شہری اداروں کو کرپشن کی دیمک لگ چکی ،سندھ حکومت کی ناکامی کے بعدوفاقی حکومت کراچی میں پانی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کر رہی ہے، فر دوس شمیم نقوی

پاکستان تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی سید فردوس شمیم نقوی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ 2018کے عام انتخابات میںرکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے ، ستمبر 2018 تا جنوری 2021 تک سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی ذمہ داریاں انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیں۔آپ 1996سے پارٹی کیساتھ وابستہ ، پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے رکن ہیں،آپ کو پارٹی کی منشور کمیٹی برائے انتخابات 2013کی سربراہی کا بھی اعزاز حاصل ہے،گذشتہ دنوں ان سے ملاقات میںہونے والی گفتگو ۔

ہمارے سوال کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے پر فردوس شمیم نقوی کا کہنا تھا میری نظر میں کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کی قلت ہے، اس شہر کی آبادی بڑھنے کے ساتھ پانی کی قلت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اگر اس مسئلہ کو فوری طور پر حل نہیں کرایا گیا توپانی کی قلت کی وجہ سے یہ خدشہ پیدا ہو چلا ہے کہ شہر فسادات کی لپیٹ میں بھی آسکتا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ پانی کی قلت کی وجہ سے بھارت اور جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں بھی بڑے پیمانے پر واٹر رائٹس (آبی فسادات) ہو چکے ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں پانی کے مسئلہ پر جنگیں بھی ہو سکتی ہیں۔ کراچی کے شہریوں کیلئے پانی کی مطلوبہ اوسط ضرورت 30گیلن فی کس ہے، صنعتوں، پارکس ، اور فائر بریگیڈ سمیت کراچی میں پانی کی مجموعی ضرورت ایک ہزار ملین گیلن یو میہ ہے، جبکہ فراہمی 500ملین گیلن یومیہ ہے، جس میں لیکیج اور چوری بھی شامل ہے، کراچی میں ضرورت کا 200ملین گیلن بورنگ کے ذریعہ زیر زمین سے حاصل کیا جاتا ہے، اس وقت کراچی میں پانی کی مجموعی کمی 300ملین گیلن یومیہ ہے۔ کراچی کیلئے جو پانی دستیاب ہے ،واٹر بورڈ کی جانب سے اس کی منصفانہ تقسیم بھی نہیں کی جاتی ہے، کچھ علاقوں میں لان میں بنے سوئمنگ پول پانی سے بھر ے ہیں، جبکہ کہیں پانی ہفتہ میں ایک دن، کہیں لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کے شہری آئے دن بالخصوص موسم گرما میں شہری پانی کی قلت کے حوالے سے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔اگر یہی صورتحال برقرار رہی اور شہر میںپانی کی فراہمی شرح نہیں بڑھائی گئی تو اس بات کا خدشہ ہے کہ کراچی کسی بھی وقت آبی فسادات کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔


واٹر بورڈ کی کار کردگی سے کراچی کا کوئی بھی شہری خوش نہیں ہے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ناقص کار کردگی کی بنیادی وجہ سندھ حکومت کی کرپشن ہے، واٹر بورڈ ہو یا کوئی اور ادراہ جس میں کرپشن کی دیمک لگ جاتی ہے، وہ تباہ اور برباد ہوجاتاہے۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ناقص کار کردگی کے باعث ماحولیات کے ساتھ بھی بڑا ظلم ہورہا ہے، جسکی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی ۔کراچی شہر اور صنعتوں کا 600ملین گیلن سیوریج کا پانی سمندر میں جارہا ہے ،جس سے نہ صرف سمندر آلودگی بڑھ رہی ہے بلکہ آبی حیات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔


