تحریر، ،،مقبول خان


کراچی کی ڈیمو گرافی بتدریج تبدیل کی جارہی ہے، ڈیموگرافی کی تبدیلی سے ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں نت نئے سیاسی،سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں۔اس کے ساتھ کراچی کے شہریوں کو درپیش پانی کی قلت، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ،صفائی کا نا مناسب انتظام،اور پبلک ٹرانسپورٹ کے بد ترین نظام جیسے دیرینہ مسائل کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، جس کے منطقی نتیجہ میں اہالیان کراچی بالخصوص اردو بولنے والوں میں حکومت سندھ کے غیر منصفانہ رویہ کے خلاف نا پسنددیدگی نفرت میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی ہے۔

کراچی کی ڈیمو گرافی کی تبدیلی کا پہلا عنصر یہاں کی آبادی میں تیز رفتار اضافہ ہے، قیام پاکستان کے وقت کراچی کی آبادی کم وبیش ساڑھے چار لاکھ تھی، جسمیں ہندوؤں، عیسائیوں، پارسیوں، سکھوں ،بنی اسرائیلی(یہودیوں)اورایرانی بہائیوںکی مجموعی تعداد مسلمانوں سے زائد تھی۔یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان تک میئر کراچی کے منصب پرہندو ،پارسی اور عیسائی زعماء ہی فائز رہے۔ اس وقت کراچی کے مسلمان اقتصادی طور پر بہت کمزور تھے۔ تعلیمی لحاط سے پسماندہ تھے۔کراچی میںلیاری کے بلوچ ماہی گیری اور گدھا و اونٹ گاڑیوںپرمال برداری کی مزدوری کرتے تھے۔ رنچھوڑ لین ، اور رامسوامی کے سلاوٹ اور مارواڑی مسلمان تعمیراتی کام کرتے تھے ،صرف چندآغا خانی اور میمن خاندان کاروبار سے منسلک تھے۔

اس نفرت کا اظہار سوشل میڈیا کے ساتھ کراچی پریس کلب سمیت مختلف مقامات پر منعقد ہونے والے اجتماعات میں تقاریر ،ریلیوں اور مظاہروں کی صورت میںسامنے آرہا ہے۔ لیکن یہ احتجاج اب تک غیر موثر ثابت ہورہا ہے۔ اور حکومت سندھ اب تک کراچی میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حوالے کے وہ کرادار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے، جس سے وہ اہلیان کراچی کے دل جیت سکتی تھی۔سندھ حکومت کی اس ناقص کار کردگی کی بناء پر کراچی میں پانی، بجلی، گیس ،صفائی ستھرائی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے دیرینہ مسائل مزید پیچیدگی اور شدت اختیار کر رہے ہیں۔ہم یہاں ان دیرینہ مسائل سے قطع نظر ان نئے مسائل کا جائزہ لے رہے ہیں،جو کراچی کی ڈیموگرافی تبدیل ہونے سے پیدا ہورہے ہیں، یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہوگا کہ یہ نئے مسائل بھی دیرینہ مسائل کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

اس طرح قیام پاکستان تک تعلیمی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی شعبوں میں ہندوؤں، پارسیوں، عیسائیوں کو برتری حاصل رہی۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مہاجرین کی کراچی آمد شروع ہوئی۔اور صرف تین سال میں کراچی کی آبادی 1951میں دس لاکھ ہوگئی،اس عرصے کے دوران،حبیب، اصفہانی ، ولیکا، باوانی، آدم جی، داؤد فیملی سمیت دیگرمیمن کاروباری افراد سمیت دیگر مسلمان شخصیات نے یہاں صنعتی، تجارتی اورتعلیمی اداروں کے ساتھ بینکاری، بیمہ کی کمپنیاں قائم کی گئیں،جس نہ صرف ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کو روزگار ملا، بلکہ محنت مشقت کے کاموں میں اس وقت کے صوبہ سرحد اور ہزارہ سے آنے والے محنت کشوں کو بھی روزگار ملا، اس طرح کراچی کی ڈیمو گرافی پہلی بار تبدیل ہوئی، قیام پاکستان کے صرف تین سال کے عرصے میں کراچی سے ہندو،پارسی سیٹھوں کی اقتصادی برتری ختم ہوئی، اور کراچی میں مسلمان اکثریت میں آگئے، اس طرح کراچی کے سیا سی منظر نامے میں ہندو، عیسایئوںاور پارسیوں کی سیاسی بالا دستی بھی ختم ہوئی۔

اور وقت گذرنے کے ساتھ بھارت سے آنے والے مسلمانوں کی کراچی میں سیاسی بالادستی مستحکم ہوتی رہی۔1961کی مردم شماری کے اعدد وشمار کے مظابق کراچی میں اردو اسپیکنگ آبادی کا تناسب شہر کی مجموعی آبادی کا 68فیصدتھا۔ کراچی پر اردو داں طبقے کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوز کو روکنے کیلئے ،کراچی کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کی دوسری کوشش سرکاری سطح پر کی گئی ۔ کراچی میں مہاجر آبادی کا گراف کم کر نے کیلئے انتظامی ،تکنیکی اور سیاسی حربے اختیار کئے گئے،ون یو نٹ کے تحت مغربی پاکستان کی صوبائی حکومت کے ملازمین کو کراچی میں ٹرانسفر کیا گیا، اور پنجاب اور ہزارہ سے لوگوں کو بلاکرکراچی میں سرکاری ملازمتیںفراہم کی گئیں، ۔

