خصوصی رپورٹ طاہر تنولی

انتہائی لاڈلے افسر جبران حسین کیس میں ناتجربہ کار انتظامیہ بوکھلاہٹ کا شکار، 12 گھنٹے میں دو متضاد نوٹیفیکیشن جاری کر دیئے۔

وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان کے ذیلی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن EOBI میں لاڈلے افسران کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے ۔

ای او بی آئی میں کلیدی عہدوں پر خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات ناتجربہ کار اور نااہل قائم مقام چیئرمین و ڈائریکٹر جنرل ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ شازیہ رضوی کی غفلت و لاپرواہی کے باعث ادارہ کا ایچ آر جیسا اہم ڈپارٹمنٹ ایک تماشہ بنا ہوا ہے ۔

جس کی مثال ای او بی آئی کے ایک انتہائی لاڈلے افسر جبران حسین اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز کو چند مخفی مالی فوائد پہنچانے کی غرض سے صرف 12 گھنٹے کی مدت میں یکے بعد دیگرے دو نوٹیفیکیشن جاری کردیئے گئے ۔

تفصیلات کے مطابق 2014 میں ادارہ میں بلا کسی تجربہ اور انٹرویو بھرتی ہونے والے ایک انتہائی بااثر جبران حسین پی نمبر 929715 اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز ریجنل آفس حسن ابدال کو خلاف ضابطہ طور پر ایک بھاری سفارش کی بدولت نوٹیفیکیشن نمبر 09/2019 بتاریخ 9 جنوری 2019 کو وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل اسلام آباد میں سیکشن افسر (EOBI) تعینات کیا گیا تھا ۔

جہاں اس سے قبل ای او بی آئی کا ایک اور انتہائی بااثر افسر عاصم رشید ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس ایک وفاقی وزیر کی سفارش پر بطور سیکشن افسر (EOBI) تعینات تھا ۔ اسی دوران جبران حسین بھی ایک بھاری بھرکم سفارش کی بدولت اپنی تقرری وزارت کے اسلام آباد آفس میں کرانے میں کامیاب ہوگیا تھا ۔

جبران حسین کا اصل آفس آرڈر نمبر 09/2019 بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز ریجنل آفس حسن ابدال

اس صورتحال کے پیش نظر وزارت کے اعلیٰ حکام نے دونوں بااثر افسران کو بیک وقت وزارت میں کھپانے کے لئے ایک لاڈلے افسر جبران حسین کو سیکشن افسر برائے EOBI اور دوسرے لاڈلے افسر عاصم رشید کو سیکشن افسر برائے ILO تعینات کر دیا ۔

ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس میں تعینات قائم مقام ڈائریکٹر نزہت اقبال کی جانب سے 8 جولائی کو اچانک جبران حسین کی تعیناتی کے 2019 کے نوٹیفیکیشن میں ترمیم کی غرض سے ایک ترمیمی نوٹیفیکیشن نمبر 181/2021 مجریہ نمبر HO/HR/TP/2021/1067 جاری کردیا گیا ۔جس کے مطابق جبران حسین کی وزارت میں تقرری کے موقع پر اس کی تقرری کو ریجنل آفس حسن ابدال کے بجائے بی اینڈ سی آفس اسلام آباد پڑھا جائے ۔

جبران حسین اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز کی جانب سے پی ایچ ڈی ڈگری الاؤنس کے لئے درخواست کا عکس

یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ نوٹیفیکیشن جاری کرنے والی خاتون افسر نزہت اقبال حکومت سندھ کے محکمہ سندھ اسمال انڈسٹریز کارپوریشن کی سابق ملازمہ تھی۔ جو ای او بی آئی کے افسر کے عہدہ کے لئے مطلوبہ تعلیمی قابلیت، تجربہ نہ ہونے اور مشکوک ڈومیسائل کے باوجود 1994 میں ایک بھاری سفارش پر ای او بی آئی میں بھرتی ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ یہ خاتون افسر دفتری امور نوٹنگ ڈرافٹنگ سے قطعی نابلد ہے اور اس سلسلہ میں اسے متعدد انتباہی میمو بھی جاری ہوچکے ہیں۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق نزہت اقبال ادارہ کے افسران کے اگلے گریڈ میں ترقی کے لئے ،2017 میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ (PIM) کراچی میں منعقدہ ٹریننگ کورسز میں بری طرح فیل ہوجانے اور ترقی کے لئے نااہل ہوجانے کے باوجود ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے چند افسران کی خصوصی مہربانی سے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدہ پر ترقی پانے میں کامیاب ہو گئی تھی ۔ موجودہ قائم مقام چیئرمین شازیہ رضوی بھی نزہت اقبال پر بہت مہربان ہیں اور ان کی خصوصی دلچسپی کے باعث حال ہی میں ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے چند سینئر افسران کو نظر انداز کرکے نزہت اقبال قائم مقام ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ جیسے اہم منصب پر فائز کردیا گیا ہے ۔ اسے اداری کی جانب سے سوزوکی کلٹس گاڑی معہ پٹرول اور دیگر پرکشش مراعات بھی فراہم کی گئی ہیں اس کے باوجود وہ آئے دن مختلف بہانوں سے یا تو دفتر سے غیر حاضر رہتی ہے یا تاخیر سے آکر جلدی چلی جاتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ نزہت اقبال کو دی گئی ادارہ کی سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑی اس کے بچوں کے استعمال میں ہے اور پچھلے دنوں اس کی صاحبزادی گاڑی راستہ میں خراب ہونے پر گلستان جوہر میں سڑک پر لاوارث چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔

ابھی اس نوٹیفیکیشن کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ مورخہ 9 جولائی کو ایک اور نرالے اور متنازعہ افسر خالد نواز ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے دستخطوں سے ایک اور نوٹیفیکیشن نمبر 187/2021 جاری کرکے 8 جولائی کا نوٹیفیکیشن واپس لے لیا گیا ۔ جس کی کوئی توجیہہ بیان نہیں کی گئی۔

جبران حسین کی فلسفہ کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کا عکس

ذرائع کا کہنا ہے کہ عجلت میں جاری کئے گئے ان دونوں نوٹیفیکیشن کا مقصد بااثر افسر جبران حسین کو پچھلی تاریخوں سے 10 فیصد ہیڈ آفس الاؤنس دلانا مقصود ہے ۔ جس کا اطلاق بی اینڈ سی آفسوں میں تعینات ملازمین پر تو ہوتا ہے لیکن ریجنل آفسوں میں تعینات ملازمین پر نہیں ہوتا ۔

واضح رہے کہ نزہت اقبال کی طرح اوسط درجہ کے افسر خالد نواز کو بھی سینئر افسران کو نظر کرکے ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ریجنل آفس ایبٹ آباد سے ہیڈ آفس بلاکر نا صرف ڈائریکٹر کے عہدہ پر ترقی دی گئی بلکہ ان کی متنازعہ ایم بی اے ڈگری کی بنیاد پر خلاف ضابطہ طور پر گزشتہ کئی برسوں کے لاکھوں روپے پر مشتمل بقایا جات بھی ادا کئے گئے۔ ترقی پر ترقی اور لاکھوں بٹورنے والے افسر خالد نواز کو ڈائریکٹر کے عہدہ پر ایک برس کی آزمائشی مدت مکمل نہ کرنے کے باوجود شازیہ رضوی کی خصوصی دلچسپی سے اسے قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ پر بھی فائز کردیا گیا ۔

تاکہ وہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ کی لا محدود پرکشش مراعات سے پوری طرح فیضیاب ہو سکے ۔

لیکن خالد نواز اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت اور ادارہ کے ملازمین پر رعب جمانے کے لئے ادارہ کی سرکاری دستاویزات میں خود کو قائم مقام کے بجائے مکمل ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ظاہر کرتا ہے ۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جبران حسین نے ادارہ سے ضابطہ کے مطابق بلا پیشگی اجازت اور تعلیمی رخصت لئے بغیر بیرون ملک ملائشیاء کی ایک غیر معروف نجی یونیورسٹی، الٹرا یونیورسٹی، ملائشیاء سے فلسفہ کے مضمون میں آن لائن پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی کر لی ہے ۔

مروجہ طریقہ کار کے مطابق ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے اس پی ایچ ڈی کی ڈگری کے باقاعدہ تصدیقی عمل نہ ہونے کے باوجود جبران حسین نا صرف سرکاری خطوط میں خود کو ڈاکٹر لکھ رہا ہے بلکہ ادارہ سے 15000 روپے ماہانہ پی ایچ ڈی الاؤنس بھی حاصل کررہا ہے ۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی میں تدریسی فرائض بھی انجام دے رہا ہے ۔