کراچی میں پانی قلت دور کر نے کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے جو اقدامات کئے جارہے ہیں، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فردوس شمیم نقوی کا کہنا تھا کہ وفاق نے کراچی کی ترقی، مسائل کےحل کیلئے ایک پیکیج کا اعلان کیا ہے ،سندھ حکومت کی جانب سے شہریوں کو ملنے والے پانی میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں کیا ہے، کے فور منصوبہ طویل عرصہ سے زیر التوا ہے، اب وفاق نے اس منصوبہ کو مکمل کرنے کی ذمہ داری واپڈا کو دی ہے، کے فور پروجیکٹ پر 2007میں کام کا آغاز ہوا تھا ،اس کی لاگت کا تخمینہ 12 ارب روپے تھا، اسے ایم ایم عثمانی نے ڈیزائن کیا تھا، جسے بعد ازاں نیسپاک نےمسترد کر دیا تھا، اب واپڈا نے بھی اسے مسترد کر دیا ہے، سندھ حکومت نے 2016 میں اس پر کنسٹرکشن شروع کی، اس وقت اسکی تکمیلی لاگت کا تخمینہ 25ارب روپے ہوگئی تھی، اب جب وفاق نے اس پروجیکٹ کو اپنے ہاتھ میں لیا تو اس کی لاگت 150ارب روپے تک پہنچ گئی ہے، یہ سندھ حکومت کی نا اہلی اور لا پروائی کا شاخسانہ ہے۔ انہوں بتایا کہ کے فور منصوبہ کے دو حصے ہیں، وفاق کینجھر لیک سے پانی کراچی لائے گا، پھر پانی تین بڑے فلٹر پلانٹس میں جائیگا، پانی کی تقسیم کی ذمہ دار سندھ حکومت ہوگی۔ کے فور پروجیکٹ وفاق کے تحت اس سال کے اواخر یا اگلے سال کے اوائل میں شروع کر دیا جائیگا، جسے واپڈا دو سال میں مکمل کرے گا۔ اس بعد پانی شہریوں کو فراہم کرنا کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی زمہ داری ہوگی۔


ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ سنگین ہو گیا ہے،کراچی کے ٹرانسپورٹ سسٹم کی جب بھی بات ہوتی ہے، سب سے پہلا سوال گرین لائن پس پروجیکٹ کا ذکر ہوتا ہے، تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ وفاق اپنے حصے کا کام مکمل کر چکا ہے، سندھ حکومت کی درخواست پر اسے وسعت دینے کیلئے پروجیکٹ ری اسٹڈی کیا، لیکن اسے ٹاور تک لے جانا ممکن نہیں، کیونکہ کے ایم سی ہیڈ آفس سے آگے سڑک کی چوڑائی کم ہے اور تاریخی و قدیم عمارتیں بھی واقع ہیں۔ زیر زمین سڑک کو آگے لے جانے میں بہت لاگت اور دوسرے مسائل بھی پیدا ہونگے ۔ تاہم سابق کمشنر کراچی نے نمائش چورنگی سے ٹاور تک ٹرام چلانے کی تجویز پیش کی تھی جسکا جائزہ لیا جارہا ہے۔ گرین لائن پروجیکٹ کے حوالے سے سندھ حکومت کے ذمہ تین کام تھے، انہیں اورنج لائن بنانی تھی، جو بنارس کالونی سے بورڈ آفس تک تھی، اس ساڑھے چار کلو میٹر سڑک کی تکمیل میں سندھ حکومت نے 6سال کا عرصہ لگا دیا،دوسری ذمہ داری بسیں سندھ حکومت کو لے کر آنا تھیں، جو وزراء کے مسلسل اعلانات اور وعدوں کے باوجود اب تک نہیں آ سکی ہیں، تیسرا کام ان بسوں کیلئے آپریٹنگ سسٹم وضع کرنا تھا۔لیکن سندھ حکومت نے کراچی میں ٹرانسپورٹ سسٹم بہتر بنانے کیلئے کوئی کام نہیں کیا، لہذا وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ یہ کام بھی سندھ حکومت سے لے لیا جائے ۔ مجھے توقع ہے کہ کراچی میں اس سال اکتوبر تک گرین لائن بس کا آغاز ہو جائیگا۔ گرین لائن بسوں کے ذریعہ یومیہ تین لاکھ 70ہزار لوگ سفر کر سکیں گے۔


