خصوصی رپورٹ : طاہر تنولی


وزیر 20 ہزار روپے جو کم از کم تنخواہ ہے اس میں 4 افراد کے کنبے کا ایک ماہ کا بجٹ بنا کر دکھائے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ تو ہوا ہے مگر نجی شعبہ کے ملازمین اور کاروباری حالات کسمپرسی کا شکار ہیں


نئے مالی سال کا بجٹ یکم جولائی کو لاگو ہونے کے بعد اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اخبارات میں چھپنے والی خبروں اور بازار میں جانے والے شہری اشیاء خورونوش اور ضروریہ کی خرید کرتے وقت پریشان ہو جاتے ہیں کہ وہ اب کس طرح زندگی گزاریں گے، کس طرح اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھریں گے۔

کس طرح بجلی گیس اور پانی کے بل ادا کریں گے۔ کس طرح دیگر ضروریات کے لئے رقم لا سکیں گے اور زندگی میں کیا کوئی سہولت بھی میسر ہو گی یا نہیں۔

بجٹ میں حکومت نے 6سو سے زائد درآمدی اشیاء جن میں بیشتر اشیاء کھانے پینے سے متعلق ہیں موجود ٹیکسوں کے ساتھ 2 فیصد سے 90 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ کر دی ہے جس کے اثرات چند دنوں بعد پورے ملک میں پڑیں گے اور مہنگائی کا ایک اور سونامی قوم کی پریشانیوں میں اضافہ کرے گا۔ پہلے مرحلے میں گھی اور کوکنگ آئل کمپنیوں نے گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ تھوک مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اور فی کلو قیمت ایک سو روپے سے بڑھ گئی ہے۔

چینی کی 50 کلو کی بوری 4700 روپے سے بڑھ کر 5 ہزار روپے کی ہو گئی ہے۔ درجہ اول گھی کی قیمتوں میں 38 روپے فی کلو اضافہ کر دیا گیا ہے۔ درجہ دوم گھی کی قیمت میں 15 روپے فی کلو اضافہ ہو گیا ہے ملک میں مہنگائی کی شرح میں گزشتہ 20 دن کے دوران 0.28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 14.52 فیصد ہو گئی ہے۔ بجٹ کے بعد بسکٹ بھی مہنگے ہو گئے ہیں۔ 20 روپے والے بسکٹ کی قیمت میں بھی 5 روپے اضافہ کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے چینی پر عائد سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی ہے جس کے بعد تیزی سے اس کی قیمت میں اضافے کا رجحان ہے۔ چینی پر اب سیلز ٹیکس مارکیٹ ریٹ پر عائد ہو گا اور چینی کے سیلز ٹیکس پر 2016 میں دی گئی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے اس حوالے سے وزارت خزانہ نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ حکومت نے موبائل فون پر بھی ریگولیٹری عائد کر دی ہے جس کے نتیجے میں موبائل فون کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔ ریگولیٹری ڈیوٹی کے حوالے سے وزارت خزانہ نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے اور ترمیمی کسٹم کوڈ جاری کر دیا گیا ہے۔

اب موبائل سیٹوں پر 300 روپے سے لے کر 22000 روپے ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہو گئی ہے۔ گھی کی قیمتوں میں اضافہ پر مسابقتی کمیشن نے نوٹس لے کر گھی کمپنیوں کی سرچ انسپکشن کی اور دستاویزات قبضہ میں لے لیں۔ مسابقتی کمیشن نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں پاکستان بناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے دفاتر کی سرچ انسپکشن کی۔ کمیشن کے مجاز افسروں کی تین ٹیموں نے پی وی ایم اے کے دفاتر سے اہم دستاویزات قبضہ میں لے لیں۔ بجٹ میں حکومت نے گاڑیوں کی قیمت تو کم کر دی ہے لیکن نئے ٹیکسوں کے اطلاق، ریگولیٹری ڈیوٹی کے لاگو کرنے اور سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم ہونے سے عوام مہنگائی کے عذاب کو بھگتنے پر مجبور ہیں۔

