چیئرمین کے خلاف قانون احکامات کی حکم عدولی کی پاداش میں معطلی کی سزا ء اور اپنی جائزترقی سے بھی محروم کردیئے گئے۔

عوام الناس کی فلاح و بہود اور انہیں خدمات کی فراہمی کے لئے قائم سرکاری، نیم سرکاری اور خود مختار اداروں کی کارکردگی اور خدمات کے معیار میں دن بدن زوال آتا جا رہا ہے۔ملک کے کسی بھی محکمہ میں چلے جائیں وہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ملے گا۔جس کے باعث عوام الناس خود کو درپیش مسائل کے باعث سخت مشکلات اور ذہنی اذیت کا شکارنظر آتے ہیں اوراس صورتحال کے باعث وہ اپنے جائز امور کے لئے ان بدعنوان اہلکاروں کومنہ مانگی رشوت دینے پر مجبور ہیں۔
وفاقی،صوبائی اور خودمختار اداروں کی بڑھتی ہوئی ناقص کارکردگی،غیر ذمہ داری اور ان کی خدمات میں تنزلی کی بنیادی وجہ ان اداروں میں نااہل،سفارشی ،جعلی ڈگری اورمشکوک ڈومیسائل کے حامل جی حضوری قسم کے عناصر کا کلیدی عہدوں پر فائز ہونا ہے۔اربا ب واختیار اور ذمہ دار حکام کی جانب سے اپنے ماتحت افسران اور عملہ کی کارکردگی کی نگرانی سے عدم دلچسپی، بازپرس اور جوابدہی کے کمزور عمل کے باعث ان تمام قومی،صوبائی اور دیگر اداروں میں مفاد پرست افسران اور ملازمین کے منظم گروپ مافیا اور ایک Syndicate کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ جو اپنی راہ میں رکاوٹ بننے والے ہر فرض شناس اور دیانتدار افسران اور ملازمین کے خلاف مختلف اوچھے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے یا تو انہیں سائیڈ لائن کردیتے ہیں یا پھر انہیں حالات کے جبر کے ذریعہ ملازمت تک سے ہاتھ دھونے پر مجبور کردیا جاتاہے۔
اس قسم کے بدعنوان اور سازشی عناصر نے طاقت، دولت،قومیت اور زبان کے بل بوتے پر ان تمام وفاقی، صوبائی،خودمختار اور دیگر اہم اداروں پر اپنا قبضہ جمالیا ہے اور یہ بااثر طبقہ بعض عاقبت نا اندیش اعلیٰ افسران کی ناجائز فرمائشیں پوری کرکے اور ان کی قربت حاصل کرکے اختیارات کے ناجائز استعمال، رشوت ستانی، بھتہ خوری، کمیشن کی وصولی ،جعلسازی اور سرکاری ریکارڈ اور سینیاریٹی میں ہیرا پھیری جیسے غیر قانونی دھندوں میں مصروف ہے۔ لیکن ان بدعنوان افسران کے زبردست اثرورسوخ کے باعث ان بدقماش عناصر کا کوئی بگاڑنے والا نہیں ہے۔لہذاء اداروں میں دن بدن ان بدعنوان اور خوشامدی عناصر کے حوصلے اور دیدہ دلیری بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ اس قسم کی تشویشناک صورت حال کے باعث ان قومی اداروں میں باضمیر، فرض شناس اور دیانتدار افسران اور ملازمین کے لئے اپنے بچوں اور اہل خانہ کی کفالت کے لئے باعزت طور سے ملازمت کرنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
وطن عزیز میں ایسا ہی ایک وفاقی فلاحی ادارہ، ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن(EOBI)ہے۔ جو وفاقی وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کی زیر نگرانی خدمات انجام دیتا ہے ۔1976ء میں قائم ہونے والے اس قومی فلاحی ادارہ کا بنیادی مقصد ملک کے نجی شعبہ اور دیگر متعلقہ اداروں سے وابستہ ملازمین کو بڑھاپے میں پنشن فراہم کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے ای او بی آئی اپنے دائرہ قانون میں آنے والے اداروں کو رجسٹر کرکے ان اداروں سے ماہانہ کنٹری بیوشن وصول کرتا ہے اور مقررہ طریقہ کار کے مطابق ان رجسٹر شدہ اداروں کے ملازمین کو60،برس کی عمر اور خواتین اور کان کنی سے وابستہ محنت کشوں کو55،برس کی عمر میں تاحیات پنشن جاری کرتا ہے۔ موجودہ کم از کم پنشن8,500/- روپے ماہانہ ہے اور اس وقت ملک بھر میںتقریبا 4،لاکھ رجسٹر شدہ بیمہ دار ملازمین اور ان کے پسماندگان ای او بی آئی سے پنشن حاصل کر رہے ہیں۔

