ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا سابق چیئرمین اظہر حمید اور دیگر چیئرمینوں سے تفریحی اور اسپورٹس کلبوں کی لاکھوں روپے کی بھاری فیسوں کی ریکوری کا فیصلہ ۔
رپورٹ : طاہر تنولی
بھاری رقوم کی ادائیگی کی سمری تیار کرنے والے طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ، قانونی رائے دینے والے قدیر احمد چوہدری، قائم مقام ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس اور آڈٹ کرکے منظوری دینے والے شفیق احمد پتر، قائم مقام ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس اور چیک بنوانے والے محمد نعیم شوکت قائم خانی، سمیت تمام چہیتے قائم مقام افسران کو بچا لیا گیا!
وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے ایک ذیلی ادارے ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن EOBI میں آئے دن بڑے پیمانے پر کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال، غبن اور بلا دریغ لوٹ کھسوٹ کے واقعات عام ہوگئے ہیں۔
گزشتہ دنوںEOBI کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے اپنے 123 ویں اجلاس منعقدہ 29-30 جولائی 2021 کو ادارہ کے پچھلے چیئرمین اظہر حمید اور دیگر سابقہ چیئرمین حضرات سے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے تفریحی اور اسپورٹس کلبوں کی رکنیت فیس کی مد میں غیر قانونی طور پر وصول کردہ لاکھوں روپے کی رقوم کی ریکوری کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا ہے ۔
لیکن ای او بی آئی کی بدنیت اور بدعنوان ڈیپوٹیشن انتظامیہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاسوں کی کارروائیوں کو پس پردہ مقاصد کے تحت پوشیدہ رکھتی ہے اور اس مقصد کے لئے ادارہ کی ویب سائٹ سے بھی بورڈ کی کارروائیوں اور دیگر عوامی مفادات کے اہم فیصلوں کے لنک کو بھی ہٹادیا گیا ہے ۔
لیکن اب ادارہ کے سہ فریقی 16 رکنی بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاس کے منظور شدہ Minutes منظر عام پر آگئے ہیں ۔
جن کے مطابق ای او بی آئی ملک کے نجی صنعتی کاروباری اور تجارتی شعبہ کے آجران اور ملازمین سے ماہانہ کنٹری بیوشن وصول کرکے مستقبل میں ان اداروں کے بیمہ شدہ ملازمین اور ان کی وفات کی صورت میں ان کے پسماندگان کو پنشن فراہم کرنے والا قومی فلاحی ادارہ ہے اور اس کی تشکیل ایک ٹرسٹ کے طور پر کی گئی ہے ۔ اسی مقصد کے پیش وفاقی حکومت نے ای او بی آئی کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا ہوا ہے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی 1976ء میں اپنے قیام کے ابتدائی برسوں میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کے ماتحت خدمات انجام دیا کرتا تھا اور اسٹیٹ لائف کے چیئرمین بربنائے عہدہ ای او بی آئی کے بھی چیئرمین بھی ہوا کرتے تھے ۔
لہذاء اسٹیٹ لائف ایک کارپوریٹ ادارہ ہونے کی حیثیت سے اس کے چیئرمین کو دو تفریحی اور اسپورٹس کلبوں کی رکنیت کا استحقاق حاصل تھا ۔
جبکہ اس کے برعکس ای او بی آئی ایک ٹرسٹ ادارہ ہے اور اس کے چیئرمین کو یہ استحقاق حاصل نہیں ہے ۔ لیکن ماضی میں ای او بی آئی کی سابقہ انتظامیہ کے بعض جی حضوری اور اعلیٰ افسران نے ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کو گمراہ کرتے ہوئے بورڈ کے 36 ویں اجلاس منعقدہ 13 جون 1994 کو اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کے چیئرمین کی طرز پر ای او بی آئی کے چیئرمین کے لئے بھی دو تفریحی اور اسپورٹس کلبوں کی رکنیت کے لئے منظوری حاصل کرلی تھی ۔
جس کے باعث ای او بی آئی کے مختلف چیئرمین حضرات کی جانب سے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے انتہائی مہنگے تفریحی اور اسپورٹس کلبوں کی رکنیت کا یہ غیر قانونی سلسلہ کئی عشروں سے جاری چلا آرہا تھا۔