اس حوالے سے اہم امر یہ بھی ہے کہ ابھی تک بجٹ میں عائد ہونے والے ٹیکسوں کا عمل درآمد پوری طرح لاگو بھی نہیں ہوا اور مہنگائی کا بہت شدید جھٹکا عوام کو پریشان کر رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں عوام مہنگائی کے عذاب اور لوڈشیڈنگ کے قہر سے نبردآزما ہیں۔ بجٹ میں حکومت نے جس طرح سے ہر شے پر ٹیکس لگایا ہے مختلف اشیاء پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کی ہے اور ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے اس سے آنے والے دنوں میں مہنگائی کا خوفناک جن سامنے آ جائے گا۔ بجٹ کے لاگو ہونے کے دوسرے ہفتے میں ہی عوام کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئی ہیں۔ یہ پہلا بجٹ ہے جس میں قومی بچت کی بعض سکیموں کے منافع پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں گزشتہ تین ہفتوں سے خوفناک لوڈشیڈنگ دیکھنے میں آئی۔ اس لوڈشیڈنگ کی اصل وجہ ملک میں بروقت ایل این جی کی درآمد نہ کرنا تھی جس کی وجہ سے ساڑھے چھ ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کی وجہ سے ساڑھے 3 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کم ہونے سے پورے ملک میں لوڈشیڈنگ کرنا پڑی۔

وزیر توانائی حماد اظہر نے اعلان کیا تھا کہ 5 جولائی کے بعد بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی مگر اب یہ کہا جا رہا ہے کہ بجلی کی طلب میں اضافہ ہو چکا ہے اور سسٹم پر لوڈ بڑھنے سے مختلف شہروں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا جس نے شہریوں کے لئے اس شدید ترین گرمی اور حبس میں بجلی کی بندش نے زندگی عذاب بنا دی ہے۔ لاہور میں این ٹی ڈی سی 500 کے وی اور شیخوپورہ 220 کے وی راوی گرڈ پر اوورلوڈ کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کی جاتی رہی۔ جس کی وجہ سے شمالی لاہور اور اندرون لاہور کے شہری شدید مشکلات کا شکار اور اذیت میں مبتلا رہے۔ لیسکو کی طلب 4600 میگاواٹ سے بڑھ گئی اور نیشنل گرڈ سے لیسکو کو 44 سو میگاواٹ بجلی فراہم کی جا رہی تھی اور لیسکو کو 200 میگاواٹ شارٹ فال کا سامنا تھا۔ سسٹم اوورلوڈ ہونے سے ٹرپنگ اور بار بار بندش کا سلسلہ شہریوں کے لئے عذاب بنا رہا۔ ساہیوال اور پشاور میں بھی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہوتی رہی۔ اس حوالے سے بجلی کے متعلقہ ادارے عوام کو کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے رہے۔

حکومت کا اس حوالے سے طرز عمل غیرتسلی بخش ہے۔ حکومت نے بجٹ میں جس طرح ٹیکس عائد کئے ہیں اس نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔ حکومت پٹرولیم مصنوعات، آٹے، چینی اور گھی کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ بجلی اور سوئی گیس کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ ہو چکا ہے جس سے مختلف اشیاء کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو گیا ہے اس صورت میں مہنگائی کیسے کم کی جا سکتی ہے اسی طرح اشیاء کی مہنگی تیاری سے برآمدات میں اضافہ ممکن نہیں جس سے معیشت پر مزید منفی اثر پڑے گا۔ حکومت کی معاشی ٹیم صرف سابقہ حکومتوں کو موردالزام ٹھہرانے کے کوئی کام نہیں کر رہی وہ پالیسی کب بنے گی جس سے مہنگائی پر قابو پایا جا سکے۔

کوئی وزیر 20 ہزار روپے جو کم از کم تنخواہ ہے اس میں 4 افراد کے کنبے کا ایک ماہ کا بجٹ بنا کر دکھائے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ تو ہوا ہے مگر نجی شعبہ کے ملازمین اور کاروباری حالات کسمپرسی کا شکار ہیں۔ وہ کہاں جائیں۔ نجی شعبہ میں روزگار نکل رہا ہے نہ تنخواہیں بڑھ رہی ہیں۔ مہنگائی نے جینا حرام کر رکھا ہے۔ عوام کی ان پریشانیوں کا حل کون دے گا۔ ان کو کون حل کرے گا؟۔

Leave a Reply