وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے ایک ذیلی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) میں ڈیپوٹیشن افسران نے ازخود اپنی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ اور اعزازیوں کی منظوری دے کر لوٹ سیل لگادی۔

ای او بی آئی جو بنیادی طور پر ملک کے غریب محنت کشوں، معذور ملازمین اور ان کے پسماندگان کو پنشن فراہم کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا ۔ لیکن ادارہ کے بدعنوان انتظامیہ اور کرپٹ فیلڈ افسران کی نااہلی اور سنگین بدعنوانیوں کے باعث ملک کے محنت کش طبقہ کی اکثریت نہ تو ای او بی آئی میں رجسٹر ہوسکی اور نہ ہی اپنی پنشن کی حقدار ہو سکی ۔ لیکن اس دوران مزدوروں کے حقوق کے نام پر ای او بی آئی کے بدعنوان اور مزدور دشمن اعلیٰ افسران کے وارے نیارے ہو گئے ہیں ۔

جاری نوٹیفیکیشن کا عکس

وفاقی حکومت کی جانب سے ان بدعنوان افسران سے کسی قسم کی بازپرس نہ ہونے اور احتساب کے عمل میں تاخیر کے باعث ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر تعینات طاقتور اور بدعنوان اعلیٰ افسران کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال، ذاتی مفادات کے حصول، لاقانونیت اور محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے لوٹ مار عروج پر پہنچ گئی ہے ۔

رپورٹ : طاہر تنولی

تفصیلات کے مطابق 17 اگست کو EOBI کے ہیڈ آفس کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں ادارہ کے تمام امور یکدم روک کر ڈیپوٹیشن پر تعینات خاتون قائم مقام چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کی خصوصی نگرانی میں ذاتی مفادات کے حصول کے لئے ایک ساتھ کئی اہم نوٹیفیکیشنز کا اجراء کیا گیا ہے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ شازیہ رضوی خود کو بیماری کے باعث چند روز سے اسپتال میں زیر علاج ظاہر کر رہی تھی، لیکن اس دن وہ اپنے ایک خاص مقصد کے حصول کے لئے اسپتال سے اٹھ کر دفتر آگئیں اور تمام نوٹیفیکیشنز کے اجراء کے لئے پورے دن دفتر میں موجود رہیں ۔

شازیہ رضوی کے خصوصی احکامات اور نگرانی میں ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں ان کی انتہائی چہیتی لیکن متنازعہ خاتون افسر میڈم نزہت اقبال، قائم مقام ڈائریکٹر ( جو خود بھی بیماری کے بہانے کافی عرصہ بلا اطلاع غائب رہنے کے بعد اس دن خاص طور سے اپنی کارکردگی دکھانے ڈیوٹی پر آئی تھی اور سرکاری ریکارڈ میں خود کو مکمل ڈائریکٹر ظاہر کرتی ہے ۔ ) کے دستخطوں سے ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے 123 ویں اجلاس منعقدہ 29 اور 30 جولائی، اسلام آباد میں ادارہ کے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ اور اعزازیئے کی ادائیگی کے لئے کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے کئی نوٹیفکیشنز جاری کئے گئے ۔ لیکن اس کی آڑ میں ڈیپوٹیشن انتظامیہ نے ذاتی مفادات بھی حاصل کرلئے ۔

تفصیلات کے مطابق شازیہ رضوی نے سب سے پہلا اور دوسرا نوٹیفیکیشن خود سمیت ڈیپوٹیشن پر تعینات چند اعلیٰ افسران کو فائدہ پہنچانے کے لئے 25 فیصد تفاوتی ریڈکشن الاؤنس کا جاری کرایا ۔

ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن نمبر203/2021 کے تحت ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی منظوری کے بغیر شازیہ رضوی (گریڈ 20) نے اپنے اختیارات کا بھرپور ناجائز استعمال اور انتہائی لاقانونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے از خود اپنے لئے اور ڈیپوٹیشن پر تعینات ایک اور خاتون افسر ناصرہ پروین خان، فنانشل ایڈوائزر اور انوسٹمنٹ ایڈوائزر ( گریڈ 20) کو بھاری مالی فوائد پہنچانے کے لئے 25 فیصد تفاوتی ریڈکشن الاؤنسDisperity) Reduction Allowance) کی منظوری دیدی ۔

واضح رہے کہ وزارت خزانہ کے 8 جولائی کے احکامات کی روشنی میں وفاقی سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان اور بورڈ کے صدر عشرت علی کی صدارت میں او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاس منعقدہ 29-30 جولائی اسلام آباد میں ایجنڈا آئٹم نمبر 12 کے تحت اس نئے تفاوتی ریڈکشن الاؤنس کی منظوری دینے کے بجائے اس معاملہ کا ہر پہلو سے جائزہ لینے کے لئے اسے بورڈ کی ایک ذیلی کمیٹی، ہیومن ریسورس کمیٹی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ تاکہ ہیومن ریسورس کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں بورڈ کے آئندہ اجلاس میں اس پر غور کیا جاسکے۔

لیکن ای او بی آئی کی قائم مقام چیئرمین شازیہ رضوی نے اپنے اختیارات کا بھرپور ناجائز استعمال کرتے ہوئے اور انتہائی لاقانونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلیٰ سطحی بورڈ آف ٹرسٹیز کے فیصلہ کی دھجیاں بکھیر دیں اور ازخود اپنے لئے اور فنانشل ایڈوائزر ناصرہ پروین خان کو نوازنے کے لئے 25 فیصد تفاوتی ریڈکشن الاؤنس کی منظوری دے کر خود کو قانون سے بالاتر ثابت کردیا ہے ۔ اس اضافہ کا اطلاق یکم جولائی 2021 سے کیا جائے گا ۔
اسی طرح دوسرے نوٹیفیکیشن نمبر204/2021 کے مطابق بھی ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر تعینات گریڈ ایک تا 19 کے دیگر ساتھی ڈیپوٹیشن افسران کو بھی مالی فوائد پہنچانے کے لئے ان کی تنخواہوں میں بھی 25 فیصد تفاوتی ریڈکشن الاؤنس کی منظوری بھی دیدی گئی ۔ جس کا اطلاق بھی یکم جولائی 2021 سے کیا جائے گا ۔

ان دونوں نوٹیفیکیشنز کے اجراء سے ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر تعینات اعلیٰ افسران کی جانب سے ذاتی مفادات، اختیارات کے ناجائز استعمال اور لاقانونیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس 25 فیصد تفاوتی ریڈکشن الاؤنس کی منظوری سے ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات اعلیٰ افسران شازیہ رضوی، ناصرہ پروین خان، ظفر علی بزدار، ڈائریکٹر بی اینڈ سی اسلام آباد اور ثاقب حسین، اسسٹنٹ ڈائریکٹر آڈٹ ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کو خاصا مالی فائدہ پہنچے گا۔ جبکہ وزارت کے نئے سیکریٹری عشرت علی نے پچھلے دنوں خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات دو اعلیٰ افسران محمد اعجاز الحق ڈائریکٹر جنرل آپریشنز نارتھ اور میاں عثمان علی شاہ پی ایس او برائے معاون خصوصی زلفی بخاری کی ای او بی آئی سے چھٹی کرکے ان کے اصل محکموں میں واپس بھیج دیا ہے ۔

بتایا جاتا ہے کہ شازیہ رضوی، ظفر علی بزدار اور ثاقب حسین ای او بی آئی کے سابق اور انتہائی بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کے خاص معتمد بتائے جاتے ہیں۔ جو اب بھی ای او بی آئی میں اظہر حمید کے مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شازیہ رضوی ایمپلائی نمبر930701 قائم مقام چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی کل تنخواہ 328,067 روپے ہے۔ جن میں بنیادی تنخواہ 132,230 روپے، ڈیپوٹیشن پے 12,000روپے، اسپیشل الاؤنس 23,345 روپے، ہیڈ آفس الاؤنس 13,223 روپے، کوالیفکیشن پے3,000 روپے، سینئر پوسٹ الاؤنس 1,250 روپے ہے ۔جبکہ انہیں دیگر الاؤنسز اور پرکشش مراعات اس کے علاوہ ہیں ۔ جس میں اب یکم جولائی سے 25 فیصد تفاوتی ریڈکشن الاؤنس اور 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس کا اضافہ بھی شامل ہوگیا ہے ۔

