اعلیٰ افسران کی نااہلی سے ادارہ کی ایڈمنسٹریشن تباہ ،حاضری نظام ختم، افسران اختیارات کے ناجائز استعمال، سنگین بدعنوانیوں اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث ،اسٹاف ملازمین گزشتہ5برسوں سے 2017ء کے نظر ثانی شدہ پے اسکیل اورگزشتہ وفاقی بجٹ میں اعلان کردہ مہنگائی الائونسوں اورگزشتہ 25اور30برسوں سے اپنی جائزترقیوں سے محروم ، دوران ملازمت انتقال کرجانے والے ادارہ کے 50 ملازمین کے یتیم بچوں کی بھرتی کے اہم معاملات سرد خانہ میں

رپورٹ : طاہر تنولی
وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے ایک ذیلی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کا ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس، کراچی ڈیپوٹیشن پر تعینات اعلیٰ افسران اور ان کے منظور نظر افسران کی جانب سے حاضری نظام کا خاتمہ، اختیارات کے ناجائز استعمال، لاقانونیت ،بدعنوانیوںاور بلیک میلنگ کا گڑھ بن گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی فلاحی محکمہ ای او بی آئی جس کی بنیادی ذمہ داری نجی شعبہ کے رجسٹرشدہ ملازمین اور محنت کشوں اور ان کے پسماندگان کو پنشن فراہم کرنا ہے۔لیکن ایک طویل عرصہ سے اس قومی فلاحی ادارہ میں انتہائی بدعنوان، بددیانت،راشی اور مفاد پرست عناصر مختلف چور راستوں سے آکر کلیدی عہدوں پر قابض ہوگئے ہیں۔جس کے باعث جہاں ایک جانب ای او بی آئی میں رجسٹر شدہ بوڑھے محنت کشوں کے لئے اپنی جائز پنشن8,500/- روپے کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے تو دوسری جانب ڈیپوٹیشن انتظامیہ اور بدعنوان اور راشی افسران کا یہ طاقتورٹولہ غریب محنت کشوں کی جانب سے مستقبل میں اپنی پنشن کے لئے جمع کرائے جانے والے امانتی چندہ کی رقم (Contribution) پر باپ کی کمائی سمجھتے ہوئے عیش کر رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جب سے حکومت پاکستان کی سیکریٹیریٹ گروپ کی گریڈ20کی ایک خاتون افسر شازیہ رضوی نے خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن آکر ای او بی آئی میں ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کا چارج سنبھالا ہے۔ اس وقت سے ای او بی آئی کا اہم ترین ایچ آر ڈپارٹمنٹ دن بدن تنزلی کا شکار چلا آرہا ہے۔جبکہ کسی بھی محکمہ کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کا بنیادی مقصد ادارہ کے لئے باصلاحیت ،تجربہ کار اور اہل ملازمین کی بھرتی،ان کی پیشہ ورانہ تربیت، افرادی قوت کا مثبت استعمال ، ملازمین کے فوائد کے لئے منصوبہ بندی کا انتظام اور ادارہ اور ملازمین کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ای او بی آئی کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں تعینات غیر متعلقہ،نان کیڈر اور نااہل سفارشی افسران کی تعیناتی کے باعث فروغ انسانی وسائل کا یہ اہم ڈپارٹمنٹ ای او بی آئی کے فرض شناس اور تجربہ کار افسران اور اسٹاف ملازمین کے لئے معمولی معمولی باتوں اور پسند ناپسند کی بنیاد پر سزائوں، دور افتادہ مقامات پرجبری تبادلوں، انتقامی اور تادیبی کارروائیوں اور بلیک میلنگ کے باعث خوف و دہشت کی علامت بن گیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ شازیہ رضوی ای او بی آئی میں آنے سے قبل سنگین بدعنوانیوں کے الزامات کے تحت ایک NABریفرنس میں بھی نامزد ہیں۔ لیکن اس کے باوجودحیرت انگیز طور پرچھ ماہ قبل ای او بی آئی کے چیئرمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد شازیہ رضوی کو ای او بی آئی کے قائم مقام چیئرمین کے عہدہ کا اضافی چارج بھی دیا گیا ہے۔

لیکن ان دونوں کلیدی عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود شازیہ رضوی کی کارکردگی انتہائی مایوس کن اور غیر تسلی بخش بتائی جاتی ہے ۔موصوفہ نے ای او بی آئی جیسے قومی فلاحی محکمہ کو اپنی ذاتی جاگیرسمجھ رکھا ہے ، وہ بیک وقت دو اہم عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود وہ دن چڑھے گیارہ بارہ بجے دفتر آتی ہیں اور مقررہ اوقات کار سے قبل ہی گھر چلی جاتی ہیں اور دو ہفتہ واری چھٹیوں کے باوجود ہفتے میں ایک دو دن کسی نہ کسی بہانے سے چھٹیاں بھی کرلیتی ہیں۔جس کے باعث ادارہ کے ملازمین کے تمام انتظامی امور ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔

