بھی حاضر ڈیوٹی تصور کئے جاتے ہیں اور رخصت گزارنے کے بعد ایک ساتھ ہی ساری حاضریاں لگالیتے ہیں ۔
لہٰذاء ادارہ کے بااثر اعلیٰ افسران دفتر آئے بغیر اور بلا کوئی کام انجام دیئے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے مال مفت دل بے رحم کی طرح بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات وصول کر رہے ہیں۔ ان سہولیات کے حصول میں ایک متنازعہ خاتون افسر میڈم نزہت اقبال ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ پیش پیش ہے ۔ جس کی تعلیمی قابلیت ایم اے اردو اور کراچی کی مستقل باشندہ ہونے کے باوجود سندھ دیہی ( ضلع دادو) کے ڈومیسائل پر ملازمت کر رہی ہے ۔ سندھ اسمال انڈسٹریز کارپوریشن کراچی کی سابقہ ملازمہ کا زیادہ تر وقت ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کے کمرے میں گپ شپ کرتے ہوئے اور ساتھی افسران کی چغل خوریوں میں گزرتا ہے ۔ خاتون افسر نزہت اقبال ڈائریکٹر جنرل شازیہ رضوی کی مکمل آشیر باد سے گھر بیٹھے ای او بی آئی سے بھاری تنخواہوں اور پرکشش مراعات کا وظیفہ حاصل کررہی ہے ۔ اسی طرح 2014ء میں بغیر کسی تجربہ اور انٹرویو بھرتی ہونے والی خواتین افسران رابیل اعوان اسسٹنٹ ڈائریکٹر چیئرمین آفس اور مسمات جنت ناریجو اسسٹنٹ ڈائریکٹر فنانس ڈپارٹمنٹ، سمیہ نور قریشی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ریجنل آفس ویسٹ وہارف اور دیگر نے بھی ادارہ کو اپنا میکہ تصور کیا ہوا ہے جو آئے دن مختلف بہانوں سے دیر ڈیوٹی پر آتی ہیں اور مقررہ وقت سے پہلے ہی چلی جاتی ہیں اور آئے دن مختلف بہانوں سے ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتی ہیں ۔
جبکہ ادارہ کی پرانی خواتین اسٹاف ملازمین اپنی کم تنخواہوں اور سہولیات کی کمی کے باوجود صبر اور قناعت کرتے ہوئے جانفشانی سے خدمات انجام دے رہی ہیں ۔غریب محنت کشوں کی پنشن کے محکمہ کا عالم یہ ہے کہ ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر تعینات اعلیٰ افسران دفتری امور انجام دینے کے بجائے اپنے دفاتر میں اپنے ذاتی امور نمٹانے اور مہمان داریوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ سابق چیئرمین اظہر حمید نے پس پردہ مقاصد کے تحت اپنی تمام دفتری ذمہ داریاں ایک نان کیڈر اور انتہائی جونیئر افسر محمد نعیم شوکت قائم خانی ڈائریکٹر کوآرڈینیشن کو سونپ رکھی تھیں اور اسی طرح خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات خاتون اعلیٰ افسر شازیہ رضوی، ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ جس کے پاس اس وقت قائم مقام چیئرمین کے عہدہ کا چارج بھی ہے ، نے بھی اپنی جان چھڑانے کے لئے اپنی تمام تر دفتری ذمہ داریاں ایک اور نان کیڈر اور انتہائی جونیئر جی حضوری افسر طاہر صدیق عرف طاہر صدیق چوہدری اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے سپرد کر رکھی ہیں ۔ جسے نوازنے کے لئے اسے بیک وقت پانچ عہدوں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ، اسٹاف افسر برائے ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ، انضباطی کارروائی، ٹرانسفر اینڈ پوسٹنگ، ٹریننگ کے چارج دیئے گئے ہیں ۔
جس کے باعث محمد نعیم شوکت قائم خانی اور طاہر صدیق جیسے انتہائی جونیئر اور چہیتے افسران اپنی دو ٹکے کی اوقات بھول کر ادارہ کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے ہیں اور لامحدود اختیارات استعمال کرتے ہوئے ادارہ کے افسران اور اسٹاف ملازمین کی قسمتوں کے فیصلے کر رہے ہیں اور ادارہ کے 25 اور 30 برسوں کی ملازمت کے حامل سینئر افسران ان دونوں افسران کے سامنے بالکل بے بس نظر آتے ہیں ۔
