ملک میں موثر مزدور قوانین اور فلاحی ادارے ہونے کے باوجودمحنت کش طبقہ اپنے حقوق سے محروم ہے
ملاقات: اسرار ایوبی ,سابق افسر تعلقات عامہ،EOBI

ڈاکٹرسید غیورالحسن کا شمار ملک میں صنعتی تعلقات اور مزدور قوانین کے شعبہ کی ایک انتہائی قد آور اور مایہ نازشخصیت میں کیا جاتا ہے ۔ 2000ء میں جب ہمیں اپنے ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کی جانب سے وزارت محنت و افرادی قوت، حکومت پاکستان کی زیر نگرانی قائم ایک قومی تعلیمی وتربیتی ادارہ ،نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایڈمنسٹریشن ٹریننگ( نیلاٹ) کراچی کے زیراہتمام منعقد ہونے والے،24،ہفتہ دورانیہ کے41ویں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس کے لئے نامزد کیا گیا تو ہمیںاس وقت پہلی مرتبہ اس عظیم اور شفیق استادسید غیورالحسن سے شرف تعارف حاصل ہوا تھا۔
نیلاٹ ملک میں صنعتی تعلقات اور مزدور قوانین کے علوم وفنون کے لئے ایک واحد اور قدیم قومی تعلیمی و تربیتی ادارہ ہے۔ جو1957ء میں اپنے قیام سے لے کر اب تک سے ملک کے سرکاری ،نیم سرکاری اور صنعتی شعبہ سے وابستہ انتظامی افسران اور مڈل منیجمنٹ کے لئے صنعتی تعلقات اور مزدور قوانین کی تعلیم و تربیت اور فروغ کے لئے پوری طرح سرگرم عمل ہے ۔یونیورسٹی روڈ کراچی پر واقع نیلاٹ کی موجودہ عمارت کا سنگ بنیاد قاضی انوارالحق، ستارہ پاکستان اور ستارہ قائد اعظم ،وزیر صحت محنت و سماجی بہبود ،حکومت پاکستان نے 29جولائی1968ء کو رکھا تھا۔ 2010ء میں آئین پاکستان میں ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں وفاق سے شعبہ محنت کے خاتمہ کے بعد نیلاٹ کو صوبہ سندھ کے سپرد کردیا گیاتھا۔لیکن اس کے باوجود آج بھی نیلاٹ کے دروازے ملک بھر کے طلبہ کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔
ہمارے کورس کے آغاز کے دن نیلاٹ کے ڈائریکٹر جنرل ،سید حاکم علی شاہ بخاری اور فیکلٹی کے ارکان سید غیور الحسن، کورس ڈائریکٹر ، شیخ امتیاز علی، ڈپٹی ڈائریکٹر،جناب نورالہادی، اسسٹنٹ ڈائریکٹر سمیت دیگر اساتذہ کرام کے ساتھ شرکاء کورس کا تعارف کرایا گیا تھا اور شرکائے کورس کو نیلاٹ کے قیام کے مقاصد اوراس اہم پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس” لیبر ایڈ منسٹریشن اینڈ انڈسٹریل ویلفیئر “کے مقاصد اور دیگرتفصیلات سے آگاہ کیا گیا تھا ۔ ہمارے41ویں کورس کے شرکاء کی تعداد52تھی، جن کا تعلق ملک بھر کے سرکاری ،نیم سرکاری، عسکری ،صنعتی اور کاروباری اداروں کے انتظامی افسران،مڈل منیجمنٹ اورملک گیر ٹریڈیونین تنظیموں کے عہدیداران سے تھا ۔
خوش قسمتی سے ای او بی آئی میں ہمارے طویل تجربہ اور انتظامی صلاحیتوں کے باعث ہمیں اس کورس کا نمائندہ کلاس منتخب کرلیا گیا تھا، جو ہمارے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔ جس کے تحت ہمیں کورس کے تمام شرکاء کی یومیہ حاضری،کورس کی کتابوں ،مددگار مواد، نوٹس اور دیگر ضروری مواد کی فوٹو کاپیوں کی فراہمی، وقفہ میں چائے کے انتظام اور دیگر انتظامی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔الحمد للہ ہم نے کورس میں شرکت کے ساتھ ساتھ ان تمام اضافی ذمہ داریوں کو بھی حتیٰ المقدور اورتسلی بخش طریقہ سے انجام دینے کی کوشش کی تھی۔نیلاٹ کی فیکلٹی کے ایک سینئر اور تجربہ کار استاد سید غیور الحسن کو ہمارے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا۔