شازیہ رضوی کی ادارہ کے امور میں مسلسل عدم دلچسپی اور لاپراہی کو دیکھتے ہوئے ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں تعینات ان کے ماتحت اور چہیتے افسران خالد نواز،قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، نزہت اقبال،قائم مقام ڈائریکٹر،صہیب علی بیگ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اوران کا سب سے بڑا چہیتا جونیئر اور نان کیڈر افسر طاہر صدیق اسٹاف افسر اور دیگرافسران بھی شازیہ رضوی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔یہ سفارشی اور نااہل افسران ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ اور اس کے مقاصد کی الف ب سے قطعی نابلد ہیں۔

ان افسران کی جانب سے کی جانے والی نوٹنگ،ڈرافٹنگ، سرکاری خط وکتابت ،نوٹیفیکیشنز اور ملازمین کے مختلف انتظامی اور مالی امور کے متعلق آفس آرڈرز میں کی جانے والی فاش غلطیاں ان کی نااہلی کا بین ثبوت ہیں ۔ لیکن شازیہ رضوی کی جانب سے ادارہ اورایچ آر ڈپارٹمنٹ کے معاملات سے مسلسل عدم دلچسپی اور چشم پوشی کے باعث انتظامیہ کے یہ چندچہیتے افسران اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال، بدعنوانیوں،بلیک میلنگ اور غریب محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لئے مختص سہولیات اور وسائل کے بلادریغ استعمال میں ملوث ہیں اور ان منہ زور جونیئر افسران کی جانب سے پسند نا پسند کی بنیاد پر ادارہ کے سینئر اور فرض شناس افسران اور اسٹاف ملازمین کے خلاف آئے دن خود ساختہ الزامات کے تحت جبری تبادلوں انتقامی کارروائیوں،چارج شیٹوں کے اجراء،خلاف قانون ملازمت سے معطلی، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی بندش،والدین کے اسپتالوںمیں علاج و معالجہ پر پابندی، ملازمین کی جائز ترقیوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنا،پسند نا پسند کی بنیاد پر ملازمین کے دوردراز مقامات پر تبادلوں، لاقانونیت اور بلیک میلنگ کی شکایات میں اضافہ ہوگیا ہے جس کے باعث ای او بی آئی کا ایچ آر ڈپارٹمنٹ ادارہ کے ملازمین کے لئے خوف، ظلم وجبر کی علامت بن گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی کی ایک طاقتور لابی کی جانب سے پہلے ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت صوبہ پنجاب سے فنانس کوٹہ پر بھرتی ہونے والے 2014ء بیچ کے جونیئر افسر طاہر صدیق، ایمپلائی نمبر930074، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو خلاف ضابطہ طور پر فنانس کیڈر تبدیل کرکے اسے آفس کیڈر میں لاکر ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں تعینات کرایا گیا تھا۔

اسی طرح2014ء میں صوبہ بلوچستان سے آپریشنز کوٹہ پر بھرتی ہونے والے صہیب علی بیگ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو بھی غیر قانونی طورآپریشنز کیڈر سے آفس کیڈر میں تبدیل کرکے اسے بھی ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں تعینات کردیا گیا اور اس منصوبہ بندی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے تجربہ کار، سینئر اور فرض شناس افسران شاکر علی ،ڈپٹی ڈائریکٹر، عرفان عالم ،ڈپٹی ڈائریکٹر اورمختار علی ایگزیکٹیو افسر اور دیگر پرانے افسران کو کسی نہ کسی کیس میں پھنسانے کی دھمکیاں دیتے ہوئے اور انہیںہراساں کرتے ہوئے ایچ آر ڈپارٹمنٹ سے بیدخل کردیا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں تعینات ایک نااہل اور نا تجربہ کار افسر صہیب علی بیگ نہ جانے کس کی سفارش پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر جیسے ذمہ دار عہدہ پر بھرتی ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔جو نہ صرف روز مرہ دفتری امور نوٹنگ، ڈرافٹنگ اور سمری بنانے سے قطعی ناواقف ہے بلکہ ایک ابنارمل اور غیر حاضر دماغ شخص معلوم ہوتا ہے ۔ جو حال ہی میںای او بی آئی کے ایک حالیہ سرکلر میں ایک برس پرانی تاریخ کا اندراج کرکے اپنی نااہلی کا ثبوت فراہم کرچکا ہے ۔صہیب بیگ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک قسم کی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہے ۔جو باتوں باتوں میںڈپارٹمنٹ کے ساتھیوں کی گفتگو بھی موبائل فون پر ریکارڈ کرتا ہے اور پھر اعلیٰ افسران کو سنواتا ہے۔