لیکن ملک کے دیگر اداروں کی طرح اس قومی فلاحی ادارہ ای او بی آئی میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی بنیادوں پر سفارشی ،بااثر، جعلی اور غیر متعلقہ ڈگری ،مشکوک ڈومیسائل اورصوبائی کوٹہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چور راستوں سے داخل ہونے والے انتہائی بدعنوان اور بدقماش عناصر کا منظم طور سے قبضہ ہوگیا ہے۔جس کے باعث ای او بی آئی جیسے فلاحی ادارہ کے قیام کے بنیادی مقاصد جن میں محنت کشوں کی رجسٹریشن، کنٹری بیوشن کی وصولیابی اور پنشن کی ادائیگی تو پس پشت چلے گئے ہیں۔ لیکن ملک کے لاکھوں غریب ملازمین اور محنت کشوں کی جانب سے مستقبل میں اپنی پنشن کی امید کے لئے ای او بی آئی کے پاس بطور امانت جمع کرائے جانے والے چندہ (Contribution)کی رقم پرعیاشیاں کرنے والے ان بے ضمیر سفارشی،بااثر اوربدعنوان افسران کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔

ای او بی آئی کے یہ بدعنوان اور جی حضوری افسران ای او بی آئی کے قیام کے بنیادی مقصد یعنی نجی شعبہ کے لاکھوں ملازمین اور محنت کشوں کے لئے مختص Benefits فراہم کرنے کے فرض اولین کو پس پشت ڈال کر اور مکمل فراموش کرکے صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے Benefits کے حصول کے لئے ہر جائز اور ناجائز ذریعہ سے دن رات کوشاں ہیں۔

اپنی محدودتنخواہوں اور عہدوںکے برعکس ان راشی،بھتہ خور اور انتہائی بدعنوان افسران کے شاہانہ ٹھاٹ باٹھ سے رہن سہن، سرکاری نمبر پلیٹ والی قیمتی گاڑیاں، پوش علاقوں میں بنگلے، بچوں کی مہنگے ترین تعلیمی اداروں اور بیرون ملک تعلیم، بڑے بڑے اور مہنگے اسپتالوں میں علاج و معالجہ،رشوت کی کمائی سے بار بار عمرہ اور حج بیت اللہ کی ادائیگی، بیرون ملک تفریحی سفر ، قیمتی املاک اور زرعی اراضی، رئیل اسٹیٹ کے کاروبار ،پٹرول پمپ، کیٹل فارمز، ڈیری فارمز،فارم ہائوسز،فیکٹریاں، ڈپارٹمنٹل اسٹورز کی ملکیت ،ای او بی آئی کے ان راشی،بھتہ خور اور بدعنوان فسران کی سنگین مالی بدعنوانیوں، رشوت ستانی اور بھتہ خوری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اگر FIA اور NAB ای او بی آئی کے ان راشی،بھتہ خور اور بدعنوان افسران کے اثاثوں کی شفاف تحقیقات کریں تو نہایت ہوشرباء حقائق سامنے آئیں گے۔
لیکن اس کے برعکس ای او بی آئی میں باضمیر،دیانتدار اور فرض شناس اور سینئر افسران کے لئے باعزت طور سے ملازمت جاری رکھنا ناممکن بنادیا گیا ہے ۔اس کی ایک زندہ مثال ای او بی آئی کے ایک زیر عتاب فرض شناس اورسینئر افسر عبدالاحد میمن کی ہے۔جن کا شمار