24ہفتہ دورانیہ کے کورس کے دوران شرکاء کو نیلاٹ کی انتہائی تجربہ کار اور باصلاحیت فیکلٹی ارکان کے علاوہ دیگر متعلقہ موضوعات، پیشہ ورانہ صحت و تحفظ ، فروغ انسانی وسائل،صنعتی امن، ٹریڈ یونین تحریک، آجر اور اجیر تعلقات اور صنعتی تنازعات اور ان کے حل کے موضوعات پر مضامین پڑھانے اور لیکچرز کے لئے باقاعدہ تجربہ کار اور قابل وزٹنگ لیکچرار ز کی ایک ٹیم بھی شامل تھی۔جنہیںاپنے اپنے شعبوں اور موضوعات پر کمال کی حد تک عبور حاصل تھا۔لیکن ہمیں نیلاٹ میں24،ہفتہ دورانیہ کے ڈپلومہ کورس کے دوران جس اہم اور یادگار ہستی نے اپنی دلنشیںگفتگو اوراندازدرس وتدریس سے بیحد حد متاثر کیا ،وہ حقیقی معنوں میں ایک عظیم اور شفیق استادجناب غیور الحسن، کورس ڈائریکٹر تھے۔ جبکہ اس کورس کے دوران ہمارے دوسرے پسندیدہ استاد شیخ امتیاز علی، ڈپٹی ڈائریکٹر تھے جو ہمارے معاشیات کے استاد تھے۔
اگرچہ ہمیں نیلاٹ سے ڈپلومہ کورس مکمل کئے تقریبا دو دہائیاں بیت چکی ہیں اور اس دوران گاہے گاہے سید غیورالحسن صاحب سے رابطہ رہا ۔لیکن کافی عرصہ سے ہماری دلی خواہش تھی کہ ہم غیورالحسن صاحب سے تفصیلی ملاقات کرکے ان کی شخصیت اور ملک میں صنعتی تعلقات اور مزدور قوانین کی ترقی و ترویج میں ان کی چار دہائیوں پر مشتمل خدمات جلیلہ کا تعارف آپ تک پہنچائیں۔
بہرحال پچھلے دنوں ہمارے ایک دیرینہ دوست عبدالستار شیخ ، جن کی رہائش غیور الحسن صاحب کے گھر کے نزدیک شیخ زید اسلامک مرکز یونیورسٹی روڈ میںہے ۔ ان کے ہمراہی میں ایک شام غیور صاحب کی رہائش گاہ واقع گلستان جوہر پہنچ گئے۔ایک طویل عرصہ بعد غیور صاحب سے ان کے گھر پر تفصیلی ملاقات ہوئی۔وہ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ حال احوال اور چائے وغیرہ سے فارغ ہوکر ہم نے کاغذ قلم سنبھالا اور غیور الحسن صاحب سے ان کی زندگی کے طویل سفر ،جدوجہد ،تعلیمی مرحلے اور نیلاٹ میں طویل عرصہ تک خدمات سے متعلق کچھ سوالات دریافت کرنے چاہے، تو انہوں نے کچھ پس وپیش سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ارے! ایوبی انٹرویو چھوڑو ،ہم تو اب ایک عام سے آدمی اور ریٹائرڈ افسر ہیں ہمارا انٹرویو کرکے کیا کروگے ۔ !بس آج تم ہم سے ملاقات کے لئے آگئے، ہمارے لئے یہی بہت ہے۔ لیکن ان کی اس کسر نفسی کے باوجود ہمارا غیور صاحب سے انٹرویو کے لئے اصرار جاری رہا۔جس پر بالآخر غیورالحسن صاحب نے ہمارے سوالات کے جوابات دینے کی حامی بھرلی۔ اس گفتگو کے دوران ان کا ایک لاڈلہ اور کافی شرارتی سا پوتا اپنے دادا جان کے ساتھ مسلسل شرارتوں میں مصروف رہا اور وہ بھی اس کی شرارتوں سے محظوظ ہوتے رہے۔سیدغیورالحسن سے بات چیت پیش خدمت ہے۔
ہمارے مایہ ناز استاد سید غیورالحسن نے 1946ء میں ایٹا ،ضلع علی گڑھ، غیر منقسم ہندوستان میں جنم لیا تھا اور صرف چار برس کی عمر
