طویل عرصہ سے معاون خصوصی ، بورڈ آف ٹرسٹیز اور کل وقتی چیئرمین موجود نہیں
رپورٹ : طاہر تنولی
وفاقی حکومت کی جانب سے مسلسل عدم دلچسپی اور نظر انداز کئے جانے کی پالیسی کے باعث نجی شعبہ کے ملازمین اور محنت کشوں کے لئے پنشن کی فراہمی کا قومی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن EOBI بالکل لاوارث ہوکر رہ گیا ہے ۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کافی عرصہ سے اس وفاقی محکمہ کا نہ تو کوئی معاون خصوصی ہے اور نہ بورڈ آف ٹرسٹیز اور نہ ہی کل وقتی چیئرمین ۔ جس کے باعث ملک بھر میں ای او بی آئی کے رجسٹر شدہ 90 لاکھ بیمہ دار افراد، لاکھوں بوڑھے، معذور اور بیوگان پنشنرز سمیت ادارہ کے800 ملازمین کے اہم معاملات التواء کا شکار ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، زلفی بخاری پچھلے دنوں راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل میں ملوث ہونے کے باعث مستعفی ہوچکے ہیں اور بیرون ملک چلے گئے ہیں ۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ان کا استعفیٰ معمہ بنا ہوا ہے ۔ کیونکہ وزارت کی ویب سائٹ پر حسب دستور ان کا نام بطور معاون خصوصی درج ہے ۔ اسی طرح 2013ء میں دو برسوں کی مدت کے لئے تشکیل دیئے جانے والا ای او بی آئی کا 16 رکنی اعلیٰ سطحی بورڈ آف ٹرسٹیز کے ارکان 2015ء میں اپنی مدت پوری ہوجانے کے باوجود تاحال اپنے عہدوں اور مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ جبکہ بورڈ کے دو ارکان طارق رفیع ( نمائندہ آجران صوبہ سندھ) اور سرزمین افغانی ( نمائندہ ملازمین صوبہ بلوچستان) اختلافات کی بناء پر پہلے ہی بورڈ کی رکنیت سے مستعفی ہوچکے ہیں اور حکومت سندھ کے نمائندہ سیکریٹری محنت، سندھ سرے سے بورڈ اجلاسوں میں شرکت ہی نہیں کرتے ۔
جبکہ وفاقی کابینہ رواں برس ماہ مئی میں ادارہ کے نئے بورڈ کی تشکیل کی منظوری بھی دے چکی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان اسلام آباد تاحال بورڈ کے نئے سرکاری اور غیر سرکاری نمائندگان کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اسی طرح ای او بی کے پچھلے اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کی 18 فروری کو ریٹائرمنٹ کے بعد تاحال ادارہ میں کسی مستقل چیئرمین کا تقرر بھی نہیں کیا گیا ہے ۔
ای او بی آئی کے ڈائریکٹر جنرل آپریشنز ساؤتھ، ( برائے سندھ و بلوچستان) کا عہدہ اور ڈائریکٹر جنرل آپریشنز، نارتھ ( برائے پنجاب اور خیبرپختونخوا اور گلگت و بلتستان) کا عہدہ عقیل احمد صدیقی اور محمد اعجاز الحق کی جانب سے ای او بی سے اپنے اصل ادارہ واپس جانے کے بعد سے تاحال خالی پڑے ہیں ۔ ان دونوں عہدوں کی تقرریاں وفاقی حکومت کرتی ہے ۔ جس کے باعث ادارہ کا سب سے اہم آپریشنز ڈپارٹمنٹ بھی ٹھپ پڑا ہے اور اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے جونیئر افسران اپنی من مانیوں میں مصروف ہیں ۔