اسی طرح ناصرہ پروین خان ایمپلائی نمبر 930665، جو بیک وقت فنانشل ایڈوائزر اور انوسٹمنٹ ایڈوائزر کے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ ان کی کل تنخواہ308,979 روپے ہے۔ جن میں بنیادی تنخواہ 118,700 روپے، ڈیپوٹیشن پے 12,000 روپے،اسپیشل الاؤنس 25,000 روپے، ہیڈ آفس الاؤنس 11,870 روپے، کوالیفکیشن پے 1500 روپے، سینئر پوسٹ الاؤنس 1250 روپے ہے ۔ جبکہ دیگر الاؤنسز اور پرکشش مراعات اس کے علاوہ ہیں ۔جس میں اب یکم جولائی سے 25 فیصد تفاوتی ریڈکشن الاؤنس اور 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس کا اضافہ بھی شامل ہوگیا ہے ۔

جبکہ ڈیپوٹیشن انتظامیہ نے بدترین امتیازی سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور جان بوجھ کر شدید مہنگائی کی چکی میں پسنے والے ای او بی آئی کے 800 مستقل افسران اور ملازمین کو 25 فیصد تفاوتی ریڈکشن الاؤنس سے محروم رکھا ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ موجودہ انتظامیہ نے ادارہ میں 25 اور 30 برسوں سے خدمات انجام دینے والے مستقل افسران اور اسٹاف ملازمین کے پیٹ پر لات مارتے ہوئے2011 ء سے انتظامیہ اور بورڈ آف ٹرسٹیز کی منظوری سے بونسوں کے عوض ملنے والے اسپیشل الاؤنس کو بھی رواں سال فروری سے بند کردیا ہے۔ جبکہ ادارہ کے مستقل افسران اور اسٹاف ملازمین انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور نااہلی سے پہلے ہی 2017ء کے نظر ثانی شدہ پے اسکیل اور گزشتہ برسوں کے ایڈہاک الاؤنسز سے بھی محروم چلے آرہے ہیں۔ جس کے باعث 5 برس پرانی تنخواہوں اور شدید ترین مہنگائی کے باعث ای او بی آئی کے پرانے افسران اور اسٹاف ملازمین کی کمر ٹوٹ گئی ہے ۔ اس مالی بحران کے باعث بہت سے ملازمین کے بچوں کے شادی بیاہ، بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے فیسوں کی ادائیگی 5 برسوں سے التواء کا شکار ہے ۔جبکہ بہت سے ملازمین سخت مقروض بھی ہوگئے ہیں۔ ڈیپوٹیشن انتظامیہ کے افسران کے لئے تنخواہوں اور پرکشش مراعات اور سہولیات کی بھرمار اور اس کے برعکس ادارہ کے مستقل ملازمین کو ان کے جائز حقوق سے محروم اور نظر انداز کرنے کے باعث ای او بی آئی کے مستقل ملازمین میں بد دلی اور احساس محرومی کا ایک لاوا سا پک رہا ہے ۔

تیسرے نوٹیفیکیشن نمبر 205/2021 کے تحت بورڈ آف ٹرسٹیز کے 123 ویں اجلاس میں کئے گئے فیصلہ کی روشنی میں ای او بی آئی کے اپنے 550 پنشنرز اور ان کے پسماندگان کے لئے پنشن میں 10 فیصد اضافہ کی منظوری دی گئی ہے ۔ جس کا اطلاق بھی یکم جولائی2021 سے ہوگا۔