ادارہ کے انتہائی فرض شناس، دیانتداراور تجربہ کار افسران میں کیا جاتا ہے۔آپ کا تعلق وادی مہران کے مردم خیز خطہ شکار پور کے ایک دیندار، باعزت اور تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے۔

آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول قاضی محلہ ،شکارپور سے اور ثانوی تعلیم اسلامیہ اسکول اور انٹرمیدیٹ کالج شکار پور سے حاصل کی۔خدا کے فضل وکرم سے عبدالاحد میمن دینی و دنیاوی دونوں تعلیم سے آراستہ اور حافظ قرآن بھی ہیں۔آپ کو اردو ،انگریزی، عربی اور سندھی زبان پر عبور حاصل ہے۔

عبدالاحد میمن کا تعلیمی ریکارڈ نہایت شاندار اورمتاثرکن رہا ہے ۔انہوںنے1998ء میں انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آبادسے بی اے( آنرز) اور2002ء میں ایل ایل بی آنرز( شریعہ اینڈ لاء)، اے گریڈ میں پاس کیا تھا۔خدا کے فضل و کرم سے آپ کا پورا تعلیمی کیریئر شاندار اورفرسٹ کلاس فرسٹ رہا ہے۔آپ نے قانون کی ڈگری حاصل کرنے بعداپنی عملی زندگی کا آغاز اسلام آباد میں ماتحت عدلیہ میں قانون کی پریکٹس سے کیا تھا۔

اس دوران آپ نے قانون کی پریکٹس کے لئے2002ء میں پنجاب بار کونسل سے لائسنس حاصل کیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کے لئے پنجاب بار کونسل سے لائسنس حاصل کیاتھا۔ علاوہ ازیںآپ اسلام آباد بار ایسوی ایشن، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، راولپنڈی بار ایسوسی ایشن اورلاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے بھی رکن ہیں۔

لیکن آپ کی ان تمام پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے باوجودآپ کی والدہ محترمہ نے شعبہ وکالت کو ناپسندیدہ قرار دیا تھا۔ لہذاء آپ نے اپنی والدہ محترمہ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے قانون کی پریکٹس کو ترک کرکے سرکاری ملازمت کے حصو ل کے لئے کوششیں شروع کردیں اور بالآخران کی یہ کوششیں رنگ لائیں اور ای او بی آئی کے اسامی کے ایک اشتہار کی بنیاد پر تحریری ٹیسٹ اور انٹرویو کے ذریعہ وہ میرٹ پر ایگزیکٹیو افسر، قانون منتخب ہوگئے تھے اور ایک برس کی آزمائشی مدت مکمل کرنے کے بعدانہیں 2005ء میں ادارہ کی ملازمت پر مستقل کردیا گیا تھا ۔آپ کی ابتدائی تقرری بطور ایگزیکٹیو افسر قانون شعبہ قانون ہیڈ آفس کراچی میں عمل میں آئی تھی۔ جہاں آپ نے مشتاق احمد سموں، اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل، قانون و بورڈ سیکریٹیریٹ اور محمود عالم سومرو ،ڈائریکٹر قانون کی ماتحتی میں خدمات انجام دی تھیں۔
عبدالاحد میمن ای او بی ایکٹ1976ء پر مکمل عبور کے ساتھ ملک میں رائج مزدور قوانین، فوجداری اور دیوانی قانون کے ساتھ ساتھ فقہ اور شرعی قوانین پر بھی مضبوط گرفت رکھتے ہیں اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایڈمنسٹریشن اینڈ ٹریننگNILAT) ( ،حکومت سندھ اور ملک کی معروف مزدور انجمنوں کے زیر اہتمام منعقدہ تربیتی کورسوں،سیمیناروں اور ورکشاپ میں ای او بی آئی قانون مجریہ1976ء، پنشن اسکیم اور مزدور قوانین کے موضوعات پر لیکچرز بھی دے چکے ہیں۔
اگست2007ء کو ای او بی آئی کی انتظامیہ نے آپ کی پیشہ ورانہ قابلیت میں اضافہ کے لئے آپ کا تبادلہ ای او بی آئی دفتر،لاہو ر کردیا تھا۔ جہاں آپ نے اپنی پیشہ ورانہ قانونی قابلیت میں اضافہ کے لئے پنجاب یونیورسٹی کے زیراہتمام ڈپلومہ ان لیبرلاز
(DDL)میں داخلہ حاصل کیا تھااور2009ء کے دوران اس امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔آپ نے اس دوران رجسٹرار، ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹیII ،لاہورکی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دیں۔اس وقت اس اتھارٹی کا دائرہ کار رحیم یار خان سے خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان تک پھیلا ہوا تھا۔اس کے ساتھ آپ اسسٹنٹ ڈائریکٹر، قانون کی حیثیت سے لاہور ہائی کورٹ میں ای او بی آئی کے مختلف قانونی کیسوں کی پیروی اور پیش بھی ہوتے رہے ۔