سوال، کراچی میں فوری طور پر بسیں چلانے کیلئے وفاقی حکومت نے کیا انتظامات کئے ہیں؟؟


جواب، امید کی جاتی ہے کہ گرین لائن منصوبے کی80بسیں چین سے جلد کراچی پہنچ جائیں گی۔ میری اطلاعات کے مطابق گرین لائن منصوبے کی بسیں چین کی بندرگاہ تیانجن کی جانب روانہ کر دی گئی ہیں۔ دو بڑے بحری جہازوں پر 80 بسیں کراچی لائی جائینگی۔ یہ بحری جہاز تیانجن بندرگاہ سے رواں ماہ اگست کے وسط تک نکل جائیں گے اور امید ہے کہ بسیں بہت جلد کراچی پورٹ پہنچ جائیں گی۔اور ضروری کارروائیوں کے بعد یہ بسیں کراچی کی سڑکوں پر چلنا شروع ہوجائینگی، ان بسوں کے سڑکوں پر آجانے سے شہریوں کو ٹرانسپورٹ کے حوالے سے قدرے ریلیف ملے گا۔ یہاں میں یہ زکر کرنا چاہوں گا کہ صوبائی وزراء ناصر حسین شاہ اور اویس شاہ نے بھی کراچی مین جلد دو،دو سو بسیں لانے کے وعدے کئے تھے، یہ تمام وعدے بھی ان کے بزرگوں کی طرح شہید ہوگئے۔


سوال، کراچی میںماس ٹرانزٹ پرو گرام کی بات بھی کی گئی تھی، اس کا کیا بنا؟؟


جواب،ماس ٹرانزٹ پرو گرام کے حوالے سے جائیکا نامی ایک ادارے نے 2009اس کی اسٹدی کی تھی، اس کی رپورٹ میں یہ پروگرام شامل تھا، جس میں مختلف رنگوں کے نام سے سات لائنوں کی بات کی گئی تھی، لیکن یہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ صرف ایک گرین لائن پر ہی عمل ہو سکا، بلیو لائن میں ملک ریاض نے تعاون کا وعدہ کیا تھا، لیکن بعد میںنہ جانے کن وجوہات کی بنا پر وہ پیچھے ہٹ گئے، بلیو او ر ریڈ لائن کے منصوبے ابھی تک زیر لتوا ہیں۔


سوال، کراچی میں سرکلر ریلوے کی بحالی کیلئے وفاقی حکومت کیا کر رہی ہے۔؟؟


جواب،،وفاق نے کراچی مین ٹرانسپورٹ کے سب سے بڑے منصوبے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کی ذمہ داری بھی سنبھالی ہے، اور اس ذمہ داری کو پورا کر نے کیلئے وفاقی حکو مت نے کراچی پیکیج میں اس کی بحالی کیلئے سب سے بڑا حصہ رکھا ہے،پاکستان ریلوے نے اس کی ڈیزائننگ شروع کر دی ہے، توقع ہے کہ یہ کام اگلے سال کے وسط تک مکمل ہو جائیگا، کے سی آر کی مکمل بحالی میں تین یا چار سال لگ سکتے ہیں، سرکلر ریلوے اپنے تمام سابقہ روٹس پر ہی بحال کی جائیگی۔ اس کے ساتھ وفاقی حکومت نے کراچی کے ٹرانسپورٹ سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کر نے کیلئے ،اور کراچی میں ٹریفک کا رش کم کر نے کیلئے ایک اور منصوبہ پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت مال بردار ٹرکو ں کا دباؤ شہر کی سڑکوں پر کم ہوگا،اس مقصد کیلئے پیپری کے مقام پر کنٹینر ٹرمینل بنا یا جائیگا، جہاں پر تمام بردار ٹرک اور کنٹینر اپنا سامان اتارینگے، اس طرح ہیوی ٹریفک اندرون شہر کی سڑکوں سے دور رہے گا۔