ای او بی آئی کی ڈیپوٹیشن پر تعینات نااہل انتظامیہ اور ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ اور قائم مقام چیئرمین شازیہ رضوی کی ادارہ کے ملازمین کے مسائل سے عدم دلچسپی اور نا اہلی کے باعث ای او بی آئی کے ملازمین کے دیرینہ مسائل جن میں بد ترین مہنگائی اور کورونا وباء کی تباہ کاریوں کے باوجود ادارہ کے ملازمین کو بورڈ آف ٹرسٹیز کی جانب سے منظوری کے باوجود گزشتہ5،برسوں سے 2017ء کے نظر ثانی شدہ پے اسکیل اورگزشتہ سالوں کے وفاقی بجٹ میں اعلان کردہ مہنگائی الائونسوں کی عدم ادائیگی ، اسٹاف ملازمین کی گزشتہ 25اور30،برسوں سے اپنی جائزترقیوں سے محرومی اور دوران ملازمت انتقال کرجانے والے ادارہ کے 50 ملازمین کے یتیم بچوں کی بھرتی کے اہم معاملات سرد خانہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس ای او بی آئی کی خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات انتظامیہ کے اعلیٰ افسران نے اپنے لئے تنخواہوں اورپرکشش مراعات اور دیگر سہولیات میں ازخود اضافہ کرلیا ہے۔قابل افسوس بات یہ ہے کہ اس دوران ای او بی آئی کے درجنوں ملازمین اپنی جائز ترقیوں اور اضافہ شدہ تنخواہوں کی حسرت لئے یا تو ملازمت سے ریٹائر ہوگئے ہیں یا اس دنیا سے کوچ کرگئے ہیں۔لیکن اس کے باوجود ای او بی آئی کی بے حس اور سنگدل انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہورہی۔

ای او بی آئی کی موجودہ ڈیپوٹیشن انتظامیہ کی ناقص اور مایوس کن کارکردگی کے باوجود ای او بی آئی کا ایک ایک اعلیٰ افسر غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کی رقم سے بھاری تنخواہوں،پرکشش الائونسز،ماہانہ ہزاروں روپے کے میڈیکل،دو دو تین تین گاڑیوں،سینکڑوں لٹرپٹرول،بزنس کلاس ہوائی سفر،بڑے ہوٹلوں میں قیام وطعام ،بھاری ٹی اے ڈی اے اورانٹرٹینمنٹ کے نام پر ماہانہ تقریبا 5،لاکھ روپے تک بٹور رہا ہے۔دوسری جانب نا اہل انتظامیہ کے چہیتے ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کے بدعنوان افسران کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال، لاقانونیت اور بلیک میلنگ کی شکایات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جس کے باعث ای او بی آئی کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کا نظم و نسق تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔

موجودہ ڈیپوٹیشن انتظامیہ کے ایک منظور نظر اور انتہائی جونیئرافسر طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی دیدی دلیری کا یہ عالم ہے کہ وہ ای او بی آئی میں جہاں اس کا دائو لگے وہاں منہ مارتاپھر رہا ہے ۔حال ہی میں قائم مقام چیئرمین شازیہ رضوی ادارہ کے سینئر افسران کو نظر انداز کرکے اپنے اس چہیتے اسٹاف افسر طاہر صدیق، کو شرکت کا قطعی مجاز نہ ہونے اور عیدالاضحی کی رخصت پر ہونے کے باجود اسے اپنی سرپرستی میں اسلام آباد میں منعقدہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاس میں اپنے ساتھ لے کر گئی تھیں۔

اسی دوران طاہر صدیق ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو مزید نوازنے کے لئے محمد ایوب، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی اسلام آباد اور شیخ نثار احمد ریجنل ہیڈ فیصل آباد (سنٹرل) نے اسے غیر قانونی طور پر ریجنل آفس سرگودھا کی جانب سے میسرز محبوب فوڈز انڈسٹریز، سرگودھا کے لئے بنائے گئے آڈٹ کمیشن میں ممبر نامزد کردیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ طاہر صدیق، اگرچہ عیدالاضحی کی چھٹیوں پر تھا ،لیکن اس دوران اس نے شازیہ رضوی کی سرپرستی اور بعض اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے اپنی اس رخصت کو بھاری ٹی اے ڈی اے وصول کرنے کی خاطر سرکاری ٹور میں تبدیل کردیا تھا ۔ پھر وہ محمد ایوب ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اسلام آباد اور شیخ نثار احمد ریجنل ہیڈ فیصل آباد( سنٹرل) کی ملی بھگت سے فیصل آباد پہنچ گیا ۔ معلوم ہوا ہے کہ طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے اپنی عید الاضحی کی رخصت کے دوران ای او بی آئی کے بھاری اخراجات پر غیر قانونی طور پر کئی بارکراچی۔ لاہور،لاہور۔کراچی، کراچی۔ لاہور،کراچی۔ اسلام آباد اور فیصل آباد اور اسلام آباد۔کراچی کے درمیان ہوائی جہاز میں سفر کئے اور اب وہ اس نام نہاد سرکاری ٹور کے نام پربھاری ٹی اے ڈی اے بھی وصول کرنے میں مصروف ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصہ سے ای او بی آئی کی بدعنوان انتظامیہ کی ملی بھگت سے ادارہ کے پینل پر غیر قانونی طور سے موجود ٹریول ایجنسی ای او بی آئی کے افسران کو ایک ٹیلی فون پر ائیر ٹکٹ فراہم کرنے میں ملوث ہے۔

ای او بی آئی کے ملازمین کا کہنا ہے کہ انتہائی جونیئر اور نان کیڈر افسرطاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا یہ غیر قانونی عمل وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل اور ای او بی آئی کی انتظامیہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ آخر کس طرح گریڈ 17کا معمولی افسر اپنی گھریلو رخصت کے دوران ای او بی آئی کے بھاری اخراجات پر کراچی لاہور اور اسلام آباد میں گھومتا پھرتارہا ہے اور پھر ’’ مال مفت دل بے رحم‘‘ کی طرح اس مد میں بھاری ٹی اے ڈی اے بھی وصول کرتا ہے ۔