اس دوران جب2010ء میں ظفر اقبال گوندل نے ای او بی آئی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے سیاسی بنیادوں پر بھرتی شدہ بااثر اور اپنے چہیتے افسران کو کھپانے کے لئے عبدالاحد میمن کا تبادلہ لاہور سے اسلام آباد کردیا تھا۔تبادلہ کے بعدآپ ریجنل دفتر، اسلام آباد میں افسر قانون مقررکئے گئے تھے۔ جہاںآپ سپریم کورٹ آف پاکستان، اسلام آباد ہائی کورٹ، وفاقی محتسب، ایف ایس ٹی،این آئی آر سی اور ماتحت عدلیہ میں ای او بی آئی کے اہم قانونی کیسوں کی پیروی اور پیش ہوتے رہے۔ سال2013ء میں ایک بار پھر آپ کا تبادلہ لاہور کردیا گیا۔جہاں آپ نے ایک بار پھررجسٹرار، ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹیII ،لاہوراور اسسٹنٹ ڈائریکٹر، قانون کی حیثیت سے خدمات انجام دینا شروع کردیں۔
عبدالاحد میمن نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر قانون کی حیثیت سے 2013ء میں چیئرمین ظفر اقبال گوندل کو ہٹائے جانے کے بعد ان کی جانب سے ای او بی آئی میں سیاسی بنیادوں پر سینکڑوں خلاف ضابطہ بھرتیوں کے خلاف ای او بی آئی ایمپلائیز فیڈریشن آف پاکستان(سی بی اے) کے جنرل سیکریٹری سید مبشر رضی جعفری کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر شدہ آئینی درخواست نمبر6/2011 پرای او بی آئی کی جانب سے قانونی پیروی کے ساتھ پیش بھی ہوتے رہے ۔ جس کے نتیجہ میںسپر یم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس انور ظہیر جمالی کی سرکردگی پر مشتمل فل بنچ نے 17مارچ2014ء کو ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ بھرتی شدہ 358،افسران اور ملازمین کی برطرفی کا تاریخی فیصلہ کیا تھا۔یہ تاریخی فیصلہ اب بھی ای او بی آئی کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
اس دوران ای او بی آئی کی انتظامیہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت مختلف اہم مقدمات کی پیروی کے دوران عبدالاحد میمن کی اعلیٰ کارکردگی اور صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل کی جانب سے 18،اراضیوں اور املاک کی مشکوک خریداری کے 35، ارب روپ مالیت کے میگا لینڈ اسکینڈل کیس میں ای او بی آئی کا فوکل پرسن مقرر کیا تھا۔واضح رہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس، افتخار محمد چوہدری نے2010-13کے دوران ای او بی آئی کے چیئرمین ظفر اقبال گوندل، دیگر اعلیٰ افسران اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے بعض ارکان کی جانب سے ای او بی آئی پنشن فنڈ سے سرمایہ کاری کے نام پر بھاری کمیشن کے عوض کراچی،سکھر، لاہور، چکوال اور اسلام آباد میں انتہائی کم قیمتوں کی 18اراضی اور املاک کی انتہائی ہوشرباء قیمتوں پر مشکوک طریقہ سے خریداری کے اس میگا لینڈ اسیکنڈل کا از خود نوٹس لیا تھا ۔عبدالاحد میمن نے ای او بی آئی کے مقرر کردہ فوکل پرسن کی حیثیت شبانہ روز کی محنت سے اس میگا لینڈ اسکینڈل کے تمام دستاویزات، ثبوت اور ریکارڈ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش کئے تھے۔

