افغان طالبان اور کابل انتظامیہ کے مابین ایک جانب دوحہ میں امن مذاکرات ہو رہے ہیں دوسری طرف افغانستان میں شدید لڑائی جاری ہے ۔ اس لڑائی میں سینکڑوں افراد ہلاک ہورہے ہیں ۔ امریکہ معاہدے کے تحت فوجی انخلاء کے پروگرام پر عمل بھی کررہا ہے اور طالبان پر فضائی حملے بھی جاری ہیں۔

جبکہ کابل انتظامیہ کی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ طالبان کیخلاف جلد کارروائی کریں گے۔
فریقین نہ مذاکرات میں سنجیدہ ہیں نہ ایکد وسرے کیخلاف جنگی کارروائیوں سے بازآرہے ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کی تمام تر ذمیداری امریکی حکمرانوں اور خاص طور سے امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون پر عائد ہوتی ہے ۔ جو بین الاقوامی نظام میں ہونے والی حقیقی تبدیلی خاص طور سے توازن قوت کی مغرب سے مشرق منتقلی کو روکنے کی تمام کوششوں میں ناکامی کے باوجود زمینی سچائیوں کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ اور کھلیں گے نہ کھیلنے دینگے کے مصداق مشرق کی ابھرتی ہوئی قوتوں کو جنگوں اورخانہ جنگیوں میں الجھانے پر مصر ہے ۔
بین الاقوامی سطح پر پسپائی اور افغانستان میں عوام کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی ایشیائی قوتوں کیخلاف نت نئی سازشوں میں مصروف ہیں ۔ وہ افغانستان میں لسانی بنیادوں پر عوام کو تقسیم کرنے کی روایتی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور پڑوسی ملکوں خاص طور سے پاکستان میں نفرت کی سیاست کو فروغ دینے میں سرگرم ہیں۔
ایک جانب طالبان سے مذاکرات اور معاہدے کے بعد غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے پروگرام پر عمل جاری ہے تو دوسری طرف شکست خوردہ کابل انتظامیہ کو براہ راست اور بالواسطہ مدد فراہم کر کے اسے طالبان کے مقابلے کیلئے تیار کیئے جارہے ہیں ۔
خطرناک بات یہ ہے کہ افغانستان میں ایک بار پھر مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ امریکہ اور بھارت، داعش القاعدہ ، ٹی ٹی پی اور احرار جیسے گروپوں کی سرپرستی کر رہے ہیں ۔
آج بھی امریکی حکمرانوں نے ذہنوں میں یہ بات ہے کہ اسلامی شدت پسندی کو فروغ دیکر ہی چین کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب دنیا بدل چکی ہے ۔ ایسی کسی سازش کے کامیاب ہونے کا اب امکان نہیں ہے۔اب ایشیائی ممالک ملکر صف آراء ہوچکے اور سامراجی مداخلت کا مقابلہ کرنے کی پور ی اہلیت رکھتے ہیں