چوتھے نوٹیفیکیشن نمبر 206/2021 کے مطابق بورڈ آف ٹرسٹیز کے 123 ویں اجلاس کے فیصلہ کی روشنی میں ای او بی آئی کے ملازمین کے لئے 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس کی منظوری دی گئی ہے ۔ جس کا اطلاق بھی یکم جولائی2021 سے کیا جائے گا ۔

پانچویں نوٹیفیکیشن نمبر 207/2021 کے مطابق ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے 123 ویں اجلاس میں ای او بی آئی کی جانب سے حالیہ مالی سال کے دوران رجسٹر شدہ آجروں سے ریکارڈ کنٹری بیوشن کی وصولی اور نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر ادارہ کے تمام مستقل ملازمین کے لئے حوصلہ افزائی کے طور پر ایک ماہ کی بنیادی تنخواہ کے مساوی اعزازیہ کی منظوری دی تھی ۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق ادارہ کے معطل شدہ ملازمین پر اس حکم نامہ کا اطلاق نہیں ہوگا۔

لیکن حیرت انگیز طور پر ای او بی آئی کی ڈیپوٹیشن انتظامیہ کے اعلیٰ افسران نے جن کا شمار قوانین کے مطابق ای او بی آئی کے ملازمین میں نہیں کیا جاتا ۔ قوانین کے مطابق اس اعزازیہ کا اطلاق صرف ادارہ کے مستقل ملازمین پر ہوتا ہے۔

لیکن یہاں بھی ان مفاد پرست افسران نے قانونی طور پر اس اعزازیہ کا حقدار نہ ہونے کے باوجود مال مفت دل بے رحم کی طرح اس اعزازیہ کی بھی اپنے لئے ازخود منظوری دیدی ہے ۔

