
رپورٹ :طاہر تنولی
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب 17 اگست کو پیپلز پارٹی کے پچھلے دورحکومت میں برطرف شدہ ملازمین کی بحالی کے لئے منظور شدہ بحالی آرڈننس ایکٹ 2012 کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد ملک بھر کے سرکاری، نیم سرکاری اور خودمختار اداروں میں اس آرڈننس کے ذریعہ ملازمت پر بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کی برطرفیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔
ای او بی آئی میں بھی برسوں سے کلیدی عہدوں پر تعینات درجنوں افسران کے اس حکم نامہ کی زد میں آکر ملازمتوں سے ہاتھ دھوئے جانے کا امکان ہے ۔
اس سلسلہ میں وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان اسلام آباد کی ہدایت پر ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI )میں بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر فوری عملدرآمد کے لئے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔
جس کے کنوینر ڈاکٹر جاوید اے شیخ، قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل لاء ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس مقرر کئے گئے ہیں۔ جبکہ کمیٹی کے ارکان میں بھی قائم مقام افسران کی اکثریت ہے ۔ جس میں حافظ محمد ثاقب بٹ، قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایف اینڈ اے، بلال عظمت خان، قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل انٹرنل آڈٹ،خالد نواز قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شامل ہیں ۔ جبکہ ایم قدیر قریشی ڈپٹی ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کو اس کمیٹی کا سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے۔
ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن نمبر211/2021 بتاریخ 30 اگست 2021 کے مطابق کمیٹی سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے مذکورہ آرڈننس کے ذریعہ ملازمتوں پر بحال ہونے والے ادارہ کے ایسے تمام افسران کے کیسوں کا جائزہ لے کر تین دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی ۔
اس سلسلہ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے برخلاف اور ماضی میں خلاف ضابطہ طور پر ای او بی آئی میں بھرتی شدہ ایک اعلیٰ افسر ڈاکٹر جاوید اے شیخ، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل لاء ڈپارٹمنٹ کو اس کمیٹی کا کنوینئر مقرر کیاگیا ہے ۔ جس کے باعث کمیٹی کی غیر جانبداری اور شفافیت خود ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے ۔
ادارہ کے مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر جاوید اے شیخ ایمپلائی نمبر920967 اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر ڈپٹی منیجر ہوا کرتے تھے اور 13 جولائی 1998 میں وہ ایک بھاری سیاسی سفارش کے ذریعہ ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن کے ذریعہ ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی تعیناتی کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے اور بعد ازاں وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2013 کے احکامات کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہوئے 20 ستمبر 1999 میں ای او بی آئی کی ملازمت میں ضم ہوجانے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے ۔
ای او بی آئی کے ریکارڈ کے مطابق سندھ ( دیہی ) کے ڈومیسائل کے حامل ڈاکٹر جاوید اے شیخ کی تعلیمی قابلیت ایم اے پولیٹیکل سائنس ہے اور انہیں ای او بی آئی میں شمولیت سے قبل اسٹیٹ لائف میں ڈپٹی منیجر کی حیثیت سے صرف دو برس کا ملازمتی تجربہ تھا ۔ جبکہ ای او بی آئی میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدہ کے لئے کم از کم تعلیمی قابلیت شماریات، کمپیوٹر سائنس،بزنس، پبلک ایڈمنسٹریشن، کامرس،اکنامکس یا دیگر علوم میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری مقرر ہے اور متعلقہ عہدہ کے لئے کم از کم پانچ برس کا تجربہ ضروری تھا ۔
لیکن ایک بااثر سیاسی خاندان کے چشم وچراغ ہونے اور اس وقت کی انتظامیہ کے چہیتے ہونے کے باعث ڈاکٹر جاوید اے شیخ ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدہ کے لئے درکار تعلیمی قابلیت کے بجائے غیر متعلقہ ڈگری کے حامل اور صرف دو برس کا ملازمتی تجربہ رکھنے کے باوجود ڈپٹی ڈائریکٹر کے اہم عہدہ پر تعینات ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ڈاکٹر جاوید اے شیخ ای او بی آئی کے سرکاری ریکارڈ میں خود کو ایم بی بی ایس ڈاکٹر ظاہر کرتے ہیں اور کہلواتے بھی ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ای او بی آئی کے ریکارڈ میں ان کی ایم بی بی ایس کی ڈگری کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ جو انتہائی تشویشناک بات ہے ۔