عبدالاحد میمن کی جانب سے اس اہم میگا لینڈ اسکینڈل کیس کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں انتہائی موثر انداز میںپیروی اور پیشی کے نتیجہ میں اس میگا لینڈ اسکینڈل میں ملوث ای او بی آئی کے سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل، انوسٹمنٹ ایڈوائزر واحد خورشید کنور، فنانشل ایڈوائزر نجم الثاقب صدیقی،ڈائریکٹر، فنانس آصف آزاد،بورڈ آف ٹرسٹیز کے بعض ارکان اور ان اراضیوں کے مالکان کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے کراچی ،لاہور اور اسلام آباد میں16،ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔ یہ کیس2013ء سے تاحال سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔
ای او بی آئی نے 2017ء میںعبدالاحد میمن کو اگلے عہدہ پر ترقی دینے کے لئے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ (PIM) کراچی کے زیر اہتمام ایک ماہ دورانیہ کے Capicity Building Course میں تربیت کے لئے نامزد کیا تھا۔جو انہوں نے اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا تھا۔سال 2017ء میں جب خاقان مرتضیٰ نے چیئرمین ای او بی آئی کا عہدہ سنبھالا تو انہوں بھی عبدالاحد میمن کی قانون کے شعبہ میں شاندار کارکردگی ،جانفشانی اور صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ای او بی آئی میگا لینڈ اسکینڈ ل کیس کی موثر انداز میںپیروی اور پیشی کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں ضابطہ کی تمام کارروائیوں سینیاریٹی، اہلیت ،میرٹ اور تربیتی کورس کی تکمیل کرنے پر ڈپٹی ڈائریکٹر،قانون کے عہدہ پر ترقی دے کر ان کا تبادلہ ا ی او بی آئی دفتر،اسلام آباد کردیا تھا۔ اسلام آباد میں تعیناتی کے دوران عبدالاحد میمن نے ای او بی آئی کے فوکل پرسن برائے ایف آئی اے اور رجسٹرار، ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹیIII ،اسلام آبادکی حیثیت سے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر، قانون کی خالی اسامی پر بھی اہم ذمہ داریاںانجام دیں۔
اسی طرح ای او بی آئی نے2019ء میں آپ کو اگلے گریڈ ڈائریکٹر کے عہدہ پر ترقی دینے کے لئے چار ماہ دورانیہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ(NIM) ،پشاورکے زیراہتمام اگلے گریڈ میں ترقی کے لئے لازمی مڈ کیریئر منیجمنٹ کورس (MCMC)کے لئے بھی نامزد کیا تھا۔یہ تربیتی کورس بھی آپ نے کامیابی سے مکمل کرلیا تھا۔