میں آپ نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ نوزائیدہ مملکت پاکستان کی جانب ہجرت کی۔ ابتدائی ایام میں کراچی کی مضافاتی بستی کھوکھرا پار میں سر چھپانے کی جگہ ملی اور پھرآپ اور اہل خانہ اپنے چچا جان کے پاس نواب شاہ چلے گئے تھے۔ جو اس دور میں ڈپٹی کمشنر، نواب شاہ کے پی اے کے عہدہ پر فائز تھے۔آپ نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم نواب شاہ کے ایک سرکاری اسکول میں اور پھر اعلیٰ ثانوی تعلیم گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج ،نواب شاہ سے حاصل کی۔ گریجویشن سچل سرمت کالج ، نواب شاہ سے اوربیچلر آف ایجوکیشن(بی ایڈ) کی ڈگری سندھ یونیورسٹی سے حاصل کی۔
آپ نے1967ء میں درس و تدریس سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور ضلع نواب شاہ کے ایک قصبہ، دوڑ کے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ پرونشلائزڈ ہائی اسکول میں سائنس کے استاد مقرر ہوئے۔ بعد ازاں آپ کا تبادلہ ڈسٹرکٹ میونسپل ہائی اسکول، نواب شاہ کردیا گیا۔اسکول میں دوران ملازمت ترقی کی مزید منزلیں طے کرنے کے لئے آپ نے اپنی اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔چنانچہ آپ نے1976، سندھ یونیورسٹی( اولڈ کیمپس )،حیدرآباد سے ایم اے سوشیالوجی اور پھر سندھ یونیورسٹی سے ہی ایم اے اکنامکس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔آپ نے1977ء میں سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے فیڈرل سروس کمیشن کے امتحان میں شرکت کی اور کامیاب رہے ۔
سید غیورالحسن نے فیڈرل سروس کمیشن کا امتحان میں کامیابی کے بعد1978ء میں ملک کے ایک موقر اور قومی تربیتی ادارہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایڈمنسٹریشن ٹریننگ (NILAT)کراچی، زیر نگرانی وزارت محنت افرادی قوت، حکومت پاکستان میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدہ سے اپنے ملازمتی کیریئر کا آغاز کیا ۔ اس دور میں ایک اعلیٰ پایہ کی علمی اور تدریسی شخصیت ڈاکٹر سلیم اللہ خان، نیلاٹ کے پرنسپل کے عہدہ پر فائز تھے۔ غیور صاحب کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر سلیم اللہ خان ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ عظیم استاد اور بہترین منتظم بھی تھے،ان کی نیلاٹ کے لئے بیش بہا خدمات ہیں۔ڈاکٹر سلیم اللہ نے 1962ء میں جرمنی سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔بعد ازاں ڈاکٹرسلیم اللہ خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک خاتون افسر مسز زلیخا زار نیلاٹ کی سربراہ مقرر ہوئیں اور ان کے دور میں نیلاٹ کے پرنسپل کے عہدہ کو ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ سے بدل دیا گیا تھا۔
ابتداء میںسید غیور الحسن کو نیلاٹ کے زیراہتمام منعقدہ مختلف شارٹ کورسز اور پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس کے شرکاء کو معاشیات کا مضمون پڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔لیکن بعد ازاںڈاکٹر سلیم اللہ خان کی سبکدوشی کے بعد ڈائریکٹر جنرل نیلاٹ مسز زلیخا زار نے غیور الحسن صاحب کی بھرپور تدریسی مہارت اور انتظامی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں نا صرف نیلاٹ کے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس کے لئے، کورس کوآرڈینیٹرمقررکردیا بلکہ انہیں، نیلاٹ کے ایڈمنسٹریٹر، ڈرائنگ ڈسبرسمنٹ افسر(DDO) اور افسر لائبریری کی بھاری ذمہ داریاں بھی سونپ دی تھیں۔ ڈاکٹر سید غیور الحسن نے نیلاٹ کے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس کے کوآرڈینٹرکی اہم ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد نیلاٹ کے24، ہفتہ دورانیہ کے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ(PGD) کورس اور دیگر شارٹ کورسوں کے نصاب اور طریقہ کار پر نظر ثانی کی اور بڑی تندہی اور محنت کے بعداس نصاب کو وقت کے تقاضوں کے مطابق اور عالمی ادارہ محنت(ILO) کے قوانین اور کنونشنز کی روشنی میں ازسر نو ترتیب دیا تھا۔اس طویل عرصہ کے دوران سید غیورالحسن کی زیر نگرانی نیلاٹ میں صنعتی تعلقات اور مزدور قوانین کے موضوع پربے شمارشارٹ کورسز سمیت پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس منعقد کئے گئے ۔ اس دوران1997ء میں مسز زلیخا زار نیلاٹ کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ سے سبکدوش ہوگئیں تھیں اور پھر ان کی جگہ سید حاکم علی شاہ بخاری نے ڈائریکٹر جنرل نیلاٹ کا چارج سنبھال لیا تھا۔
نیلا ٹ وفاقی، صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام مختلف صنعتی اداروں کے مڈل منیجمنٹ کے افسران اور ملازمین کو درپش چیلنجز کو پیشہ ورانہ مہارت، خصوصا انتظامی امور اور صنعتی تعلقات کو ہم آہنگ کرنے میں بہترین معاونت فراہم کرتا ہے۔ صوبہ سندھ اور صوبہ خیبر پختونخوا میں مروجہ فیکٹری ایکٹ کے تحت سرکاری ،نیم سرکاری، نجی اور صنعتی یونٹوں کی مڈل منیجمنٹ کے لئے نیلاٹ کایہ ڈپلومہ کورس ایک خاص اہمیت رکھتا ہے ۔نیلاٹ کے24 ،ہفتہ دورانیہ کا پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس برائے لیبر ایڈ منسٹریشن اینڈ انڈسٹریل ویلفیئر میں،قوانین محنت، انتظامی امور برائے مزدور، صنعتی تعلقات، پیشہ ورانہ صحت وتحفظ، معاشیات، انسانی وسائل کا انتظام اور طریقہ برائے تحقیق جیسے اہم مضامین پڑھائے جاتے ہیں پر ۔ جس میں حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں کے افسران و ملازمین، مزدور رہنماء اور نجی صنعتی،تجارتی اور کاروباری اداروں کے انتظامی اورمڈل منیجمنٹ امور سے وابستہ ملازمین شرکت کے اہل ہیں۔ الحمد للہ! نیلاٹ1957ء سے اب تک بڑی باقاعدگی اور کامیابی کے ساتھ24،ہفتہ دورانیہ کے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس برائے لیبر ایڈ منسٹریشن اینڈ انڈسٹریل ویلفیئر کا انعقاد کرتا چلا آرہا ہے۔نیلاٹ اپنے قیام سے اب تک2538،تربیتی کورسز کا انعقاد اور95994 ،افراد کوتربیت فراہم کرچکا ہے۔
نیلاٹ کے زیر اہتمام برسوں سے جاری پیشہ ورانہ اور مزدور قوانین پر مشتمل کورسوں کی بدولت سرکاری،نیم سرکاری اور نجی شعبہ کے صنعتی، کاروباری اور تجارتی اداروں میںمزدوروں اور صنعتی کارکنان کی فلاح و بہبود کے لئے مستعد اور انتظامی امور سے وابستہ منیجرزکو اپنے اداروں میں انسانی وسائل کے بہتر استعمال ،فرادی قوت کے موثرانتظام اور انتظامی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے بھرپور مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ نیلاٹ اپنے قیام سے اب تک نہایت باقاعدگی اور کامیابی سے59 ،پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورسوں کا انعقاد کراچکا ہے اور اب اسی جذبہ کے تحت رواں برس11،اکتوبر کو نیلاٹ کے زیراہتمام60،ویں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس کا آغاز بھی کیا جارہا ہے۔