چند برس قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2013 کے ڈیپوٹیشن پر تعینات افسران کو ان کے اصل محکمہ بھیجنے کے احکامات کی روشنی میں وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان اسلام آباد نے ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات 16 افسران کو ان کے اصل محکموں میں واپس بھیجنے کے لئے کارروائی کرنے کا آغاز کیا تھا اور اس سلسلہ میں نوٹیفیکیشن نمبر 269/2017 مورخہ 22 ستمبر 2017 کے ذریعہ اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ نذر محمد بزدار کی سربراہی میں ایک تین رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی ۔
لیکن اس وقت ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات اور خلاف قانون ضم ہوجانے والے ایک اور بااثر اعلیٰ افسر سید اکبر عادل شاہ، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز نے، جو سابق وفاقی وزیر اور قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کے برادر نسبتی بتائے جاتے ہیں نے انتظامیہ پر دباؤ ڈالتے ہوئے اور اپنا زبردست سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس کیس کو دبانے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ نذر محمد بزدار کے جانے کے بعد یہ کیس سرد خانہ کی نذر ہوگیا تھا ۔
سید اکبر عادل شاہ، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز اسلام آباد ( سابقہ لیکچرر فزکس، گریڈ 17، سندھ یونیورسٹی) یکم فروری 1995 کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر تعینات ہوئے تھے اور ادارہ میں کئی برس تک کلیدی عہدوں پر تعینات رہنے کے بعد وفاقی وزیر محنت و افرادی قوت سید خورشید احمد شاہ کی سفارش پر ای او بی آئی کے سینئر افسران کو نظر انداز کرکے اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے بیک جنبشِ قلم ادارہ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل کی اسامی تحلیل کرانے کے بعد کمیونٹی ویلفیئر اتاشی بن کر سفارت خانہ پاکستان کینیڈا چلے گئے تھے جہاں انہوں نے کینیڈا کی شہریت بھی حاصل کرلی تھی اور پھر پانچ برسوں بعد وہ وطن واپس آکر ای او بی آئی مین ڈائریکٹر آپریشنز کے منفعت بخش عہدہ پر تعینات ہوگئے تھے ۔ اکبر عادل شاہ گزشتہ برس اپریل میں ملازمت سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔
لیکن ڈاکٹر جاوید اے شیخ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل لاء ڈپارٹمنٹ اور سیکریٹری بورڈ آف ٹرسٹیز اور نزہت اقبال ایمپلائی نمبر918081 قائم مقام ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس ( سابقہ ملازمہ گریڈ 16 سندھ اسمال انڈسٹریز کارپوریشن) سمیت خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر آکر تعینات ہونے اور ضم ہوجانے والے دیگر 16 افسران تاحال ادارہ میں انتہائی کلیدی عہدوں پر فائز ہیں اور پرکشش مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بااثر افسران ادارہ میں انتہائی کلیدی عہدوں پر رہتے ہوئے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ای او بی آئی میں اپنی خلاف ضابطہ تعیناتی کے معاملہ میں حقائق پوشیدہ رکھ کر اور موجودہ ڈیپوٹیشن انتظامیہ کو گمراہ کرتے ہوئے نا صرف اس اہم معاملہ میں پوری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں بلکہ ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں بھی ہیرا پھیری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ماضی میں ای او بی آئی میں بڑے پیمانے پر سیاسی بنیادوں پر نااہل افراد کی بھرتیوں اور کلیدی عہدوں پر تقرریوں میں پیپلز پارٹی کا بہت اہم کردار رہا ہے ۔
ای او بی آئی میں گزشتہ ادوار میں اس وقت کے وفاقی وزرائے محنت و افرادی قوت غلام اکبر لاسی اور سید خورشید احمد شاہ کے دور میں نہایت کلیدی عہدوں پر سینکڑوں افسران اور ملازمین کی غیر قانونی بھرتیاں عمل میں آئی تھیں ۔ جن میں سے 359 افسران اور ملازمین کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2014 میں برطرف کردیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی ای او بی آئی میں بڑی تعداد میں سید خورشید احمد شاہ کی باقیات موجود ہیں خورشید احمد شاہ کی سفارشوں کے بل پر بھرتی شدہ ان کے بیشتر عزیز و اقارب، سیاسی ہمدرد اور ان کے ذاتی ملازمین اپنی عدم قابلیت، غیر متعلقہ تعلیمی قابلیت، کوٹہ کی خلاف ورزی، زائد العمر اور ناتجربہ کاری کے باوجود افسران اور ملازمین کی شکل میں تاحال ادارہ میں کلیدی عہدوں پر ملازمت کر رہے ہیں ۔