واضح رہے کہ طاہر صدیق ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایک عرصہ سے بعض اعلیٰ افسران سابق چیئرمین اظہر حمید،ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی اور ڈائریکٹر کوآرڈینیشن محمد نعیم شوکت کی ملی بھگت سے غیر قانونی طور پراپنے گھر پنجاب جانے کی رخصت کو سرکاری ٹور میں تبدیل کرنے اور ای او بی آئی کے اخراجات پر کراچی،لاہور اور اسلام آباد اور دیگر شہروں کے ہوائی جہازوں میں سفردر سفر اوربھاری رقوم کے ٹی اے ڈی اے وصول کرنے میں ملوث رہا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر طاہر صدیق کے گزشتہ ایک برس کے ہوائی جہازوں کے سفر کے ٹکٹوں اور بھاری ٹی اے ڈی اے بلوں کی تحقیقات کی جائیں تو سنسنی خیز انکشافات سامنے آئیں گے۔

قائم مقام چیئرمین اورڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کی نااہلی اور لاپرواہی سے ای او بی آئی میں ملازمین کی حاضری کا نظام بالکل تباہ و برباد ہوکر رہ گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی ایمپلائیز سروس ریگولیشن مجریہ 1980ء کے مطابق ادارہ کے ملازمین کے لئے سالانہ 20 ،اتفاقیہ، 33،بیماری اور33،استحقاقیہ رخصتوں کی سہولت فراہم کی گئی ہے ۔

کسی بھی محکمہ میں اس کا ایچ آر ڈپارٹمنٹ بروقت حاضری اور دیگرمقررہ قوانین پر عملدرآمد کے لحاظ سے ادارہ کے تمام ملازمین کے لئے ایک مثالی نمونہ ہوتا ہے اور یہ اہم ڈپارٹمنٹ تمام ملازمین کے لئے ادارہ کی مختلف پالیسیاں بھی لاگو کرتا ہے۔ لیکن ای او بی آئی کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کا نظام بالکل نرالا ہے اور اب یہ ہر طرح کی لاقانونیت کا گڑھ بن چکا ہے ۔اس ڈپارٹمنٹ کے اعلیٰ افسران اوران کے منظور نظر افسران نے مقررہ طریقہ کار کے مطابق خود کو بائیو میٹرک حاضری اور حاضری رجسٹر میں حاضری لگانے کے نظام سے مستثنیٰ قرار دے رکھا ہے۔ای او بی آئی کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے ان قانون شکن اور بدعنوان افسران نے قانونی حاضری نظام سے اپنی جان چھڑانے اور من مانے طریقہ سے نوکری کرنے کے لئے ہیڈ آفس میں لاکھوں روپے کی لاگت سے نصب کئے جانے والی بائیو میٹرک حاضری سسٹم کی مشینوں جان بوجھ کر ناکارہ کردیا ہے۔ تاکہ نہ رہے گابانس اور نہ بجے گی بانسری۔

اس سلسلہ میں جان بوجھ کر بائیو میٹرک حاضری مشینوں کو خراب کرنے ذمہ دارافسران کا تعین کرنے کے لئے جامع تحقیقات اور سزائوں کی ضرورت ہے۔ئم مقام چیئرمین اور ایچ آر ڈپاٹمنٹ کی ڈائریکٹر جنرل شازیہ رضوی اور ان کے منظور نظر افسران ادارہ کے دیگر افسران اور اسٹاف ملازمین کے مقابلے میں خود کو سپر اور قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اورڈپارٹمنٹ کے حاضری رجسٹر میں بھی اپنی یومیہ حا ضری کا اندراج نہیں کرتے، جو سراسر غیر قانونی عمل اور سخت تادیبی کارروائی کا متقاضی ہے ۔جس کے باعث ان کی حاضریوں،غیر حاضریوں اور رخصت کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ اس طرح ’’اندھیر نگری چوپٹ راج ‘‘ میںیہ بدعنوان افسران مجرمانہ طور پر بڑی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غیر حاضری کے دنوں کی بھاری تنخواہیں اور پر کشش مراعات بھی وصول کر رہے ہیں۔

قائم مقام چیئرمین اورڈائریکٹر جنر ل شازیہ رضوی کی ایک انتہائی چہیتی افسر نزہت اقبال، ایمپلائی نمبر918081، قائم مقام ڈائریکٹرایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت اور غیر قانونی طور پر ڈپارٹمنٹ کے حاضری رجسٹر کو اپنی ذاتی تحویل میں رکھتی ہے اور تاخیر سے ڈیوٹی پر آنے والے اپنے من پسند افسران کو یومیہ حاضری لگانے اور ان کی غیر حاضری اور رخصت کے دنوں کی بھی حاضری لگانے میں مکمل معاونت اور سہولت کار کا کردار ادا کرتی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نزہت اقبال، قائم مقام ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ، جو ایک ( (Dead Wood) ملازم ہے۔لیکن بعض اعلیٰ افسران کی نظر کرم کے باعث ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے کلیدی عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود خود آئے دن مختلف حیلے بہانوں سے ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتی ہے۔ جس کے باعث ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے اہم امور بری طرح متاثر ہورہے ہیں ۔
معلوم ہوا ہے کہ نزہت اقبال ایم اے (اردو) کی غیر متعلقہ ڈگری اور سندھ دیہی(ضلع دادو) کے مشکوک ڈومیسائل کی حامل
اورسندھ اسمال انڈسٹریز کارپوریشن کی سابق ملازمہ ہے۔ جو ایک دور میں بھاری سفارش کے ذریعہ غیر قانونی طور پر ای او بی آئی میں بھرتی ہوجانے اور بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے2013ء کے فیصلہ کے باوجود ادارہ کے چند مہربان افسران کی آشیرباد سے ای او بی آئی کی ملازمت میں ضم ہوجانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نزہت اقبال،کی ای او بی آئی میں پوری مدت ملازمت غیر قانونی ،جعلسازی اور ناقص کارکردگی سے بھری پڑی پر ہے۔