لیکن گزشتہ ماہ مارچ میں ادارہ سے ریٹائر ہونے والے چیئرمین اظہر حمید نے اپنی ریٹائرمنٹ کے دن ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈ گولف کلب کراچی کی رکنیت فیسوں کی مد میں ایک بار 250,000 روپے اور دوسری بار 2,300,000 روپے وصول کرکے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے۔
سابق چیئرمین اظہر حمید کی جانب سے غریب محنت کشوں کے امانتی پنشن فنڈ سے انتہائی مہنگے تفریحی اور اسپورٹس کلب کے لئے لاکھوں روپے کی وصولی کا معاملہ منظر عام پر آنے پر پنشنرز اور دیگر حلقوں کا شدید رد عمل سامنے آیا اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بھی ای او بی آئی کے سابق چیئرمین اظہر حمید کی جانب سے محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے 23 لاکھ روپے کی خطیر رقم وصول کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
جس پر بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر اور وفاقی سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان عشرت علی کی ہدایت پر بورڈ نے متفقہ طور پر ای او بی آئی کے گزشتہ دس برسوں کے دوران تعینات رہنے والے سابقہ چیئرمین حضرات ظفر اقبال گوندل، خاقان مرتضیٰ اور اظہر حمید کی جانب سے تفریحی اور اسپورٹس کلبوں کی بھاری فیسیں وصول کرنے کا پچھلے دس برسوں کا ریکارڈ طلب کرلیا تھا
جس کے مطابق 2010-11 کے دوران چیئرمین ظفر اقبال گوندل نے کلب فیس کی مد میں 6 لاکھ روپے، 2018-19 کے دوران چیئرمین خاقان مرتضیٰ نے 50 ہزار روپے، 2019-20 کے دوران چیئرمین اظہر حمید نے ڈھائی لاکھ روپے اور 2020-21 کے دوران چیئرمین اظہر حمید نے ریٹائرمنٹ کے دن ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈ گولف کلب کراچی کی رکنیت فیس کے لئے 23 لاکھ روپے کی خطیر رقوم وصول کی تھیں ۔
معلوم ہوا ہے کہ سابق چیئرمین خاقان مرتضیٰ نے اخلاقی جراءت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کلب کی رکنیت کی مد میں وصول کردہ رقم ای او بی آئی کو واپس لوٹا دی ہے ۔ جبکہ رسوائے زمانہ سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل نے پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے مارچ 2019 میں گورنمنٹ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس حکومت پاکستان کے گریڈ 21 کے افسر اظہر حمید کو دو برس کی مدت کے لئے چیئرمین EOBI مقرر کیا تھا اور اپنے اس منصب کے لحاظ سے وہ 400 ارب روپے مالیت کے ای او بی آئی امانتی پنشن فنڈ کے کسٹوڈین بھی تھے ۔
لیکن اپنی بد دیانتی، غیر تسلی بخش، ناقص کارکردگی اور سنگین بدعنوانیوں کے باعث اظہر حمید اس اہم منصب کے اہل ثابت نہیں ہوئے ۔ ان کے بلند بانگ دعووں اور بیانات کے برعکس ان کا بیشتر وقت اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے اسلام آباد میں صرف ہوا کرتا تھا۔
انہوں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی خوشنودی حاصل کرنے اور انہیں گمراہ کرتے ہوئے اور ادارہ کے لاکھوں پنشنرز کو لبھانے کے لئے مقررہ قانون کے مطابق ادارہ کے واجبات اور اثاثہ جات کی ایکچوریل ویلیویشن کرائے بغیر خود ساختہ اور فرضی اعداد پر مبنی رپورٹیں پیش کرکے دو بار پنشن میں اضافہ کیا تھا ۔ لیکن وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کابینہ اجلاس میں اس پر قانونی اعتراض کرکے اس غیر قانونی اضافہ کو رکوادیا تھا ۔
لیکن بعد میں اظہر حمید نے ایک غیر معروف ایکچوریل کمپنی سے من مانے طریقہ سے ایکچوریل ویلیویشن کراکے پنشن میں اضافہ کرایا تھا ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے اس اسکینڈل کی تحقیقات جاری ہیں ۔
اسی طرح سابق چیئرمین اظہر حمید نے ادارہ کے پنشنرز کی سہولت کے لئے بستر علالت پر موجود پنشنرز کے لئے ان کی دہلیز پر بائیو میٹرک تصدیق اور پنشن فراہم کرنے، یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن سے اشیائے صرف پر 10 فیصد خصوصی رعایت اور ریلوے کے سفر میں خصوصی رعایت کے بلند بانگ دعوے بھی کئے تھے، جو اب تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔
در اصل ان سب دعووں کے پیچھے اظہر حمید کا مطمح نظر صرف اور صرف وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی خوشنودی حاصل کرکے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی ملازمت میں مزید تین برسوں کے لئے غیر قانونی توسیع کے فوائد حاصل کرنا تھا ۔
لیکن دیکھا جائے تو اظہر حمید کی عاقبت نااندیشی، گھمنڈی طبیعت اور مطلق العنانیت کے باعث ان کے دو سالہ دور میں غریب محنت کشوں کی پنشن کے قومی ادارہ EOBI کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ جس کے مداوے کے لئے کافی وقت درکار ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اظہر حمید نے ای او بی آئی کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنی دو سالہ مدت کے دوران نا صرف اپنے اختیارات کا بھرپور طریقہ سے ناجائز استعمال کیا اور اپنے پس پردہ مقاصد کی تکمیل کے لئے اس قومی فلاحی ادارہ میں سینئر اور جونیئر افسران کے درمیان لسانی بنیادوں پر دھڑے بندی کی مکمل سرپرستی کی اور انتہائی جونیئر اور نان کیڈر چہیتے افسران جن میں محمد نعیم شوکت قائم خانی، ڈپٹی ڈائریکٹر اور طاہر صدیق اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو ہر قسم کے غیر قانونی اقدامات کے لئے کھلم کھلا چھوٹ دے رکھی تھی اور اظہر حمید نے ادارہ میں صرف اپنی پسند نا پسند کی بنیاد پر جزاء و سزا کا نظام متعارف کرایا ہوا تھا ۔
ای او بی آئی کے جن فرض شناس اور دیانتدار سینئر افسران اور اسٹاف ملازمین نے اظہر حمید اور ان کے حواریوں کی جانب سے غیر قانونی اقدامات کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے پر ان کے خلاف اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے خود ساختہ اور بے بنیاد الزامات لگا کر دور افتادہ مقامات پر تبادلوں، خود ساختہ اور بے بنیاد الزامات پر مبنی چارج شیٹوں کا اجراء، ملازمت سے معطل کی سزائیں دی گئی تھیں اور ان کے خلاف مختلف تادیبی کارروائیوں کا آغاز بھی کردیا گیا تھا ۔ جس کے باعث ای او بی آئی کے 25 اور 30 برسوں سے خدمات انجام دینے والے افسران اور اسٹاف ملازمین میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔
سابق چیئرمین اظہر حمید نے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال، سنگین بدعنوانیوں، غلط پالیسیوں اور جی حضوری افسران کے مشوروں کے ذریعہ ای او بی آئی کے پورے انتظامی اور مالی ڈھانچہ کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا ۔
اظہر حمید اور ان کے حواری اور جی حضوری افسران نے ملک کے انتہائی کمزور طبقہ کے امانتی پنشن فنڈ میں بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ، غبن، وسائل کے بلا دریغ استعمال اور ہر ماہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ہوائی جہازوں میں سفر، بھاری ٹی اے ڈی اے کی وصولی، اجلاسوں میں شرکت کے نام پر بھاری فیسوں کی وصولی، لاکھوں روپے ماہانہ کے میڈیکل بلز کی وصولی، گاڑیوں، ڈرائیوروں اور سینکڑوں لٹر پٹرول کا نہایت بیدردی سے استعمال کیا ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق بدعنوان چیئرمین اظہر حمید نے اپنے ان شاہی اخراجات پر آڈٹ اعتراضات سے بچنے کے لئے ہیڈ آفس میں قائم آڈٹ ڈپارٹمنٹ کا ہی خاتمہ کردیا تھا ۔
بتایا جاتا ہے کہ سابق چیئرمین اظہر حمید نے ای او بی آئی میں انتہائی مطلق العنانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ میں بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ، غبن، جعلسازی کے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے 22 انتہائی جونیئر اور نان کیڈر لیکن اپنے چہیتے افسران کو قائم مقام عہدوں پر فائز کیا تھا ۔