نیلاٹ کے زیر اہتمام پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس کے شرکاء کو ملک بھر کے مختلف اہم صنعتی و پیداوری اداروں اور شعبہ محنت کے فروغ اور معاونت کے لئے قائم سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے تین ہفتہ دورانیہ کے ملک گیر مطالعاتی و تحقیقی دورہ کابھی انتظام کیا جاتا ہے۔ جس کے دوران شرکاء کورس کراچی ، کوئٹہ،لاہور،اسلام آباد، پشاور سمیت دیگر شہروں میں قائم معروف صنعتی اورپیداواری اداروں، ادارہ برائے فوائد معمر ملازمین(EOBI) ،ورکرز ویلفیئر فنڈ(WWF)،ادارہ ہائے سماجی تحفظ،صنعتی تعلقات کے قومی کمیشن(NIRC)، جوڈیشل اکیڈمی ، اسلام آباد،عالمی ادارہ محنت پاکستان، اسلام آباد اورمزدور عدالتوں کا مطالعاتی دورہ کرکے اپنے تجربات اورمشاہدات پر مبنی مطالعاتی رپورٹ تیار کرکے نیلاٹ میں جمع کراتے ہیں۔
ہمیں بھی 2000ء کے دوران نیلاٹ میں منعقدہ اپنے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس کے موقعہ پر سید غیورالحسن، کورس ڈائریکٹر کی سرکردگی اور شیخ امتیاز علی صاحب،ڈپٹی ڈائریکٹر کی زیر نگرانی ملک کے چاروں صوبوںکے معروف اہم صنعتی، پیداواری پلانٹس، سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے تین ہفتہ کے مطالعاتی دورہ کا نادر موقع میسر آیاتھا۔جس کے پہلے مرحلہ میں ہمارے گروپ کے شرکاء نے کراچی میں پاکستان اسٹیل ملز، سوزوکی موٹرز کمپنی،کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس کراچی، صنعتی تعلقات کے قومی کمیشن (NIRC) اوربلوچستان(حب) میں مختلف اہم صنعتی اور پیداواری اداروں کا دورہ کیا تھا۔ دوسرے مرحلہ میں کورس کے شرکاء بذریعہ ٹرین لاہور گئے تھے اوروہاںپاکستان انجینئرنگ کمپنی(PECO)،واپڈا ، ہیڈ کوارٹر لاہور، باٹا پاکستان لمیٹڈ،باٹاپور لاہور، اورلاہور فیصل آباد روڈ پر چیچوکی ملیاں ( شیخوپورہ )میں دائود ہرکولیس فرٹیلائر کمپنی ،کا دورہ کیا تھا۔ جہاں سے فارغ ہونے کے بعد کورس کے شرکاء ہمارے کورس کے ایک شریک منیر احمد بھٹی کی دعوت پر شیخوپورہ کے مضافات میں واقع ان کے گائوں بھی گئے تھے۔جہاں انہوں نے بڑے خلوص اور محبت کے ساتھ سب دوستوں کی پنجاب کے روائتی انداز میں مہمان نوازی کی تھی۔منیراحمد بھٹی ان دنوں ایئر پورٹ سیکیوریٹی فورس(ASF) سے
وابستہ تھے، لیکن بعد ازاں منیر احمد بھٹی اپنی جہدمسلسل اور اعلیٰ تعلیم کی بدولت ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے وکالت کے پیشہ میں داخل ہوگئے تھے اور اب وہ لاہور میں ایک کامیاب اور تجربہ کار وکیل کی حیثیت سے وکالت کے پیشہ سے وابستہ ہیں ۔