لیکن اس کے باوجود نزہت اقبال کی بھاری سفارش کے باعث اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرنے کے بجائے اسے مسلسل نوازا جاتارہا ہے۔ نزہت اقبال،2017ء میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ (PIM)کراچی ،میں ای او بی آئی کے افسران کی ترقی کے لئے منعقدہ ایک ماہ کے ٹریننگ کورس کے ٹیسٹ میں فیل ہوجانے کے باوجود بعض مہربان افسران کی خفیہ مدد سے پاس قرار دیدی گئی تھی اور اس بنیاد پروہ اگلے گریڈ، ڈپٹی دائریکٹر کے عہدہ پر ترقی پانے میں کامیاب ہوگئی تھی اور ایک برس کی آزمائشی مدت مکمل کئے بغیر اسے غیر قانونی طور پر قائم مقام ڈائریکٹر کے کلیدی عہدہ پر فائز کردیا گیا تھا۔ جبکہ نزہت اقبال کے مقابلہ میں ادارہ کے بے شمار اسٹاف ملازمین زیادہ تعلیمی قابلیت ،اہلیت اور تجربہ کے حامل ہیں ۔لیکن سفارش نہ ہونے کے باعث اہل ہوتے ہوئے بھی اپنی جائز ترقیوں سے محروم ہیں۔

قائم مقام ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ نزہت اقبال ایک کام چور،بہانے باز اور دھوکہ باز افسرہونے کی شہرت رکھتی ہے،جس پر اسے متعدد بار میمو لیٹر بھی جاری ہوچکے ہیں۔اس کی پرانی عادت ہے کہ وہ اکثروبیشتر اپنی اور بچوں کی بیماری کے بہانے او رمجاز اتھارٹی سے چھٹیاں منظور کرائے بغیر فیملی کے ساتھ مری، سوات، ناران اور کاغان گھومنے چلی جاتی ہے۔ ای او بی آئی میں ’’ اندھیر نگری چوپٹ راج ‘‘ ہونے کے باعث نزہت اقبال کی کارستانیوں کی جوابدہی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

واضح رہے کہ ای او بی آئی کے عملہ کے لئے باقاعدہ حاضری نظام کو بہتر بنانے کے لئے ماضی میں ای او بی آئی کے ایک سابق ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن جناب محمد بشیر نے بڑی محنت سے ایک جامع’’ حاضری نظام‘‘ تیار کیا تھا۔ جس کے مطابق ہر ڈپارٹمنٹ کے حاضری کے لئے دو رجسٹر مقرر کئے گئے تھے۔ایک پابندی وقت کے لئے اوردوسرا تاخیر سے آمدکے لئے،ان دونوں حاضری رجسٹروں میں ہرمہینے کے آخر میں ڈپارٹمنٹ کے تمام عملہ کی روزمرہ حاضری، تاخیر سے آمد، رخصت، اتفاقیہ، بیماری، استحقاقیہ اور دیگراقسام کی رخصت کی کل تعداد کا اندراج کرکے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کو اس پر دستخط کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔ای او بی آئی کے مقررہ طریقہ کار کے مطابق ادارہ کاہر ملازم مجاز اتھارٹی کی جانب سے تحریری درخواست برائے (رخصت مقامی یا بیرونی رخصت یا دیگر) کی منظوری کے بعد ہی رخصت پر جانے کا پابند ہے۔ملازمین کی منظور شدہ رخصت کی تمام درخواستیں ای او بی آئی کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں موجود ہر ملازم کی’’ رخصت کی فائل‘‘ میں ریکارڈ کے طور پر لگادی جاتی تھیں ۔