وزارت نے فوری طور پر ادارہ کے نئے چیئرمین کی تقرری کے بجائے 18 فروری کو ایک نوٹیفیکیشن کے تحت عارضی طور پر پہلے سے خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کو محدود اختیارات کے تحت ادارہ کا قائم چیئرمین مقرر کیا تھا ۔ جو ای او بی آئی میں آنے سے قبل سنگین مالی بدعنوانی کے الزامات میںNAB ریفرنس میں نامزد ہونے ، ناتجربہ کاری، ناقص کارکردگی اور عدم دلچسپی کے اس اہم منصب کی اہل نہیں ہیں ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ای او بی آئی میں ماضی کی لوٹ مار کی تاریخ دہرائی جارہی ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے تو معاون خصوصی زلفی بخاری اور موجودہ حکومت میں موجود ایک طاقتور لابی ای او بی آئی کی اربوں اور کھربوں روپے مالیت کی اراضیوں اور املاک کو ٹھکانے لگانے کے لئے سابق چیئرمین اظہر حمید کو مزید تین برسوں کے لئے کنٹریکٹ پر چیئرمین تعینات کرانے کے لئے سرگرم عمل تھی ۔ لیکن ذرائع ابلاغ میں سابق چیئرمین کی جانب سے ای او بی آئی میں سنگین بدعنوانیوں، پنشن فنڈ میں لوٹ مار، سیاہ کرتوتوں اور خلاف قانون اقدامات اور زلفی بخاری کی سرپرستی میں غیر قانونی طور پر مزید تین برسوں کے لئے دوبارہ تقرری کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد اور زلفی بخاری کی سر توڑ کوششوں کے باوجود وزیراعظم اور وفاقی کابینہ نے اس بدعنوان افسر اظہر حمید کی غیر قانونی تقرری کی تجویز کو مسترد کردیا تھا ۔
لیکن اس کے بعد وفاقی حکومت نے چیئرمین ای او بی آئی کی تقرری کے معاملہ میں چپ سادھ رکھی ہے اور چھ ماہ کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ای او بی آئی تاحال کل وقتی چیئرمین سے محروم ہے ۔
جس کے باعث ملک بھر میں ای او بی آئی کے 90 لاکھ بیمہ دار افراد اور 4 لاکھ پنشنرز اور ادارہ کے 800 ملازمین کے اہم معاملات کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ جن میں رجسٹر شدہ آجران اور بیمہ دار افراد سے کنٹری بیوشن کی وصولی اور پنشن کی تقسیم کے لئے موجودہ بینک الفلاح کے معاہدہ کا خاتمہ کے بعد نئے بینک کی تقرری کے لئے معاہدہ ، آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے اہم منصوبوں اور ٹھیکوں کے لئے پروکیورمنٹ، پنشن فنڈ کی سرمایہ کاری، چیئرمین کی سربراہی میں پنشنرز کی اپیلوں کی سماعت کے لئے قائم اپیلیٹ اتھارٹی کی سماعتیں، طویل عرصہ سے زیر التواء ملازمین کی ترقیاں، ادارہ کے ملازمین کی اضافہ شدہ تنخواہوں کی گزشتہ پانچ برسوں سے عدم ادائیگی، ادارہ کے متوفی ملازمین کے 50 یتیم بچوں کی بھرتیاں، ای او بی آئی پنشن میں اضافہ، ادارہ کے افسران کے خلاف لئے گئے ڈسپلنری ایکشن اور انکوائریوں کے فیصلے، ادارہ کی ذیلی تعمیراتی اور سرمایہ کاری کمپنی PRIMACO کے میگا تعمیری منصوبوں کی ادائیگیاں، 2013ء میں سابق بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل اور دیگر ڈیپوٹیشن افسران کی جانب سے پنشن فنڈ سے سرمایہ کاری کے نام پر ملک بھر میں مشکوک طریقہ سے خریدی گئیں 18 اراضیوں اور املاک سے متعلق میگا لینڈ اسکینڈل جو 2013ء سے از خود نوٹس کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت کے متعلق اہم فیصلے زیر التواء ہیں ۔اس صورت حال کے باعث پورے ادارہ کا نظام بالکل ٹھپ پڑا ہے ۔
ادارہ کے لئے معاون خصوصی، بورڈ آف ٹرسٹیز اور کل وقتی چیئرمین نہ ہونے کے باعث اس وقت ادارہ بیک وقت دو عہدوں پر فائز شازیہ رضوی اور کلیدی عہدوں پر فائز انتہائی جونیئر اور نان کیڈر افسران کی موجیں لگی ہوئی ہیں اور یہ ٹولہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ذاتی مفادات کے لئے اختیارات کے ناجائز استعمال، تنخواہوں میں ازخود 25 فیصد اضافہ، خلاف قانون مالی اعزازیوں کی وصولی، پسند نا پسند اور بھاری نذرانوں کے عوض ملک بھر کے ریجنل ہیڈز اور افسران کے تبادلے اور تقرریاں اور دیگر غیر قانونی اقدامات میں ملوث ہیں ۔