سوال،، کراچی سے پی ٹی آئی کے منتخب ارکان اسمبلی اس شہر کی ترقی کیلئے کیا کر رہے ہیں؟؟


جواب،، کراچی کیلئے ہمارے کپتان نے ایک اور تحفہ دیا ہے، وہ یہ ہے کہ گذشتہ تین سال سے ہر ایم این اے 20کروڑ روپے سالانہ دئے ہیں، اس سال 50کروڑ روپے کا فنڈ دیا گیا ہے، اس طرح چار سال فی ایم این اے 110کروڑ ہو جائیگا، یہ فنڈ کراچی کی ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی درستی، ویران پارکوں کی بحالی، سیوریج کے نظام کی بہتری وغیرہ کیلئے استعمال کیا جارہا ہے، سندھ کا بلدیاتی نظام ناکارہ ثابت ہو چکا ہے، اب بلدیاتی مسائل حل کر نے کی ذمہ داری بھی وفاق نے لے لی ہے، کراچی کے منتخب اراکین اسمبلی وزیر اعظم عمران کان کی ولولہ انگیز قیادت میں کراچی کی رونقیں بحال کرینگے۔


سوال،، وزیر اعظم کے احساس پروگرام کے حوالے سے ہمارے قارئین کو تفصیلات سے آگاہ کریں؟ْ


جواب،، احساس پروگرام ایک فلاحی پروگرام ہے، جس کا مقصد غریبوں اور مستحقین کی مدد کرنا ہے، جس کا مقصد بھوک اور غربت کو کم کرنا ہے، اس سے پہلے بھی ایک سابقہ حکومت نے اس نوعیت کا ایک پروگرام بے نظیر انکم سپورٹ شروع کیا تھا،جس میں بد عنوانی کے ریکارڈ قائم کئے گئے، 8لاکھ32ہزار غیر مستحق افراد کو ناحق رقومات دی گئیں، کپتان کی حکومت نے ان غیر مستحق افراد کو نہ صرف ان کو شناخت کیا،بلکہ ان کے نام پروگرام سے خارج کر کے ان سے رقم بھی وصول کی گئی، ہماری حکومت نے احساس پروگرام کے تحت عالمی وباکرونا کے دوران مستحق افراد میں163ارب روپے تقسیم کئے، یہ تقسیم اتنی شفاف تھی، جس پر کوئی انگلی بھی نہیں اٹھا سکا،احساس پرو گرام کے تحت ہم بھوک اور افلاس کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اس پروگرام کے تحت ہماری حکومت نے ملک کے 22شہروں میں پناگاہ کا سلسلہ شروع کیا ہے، جبکہ کوئی بھوکا نہ سوئے مختلف مقامات پر لنگر خانے قائم کئے، لنگر خانوں کے قیام کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ موبائل لنگر خانے بھی اس پرو گرام کے تحت کام کر رہے ہیں۔احساس پروگرام کے تحت چھوٹے کاروبار اور اعلی تعلیم کیلئے آسان شراعط پر قرضے بھی فراہم کئے جارہے، دراصل احساس پروگرام ریاست مدینہ کے قیام کی جانب ایک اہم قدم ہے۔


سوال،،تعمیراتی صنعت کے فروغ کے لئے پی ٹی آئی حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں۔؟؟