جن میں خلاف ضابطہ طور پر بھرتی شدہ اور نہایت کلیدی عہدوں پر فائز ذوالفقار علی، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بی اینڈ سی اسلام آباد، محمد ایوب، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی اسلام آباد، حافظ محمد ثاقب بٹ، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فنانس ہیڈ آفس،فاروق طاہر، بی اینڈ سی لاہور، غلام محمد،ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی لاہور،چوہدری سجاد احمد،ریجنل ہیڈ فیصل آباد، محمد نعیم شوکت قائم خانی، بیک وقت اسٹاف افسر برائے چیئرمین، ڈائریکٹر کوآرڈینیشن اور ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس،طاہر صدیق، بیک وقت 5 کلیدی عہدوں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ، اسٹاف افسر برائے ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ، انچارج ڈسپلنری ایکشن، انچارج ٹرانسفرز اینڈ پوسٹنگز، انچارج ٹریننگ پر فائز خالد نواز، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ، نزہت اقبال، ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس مراتب علی ڈوگر، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز ساؤتھ عوامی مرکز کراچی، شفیق احمد پتر، ڈائریکٹر آڈٹ ہیڈ آفس، قدیر احمد چوہدری ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس اور سخن الیاس ملک ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ لاہور اور دیگر چہیتے افسران شامل ہیں ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق چیئرمین اظہر حمید جاتے جاتے ان افسران کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں کر گیا تھا، اور اپنے ان تمام چہیتے افسران کو ایک ایک ماہ کی تنخواہوں کے مساوی اعزازیوں سے بھی نواز کر چلا گیا تھا ۔
ان میں ایم اے اردو کی مشکوک اور غیر متعلقہ تعلیمی ڈگری اور ضلع دادو کے مشکوک ڈومیسائل کی حامل، سندھ اسمال انڈسٹریز کارپوریشن کراچی کی سابقہ ملازمہ اور 2017 ء میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ (PIM) کراچی کے ایک ماہ دورانیہ کے ٹریننگ کورس کے ٹیسٹ میں فیل ہوجانے کے باوجود ترقیوں پر ترقی پانے والی خاتون افسر نزہت اقبال، قائم مقام ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ نے تو اظہر حمید کی خوشامد اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تمام حدیں پار کرلی تھیں اور اظہر حمید کی سنگین بدعنوانیوں، اختیارات کے ناجائز استعمال، انتہائی ناقص کارکردگی اور ای او بی آئی کو کروڑوں روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے باوجود نزہت اقبال قائم مقام ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ نے وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان اسلام آباد کے ذریعہ وفاقی حکومت کو اپنے دستخطوں سے لیکن طاہر صدیق سے لکھوا کر سابق چیئرمین اظہر حمید کے لئے پاکستان کے سول ایوارڈ عطا کرنے کی سفارش کا چار صفحات پر مشتمل خط ارسال کیا تھا ۔ جس میں اظہر حمید کی کارکردگی اور تعریفوں کے پل باندھ کر زمین اور آسمان ایک کردیئے گئے تھے۔
اس خدمت کے عوض اظہر حمید نے انتہائی نا اہل خاتون افسر نزہت اقبال کو خلاف ضابطہ طور پر قائم مقام ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے اہم عہدہ سے نوازا تھا ۔
ای او بی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے اظہر حمید نے اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت ادارہ کے تمام سینئر اور تجربہ کار افسران کو یکسر نظر انداز کرکے پورے کے پورے ادارہ کو 2007 اور 2014 میں بھرتی ہونے والے انتہائی جونیئر، نان کیڈر،طاقتور اور قائم مقام افسران کے سپرد کر رکھا تھا۔ جس کے باعث ادارہ کی سینئر اور تجربہ کار افسران مجبورا ان جونیئر افسران کی ماتحتی میں خدمات انجام دینے پر مجبور ہیں ۔
