کراچی (رپورٹ : طاہر تنولی )انسانیت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والے مشہور سماجی کارکن عالمی شہرت یافتہ سماجی رہنماء عبدالستار ایدھی کی پانچویں برسی آج 8 جولائی کو منائی جائے گی۔
اس دن کی مناسبت سے ملک بھر میں تقریبات کا انعقادہوگا اورسپرہائی وے پران کی مرقد پرفاتحہ خوانی کی جائے جبکہ ایدھی فائونڈیشن سے وابستہ ورکرز اور ذمہ داران ان کی قبرپرحاضری دیں گے اور فاتحہ خوانی کریں گے۔
عبدالستارایدھی28 فروری 1928کو بھارتی ریاست گجرات کے علاقے بانٹوا میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد1947 میں اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آکر کراچی میں سکونت اختیار کی۔ انسانی خدمت کے کام کو انہوں نے اتنی وسعت دی کہ ان کی فاؤنڈیشن کے400 سے زائد مراکز کام کررہے ہیں۔
ایدھی فائونڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس گردانی جاتی ہے جو پاکستان کے ہر شہر میں لوگوں کی خدمت میں مصروف ہے، اسی بناءپر عبدالستار ایدھی کو1997 میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کے طور پر شامل کیا گیا۔ اسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فائونڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کیلئے گھر، بلڈ بینک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور اسکول کھولے۔
پاکستان کے علاوہ ایدھی فائونڈیشن دنیا کے دیگر کئی ممالک میں بھی دکھی انسانیت کی خدمت سرانجام دے رہی ہے۔1980 کی دہائی میں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز سے نوازا جب کہ پاک فوج نے انہیں شیلڈ آف آنر کا اعزاز دیا جب کہ 1992 میں حکومت سندھ نے انہیں سوشل ورکر آف سب کونٹی ننیٹ کا اعزاز دیا۔بین الاقوامی سطح پر 1986 میں عبدالستار ایدھی کو فلپائن نے رومن میگسے ایوارڈ دیا اور 1993 میں روٹری انٹرنیشنل ایدھی فائونڈیشن کی جانب سے انہیں پاول ہیرس فیلو دیا گیا۔
عبدالستار ایدھی گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے اور علالت کے باعث 8 جولائی 2016 کو 87 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے۔عبدالستار ایدھی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔حکومت پاکستان نے انہیں بعد از مرگ نشانِ امتیاز سے بھی نوازا اور عظیم شخصیت کے اعزاز میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 50 روپے مالیت کا سکہ بھی جاری کیا۔
عبد الستار ایدھی نے اپنی زندگی میں تقریبا 2 ہزار سے زائد تعفن زدہ لاشیں اپنے ہاتھوں سے اٹھائیں اور ان کی تدفین مکمل طریقے سے کرتے رہے۔وہ ساری زندگی مردوں کے کپڑے کا لباس پہنتے رہے یہاں تک کہ وہ جوتے بھی مردوں کے استعمال کرتے تھے،عام طور پر مرنے والے شخص کی چیزیں لواحقین استعمال نہیں کرتے تھے لیکن عبد الستار ایدھی وہ واحد شخص تھے جنہوں نے اس روایت کو توڑ دیا کہ مرنے والے کی اشیاء استعمال کرنا نحوست کا سبب ہے۔