اس تربیتی کورس کی تکمیل کے بعد ای او بی آئی کے قانون کیڈر میں سب سے سینئر اور تجربہ کار افسر کی حیثیت سے انتظامیہ نے عبدالاحد میمن کو9،دسمبر2019ء کوقائم مقام ڈائریکٹر قانون بناکر شعبہ قانون ہیڈ آفس کراچی کا سربراہ مقرر کیا تھا ۔جس پر عبدالاحد میمن اپنے اہل خانہ کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے تھے۔
عبدالاحدمیمن نے شعبہ قانون ،ہیڈ آفس کا چارج سنبھالنے کے بعد قلیل افرادی قوت اور محدود وسائل کے باوجود بڑی محنت اور تندہی سے برسوں سے زیر التوا ء ادارہ کے اہم قانونی امور پر بھرپور توجہ مرکوز کردی اور دفتر اور گھر سمیت شب و روز کی محنت کے ساتھ تمام زیرالتواء امور کو نمٹانا شروع کردیا تھا۔ اس وقت ای او بی آئی کے اس اہم شعبہ کی حالت انتہائی دگرگوں تھی۔ کیونکہ ان کی تعیناتی سے قبل گزشتہ کئی برسوں سے ای او بی آئی ہیڈ آفس کے شعبہ قانون میں لاء کیڈر سے تعلق رکھنے والاکوئی سربراہ تعینات نہیں رہا تھا ۔انہوں نے بڑی محنت اور ذاتی توجہ سے شعبہ قانون کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان، ہائی کورٹس ،وفاقی محتسب ،این آئی آر سی ، ای او بی آئی اپیلیٹ اتھارٹی اور دیگر امورکے اہم ریکارڈ کو ازسر نو ترتیب دے کر اسے Digitalized بھی کردیا تھا۔اس دوران ان پر کام کا اس قدر شدید دبائو ہوتاتھا کہ ان کا ایک قدم کراچی میں ہوتا تو دوسرا لاہور،اسلام آباد یا کسی اور شہر کی عدالتوں میں ای او بی آئی کے اہم قانونی کیسوں کی تیاری، پیروی اور پیشی میں ہوتا ۔