بتایا جاتا ہے کہ ادارہ میں قائم مقام افسران بننے کے خواہش مند افسران کی ایک نا ختم ہونے والی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ کیونکہ ای او بی آئی میں قائم مقام عہدہ کا چارج سنبھالنے پر ان جونیئر افسران کو ادارہ کی جانب سے مختلف کمیٹیوں کا حصہ بننے، بڑی بڑی گاڑیاں، ڈرائیور کی سہولت، سینکڑوں لٹر ماہانہ پٹرول، ہوائی جہازوں کے سفر، بھاری ٹی اے ڈی اے، بھاری ماہانہ میڈیکل بلز، سینکڑوں روپے ماہانہ کا انٹرٹینمنٹ الاؤنس، ٹیلیفون الاؤنس، دو اردو،انگریزی اخبارات کی پرکشش مراعات حاصل ہو جاتی ہیں ۔
جبکہ ان تمام سہولیات اور پرکشش مراعات کے مقابلے میں ان جونیئر افسران کی کارکردگی سوائے اعلیٰ افسران کی جی حضوری اور اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے صفر کی صفر ہے ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اظہر حمید کو ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈ گولف کلب کراچی جیسے انتہائی مہنگے اسپورٹس کلب کی رکنیت فیس 23 لاکھ روپے کی سمری ان کے ایک ہم شکل اور انتہائی چہیتے لیکن 2014 بیچ کے انتہائی جونیئر اور نان کیڈر افسر طاہر صدیق اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ نے تیار کی تھی اور اس پر قانون کے عین مطابق ہونے کا Legal Opinion کا ٹھپہ ایک اور انتہائی جونیئر افسر قدیر احمد چوہدری، قائم مقام ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ نے لگایا تھا اور اس انتہائی مہنگے اور طبقہ اشرافیہ کے اسپورٹس کلب ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈ گولف کلب کراچی کی 23 لاکھ روپے رکنیت فیس کے آڈٹ کا فریضہ اظہر حمید کے ایک اور انتہائی چہیتے افسر شفیق احمد پتر، قائم مقام ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس نے بنفس نفیس انجام دیا تھا۔
جبکہ اظہر حمید کے اسٹاف افسر اور فرنٹ مین اور ان کی کرپشن کے رازداں اور حصہ دار بیک وقت تین ڈائریکٹر کے کلیدی عہدوں پر فائز 2007 میں خلاف ضابطہ طور پر بھرتی ہونے والا رسوائے زمانہ محمد نعیم شوکت، قائم خانی نے ” مال مفت دل بے رحم ” کے محاورہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے آقا اظہر حمید کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مقررہ طریقہ کار کے مطابق متعلقہ فائل کے بجائے محض تین صفحات پر مشتمل پارٹ فائل کے ذریعہ فنانس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کے افسران کے سر پر کھڑے ہوکر اور شفیق احمد پتر سے ہاتھ کے ہاتھ آڈٹ پاس کا ٹھپہ لگوا کے اور پھر فنانس ڈپارٹمنٹ سے بھاری رقوم کے دونوں چیک وصول کرکے اظہر حمید کے سپرد کرکے اس سے داد تحسین حاصل کی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ قدیر احمد چوہدری، قائم مقام ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ 2014 میں بھرتی شدہ ایک انتہائی جونیئر اور ناتجربہ کار افسر ہے ۔ جو چند ماہ قبل تک اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدہ پر عبدالاحد میمن ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ کے ماتحت افسر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا ۔
لیکن چیئرمین اظہر حمید نے اپنے غیر قانونی احکامات کی حکم عدولی اور کسی قسم کے دباؤ میں آنے سے یکسر انکار کی پاداش میں ادارہ کے سینئر اور تجربہ کار ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ عبدالاحد میمن کو چند ماہ قبل خود ساختہ اور بے بنیاد الزامات لگا کر انہیں ملازمت سے معطل کردیا تھا ۔
فرض شناسی، دیانتداری کا مظاہرہ کرنے اور چیئرمین اظہر حمید کی جانب سے ای او بی آئی کے مفادات کے خلاف فیصلوں کی مخالفت اور ان کے غیر قانونی احکامات کی حکم عدولی کی پاداش میں عبدالاحد میمن کو اپنی جائز ترقی اور دیگر جائز سہولیات سے بھی ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔ لیکن اس بڑی آزمائش کے باوجود وہ مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے اپنے جائز حق کی بحالی کے لئے قانونی ذرائع سے کوشاں ہیں ۔