ای او بی آئی کے ان چہیتے ملازمین میں 2010ء میں سید خورشید احمد شاہ کی سفارش پر خلاف ضابطہ طور پر بھرتی شدہ 42 اسٹاف ملازمین خصوصاً نثار احمد مغل، PS ریجنل آفس سکھر، ( ریجنل آفس کے بجائے سید خورشید احمد شاہ کے ذاتی سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہا ہے)، ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ سے نابلد فرمان علی اندھڑ PS، ریجنل آفس سکھر،انیل احمد سرہیو PA، جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس،( جو ادارہ میں ڈیوٹی کرنے کے بجائے موٹر رجسٹریشن ونگ حسن اسکوائر میں گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ٹرانسفرز کے ایجنٹ کی حیثیت سے دھندہ کرتا ہے)، محمد ملوک، نائب قاصد لاء ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس،( دفتر میں ڈیوٹی کرنے کے بجائے کورنگی میں اپنی دکان چلاتا ہے اور اکثر ڈیوٹی سے غائب رہتا ہے۔)، ندیم علی، نائب قاصد ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس( ڈیوٹی کرنے کے بجائے آدھے دن سے آفس آتا ہے اور پیپلز پارٹی کا رعب اور دھمکیاں دے کر ڈیوٹی سے جان چھڑاتا ہے) قابل ذکر ہیں ۔
اس کے علاوہ ای او بی آئی میں پی پی کے پہلے دور حکومت میں بھرتی شدہ سفارشی اورنااہل ملازمین کی ایک بڑی اکثریت بھی موجود ہے ۔ جو اپنی نااہلی اور سفارش پر ملازمت کے باعث کام چوری، ناقص کارکردگی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر جائز و ناجائز ذریعہ سے زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹنے میں مصروف ہیں ۔
بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر جاوید احمد شیخ، جو اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن میں کنٹریکٹ پر ملازم تھے لیکن سید خورشید احمد شاہ کی سفارش پر انہیں بظاہر ای او بی آئی میں میڈیکل افسر کی اسامی پر کھپایا گیا تھا ۔ لیکن ڈاکٹر جاوید اے شیخ میڈیکل افسر تو بن سکے بلکہ جلد ہی بھاری سفارش کے ذریعہ اپنا تبادلہ ادارہ کے منفعت بخش اور طاقتور شعبہ آپریشنز ڈپارٹمنٹ میں کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ وہ متعدد بار آپریشنز ڈپارٹمنٹ سندھ و بلوچستان کے عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں۔ جس کے تحت کراچی کے سات،حیدر آباد، کوٹری، سکھر، لاڑکانہ، حب اور کوئٹہ کے ریجنل آفس آتے ہیں جہاں ای او بی آئی کے بدعنوان فیلڈ افسران کے ذریعہ محنت کشوں کی رجسٹریشن کے نام پر آجران کی ملی بھگت اور جوڑ توڑ کے ذریعہ سالانہ کروڑوں روپے کا دھندہ ہوتا ہے ۔ جس کے باعث لاکھوں محنت کش ای او بی آئی میں رجسٹریشن سے محروم ہیں اور مستقبل میں اپنی پنشن کے حق سے بھی محروم ہوگئے ہیں ۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر جاوید اے شیخ اس وقت ای او بی آئی میں بیک وقت دو انتہائی کلیدی عہدوں قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل لاء ڈپارٹمنٹ اور سیکریٹری بورڈ آف ٹرسٹیز کے اہم عہدوں پر فائز ہیں ۔ جو دونوں مختلف نوعیت کے عہدوں کے درمیان مفادات کے ٹکراؤ کے مترادف ہے ۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر جاوید اے شیخ قانون کی ڈگری ایل ایل بی نہ ہونے کے باوجود ای او بی آئی کے اہم ترین شعبہ قانون کی سربراہی کر رہے ہیں جس کے لئے ایل ایل ایم اور کم از کم 20 برسوں کا قانونی تجربہ لازمی ہے ۔ اس وقت ای او بی آئی کے 64 ارب روپے مالیت کے میگا لینڈ اسکینڈل میں سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس سمیت درجنوں اہم کیسز سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور این آئی آر سی اور وفاقی محتسب میں زیر سماعت ہیں ۔ لیکن قانون سے نابلد ڈاکٹر جاوید اے شیخ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل لاء ڈپارٹمنٹ کی نااہلی اور ناتجربہ کاری کے باعث ادارہ کو ان کیسوں کی قانونی پیروی میں ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلہ کی زد میں ای او بی آئی کے درجنوں افسران آسکتے ہیں ۔ جنہوں نے اپنے بچاؤ کے لئے زبردست بھاگ دوڑ شروع کردی ہے اور ان میں سخت کھلبلی مچی ہوئی ہے ۔