بتایا جاتا ہے کہ کہ ای او بی آئی میں تعینات ڈیپوٹیشن انتظامیہ کے اعلیٰ افسران صرف ذاتی فوائد بٹورنے کے خاطر اور انتہائی بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی خود کو سول سرونٹ اور کبھی ای او بی آئی کا پبلک سرونٹ ظاہر کرکے دوہرے اور تہرے فوائد سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ یہ طاقتور ڈیپوٹیشن افسران ہر جائز اور ناجائز ذریعہ استعمال کرکے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ شازیہ رضوی کے ادارہ میں بیک وقت دو انتہائی کلیدی عہدوں قائم مقام چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ پر فائز ہونے کے باوجود ادارہ کے نہایت اہم امور جن میں ملازمین کی کئی برسوں سے رکی ہوئی تنخواہیں، کئی عشروں سے رکی ہوئی جائز ترقیوں اور ادارہ کے دوران ملازمت انتقال کرجانے والے ملازمین کے 50 یتیم اور بے آسرا بچوں کی بھرتیوں، ادارہ کے اہم منصوبوں کی پروکیورمنٹ کے لئے پرچیز کمیٹی کے اجلاس کے انعقاد اور ادارہ کے دیگر اہم معاملات میں اکثر اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوئے اور اپنے محدود اختیارات کا رونا روتی نظر آتی ہیں۔ لیکن اس موقع پر اپنی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کے لئے ان کی خصوصی دلچسپی اور چابک دستی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔ اس موقع پر شازیہ رضوی اپنی بیماری اسپتال میں ہی چھوڑ کر دفتر چلی آئیں اور چند گھنٹوں کے اندر اندر خود اپنے اور دیگر ڈیپوٹیشن افسران کے لئے زبردست مالی فوائد پہنچانے کی خاطر یہ نوٹیفیکیشنز جاری کراکے بدترین قانون شکنی کی مرتکب ہوئی ہیں ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شازیہ رضوی ای او بی آئی میں آنے سے قبل مالی بدعنوانیوں کے الزامات میں NAB ریفرنس میں نامزد ہے جس کے باعث ان کی اگلے گریڈ میں ترقی بھی رکی ہوئی ہے ۔ انہوں نے پچھلے سال کراچی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہنے کی خاطر اپنے بھاری اثرورسوخ کے ذریعہ اپنی تعیناتی ای او بی آئی ہیڈ آفس کراچی میں کرانے میں کامیاب ہو گئی تھیں ۔ لیکن ای او بی آئی میں ایک برس کے عرصہ کے دوران انہوں نے اس قدر اہم عہدہ پر رہتے ہوئے بھی نہ تو ای او بی آئی کے امور میں کوئی دلچسپی ظاہر کی اور نہ ہی کوئی قابل ذکر امور انجام دیئے ۔ بلکہ شازیہ رضوی ای او بی آئی کے لئے ایک مردم بیزار اور مزاج دار افسر ثابت ہوئی ہیں ۔ جو کووڈ19 کے دوران چہرہ پر ماسک لگائے اور دونوں ہاتھوں پر سرجیکل دستانے چڑھائے ادارہ کے ملازمین سے حقارت اور چھوت چھات کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ ان کی دفتر آمد اور روانگی کے موقع پر ان کا منہ چڑھا نائب قاصد شیراز ہٹو بچوں کی آوازیں لگا کر ان کے لئے راستہ بناتا ہے اور لفٹ خالی کراتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شیراز ای او بی آئی کے بجائے ادارہ کے ذیلی ادارہ PRIMACO اسلام آباد کا کنٹریکٹ پر بھرتی شدہ آفس بوائے ہے ۔ جس نے ادارہ کے بعض افسران کی ملی بھگت سے خلاف ضابطہ طور پر ای او بی آئی ہیڈ آفس میں نائب قاصد کی حیثیت سے اپنی تعیناتی کرائی ہوئی ہے اور اپنی منفی فطرت کے باعث معمولی جیب خرچی کے عوض اور ان کی خوشنودی کی غرض سے شازیہ رضوی،خالد نواز، ڈی ڈی جی اور طاہر صدیق اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور دیگر افسران کے لئے پرانے افسران اور اسٹاف ملازمین اور ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی مخبری کے فرائض انجام دیتا ہے اور انہیں پل پل کی خبریں پہنچاتا ہے ۔ جس کے باعث ایچ آر ڈپارٹمنٹ کا ماحول انتہائی خراب ہوگیا ہے ۔ شازیہ رضوی شیراز پر بڑی مہربان ہے اور وہ اس کے گھریلو اور آؤٹ ڈور کام بھی انجام دیتا ہے ۔ شازیہ رضوی نے پچھلے دنوں شیراز کو جی اے ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس سے ایک موٹر سائیکل دلانے کا وعدہ بھی کیا تھا ۔ جو ادارہ کے بعض دیانتدار افسران کی مزاحمت کے باعث پورا نہ ہوسکا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس موقع پر ڈیپوٹیشن پر تعینات انتظامیہ کے مفاد پرست افسران نے ایک بار پھر دوہرا معیار اپناتے ہوئے خود اپنے لئے تنخواہوں میں 10 فیصد اور 25 فیصد اضافہ اور ایک ماہ کی تنخواہوں کے مساوی اعزازیہ حاصل کرلیا ہے اور پورے مالی سال کے دوران تندہی اور لگن سے کنٹری بیوشن کی وصولی اور پنشن کی ادائیگی کا مقررہ ہدف حاصل کرنے والے اور ملک بھر کے ریجنل آفسوں میں بزرگ پنشنرز کی خدمت میں پیش پیش ای او بی آئی کے مستقل افسران اور اسٹاف ملازمین کے لئے صرف ایک عدد اعزازیہ اور حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس کا لالی پاپ دے کر بہلا دیا گیا ہے۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ای او بی آئی اگرچہ ایک خودمختار ادارہ ہے اور اس کی حیثیت ایک ٹرسٹ کا درجہ رکھتی ہے ۔ اسی لئے ای او بی آئی کو انکم ٹیکس سے بھی استثناء حاصل ہے ۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس قومی فلاحی ادارہ میں بڑے پیمانے پر وفاقی بیوروکریسی سرایت کر گئی ہے ۔ ای او بی آئی میں ڈائریکٹر جنرل ہیومن ریسورسز ڈیولپمنٹ ہیڈ آفس اور ڈائریکٹر جنرل آپریشنز (ساؤتھ) کراچی اور (نارتھ) لاہور ای او بی آئی کے سینئر افسران کے لئے مختص اور ان کی پروموشن سیٹیں ہیں ۔ جہاں وفاقی حکومت کے بعض بدعنوان اور مفاد پرست اعلیٰ افسران ادارہ کے ان سینئر اور تجربہ کار افسران کا حق مارکر اپنے اثرورسوخ کے ذریعہ آکر قابض ہو جاتے ہیں اور پھر کچھ وقت گزار کر اور ای او بی آئی کے پنشن فنڈ اور وسائل کی بلا دریغ لوٹ مار اور لوٹ کھسوٹ کرکے اپنے اصل محکموں میں واپس چلے جاتے ہیں۔

