
رپورٹ : طاہر تنولی
پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچرز ایسو سی ایشن نے خبردار کیا ہے کہ حکومت کے ٹیکس نافذ کرنے کے باعث آنے والے دنوں میں ادویات کی کمی ہو سکتی ہے اور اس ٹیکس کو ایڈوانس میں جمع کرانے کی ذمہ داری مینوفیکچرز اور ڈسٹری بیوٹرز پر عائد کی گئی جو وہ ریٹیلرز سے حاصل کریں گے
ان خیالات کا اظہار پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسو سی ایشن کے چیئرمین توقیر الحق نے گزشتہ روز کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔اس موقع پر پی پی ایم اے کے سابق چیئرمین ڈاکٹر قیصر وحید و دیگر عہد یداران بھی موجود تھے۔ توقیر الحق نے کہا کہ حکومت کی طرف سے یہ ٹیکس بغیر کسی تیاری اور مشاورت کے عائدکئے گئے ہیں کرونا وائرس کے باعث ہنگامی حالا ت نافذ ہیں اور ایسے میں جان بچانے والی ادویات کی تیاری میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈسٹری بیو ٹرز اور مینوفیکچرز کے پاس اتنی افرادی قوت موجود نہیں کہ وہ ریٹیلرز سے ٹیکس جمع کر سکیں اورنان فائلر کون ہے اور کون فائلر اس کا فارما صنعت سے کوئی تعلق نہیں یہ ذمہ داری دیگر حکومتی اداروں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اسے دیکھیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں 40ہزار کے قریب فارمیسی مالکان موجود ہیں اور ان سے ٹیکس جمع کرنا بہت بڑی ذمہ داری کا کام ہے اور اتنے کم وقت میں اسے انجام دینا ممکن نہیں ہے۔چیئرمین پی پی ایم اے نے کہا کہ یہ ذمہ داری ایف بی آر کی ہے جو انہوں نے ہم پر عائد کردی ہے اور ہمیں تیاری کا موقع تک نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ریٹیلرز نے اپنی تفصیلات ڈسٹری بیوٹرز کو دینے سے انکار کر دیا ہے اور وہ اب ڈسٹری بیوٹرز سے ادویات بھی نہیں لے رہے جس کے باعث مارکیٹ میں ادویات کی کمی شروع ہو گئی ہے اور آئندہ اسکی شدید قلت کا خدشہ ہے۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ٹیکس کی شرط کو ختم کیا جائے تاکہ ملک میں ادویات کی کمی اور اس صنعت کو بچایا جا سکے جو کہ کرونا کے باعث مشکلات کا شکار ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو مینوفیکچرز ادویات کی کمی کے ذمہ دار نہیں ہو نگے۔اس موقع پر سابق چیئرمین پی پی ایم اے ڈاکٹر قیصر وحید نے کہا کہ اداروں کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے فیصلے کرنے سے پہلے سوچا کریں کہ اس کے نقصانات کیا ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں کئی علاقوں میں لوگ کاروبار ٹیکس نیٹ میں رہ کر نہیں کرتے اور ان لوگوں سے ٹیکس کی وصولی بہت مشکل کام ہے۔ پاکستان فارما سیوٹیکل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کا نئے ٹیکس کے نفاذ، ریٹیلرز سے ٹیکس وصولی کی ذمہ داری مینو فیکچرز کے سپرد کرنے اور اس کے نتیجہ میں لائف سیونگ ادویات خصوصاً جبکہ مختلف ادویات کی تیاری متاثر ہونے کے بارے میں جس تشویش اور خدشات کا اظہار کیا ہے وہ بجا اور فوری غور کے متقاضی ہیں۔ ادویات کا شعبہ گزشتہ 3 سال کے دوران مسلسل بحران کا شکار چلا آرہا ہے اور اس کے نتیجہ میں محتاط اندازے کے مطابق ادویات کی قیمتوں میں 300 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔
ادویات کی تیاری میں سلو ڈائون پالیسی کا لازمی نتیجہ مارکیٹ میں ادویات کی کمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور بحران کے آثار نمودار ہوتے ہیں دوائیں خصوصاً جان بچانے والی ادویات مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس شعبہ سے وابستہ مفاد پرست اور منافع خور عناصر ادویات بلیک مارکیٹ میں فروخت کر کے اپنی تجوریاں بھر لیتے ہیں اس تمام عمل سے عوام کو گونا گوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ حکومت کو ٹیکس کی مد میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ٹیکس چوری کی وجہ سے اربوں روپے حکومتی خزانہ کی بجائے منافع خوروں کی تجوریوں میں چلے جاتے ہیں بلا شبہ قیمتوں میں اضافہ کے دیگر عوامل بھی موجود ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ مارکیٹ سے ادویات کا ناپید ہونا ہے ایسی صورت میں مہلک امراض خصوصی امراض قلب، کینسر اور دیگر بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو لائف سیونگ ادویات کی فراہمی مسئلہ بن جاتی ہے۔
اس سے قبل بھی ادویات کے شعبہ میں جو اقدامات کیے گئے وہ نا تجربہ کاری کے سبب قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اور عوام کے لیے ان گنت مشکلات کا باعث بنے۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ تجویز انتہائی مناسب لگتی ہے کہ ٹیکس کے نفاذ سے قبل اس صنعت سے وابستہ افراد سے بھی مشاورت کرلی جائے مینو فیکچرز ایسوسی ایشن کا ٹیکس وصولی کے سلسلے میں موقف بھی درست اور اصولی لگتا ہے کہ 40 ہزار فارمیسی مالکان میں سب کے پاس اتنی افرادی قوت اور وسائل نہیں ہیں کہ وہ ریٹیلرز کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ان سے ٹیکس اکٹھا کریں یہ ذمہ داری بنیادی طور پر ٹیکس وصولی کے محکموں کی ہے کہ وہ اپنے ذرائع سے فارمیسی، ڈسٹری بیوٹرز اور ریٹیلرز کی فہرستیں تیار کریں اور انہیں کمپیوٹرائزڈ کر کے ٹیکس وصولی کے اقدامات کریں۔