لیکن عبدالاحد میمن کے ادارہ کے شعبہ قانون کے سربراہ کی حیثیت سے تعیناتی کے فورا بعد وہ اس وقت کے چیئرمین، اظہر حمید کی جانب سے نوازے گئے سال2007ء اور سال2014ء بیچ کے بعض جی حضوری ،چہیتے لیکن انتہائی جونیئر اور نان کیڈر افسران کی آنکھوں میں شہتیر کی طرح کھٹکنے لگے تھے ۔واضح رہے کہ ای او بی آئی کے پورے محکمہ میں ہیڈ آفس کے تقریبا تمام ڈیپارٹمنٹ سمیت ملک بھر کے39 ، ریجنل آفسوں میں ادارہ کے انتہائی سینئر اور تجربہ کار افسران کو نظر انداز کرکے صرف2007ء اور2014ء کے بیچ کے مخصوص افسران کو ان کے بھاری اثرورسوخ کے باعث ریجنل ہیڈ اور ڈپٹی ریجنل ہیڈ کے انتہائی منفعت بخش اور کلیدی عہدوں پر فائز کیا گیا ہے ۔جو ای او بی آئی میں ملازمین اور محنت کشوں کی رجسٹریشن کے نام پران کے آجروں اور مالکان سے گٹھ جوڑ اور بلیک میل کرکے بڑے پیمانے پر رشوت ستانی اوربھتہ خوری میں ملوث ہیں۔جس کے باعث ان صنعتی اور کاروباری اداروں کے محض10فیصد ملازمین ہی ای او بی آئی میں رجسٹرڈ ہیں اور90،فیصد ملازمین رجسٹرڈ نہ ہونے کے باعث اپنے پنشن کے حق سے محروم ہوگئے ہیں۔ ای او بی آئی میںان دونوں گروپوں سے تعلق رکھنے والے انتہائی بدعنوان اور جونیئر افسران نے عبدالاحد میمن جیسے دبنگ اور اصول پرست افسر کی ڈائریکٹر قانون کے عہدہ پر تعیناتی کو دل سے قبول نہیں کیا اور انہوں نے اپنی روائتی حسد اور نفرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے درپردہ عبدالاحد میمن کے خلاف ایک محاذ کھڑا کرلیا تھا۔یہ حاسدین اور سازشی افسران اپنے گروپوں کی نجی محفلوں میں عبدالاحد میمن کے خلاف مختلف قسم کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کی منصوبہ بندی کیاکرتے تھے اور آمرانہ مزاج کے حامل اور خوشامد پسندچیئرمین، اظہر حمید اوران کی جانب سے خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر لاکر تعینات شدہ اور بدعنوانی کے الزام میں NABریفرنس میں نامزد ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی ان انتہائی جونیئر اور بدعنوان افسران کی کھلم کھلا سرپرستی اور پشت پناہی کیا کرتے تھے ۔
جبکہ عبدالاحد میمن ای او بی آئی میں ایک باصلاحیت افسر اور اچھی ساکھ کی شہرت کے حامل ہیں۔وہ ماضی میں بھی ا ی او بی آئی کے متعددسینئر اور تجربہ کار افسران اور چیئرمین حضرات کی براہ راست ماتحتی میں نمایاں طور سے خدمات انجام دے چکے تھے، جن میں ایک اصول پرست افسر اور سابق چیئرمین خاقان مرتضیٰ سر فہرست ہیں۔جو ہمیشہ عبدالاحد میمن کی اعلیٰ صلاحیتوں اور خدمات کے معترف رہے ہیںاوروہ آپ کی صلاحیتوں اور تجربہ پرحد درجہ اعتماد کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔لیکن اب چیئرمین اظہر حمید کی موجودہ بدعنوان انتظامیہ کی سرپرستی اور پشت پناہی میں ان کے غیر قانونی احکامات کی تعمیل سے یکسر انکار اور ان کے لاڈلے افسران کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال اور سنگین بے قاعدگیوں پر صدا احتجاج بلند کرنے کی پاداش میں ای او بی آئی میں عبدالاحد میمن کے لئے زمین تنگ کردی گئی ہے ۔
عبدالاحد میمن نے ای او بی آئی کے قائم مقام ڈائریکٹر قانون کی حیثیت سے صرف ایک برس کی مختصر مدت میں درج ذیل اہم قانونی امور اور گرانقدر خدمات خوش اسلوبی سے انجام دئیے ہیں۔

ای او بی آئی کے 35،ارب روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل کیس کی پیروی
عبدالاحد میمن نے ای او بی آئی کے شعبہ قانون کے سربراہ کی حیثیت سے2013ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے35،ارب روپے مالیت کے میگا لینڈ اسکینڈل کے ازخود نوٹس کیس نمبر35/2013کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہر سماعت کے موقعہ پر ای او بی آئی کی بھرپور انداز سے پیروی کی اور ذاتی طور پر پیشی کے ذریعہ ای او بی آئی کے مفادات کی بھرپور انداز میں نگہبانی کی ۔جس کے نتیجہ میں ایف آئی اے کی جانب سے سابق بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل کو بھی احاطہ عدالت سے گرفتار کیا گیا تھا۔عبدالاحد میمن کی گزشتہ برس ملازت سے بلاجوازمعطلی اور ای او بی آئی کی موجودہ انتظامیہ کی جانب سے اس اہم کیس میںعدم دلچسپی اور عدم پیروی کے باعث یہ کیس 2013ء سے تاحال زیر سماعت ہے ۔جس کی وجہ سے ای او بی آئی کے لاکھوں بیمہ دار افراد اور محنت کشوں کے پنشن فنڈ کی یہ بھاری رقم منجمد پڑی ہوئی ہے اور ای او بی آئی پنشن فنڈ کو سنگین مالی خسارہ کا سامنا ہے۔