جبکہ عبدالاحد میمن اس وقت ادارہ کے لاء کیڈر کے سب سے سینیئر، تجربہ کار اور باصلاحیت افسر ہیں ۔ وہ ای او بی آئی قانون 1976ء اور دیوانی اور فوجداری قوانین میں مکمل مہارت اور طویل تجربہ کے حامل ہیں اور ماضی کے مختلف چیئرمین حضرات کی ذاتی نگرانی میں کئی برسوں تک سپریم کورٹ آف پاکستان، صوبائی ہائی کورٹوں، وفاقی محتسب، این آئی آر سی اور لیبر کورٹس سمیت دیگر ذیلی عدالتوں اور خصوصاً سپریم کورٹ آف پاکستان کافی عرصہ سے میں ادارہ کے 46 ارب روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل سمیت دیگر اہم قانونی کیسز کی کامیابی سے پیروی کرتے رہے ہیں ۔
2019ء میں عبدالاحد میمن کی اگلے گریڈ میں ترقی واجب ہونے پر ادارہ کی جانب سے انہیں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ (NIM) کے زیر اہتمام مڈ کیریئر منیجمنٹ کورس (MCMC) میں شرکت کے لئے نامزد کیا گیا تھا، جو انہوں نے کامیابی سے مکمل کرلیا تھا ۔
عبدالاحد میمن کو اپنے لاء کیڈر میں سب سے سینئر افسر ہونے اور NIM میں چار ماہ کے تربیتی کورس کی تکمیل کے بعد اگلے گریڈ میں ترقی واجب ہونے کی وجہ سے انتظامیہ نے 2019ء میں انہیں اسلام آباد سے کراچی تبادلہ کرکے ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ مقرر کیا تھا ۔ جبکہ قدیر احمد چوہدری، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ان کا ماتحت افسر ہوا کرتا تھا ۔
جو سابق چیئرمین اظہر حمید کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے اور ان کی طویل عرصہ سے بلاجواز معطلی کے باعث التواء کا شکار ہوگئے ہیں اور اس کی وجہ سے ای او بی آئی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ادارہ کی ڈیپوٹیشن انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔
لیکن اظہر حمید نے افسران کی سنیارٹی اور ادارہ کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بجائے پسند نا پسند کو ترجیح دیتے ہوئے انتہائی جونیئر افسر قدیر احمد چوہدری اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو پہلے مرحلہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور پھر ایک برس کی آزمائشی مدت پوری نہ ہونے کے باوجود راتوں رات قائم مقام ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ کے عہدہ پر فائز کردیا تھا ۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والا شفیق احمد پتر، قائم مقام ڈائریکٹر آڈٹ ڈپارٹمنٹ جو ایک طویل عرصہ سے مسلسل آڈٹ ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس میں ہی تعینات ہے ۔ اس نے آڈٹ ڈپارٹمنٹ کے دو پیمانے بنائے ہوئے ہیں۔ شفیق پتر اعلیٰ افسران کی خوشنودی کی خاطر ان کے غیر قانونی اور بھاری بلوں کو آنکھیں بند کرکے منظور کرتا ہے اور ادارہ کے چھوٹے ملازمین کے میڈیکل بلز، قرضہ جات اور دیگر بلوں کی سخت جان پڑتال اور ان پر بلاجواز اعتراضات در اعتراضات لگاتا ہے ۔ شفیق احمد پتر قائم مقام ڈائریکٹر آڈٹ ہیڈ آفس کے خلاف مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے ۔
ان خطیر رقوم میں 23 لاکھ روپے ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈ گولف کلب کراچی کے علاوہ غیر قانونی طور پر اظہر حمید کی ریٹائرمنٹ کی رخصت (LPR) کی مد میں 23 لاکھ روپے کی ادائیگی بھی کرائی تھی ۔ جس کے باعث صرف ایک دن میں ای او بی آئی کی جانب سے ریٹائر ہونے والے چیئرمین اظہر حمید کو کی جانے والی ادائیگی کی کل رقم 46 لاکھ روپے بنتی ہے ۔