اگرچہ جبران حسین کی فلسفہ کی ڈگری سے ای او بی آئی کو تو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچے گا لیکن اس مشکوک ڈگری کی بدولت جبران حسین اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں کوشاں ہے ۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ای او بی آئی کے ملازم جبران حسین کی وزارت میں خلاف ضابطہ تعیناتی ای او بی آئی اور وزارت کے درمیان مفادات کے ٹکراؤ کے مترادف ہے ۔

بتایا جاتا ہے کہ ای او بی آئی کےمبینہ طور پر کرپٹ اور نااہل سابق چیئرمین اظہر حمید کو بعد از ریٹائرمنٹ خلاف ضابطہ طور پر دوبارہ ای او بی آئی کا تین سال کے لئے چیئرمین تعینات کرانے کے لئے سب سے زیادہ فعال کردار جبران حسین نے ادا کیا تھا ۔

جبران حسین نےاپنے پس پردہ مقاصد کے تحت اپنے سرپرست اظہر حمید کی خلاف ضابطہ تعیناتی کو یقینی بنانے کے لئے ان کی تعلیمی قابلیت، عمر کی حد اور تجربہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دو غیر معروف اخبارات میں اشتہار کی اشاعت سے لے کر صرف پسندیدہ امیدواروں کےانٹرویو کال لیٹرز تک جاری کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا ۔

بتایا جاتا ہے کہ جبران حسین سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی میں تدریسی فرائض بھی انجام دے رہا ہے ۔

واضح رہے کہ ای او بی آئی کے یہ دونوں بااثر افسران عاصم رشید اور جبران حسین خدمات تو وزارت میں انجام دے رہے ہیں لیکن تنخواہیں اور پرکشش مراعات اور میڈیکل سہولیات،اعزازیئے سمیت دیگر سہولیات ای او بی آئی سے حاصل کررہے ہیں ۔

لیکن وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کے راولپنڈی رنگ روڈ کیس میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت مستعفی ہوجانے اور وزارت کے نئے سیکرٹری عشرت علی کی تعیناتی اور ان کی جانب سے اس معاملہ کی سخت مخالفت کے بعد سابق چیئرمین اظہر حمید کی ای او بی آئی میں کنٹریکٹ پر مزید 3 برس تعیناتی کے امکانات ختم ہونے سے جبران حسین سمیت اظہر حمید کے ان کے چہیتے افسران کا سارا منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا ہے اور ان میں سخت مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس وقت ای او بی آئی جیسا وفاقی فلاحی محکمہ شدید بد انتظامی اور انتشار کا شکار ہے ۔

ای او بی آئی کی قائم مقام چیئرمین شاذیہ رضوی خود بھی ای او بی آئی میں آنے سے قبل ایک وفاقی محکمہ میں بدعنوانیوں کے الزامات میں نیب ریفرنس میں نامزد بتائی جاتی ہیں اور ادارہ میں بیک وقت ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ اور قائم مقام چیئرمین کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود ای او بی آئی کے معاملات میں ان کی دلچسپی اور کارکردگی صفر ہے وہ محض چند گھنٹوں کے لئے دفتر آتی ہیں اور انہوں نے اپنی تمام دفتری ذمہ داریاں ادارہ کے دو انتہائی متنازعہ، جونیئر اور نان کیڈر افسران، ڈائریکٹر کوآرڈینیشن محمد نعیم شوکت قائم خانی اور سابق چیئرمین اظہر حمید کے ہم شکل اپنے اسٹاف افسر طاہر صدیق کے سپرد کر رکھی ہیں ۔ جس کے باعث یہ دونوں جونیئر افسران ان لامحدود اختیارات کے ذریعہ ای او بی آئی کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں ۔

مزید برآں معلوم ہوا ہے کہ سابق چیئرمین اظہر حمید کی ادارہ میں دوبارہ تعیناتی میں ناکامی کی خبر سننے کے بعد قائم مقام چیئرمین ای او بی آئی شازیہ رضوی اب طویل رخصت پر جارہی ہیں۔

Leave a Reply