جنرل محمد ایوب خان نے 1964میں بنیادی جمہوریت اور صدارتی انتخابات منعقد کرائے،جس میں کراچی کی اردو اسپیکنگ آبادی نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ دے کر کراچی پر اپنی سیاسی بالادستی کا ثبوت دیا، اس سیاسی جرم کی سزا دینے کیلئے نہ صرف پختون مہاجر فسادات کرائے گئے، بلکہ طے شدہ منصوبہ کے تحت کراچی کے داخلی راستوں پر پختونوں اور ہزارے وال کی آبادیاں قائم کرائی گئیں،کراچی کے دو غیر مقامی ٹرانسپورٹر بھائیوںمنظور پگانوالہ اور اختر پگانوالہ کے نام سے منظور کالونی اور اختر کالونی قائم کرائی گئیں، اسی طرح سیالکوٹ ، قصور اور پنجاب کے دیگر شہروں سے مسیحی خاکروبوں کوملازمت کی ترغیبات دے کر اعظم بستی قائم کرائی گئی، لانڈھی کے قریب قائدآباد ، خلد آباد، اور دیگر بستیاں بسائی گئیں، جن میں ہزارہ وال اور پختونوں کو آباد کاری کی سہولت فراہم کی گئی۔

جنرل ضیاء کے دور میں تیزی سے کچی آبادیاں وجود میں آئیں، جس کی وجہ سے کراچی کچی آبادی بورڈ کے نام سے ایک ادارہ بھی بنایا گیا تھا، ان کچی آبادیوں میں افغانی، پختون ،برمی اور بنگالی بولنے والوں نے اپنے کچے مکانات اور جھگیاں بنائیں، جس کے نتیجے میں کراچی میں اردو بولنے والوں کی شرح تناسب میں تیزی سے کمی آئی۔جنرل ضیاء کے دور میں آخری بلدیاتی الیکشن 1987میں کرائے گئے تھے، اس میں نو زائدہ سیاسی تنظیم مہاجر قومی موو منٹ نے پہلی بار حصہ لیا تھا، ایم کیو ایم کے امیدوار اس الیکشن میںبھاری اکثریت میں کامیاب ہوئے تھے

،اس وقت کراچی میں اردو بولنے کاشرح تناسب شہر کی مجموعی آبادی کا61فیصد تھا۔ایم کیو ایم کی بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت اور اس کی انتخابی کامیابیوں کو روکنے کیلئے نادیدہ قوتوںنے کئی سیاسی اور انتظامی فیصلوں کے ساتھ کراچی میں غیر مقامی افراد کوبسانے کی حکمت عملی بھی اپنائی گئی، جس کے نتیجے میں کراچی پختونوں کا سب سے بڑا شہر بن چکا ہے، کراچی کی مجموعی آبادی کا 22فیصد پختونوں پر مشتمل ہے ،یہاں 8لاکھ سے زیادہ سرائیکی ہیں، سرائیکیوں سمیت پنجابیوں کی آبادی10فیصد ہے، جبکہ سندھی بولنے والوں کی آبادی1987میں صرف چار لاکھ تھی،جو اب مجموعی آبادی کا 11فیصد ہوگئی ہے، بلوچی، کشمیری، برمی، بنگالی اوردیگرزبانوں کے بولنے والوں کی شرح تناسب 11فیصد ہوگیا ہے۔

کراچی میں دیگر زبانیں بولنے والوں کی تعداد میں اضافے سے شہر کی مجموعی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اسی تیزی سے کراچی میں اردو بولنے والوں کی شرح تناسب میں بھی تیزی سے کمی آرہی ہے۔1987میں اردو بولنے والوں کا شرح تناسب 61فیصد تھا، جو،اب گر کر45فیصد پر آگیا ہے، اس وقت کراچی کا مسئلہ اردو بولنے والوں کی شرح تناسب میں کمی نہیں ہے، بلکہ جس تیزی سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، اس کے مطابق شہر کے انفرا اسٹرکچر اور وسائل میں اضافہ نہیں کیا جارہا ہے، کراچی کی آبادی اس وقت ڈھائی کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، لیکن مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی ایک کروڑ67لاکھ دکھائی گئی ہے، اس طرح کراچی کے لئے وفاق اور صوبائی حکومت کی جانب سے مختص کئے جانے ترقیاتی فنڈز اور وسائل ناکافی ہیں۔

جس کی وجہ سے شہر کے بنیادی مسائل شہریوں کیلئے عذاب بن چکے ہیں۔ اسی وجہ سے اب اہالیان کراچی نئے صوبے، یا اسے وفاق کی تحویل میں دینے کا مطالبہ کر نے لگے ہیں۔ اس صورت حال نمٹنے کیلئے اگر سندھ حکومت نے بر وقت مخلصانہ اقدامات نہ کئے تو صوبہ سندھ میں مسائل کی سلگتی ہوئی یہ چنگاریاں کسی بھی وقت شعلہ جوالہ بن سکتی ہیں۔

Leave a Reply