لاہور سے ہم بذریعہ سڑک روانہ ہوکر راولپنڈی گئے تھے۔ جہاں ہم نے اٹک آئل ریفائنری، مورگاہ، راولپنڈی،لارنس پور وولن ملز،لارنس پور کا دورہ کیا تھااور بعد ازاں کورس کے شرکاء پشاور گئے تھے، جہاں چیراٹ سیمنٹ فیکٹری، خزانہ شوگرملز اورکرم سرامکس کی فیکٹری کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران لاہور میں قیام کے دوران سید غیورالحسن صاحب کے ساتھ پاک پتن شریف کی درگاہ پر حاضری اور فاتحہ خوانی کا مختصر دورہ بھی ایک یاگار واقعہ ہے۔جس میں ہمارے ساتھ عبدالعلیم ملک (PPL)اور فہیم احمدصدیقی(Siemens) بھی شریک سفر تھے۔ ۔ہمارے 41ویں پی جی ڈی کورس کے اختتام پر نیلاٹ کے سبزہ زار پر ایک باوقار تقریب منعقد ہوئی تھی۔ جس کے مہمان خصوصی اس وقت کے وفاقی وزیر برائے محنت و افرادی قوت تقریب عمر اصغر خان تھے۔جنہوں نے شرکاء کورس میں اسناد اور شیلڈ تقسیم کی تھیں اور بعد ازاں ایک پرتکلف عشائیہ کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
سید غیورالحسن نیلاٹ کی ملازمت کے دوران رفتہ رفتہ ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے 1983ء میں ڈپٹی دائریکٹر اور1995ء میں ڈائریکٹر کے عہدہ پر ترقی پاگئے تھے۔آپ نیلاٹ میں تین دہائیوں تک ملک کے سرکاری ،نیم سرکاری، صنعتی ،کاروباری اور دیگر اداروں کے ہزاروں افسران اور ملازمین کو صنعتی تعلقات اور مزدور قوانین کے زیور علوم سے آراستہ کرتے رہے ہیں۔
اس موقع پر ہم نے سید غیورالحسن سے دریافت کیا کہ ملک میں محنت کشوں اور ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے تشکیل شدہ بہترین
مزدور قوانین اور متعدد فلاحی اداروں کے قیام کے باوجود ملک کے تقریبا ہر شعبہ میںمزدورقوانین پر عمل درآمد نہ کئے جانے کا رحجان کیوں پایا جاتا ہے۔ جس کے باعث ملک کے لاکھوں ملازمین، محنت کش اور ان کے پسماندگان اپنے بنیادی حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں؟
اس پر غیورالحسن صاحب کا کہنا تھا کہ ملک کے دیگر شعبوں کی طرح لاکھوں محنت کشوں پر مشتمل شعبہ محنت بھی حکومت کی مسلسل عدم دلچسپی، عدم توجہی اور لاپرواہی کا شکار چلا آرہاہے۔ ملک کے کسی بھی ایوان اور منتخب اداروں میں اس مظلوم طبقہ کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔جدھر دیکھوہر جگہ دولت مند اور جاگیر دار طبقہ بری طرح چھایا ہوا ہے۔یہ طاقتور اور بالادست طبقہ ملک میں مزدور قوانین کے عملدرآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ معاشرہ کا عجب حال ہے، امراء اور طاقتور طبقہ کے لئے فوری انصاف اور غریب کے لئے برسوں انتظار۔ اس تشویشناک صور حال کے باعث ملک کے بیشتر صنعتی ،پیداواری اورکاروباری اداروں میں خدمات انجام دینے والے محنت کش مروجہ مزدور قوانین پر پوری طرح عملدرآمد نہ ہونے کے باعث اپنے بنیادی حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں۔ البتہ اس صورت حال کے برعکس ملک میں قائم کثیرالقومی ادارے صنعتی تعلقات اور مزدور قوانین پر پوری طرح عمل پیرا ہیں۔ جس کے باعث ان اداروں کے ملازمین اور محنت کش اطمینان بخش طریقہ سے زندگی گزار رہے ہیں۔
انہوں نے ملک کی موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک کے پیداواری عمل میں اضافہ ،صنعتی تنازعات کے خاتمہ اور پر امن صنعتی ماحول قائم کرنے کے لئے تینوں اسٹیک ہولڈرز حکومت، آجران اور ملازمین کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنی اپنی سطح پر حقوق و فرائض پر بھرپور توجہ دیں اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہر ادارہ میں صنعتی تعلقات کے قوانین اور مزدور قوانین پر عمل درآمد کو ہر ممکن یقینی بنائیں۔حکمراں اور ارباب اختیاریا د رکھیں! جب تک ملک کا محنت کش اور ملازم طبقہ اپنے حالات کار،اجرتوں اور سہولیات سے مطمئن نہیں ہوگا ،تب تک ملک کی معیشت ،صنعت اور کاروبار بھی نہیںپھلے پھولے گا اور اس کا اجتماعی نقصان پوری قوم کو بھگتناہوگا۔