لیکن اس وقت ادارہ کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں منظور نظراعلیٰ افسران کی یومیہ حاضریوں،تاخیرسے آمد،غیر حاضریوں، آئوٹ اسٹیشن رخصت اورسالانہ اتفاقیہ، بیماری اور استحقاقیہ رخصت کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ جس کے باعث ای او بی آئی کے محکمہ میں ملازمین کی حاضری کا نظام تباہ ہوکرگیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک دور میں ای او بی آئی میں بغیر اجازت رخصت پر جانے والے اور مقررہ حد سے زائد رخصت حاصل کرنے والے ملازمین کے خلاف سخت تادیبی کارروائی اوران کی تنخواہوں سے غیر حاضر دنوں کی کٹوتی کی سزا بھی دی جاتی تھی۔ لیکن اب ای او بی آئی کی موجودہ نااہل انتظامیہ کے دور میں ادارہ میں یومیہ حاضری، تاخیر سے آمد،غیر حاضری اور طویل عرصہ سے غائب اور دفتری اوقات کار سے قبل اپنے گھروں کوچلے جانے والے ملازمین،سب کے سب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔اس صورت حال کے پیش نظر ای او بی آئی کے ملازمین نے ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر اور وزارت کے سیکریٹری جناب عشرت علی سے مطالبہ کیا ہے کہ ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کے ان بدعنوان اعلیٰ افسران اور ان کے منظور نظر افسران کی حاضریوں اور غیر حاضریوں اور رخصتوں کے ریکارڈ کی فوراجانچ پڑتال کرائی جائے اورالزامات ثابت ہونے پر قانون کے مطابق ان افسران کی تنخواہوں سے کٹوتی کی جائے اور ادارہ کے نظم و نسق کی خلاف ورزی کرنے والے ان تمام افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

ای او بی آئی کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی نااہلی اور ناقص کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قائم مقام چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل ایچ آرشازیہ رضوی کے منظور نظر جونیئر اور نان کیڈر افسر طاہر صدیق ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے پاس بیک وقت پانچ عہدوں اسٹاف افسر،انچارج ڈسپلنری ایکشن، انچارج ٹریننگ، انچارج ٹرانسفرز اینڈ پوسٹنگ اور انچارج خصوصی اسائنمنٹ کے چارج ہیں۔ جس کے باعث طاہر صدیق کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے ۔

سابق بدعنوان چیئرمین اظہر حمید اور موجودہ قائم مقام چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کی جانب سے انتہائی جونیئر افسر طاہر صدیق کی کھلم کھلا سرپرستی اورکھلی چھوٹ کے باعث آج کل ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں جونیئر افسر طاہر صدیق کا طوطی بول رہا ہے۔اس نے اپنے2014ء بیچ کے دوستوں پر مشتمل ایک خودساختہ’’ ای او بی آئی آفیسرز ایسوسی ایشن‘‘ بھی بنائی ہوئی ہے۔جس کا وہ خود کو صدر اور اپنے ایک گہرے دوست محمد وقاص عرف وقاص چوہدری۔

موجودہ اسٹاف افسر برائے ڈائریکٹر جنرل، آپریشنز (سائوتھ) عوامی مرکزکو اس ایسوسی ایشن کا جنرل سیکریٹری ظاہر کرتا ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ ڈائریکٹر جنرل، آپریشنز( سائوتھ) عوامی مرکزکے دفتر میں اسٹاف افسر کی کوئی اسامی نہیں ہے ۔لیکن طاہر صدیق نے پس پردہ مقاصد کے تحت اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے جگری یار محمد وقاص کو اس فرضی اسامی پر تعینات کرایا ہوا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طاہر صدیق اور محمد وقاص ای او بی آئی کے رجسٹر شدہ آجران سے بھتہ وصولی اور ای او بی آئی کے سادہ لوح افسران اور اسٹاف ملازمین کو اس ایسوسی ایشن کا نام استعمال کرکے انہیں دوردراز مقامات پر تبادلوں اور انتقامی کارروائیوں سے ڈراتا دھمکاتا اور بلیک میل کرتا ہے۔ طاہر صدیق ایچ آر دپارٹمنٹ میں اپنی غیر قانونی اور منفی سرگرمیوں اور پسند نا پسند کی بنیاد پر ادارہ کے پرانے فرض شناس افسران اور اسٹاف ملازمین کو ذہنی اذیت پہنچانے کے رحجان کے باعث مجرمانہ ذہنیت کا عادی شخص معلوم ہوتا ہے۔