ماضی میں بھی ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر آکر تعینات ہونے والے با اثر اور بد عنوان اعلیٰ افسران سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل، انوسٹمنٹ ایڈوائزر واحد خورشید کنور، فنانشل ایڈوائزرز امتیاز احمد اور نجم الثاقب صدیقی اور اسی قماش کے دیگر افسران اس وقت کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی ملی بھگت سے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کی سرمایہ کاری کے نام پر ملک کے مختلف شہروں کراچی، سکھر، لاہور، اسلام آباد، چکوال میں نہایت ارزاں قیمتوں کی 18 اراضیوں اور املاک کو بھاری کمیشن اور نذرانوں کے عوض کروڑوں اور اربوں روپے میں خریدنے میں ملوث تھے ۔

جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2013 میں اس ای او بی آئی میگا لینڈ اسکینڈل کا ازخود نوٹس لے کر ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا ۔ جس پر ایف آئی اے نے اس اسکینڈل میں ملوث تمام افسران کے خلاف تحقیقات کرکے چالان عدالت میں جمع کرادیا تھا۔ یہ کیس ای او بی آئی کی انتظامیہ، بورڈ آف ٹرسٹیز اور وزارت کی عدم دلچسپی کے باعث 8 برسوں کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود تاحال کسی فیصلہ کا منتظر ہے ۔

ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ طور پر تعینات ان راشی اور انتہائی بدعنوان اعلیٰ افسران کی جانب سے اس میگا اسکینڈل کے ذریعہ ای او بی آئی کے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کو 46 ارب روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت کے نئے سیکریٹری اور ای او بی آئی کے بورڈ کے صدر عشرت علی نے اپنے عہدہ کا چارج سنبھالنے کے بعد نیک جذبہ سے مختصر عرصہ میں ای او بی آئی کو بدعنوان اور نااہل افسران سے پاک کرنے اور اس قومی فلاحی ادارہ میں اصلاحات کے لئے چند غیر معمولی اقدامات کئے ہیں ۔ جسے ای او بی آئی کے ملازمین نے سراہا ہے ۔

انہیں ای او بی آئی کے ان خود سر، بدعنوان اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے ان اعلیٰ افسران قائم مقام چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی، ڈائریکٹر کوآرڈینیشن اور ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن محمد نعیم شوکت قائم خانی، قائم مقام ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ میڈم نزہت اقبال، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر طاہر صدیق، ریجنل ہیڈ مزمل کامل ملک( بہاولپور اور ساہیوال کرپشن فیم ) اور ریجنل ہیڈ مبشر رسول( فیصل آباد کرپشن فیم ) ، نوید فیاض قائم خانی اور دیگر بدعنوان افسران کے خلاف جلد از جلد تیز اور شفاف تحقیقات کراکے ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے ۔ تاکہ ملک کے لاکھوں محنت کشوں اور ان کے پسماندگان کے لئے قائم پنشن کے قومی ادارہ EOBI کی بقاء و سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے۔

Leave a Reply