جواب،،وفاقی حکومت نے تعمیراتی صنعت کی ترقی کے لئے ایسے انقلابی اقدامات کئے ہیں، جو گذشتہ 70برسوں میں کسی حکومت نے نہیں کئے تھے۔ ہمارے کپتان نے ہمیشہ بڑی سوچ رکھی ہے، بڑی سوچ بڑا انسان ہی رکھتا ہے، عمران خان کی قد آور شخصیت کے سامنے نواز شریف اور آصف زرداری کی شخصیت کسی بونے شخص کی طرح ہے،ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا، لیکن عمران خان نے ایک قابل عمل ہاؤسنگ اسکیم دی ہے، جس کے تحت غریب آدمی بھی اپنا مکان بنا سکتا ہے، پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت مکان بنانے کیلئے27لاکھ روپے کا قرضہ صرف 3فیصد سالانہ شرح پر قرضہ دیا جارہا ہے، جس میں 3لاکھ روپے کی پہلی قسط حکومت ادا کرے گی،اس ہاؤسنگ منصوبے کے پیچھے جو سوچ کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص جتنا ماہانہ کرایہ ادا کرتا ہے، وہ اس کے مساوی رقم اپنے مکان کی قسط کے طور پر ادا کرے،اس اسکیم پر صوبہ سندھ کے علاوہ پورے ملک میں کام شروع ہوچکا ہے، سندھ حکومت کی عوام دشمن پالیسی کے نتیجے میں اس صوبہ میں پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا آغاز نہیں ہو سکا ہے، سندھ میں صوبائی حکومت کے اداروں میں کرپشن کی وجہ سے تعمیراتی شعبہ کو مشکلات کا سامنا ہے، ایس بی سی اے پروجیکٹ کا نقشہ پاس کرنے میں دو سال لگا دیتا ہے،رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا ہے، اسی طرح کراچی واٹر بورڈ پانی کا کنکشن دینے میں تاخیری حربے اختیا کرتا ہے، وہاں بھی کرپشن ہے۔ سندھ حکومت پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کیلئے زمین دینے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے، جبکہ ایک رہائشی پروجیکٹ کے لئے،سندھ حکومت نے ساڑھے 12ہزار ایکڑ اراضی صرف پچاس روپے گز کے حساب سے الاٹ کی ہے۔ اور یہ پروجیکٹ ہر قسم کے قانون کی پابندی سے ماورا ہے۔


سوال،، آئندہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کے کیا امکانات ہیں؟؟


جواب،،اگلے عام انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کی کامیابی یقینی ہے، اس یقینی کامیابی کے پیچھے افغانستان اور کشمیر جیسے مسائل اہم قومی مسائل پر جو مثبت اور قومی مفاد میں موقف اختیار کیا ہے اسے نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی سراہا جارہا ہے، ڈیموں کی تعمیر کا آغاز بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس سے قبل کسی حکومت نے ڈیمز کی تعمیر پر توجہ نہیں دی تھی،خان صاحب نے تین بڑے مسائل حل کئے ہیں، عالمی وبا کرونا کے دوران اس مسئلہ کو کپتان کی حکومت نے جس طرح سے نمٹا ہے، وہ سب کے سامنے ہے، بھارت سمیت دیگر ممالک کے مقابلے میں اللہ کے کرم سے پاکستان میں نقصانات کی شرح کافی حد تک کم رہی، اس مشکل دور میں بھیملک کی معیشت بہتر بنا نے کیلئے اہم اقدامات کئے گئے،اور بنیادی اصلاحات پر عمل کیا گیا،دوسرا اہم کام بلین ٹری سو نامی ہے، اس کے پروگرام کے تحت ملک بھر بڑے پیمانے پر شجر کاری کی جارہی ہے، ملکی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی، شجر کاری کے نتیجے میں ملکی ماحو لیات میں بہتری آئے گی، وفاقی حکومت کے اس اقدام کو عالمی سطح پر بھی سراہا جارہا ہے، اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے اس سال ماحو لیات کا عالمی سال پاکستان مین منایا۔جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے ،وہ عالمی سطح پر بھی بڑ رہی ہے، اس کا واحد حل آمدنی میں اضافہ ہے، جس کی لئے حکومت نے پانچ لاکھ روپے کا بلا سود قرضہ دینے کا پروگرام ہے، جس کے تحت آپ اپنی اہلیت اور ہنر مندی کے ساتھ اپنا کاروبار شروع کر سکتے ہیں، اس سے نہ صرف آمدنی میں اضافہ ہوگا بلکہ بے روزگاری کی شرح میں بھی کمی آئے گی۔

Leave a Reply