اس کا معمول ہے کہ وہ ادارہ میں اپنے بعض ناپسندیدہ سینئر افسران کی پرسنل فائلیں اور ریکارڈ ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ روم سے غیر قانونی طورسے نکال کر اپنے گھر لے جاتا ہے اور اپنی سازشی فطرت اور ایذاء پسندرحجان کے تحت چن چن کر ان سینئر افسران اور اسٹاف ملازمین کی خامیاں اور کمزوریاں تلاش کرکے پہلے انہیں بلیک میل کرکے بھاری رقومات ،تحفے تحائف اور منہ مانگے نذرانے وصول کرتا ہے، بصورت دیگر ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں مصروف رہتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ2014ء میں ای او بی آئی میں بھرتی ہونے والا طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنی معمولی تنخواہ کے مقابلہ میںکراچی کے ایک پوش علاقہPECHS کے ایک بنگلہ میں بڑے ٹھاٹ باٹ سے زندگی بسر کر رہا ہے ۔اس کے زیر استعمال ای او بی آئی کے چند راشی اور بدعنوان افسران کی جانب سے تحفہ میں دی گئی ایک نئی گاڑی اور ایک نئی موٹر سائیکل بھی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اکثر و بیشتر ادارہ کے بڑے بڑے افسران خصوصا فیلڈ آپریشنز کے افسران اور ریجنل ہیڈز طاہر صدیق عرف’’ راجہ اندر آف ای او بی آئی‘‘ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس کے گھر میں بھتہ کی رقوم، تحائف اور نذرانے لے کر حاضری لگاتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ای او بی آئی میں کلیدی عہدوں پر فائزدو اعلیٰ افسران ذوالفقار علی، ایمپلائی نمبر 917704 ، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، بی اینڈ سی اسلام آباد اور ان کے دوست محمد ایوب، ایمپلائی نمبر917679 ،ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، ایڈجوکیٹنگ اتھارٹی، اسلام آباد، سی ڈی اے اسلام آباد کے ایک تعلیمی ادارہ میں ٹیچرہوا کرتے تھے، پھریہ دونوںنئی روشنی اسکول پروجیکٹ سے منسلک ہوگئے تھے۔ لیکن یہ منصوبہ ختم ہونے کے بعد ذوالفقار علی اور محمد ایوب ایک بھاری سیاسی سفارش کے ذریعہ ای او بی آئی میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اور بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے2013ء کے ڈیپوٹیشن پر تعیناتی اور ضم کئے جانے کے فیصلہ کے باوجود غیر قانونی طور پر ای او بی آئی کی ملازمت میں ضم ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شیخ نثار احمد، ایمپلائی نمبر919459 ،ریجنل ہیڈ فیصل آباد( سنٹرل )ماضی میں حامد علی خان گروپ کے ساتھ مشہور زمانہ ای ۔ ایم بی اے کیس میں ملوث رہا ہے ۔ اس متنازعہ ای۔ ایم بی اے کیس میں ملوث ہونے پر سابقہ چیئرمین نے وزارت کے تحت مکمل انکوائری کے بعد تمام ملوث فسران حامد علی خان، آصف خان، کنول ولی محمد، اختر علی، علی مراد سپیو وغیرہ کی ان کے عہدوں سے نچلے گریڈ میں تنزلی اور مشکوک ایم بی اے کی بنیاد پر گزشتہ15برسوں میں حاصل کی گئی تنخواہوں اور مراعات کی کٹوتی کا حکم دیا تھا۔ لیکن شیخ نثار احمد، چیئرمین سیکریٹیریٹ کے ڈائریکٹرکوآرڈینینشن محمد نعیم شوکت قائم خانی اور طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی ملی بھگت سے اور انہیں بھاری نذرانہ دے کر خود کو عہدہ میں تنزلی اور گزشتہ 15برسوں کے دوران حاصل کی گئی تنخواہوں اور بھاری مراعات کی کٹوتی کی سزا ئوںسے بچانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
جس کے نتیجہ میں شیخ نثار احمد، ڈائریکٹر کے عہدہ پر ترقی پانے میں بھی کامیاب رہا اور اب ریجنل ہیڈ فیصل آباد( سنٹرل) کے طاقتور اور منفعت بخش عہدہ پر فائز ہے۔ای او بی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ادارہ کے قوانین کے مطابق پر اعلیٰ تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر کسی ملازم کو حوصلہ افزائی کے لئے تعلیمی انکریمنٹ تو دیا جاسکتا ہے ۔

لیکن اس بنیاد پر سینیاریٹی نظر انداز کرکے کسی ملازم کو اگلے گریڈ میں ترقی نہیں دی جاسکتی ۔لیکن شیخ نثاراحمد کی ڈائریکٹر کے عہدہ پر ترقی اور خالد نواز کی ڈائریکٹر کے عہدہ پر ترقی ا ور پھر ایک برس کی آزمائشی مدت پوری کئے بغیر راتوں رات قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ پر ترقی( لیکن حیرت انگیز طور پرخالد نواز سرکاری ریکارڈ میں خود کو قائم مقام کے بجائے ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل ظاہر کرتا ہے) اور اسے بھی ایم بی اے کی ڈگری کے مسئلہ پر پچھلے کئی برسوں کے بھاری واجبات کی ادائیگی قانون اور اصولوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد ایوب،ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی، اسلام آباد نے اپنی لابی سے تعلق رکھنے والے شیخ نثاراحمد، ریجنل ہیڈ فیصل آباد( سنٹرل )کی ملی بھگت اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت عیدالاضحی کی رخصت پر اپنے آبائی علاقہ منچن آباد( بہاولنگر) گئے ہوئے طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو اپنی جانب سے سیر سپاٹے اور شاپنگ کرانے کی یقین دہانی اور بھاری ٹی اے ڈی اے کمانے کے مواقع فراہم کرنے کے لئے فیصل آباد کے ایک آجر محبوب فوڈز انڈسٹریزکے آڈٹ کمیشن میں شامل کروایاتھا۔شکل صورت اور اندازسے انتہائی مسکین اور بھولا بھالا دکھائی دینے والامحمد ایوب، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ای او بی آئی میں لامحدود اختیارات کا حامل افسر ہے۔

جس کی ماتحتی میں صوبہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت و بلتستان کے درجنوں ریجنل آفس آتے ہیں۔ جب کسی رجسٹرڈ آجر سے کنٹری بیووشن کی ادائیگی اور پنشنرز کی جانب سے ای او بی آئی کے ریجنل آفسوں اور اس آجر یا پنشنرزکے درمیان کوئی شکایت یا تنازعہ پیدا ہوجائے تو وہ آجر اور پنشنرز متعلقہ ایڈجوڈیکیٹنگ ا تھارٹی کے پاس اپیل کرتا ہے۔