جبکہ قوانین کے مطابق اظہر حمید چونکہ ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر تعینات تھے ۔ لہذاء ان کی ریٹائرمنٹ کی رخصت (LPR) اور دیگر واجبات کی ادائیگی ای او بی آئی کے بجائے ان کے اصل محکمہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ذمہ داری تھی ۔ لہذاء اظہر حمید سے 23 لاکھ روپے کی اس رقم کی ریکوری بھی لازمی ہے۔
ای او بی آئی کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق چیئرمین اظہر حمید نے ادارہ میں اپنے دو برسوں کے دوران اپنے اسلام آباد کے مہینوں مہینوں کے قیام، کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ کے لئے ہوائی جہازوں میں بزنس کلاس میں سفر کے کرایوں، بڑے ہوٹلوں میں قیام و طعام، ٹی اے ڈی اے، کئی کئی گاڑیوں اور سینکڑوں لٹر پٹرول، ڈرائیور الاؤنس،گاڑیوں کی مرمت، انٹر نیٹ چارجز، میڈیکل بلز میں علاج ومعالجہ، لیباریٹریز کے ٹیسٹوں اور انتہائی مہنگی ادویات کی خریداری کی مدوں میں کم از 4 کروڑ روپے کی خطیر رقوم بٹوری ہیں۔ قواعد کے مطابق اظہر حمید سے ان بھاری رقوم کی ریکوری بھی لازمی ہے۔
لیکن ادارہ میں انتہائی کلیدی عہدوں پر تعینات کردہ ان کے جی حضوری اور چہیتے افسران خصوصاً اظہر حمید کا اسٹاف افسر محمد نعیم شوکت قائم خانی، سابق چیئرمین اظہر حمید کی کرپشن، خردبرد اور سنگین بے ضابطگیوں کی مسلسل پردہ پوشی میں مصروف ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ ای او بی آئی کی خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات قائم مقام اور پارٹ ٹائم چیئرمین شازیہ رضوی جو ادارہ میں ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ بھی ہیں،( یہ خاتون اعلیٰ افسر ای او بی آئی میں شمولیت سے قبل بدعنوانیوں کے سنگین الزامات کے تحت ایک NAB ریفرنس میں نامزد ہیں ) اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی جانب سے سابق چیئرمین اظہر حمید سمیت ایک اور سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل سے تفریحی اور اسپورٹس کلبوں فیسوں کی مد میں وصول کردہ لاکھوں روپے کی بھاری رقوم کی ریکوری کے فیصلہ کی تعمیل میں ان دونوں سابق چیئرمین حضرات کو ریکوری خط ارسال کرنے میں ناکام رہی ہیں اور اب معلوم ہوا ہے کہ تفریحی اور اسپورٹس کلب کی بھاری رقوم کی ریکوری کا خط خلاف ضابطہ طور پر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ارسال کرنے کے بجائے محض خانہ پری کے لئے فنانس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کے ایک جونیئر افسر کی جانب سے سابق چیئرمین حضرات کو ارسال کیا گیا ہے ۔ جس کے باعث بورڈ کا اس قدر اہم فیصلہ غیر مؤثر ہوکر رہ گیا ہے۔
کیونکہ بتایا جاتا ہے کہ قواعد کے مطابق قائم مقام چیئرمین ای او بی آئی شازیہ رضوی کی سالانہ خفیہ رپورٹ (PER) سابق چیئرمین اظہر حمید کو لکھنی ہے۔
ای او بی آئی کے لاکھوں بزرگ پنشنرز اور ادارہ کے ملازمین نے وفاقی سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان اسلام آباد اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر محترم عشرت علی سے بھرپور مطالبہ کیا ہے کہ وہ سابق اور نا اہل چیئرمین اظہر حمید کو لاکھوں روپے کی غیر قانونی ادائیگیوں میں ملوث اور خود کو قانون اور جوابدہی سے بالاتر سمجھنے والے ڈیپوٹیشن پر تعینات اعلیٰ افسران ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی، فنانشل ایڈوائزر ناصرہ پروین خان اور ادارہ کے جونیئر قائم مقام افسران محمد نعیم شوکت قائم خانی، نزہت اقبال، طاہر صدیق، قدیر احمد چوہدری اور شفیق احمد پتر کی جانب سے سابق چیئرمین اظہر حمید کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے اور ای او بی آئی کے بزرگ پنشنرز کی Trust money کو بھاری نقصان پہنچانے میں پوری طرح ملوث ہونے پر ان کے خلاف سخت ترین تادیبی کارروائی کریں ۔
تاکہ آئندہ ای او بی آئی کے کسی بھی افسر کو ملک کے غریب محنت کشوں کے امانتی پنشن فنڈ پر شب خون مارنے کی جراءت نہ ہوسکے ۔