اگر کسی دیانتدار اور باضمیر سینئر افسر کی جانب سے ان دونوں جونیئر اور چہیتے افسران کی لاقانونیت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے متعلق ذرا سی بھی مزاحمت اور چوں چرا کی جائے تو اس افسر کو بطور سزا دور دراز علاقوں میں تبادلہ، انضباطی کارروائی اور اس کی جائز ترقی روک کر اسے دیگر افسران کے لئے نشان عبرت بنادیا جاتا ہے۔ادارہ میں اس غیر منصفانہ اور مایوس کن صورت حال کے باعث ای او بی آئی میں فرض شناسی، دیانتداری اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے افسران اور اسٹاف ملازمین کے لئے ملازمت کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ لیکن خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات یہ تمام اعلیٰ افسران ادارہ کی انتہائی زبوں حالی کے باوجود کسی بات کی پرواہ کئے بغیر اپنی بھر کم تنخواہوں اور ہر قسم کی پرکشش مراعات و سہولیات سے فیضیاب ہونے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں مصروف ہیں ۔
سابق چیئرمین اظہر حمید کے سیاہ ترین دور میں ای او بی آئی کی اس ابتر صورتحال کے باعث ای او بی آئی کے مستقل ملازمین اپنے2017ء کے نظر ثانی شدہ پے اسکیلوں اور وفاقی حکومت کی جانب سے 2017-18 ، 2018-19 اور 2019-20 کے سالانہ بجٹ کے موقع پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافوں اور ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی واضح منظوری کے باوجود محروم ہیں اور تنخواہوں میں اضافہ کا یہ اہم معاملہ کئی برسوں سے ای او بی آئی کی ڈیپوٹیشن انتظامیہ کی بے حسی اور لاپرواہی کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے ۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ سابق چیئرمین اظہر حمید سمیت تمام ڈیپوٹیشن افسران اپنی تنخواہوں میں بذات خود اضافہ کرکے اضافہ شدہ تنخواہوں اور پر کشش مراعات سے فیضیاب ہورہے ہیں لیکن ادارہ کے مستقل ملازمین مسلسل محروم چلے آرہے ہیں ۔
اس سنگین ناانصافی کے باعث ادارہ کے اسٹاف ملازمین میں سخت احساس محرومی اور غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔ اسی طرح ای او بی آئی کے اپنے سینکڑوں پنشنرز اور بیوائیں بھی گزشتہ پانچ برسوں سے اپنی نظر ثانی شدہ پنشن اور میڈیکل سہولیات سے محروم چلے آرہے ہیں ۔اس کے علاوہ ادارہ کے دوران ملازمت وفات پاجانے والے ملازمین کے گروپ انشورنس کی فائلیں کئی ماہ سے التواء ہیں پڑی ہیں اور گزشتہ دنوں کووڈ19 کے باعث دوران ملازمت وفات پاجانے والے کئی ملازمین کے لواحقین گروپ انشورنس کے معاوضہ کے لئے ہیڈ آفس کے چکر لگا لگا کے عاجز آ چکے ہیں ۔ لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ اسی طرح وزیراعظم کے امدادی فیملی پیکج کے مطابق اور ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز سے متفقہ منظوری کے باوجود ادارہ کے دوران ملازمت انتقال کرجانے والے 50 متوفی ملازمین کے 50 یتیم بچوں کی تقرریوں کا معاملہ بھی طویل عرصہ سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے ۔
اس انسانی مسئلہ میں بھی ای او بی آئی کی ڈیپوٹیشن انتظامیہ مختلف بہانوں سے روڑے اٹکانے میں مصروف ہے اور ادارہ کے اپنی موت سے غافل سنگدل اور کٹھور اعلیٰ افسر ان مجبور یتیموں پر ترس کھانے کو تیار نہیں ہیں ۔ جس کے باعث ادارہ کے مرحوم ملازمین کے غریب اور کمزور لواحقین شدید کسمپرسی اور بدتر حالات کا شکار ہیں اور بعض گھرانوں میں تو فاقہ کشی تک کی نوبت آچکی ہے ۔اسی طرح سابق چیئرمین اظہر حمید کے چہیتے اور فرنٹ مین نان کیڈر اور جونیئر افسر محمد نعیم شوکت قائم خانی جس کے پاس جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کا دوہرا چارج بھی ہے کی عدم دلچسپی کے باعث ملازمین کے ماہانہ میڈیکل الاؤنس کی جان بوجھ کر بہت ہی تاخیر سے ادائیگی کی جاتی ہے جبکہ محمد نعیم شوکت بذات خود اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ادارہ کے منظور شدہ پینل پر نہ ہونے کے باوجود اپنا اور فیملی کا علاج و معالجہ باقاعدگی سے آغا خان اسپتال سے کراتا ہے اس کے برعکس محمد نعیم شوکت نے بورڈ آف ٹرسٹیز کی منظوری کے باوجود ادارہ کے افسران اور اسٹاف ملازمین کے بوڑھے اور بیمار والدین کے اسپتالوں میں داخلے اور علاج و معالجہ پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن محمد نعیم شوکت قائم خانی بااثر و طاقتور افسر ہونے کے باعث اس کے اپنے ہزاروں روپے ماہانہ کے میڈیکل بلز کی ادائیگی فوری طور پر کر دی جاتی ہے ۔