جس پر اتھارٹی طریقہ کار کے مطابق ان اپیلوں کی متعلقہ شہر وں میں سماعت کرتی ہے۔آجران کی شکایات اور تنازعات کی صورت میں اپیلوں کی سماعت کے بعد بعض کیسوں میں ادارہ کے فیلڈ آپریشنز کے افسران پر مشتمل ایک’’ آڈٹ کمیشن‘‘ تشکیل دیا جاتا ہے ۔جو اپیل کنندہ آجران کے کھاتوں اور ریکارڈ کو چیک کرکے ای او بی آئی کے کنٹری بیوشن کے واجبات کا تعین کرتا ہے۔یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ای او بی آئی کے بعض بدعنوان اور بھتہ خور افسران اور بعض آجران میں جوڑ توڑ کے ذریعہ’’ لین دین‘‘ کے معاملات طے پاتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد ایوب، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی اسلام آباد کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ ان کیسوں کی اپیلوں کی سماعت کے موقعہ مختلف شہروں کے اپنے ہر وزٹ میں بھاری ٹی اے ڈی اے کے لالچ میں کام کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ اس مقصدکے لئے اگلا وزٹ بناکر مزید بھاری ٹی اے ڈی بھی وصول کرسکے۔ یہ سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے ،لیکن کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر محمد ایوب ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی ،اسلام آباد کے گزشتہ ایک برس کی مدت کے ٹی اے ڈی اے بلوں کی تحقیقات کی جائیں تو نہایت سنسنی خیز انکشافات سامنے آئیں گے۔ فیصل آباد کے اس آجر محبوب فوڈز انڈسٹریز کا اگرای او بی آئی کے ساتھ 10یا12لاکھ روپے کے کنٹری بیوشن کی ادائیگی کا تنازعہ ہے تو ای او بی آئی کے یہ لالچی اور بدعنوان افسران محمد ایوب،شیخ نثار احمد اور طاہر صدیق اس 10یا12لاکھ روپے کی وصولی کے نام پر اس رقم سے کئی گنا رقوم کے ہوائی جہازوں کے ٹکٹ، بڑے بڑے ہوٹلوں میں قیام،مزیدار کھانے پینے اور پھربھاری ٹی اے ڈی اے بھی وصول کریں گے۔

بتایا جاتا ہے کہ طاہر صدیق، کا ریجنل آفس فیصل آباد (سنٹرل )کے معاملات سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ایک تو وہ ایک انتہائی جونیئراور آفس کیڈر کا افسر سے ہے اوراس کا مقام تعیناتی ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی ہے۔ وہ عیدالاضحی کی چھٹیاں گزارنے اپنے گائوں واقع منچن آباد( بہاولنگر) گیا ہوا تھا۔لیکن اس دوران محمد ایوب، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اسلام آباد اور شیخ نثار احمد، ریجنل ہیڈ فیصل آباد (سنٹرل) نے اس موقعہ پر طاہر صدیق کو فیصل آباد بلاکر اور اسے محبوب فوڈز انڈسٹریز کے آڈٹ کمیشن میں شامل کرکے اپنے اختیارات کا سراسر ناجائز استعمال اور انتہائی لاقانونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور ای او بی آئی کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے اپنے محسن طاہر صدیق، کو بھرپور مالی فوائد پہنچائے ہیں۔اس کیس کی فوری تحقیقات کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ اس وقت ای او بی آئی شدید انتظامی اور مالی اور اخلاقی بحران میں مبتلا ہے۔ جس محکمہ کا نہ تو کوئی انچارج وزیر ہے، نہ بورڈ آف ٹرسٹیز اور نہ ہی کل وقتی چیئرمین۔لہذاء ای او بی آئی کے انتہائی بدعنوان ،راشی اور بھتہ خور افسران کی چاندی ہوگئی ہے اور وہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اس سنہری موقعہ سے بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں اور ملک کے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کا بلادریغ استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔

ای او بی آئی کے ملازمین نے ای او بی آئی، بورڈ آف ٹرسٹیزکے صدر اور وزارت کے سیکریٹری جناب عشرت علی سے اپیل کی ہے کہ وہ ای او بی آئی کے ان بدعنوان اور قانون شکن افسران کی ناک میں نکیل ڈالیں اور اس طاقتور ٹولہ کی جانب اختیارات کے ناجائز استعمال، لاقانونیت ،بلیک میلنگ اور پنشن فنڈ کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث اورملک کے غریب محنت کشوں کی پنشن کے نام پر قائم قومی فلاحی ادارہ ای او بی آئی کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکہ بنے ان بدعنوان اور بھتہ خور افسران کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے غریب محنت کشوں کی پنشن کے ادارہ کو ان سماج دشمن عناصر سے پاک کریں۔تاکہ ملک کے لاکھوں غریب ملازمین اور محنت کشوں کی پنشن کے لئے ایک’’ مرکز امید‘‘یعنی ای او بی آئی کی بقاء اور سلامتی کویقینی بنایا جاسکے۔

Leave a Reply