باؤنڈریز کو عبور کرنا ہو یا شکنجوں کو توڑنا۔۔۔۔ عمران خان کی کامیابی کا تصور ذہنی محکومی سے آزاد اچھوتی اور حقیقت پر مبنی سوچ سے عبارت

وزیراعظم عمران خان کا کرکٹ کے میدان میں باؤنڈریز کو عبور کرنے سے لے کر وزارت اعظمیٰ کا منصب سنبھالنے تک کامیابی کا تصور ذہنی محکومی سے آزاد اچھوتی اور حقیقت پر مبنی سوچ رہا ہے ہے،

ماضی میں عمران خان کرکٹ کے سنہری دور میں پاکستانی ٹیم کے ایک ایسے نوجوان کھلاڑی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے جو مغربی کرکٹرز کی شان وشوکت سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ہمیشہ اپنی بہترین کارکردگی پر انحصار کیا۔

وزیراعظم عمران خان کئی مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے 16 سال کی عمر میں اپنی فرسٹ کلاس کرکٹ شروع کی اور اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے اس موقف سے کبھی اتفاق نہیں کیا کہ مغربی ٹیموں کو شکست نہیں دی جاسکتی، انہوں نے پاکستانی ساتھی کھلاڑیوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کہ وہ ایسی ذہنی کیفیت سے نکل کر خود پر یقین کریں۔

اسی جذبے کے تحت پاکستان کرکٹ ٹیم نے اپنے کپتان عمران خان کی قیادت میں1992 کا ورلڈ کپ جیتا حالانکہ اس وقت ناقدین نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو اوسط درجے کی ٹیم قرار دیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان سیاست میں بھی اسی ذہنی پختگی، عزم اور ولولے سے اپنا سرگرم کردار ادا کررہے ہیں۔ سماجی تفاوت کے چیلنجز کا سامنا کرنے والی پاکستانی قوم کو وہ بطور وزیر اعظم یہ مشورہ دیتے رہے ہیں کہ وہ اپنے ذہنوں کو دوسری ثقافتوں کی ذہنی غلامی سے آزاد کریں۔ انہوں نے حال ہی میں ملکی تاریخ کے پہلے یکساں قومی نصاب کے اجراءکے موقع پر کہا کہ محکوم ذہن کبھی بھی کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتا، صرف جدت پر مبنی اور اصل سوچ ہی ان کو اعزازات سے ہمکنار کرسکتی ہے۔

یکساں قومی نصاب وزیر اعظم عمران خان کے خواب کی تکمیل ہے، ان کی جماعت کا دو دہائیوں سے یہ منشور رہا ہے کہ قوم کو مشترکہ اخلاقیات اور اخلاقی قدروں پر متحد کیا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان ایسے تعلیمی نظام کو فروغ دینے کے حق میں نہیں ہیں جس کا مقصد کمتری یا برتری کی بنیاد پر مختلف سماجی طبقات کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا کرنا ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ انگریزی زبان سیکھنے کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ ایک سٹیٹس سمبل بن گئی ہے۔ عمران خان کا یہ کہنا ہے کہ ذہنی غلامی کی زنجیروں کو توڑنا زیادہ مشکل ہے اور ہم قوم کو ایسی ذہنی کیفیت سے نکالنے کے لئے پرعزم ہیں، کوئی بھی قوم اس وقت تک اعلی منازل طے نہیں کرسکتی جب تک وہ اپنی حقیقی اقدار اور اخلاق پر انحصار نہ کرے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے جس طرح ہمارا نظام تیار ہوا، ہم انگریزی کو صرف اعلیٰ تعلیم کے لئے زبان کے طور پر نہیں سیکھتے بلکہ ہم اس کے بجائے پوری ثقافت کو اپناتے ہیں جو انتہائی تشویشناک ہے۔

وزیر اعظم کا یہ موقف ہے کہ دوسروں کی ثقافت کو اپنانا ذہنی غلامی کا باعث بن سکتا ہے جو حقیقی سوچ اور جدت کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، جب آپ کسی کی ثقافت اپناتے ہیں تو آپ اسے اعلیٰ سمجھتے ہیں اور اس کے غلام بن جاتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ ذہنی غلامی کے ایک ایسے نظام پر منتج ہوتا ہے جو جسمانی غلامی سے بھی بدتر ہے، کسی کی نقل کرنا صرف نقل ہوسکتی ہے اور اسطرح وہ ایک اچھا غلام بن جاتا ہے، جو صرف روایات کو اپنانے اور نقل کرنے کے لئے ہوتا ہے اور وہ اس سے کبھی کچھ زیادہ حاصل نہیں کرسکتا۔

وزیر اعظم عمران خان نے قومی نصاب کے اجراءکی تقریب کے موقع پر افغانستان میں رونما ہونے والی صورتحال کا ذکر کیا تھا، ان کا اصل میں یہ کہنا تھا کہ صرف جسمانی غلامی کا خاتمہ کافی نہیں بلکہ ذہنی غلامی سے نکلنا زیادہ اہم ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ حال ہی میں افغانستان میں غلامی کی زنجیریں ٹوٹی ہیں تاہم انہوں نے یہ بات واضح کردی تھی کہ ذہنی غلامی کی زنجیروں کو توڑنا مشکل ترین کام ہے، انہوں نے اس بات کا اظہار افغان قوم کی تعلیم تک رسائی کی اہمیت اور دنیا کے سامنے ان کی ذہنی کیفیت کے پیش نظر کیا تھا۔


یہ ایک حقیقت ہے کہ خطے کے مسائل کی ایک بنیادی وجہ سستی تعلیم تک رسائی نہ ہونا ہے، کسی قوم اور پورے خطے کے لیے تعلیم کے بغیر خود کو آگے بڑھانا ناممکن ہے۔ عالمی شہرت یافتہ افریقی رہنماءنیلسن منڈیلا نے ایک بار کہا تھا کہ تعلیم دنیا کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے جسے دنیا کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ذہنی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے بارے میں جو بیان دیا وہ خطے کے کم ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کے لیے رہنمائی ہے کہ وہ خود پر یقین رکھتے ہوئے ترقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں۔خطے کی بیڑیوں کی کلید یقیناً تعلیم ہے

لیکن بقول وزیراعظم عمران خان، ذہنی زنجیروں کو ایک بار اور ہمیشہ کے لئے توڑنے اور خود سے ان کوآزاد کرنے کےلئے اصل نصب العین اس کا کلید بردار ہونے کے بارے میں ہے۔

Leave a Reply