اسی طرح ای او بی آئی کو مختلف شعبوں میں خدمات فراہم کرنے والے مختلف ٹھیکیداروں اور اداروں کے بلز بھی کئی کئی ماہ سے ادا نہیں کئے گئے ہیں ۔ لیکن اس کے برعکس چیئرمین سمیت تمام ڈیپوٹیشن افسران کے انٹرٹینمنٹ، پٹرول، گاڑیوں کی مرمت ، بھاری میڈیکل بلز، ٹی اے ڈی اے کی ہاتھوں ہاتھ ادائیگی کردی جاتی ہے ۔ انتظامیہ کے اس امتیازی سلوک کے باعث ادارہ کے سینکڑوں مستقل ملازمین میں بھی سخت احساس محرومی اور بے چینی پائی جاتی ہے ۔ ای او بی آئی ہیڈ آفس میں قابض نااہل ڈیپوٹیشن اور جونیئر افسران پر مشتمل انتظامیہ کے ہاتھوں پیدا شدہ اس گھمبیر صورتحال کے باعث ای او بی آئی کے ملک بھر میں قائم ریجنل آفسوں کی کارکردگی بھی دن بدن متاثر ہو رہی ہے ۔ جہاں قلیل افرادی قوت، وسائل کی کمی اور بعض نا اہل اور راشی ریجنل ہیڈز کی غفلت اور چشم پوشی کے باعث ہزاروں بیمہ شدہ بوڑھے، معذور اور پردہ نشین بیوگان کئی کئی ماہ سے اپنی پنشن کے حصول کے لئے دھکے کھانے پر مجبور ہیں ۔
ای او بی آئی کی نا اہل انتظامیہ کی غفلت کے باعث ادارہ کے بعض ریجنل ہیڈز نے ریاست کے اندر اپنی خودساختہ ریاست قائم کر رکھی ہے ۔ ای او بی آئی کا اپنا کمپیوٹرائزڈ سسٹم ہونے اور اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھانے کے بجائے یہ افسران پنشن کی منظوری کے لئے بیمہ شدہ بزرگوں، معذوروں اور بیوگان سے غیر ضروری طور پر درخواست، تصدیق شدہ دستاویزات ملازمتی سروس ریکارڈ، قومی شناختی کارڈ، بیوی کا قومی شناختی کارڈ، کئی تصاویر، بیوی کی تصاویر، حلف نامہ، نکاح نامہ، فارم PR-02A، ہمسایوں کے قومی شناختی کارڈ، آجران سے تصدیق طلب کئے جاتے ہیں ۔ جس کی فراہمی اس کمزور طبقہ کی دسترس سے باہر ہے ۔اصولی طور پر جب کوئی بیمہ شدہ فرد پنشن کی عمر کو پہنچ جائے تو ای او بی آئی اسے مطلع کرکے اور اس کی پنشن کا کیس وقت مقررہ میں تیار کرنے کی پابند ہے ۔
اس صورت حال کے باعث ای او بی آئی کے ریجنل آفسوں میں پنشن درخواستوں کی فائلوں کے انبار پر انبار لگے ہوئے ہیں ۔ لیکن ان بیمہ شدہ ملازمین کے چندہ (Contribution) پر پلنے والے ای او بی آئی کے بے رحم اور سنگدل افسران اپنے ٹھنڈے کمروں میں چین کی بانسری بجا رہے ہیں اور جن بزرگ ملازمین کی پنشن کے لئے ای او بی آئی کا ادارہ قائم کیا گیا تھا وہ سخت گرمی کے عالم میں ان کے دفاتر کے باہر بے یار و مددگار قطاریں لگائے کھڑے نظر آتے ہیں ۔
ای او بی آئی کے ملازمین اور پنشنرز نے وفاقی حکومت سے مشترکہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ ای او بی آئی کے سابق نااہل اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کی مایوس کن ناقص کارکردگی، کرپشن اور ان کے سیاہ کارناموں کے باوجود اگر وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری ای او بی آئی کو کروڑوں روپے کا چونا لگانے والے اس بدعنوان اور نااہل افسر اظہر حمید کو چیئرمین ای او بی آئی کی گدی پر دوبارہ بٹھانے کے خواہشمند ہیں تو خدشہ ہے کہ ملک کے غریب محنت کشوں کی پنشن کا یہ قومی فلاحی ادارہ بھی شدید بدانتظامی اور بڑے پیمانے پر کرپشن کے باعث دیوالیہ ہونے والے ملک کے دیگر قومی اداروں کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے ۔
جس کا سراسر خمیازہ ملک کے لاکھوں بیمہ شدہ بزرگ، معذور ملازمین اور متوفی ملازمین کی بے سہارا بیواؤں کو بھگتنا پڑے گا۔