سید غیورالحسن کی پوری زندگی سخت جدوجہد، ایمانداری اور محنت سے عبارت ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں صنعتی تعلقات او رمزدور قوانین سمیت دیگر موضوعات پر اپنی کتب کی طباعت اور اشاعت کے لئے کن کن مالی مصائب و مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ مالی وسائل میسر نہ ہونے کے باعث انہوں نے1986ء میں اپنی پہلی کتاب’’ ٹریڈ یونین کا ارتقاء ‘‘
اپنی بیمہ پالیسی سے قرض حاصل کرکے شائع کی ۔اسی طرح انہیں اپنی دوسری کتاب ’’ ویسٹ پاکستان اسٹینڈنگ آرڈر ‘‘ کی طباعت اور اشاعت کے لئے اپنی بیمہ پالیسی تک سے دستبردار ہونا پڑا اور اپنی تیسری کتاب’’ لیبر ایڈمنسٹریشن ‘ ‘ کی اشاعت کے لئے اپنی جمع پونجی یعنی پنشن کمیوٹیشن کی رقم سے95،ہزار روپے خرچ کرکے بمشکل اس کتاب کے 500نسخے شائع کئے۔جبکہ اپنی چوتھی کتاب’’ لیبر ایڈمنسٹریشن اینڈ انڈسٹریل ریلیشنز ‘‘ اور پانچویں کتاب’’ ڈسپلن اور ڈسپلنری پروسیجر( ڈومیسٹک انکوائری) ‘‘ بھی انتہائی نامساعد حالات میںشائع کی۔
شعبہ محنت کے موضوع پر اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کا ذکر کرتے ہوئے غیور الحسن صاحب نے بتایا کہ ہمارے ادارہ
نیلاٹ کے ایک وزٹنگ لیکچر اور ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر اظہر رضوی صاحب، جو نیلاٹ کے زیرتربیت شرکاء کو منیجمنٹ اور فروغ نسانی وسائل کے موضوعات پر لیکچرز دیا کرتے تھے ، وہ ایک بیحد قابل، مخلص اور ہمدرد انسان تھے۔انہوں نے ایک بار مجھے صنعتی تعلقات اور قوانین محنت کے موضوع پر جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کرنے کی ترغیبب دی تھی اور ایک دن بصد اصرار مجھے اپنے ساتھ لے جاکر کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر ابوذر واجدی صاحب سے میری ملاقات بھی کرائی تھی۔چنانچہ ڈاکٹر اظہررضوی کی جانب سے ترغیب، حوصلہ افزائی اور ڈاکٹر ابوذر واجدی کے مشورہ اور ان کی گرانقدرعلمی اور تحقیقی رہنمائی کے باعث میںنے صنعتی تعلقات اورمزدور قوانین کے موضوع پر شب و روز محنت کرکے کافی تحقیقی مواد مرتب کیا تھااور پھر اسے مزید علمی رہنمائی اور مطالعہ کے لئے ڈاکٹر ابوزر واجدی کی خدمت میں پیش کردیا تھا ۔ میرے اس تحقیقی مقالہ ” A Survey, work ethics industrial workers of Karachi “
پر بالآخر 2009ء میںجامعہ کراچی سے مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی گئی تھی ۔جو میری50سالہ تدریسی، علمی اورپیشہ ورانہ خدمات کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔
نیلاٹ کی 30،سالہ طویل ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی صنعتی تعلقات اور مزدور قوانین کا موضوع سید غیورالحسن صاحب کا اوڑھنا بچھونا رہا ہے۔ چنانچہ ان اہم علوم میں اپنے کئی دہائیوں پر محیط وسیع تدریسی و تربیتی تجربہ کے پیش نظرآپ 2012 ء سے بزنس اسکول ،جامعہ کراچی اور2016 ء سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ (PIM)،کراچی میں وزٹنگ لیکچرار کی اہم ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں ۔ سید غیورالحسن کی نگرانی میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ (PIM)،کراچی کے زیر اہتمام ملک کے بڑے اور اہم صنعتی، کاروباری، تجارتی اداروں اور کارپوریٹ شعبہ کے انسانی وسائل کے شعبہ سے وابستہ افسران کے لئے لیبر ایڈمنسٹریشن اور انڈسٹریل ریلیشنز میں تین ماہ کے ڈپلومہ کورس کا انعقادکیا جاتا ہے۔
سید غیورالحسن صاحب نے تقریبا30،برسوں تک نیلاٹ کے زیر اہتمام مختلف شارٹ کورسوں اور پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورسوں کے شرکاء کو صنعتی تعلقات، مزدور قوانین، کام کی جگہ صحت اور حفاظت، اور دیگر اہم موضوعات پر تدریس اور تربیت فراہم کی ہے۔ جس کے باعث نیلاٹ کے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کے فارغ التحصیل اورسیدغیور الحسن کے تربیت یافتہ سینکڑوں شاگرد ملک بھر کے سرکاری،نیم سرکاری، صنعتی اور کاروباری اداروں کے شعبہ انسانی وسائل اور انتظامی ڈھانچہ کے لئے ایک اہم اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس وقت نیلاٹ کے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس کی بدولت ملک بھر کے مختلف سرکاری، نیم سرکاری، عسکری، صنعتی، کاروباری اور تجارتی اداروں کے شعبہ انسانی وسائل اور ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں انتظامی افسران امتیازی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔
سیدغیورالحسن کو2006ء میںاپنی اہلیہ کے ساتھ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ سید غیورالحسن 2008ء میں نیلاٹ کی ملازمت سے ریٹائر ہوگئے تھے۔ جنوری 2019ء میں غیورالحسن صاحب کو اپنی رفیقہ حیات ثروت جہاں کی جدائی کے صدمہ کو سہنا پڑا ۔جو ایک ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار استاد اور طویل عرصہ سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ تھیں اور2010ء میں اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئیں تھیں۔
75 سالہ سید غیورالحسن ریٹائرمنٹ کے بعد ایک پرسکون اور مطمئن زندگی بسر کر رہے ہیں۔بڑھتی عمر کے ساتھ اگرچہ ان کی مخصوص اور منفرد گرجدار اور پاٹ دار آواز اور یادداشت تو حسب دستور برقرار ہے۔ لیکن بڑھتی عمر کے باعث جوڑوں کے شدید درد اور تکلیف کے باعث انہیں چلنے پھرنے اور آمد ورفت میں سخت دشواریوں کا سامنا ہے اوروہ اب چلنے پھرنے کے لئے عصاء کا استعمال کرتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود اتوار کے دن باقاعدگی سے لیکچر دینے کے لئے کلفٹن میں واقع پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ(PIM) ضرورجاتے ہیں۔
الحمد للہ ! اللہ تعالیٰ نے غیورالحسن کو تین سعادت مند اور باصلاحیت صاحبزادگان اور ایک صاحبزادی سے نوازاہے، صاحبزادی شادی شدہ اور اور اپنے گھر میں شاد و آباد ہے۔آپ کا ایک صاحبزادہ کیمیکل انجینئر جبکہ دوسرے صاحبزادہ الیکٹرنکس انجینئر ہیں اور دونوںصاحبزادے بیرون ملک اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں،جبکہ پاکستان میں مقیم صاحبزادہ ایک نجی بینک میں ملازم ہے۔