ای او بی آئی اپیلیٹ اتھارٹی کے تحت طویل عرصہ سے زیر التواء175 ،اپیلوں کی سماعت اور فیصلے
عبدالاحد میمن، قائم مقام ڈائریکٹر قانون نے ای او بی ایکٹ1976ء کی دفعہ35کے تحت قائم ای او بی آئی اپیلیٹ اتھارٹی کے رجسٹرار کی حیثیت سے ملک بھر کے پنشنرز اور آجران کی جانب سے ایک طویل عرصہ سے زیرالتواء 175،اپیلوں کے بڑی محنت اور تندہی سے کیسز تیار کرکے کراچی،کوئٹہ، ملتان، لاہور، گوجرانوالہ،فیصل آباد، اسلام آباد اور پشاور میں ان کیسوں کی سماعتوں کا اہتمام کرکے ان کیسوں پر فیصلے جاری کئے تھے۔جس سے ای او بی آئی کے بے شمار مستحق بیمہ دار افراد کو ان کی پنشن کا استحقاق حاصل ہوا تھا۔

ای او بی آئی کی 168، گاڑیوں کی ریکوری کا کیس
ای او بی آئی میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں خالصتا سیاسی بنیادوں پر سینکڑوں افسران اور ملازمین کی خلاف ضابطہ بھرتیوں کے خلاف ای او بی آئی ایمپلائیز فیڈریشن آف پاکستان(سی بی اے) کے جنرل سیکریٹری سید مبشر رضی جعفری کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر شدہ آئینی درخواست نمبر6/2011 پرسپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم فل بنچ کی جانب سے17 مارچ 2014ء کو سیاسی بنیادوں پر خلاف ضابطہ بھرتی شدہ 358ا،فسران اور ملازمین کی فوری برطرفی کے تاریخی فیصلے کے بعد ای او بی آئی کی اس وقت کی انتظامیہ کی ملی بھگت، چشم پوشی اورنااہلی کے باعث یہ 358 ،برطرف شدہ افسران غیر قانونی طور پر ای او بی آئی کی سرکاری نمبر پلیٹ نمبر والی 168سرکاری گاڑیاں،لیپ ٹاپ اور دیگر اہم دستاویزات اور ضروری اشیاء اپنے ساتھ لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔جس پر وقت گزرنے کے بعد ای او بی آئی کی نتظامیہ نے گاڑیوں کی بازیابی کے لئے ایک’’ وہیکل ریکوری سیل ‘‘ قائم کیا تھا۔اس ریکوری سیل نے بڑی محنت اورجانفشانی سے برطرف افسران کے جملہ کوائف، گاڑیوں کی تفصیلات کا ریکارڈ تیار کرکے ای او بی آئی کی تمام مقبوضہ گاڑیوں کی بازیابی کے لئے قانونی طریقہ کار کے مطابق رپورٹ اور کیس تیار کرکے مزید کارروائی کے لئے انتظامیہ کو پیش کردیا تھا۔لیکن اس کے باوجود ای او بی آئی کی اس وقت کی غافل انتظامیہ کی عدم دلچسپی، مصلحت آمیز پالیسی کے باعث ان168 گاڑیوں کی ریکوری کے لئے کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں آئی ۔

بعد ازاں2019ء میں جب ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے اس اہم معاملہ کی سنگینی کے پیش نظر ای او بی آئی کی انتظامیہ کو ہدایات دی تھیں کہ غیر قانونی طور پرادارہ کی گاڑیاں لے کر فرار ہونے والے ان تمام برطرف افسران کے خلاف ان کے آبائی شہروں میں انفرادی طور پر ایف آئی آر درج کراکے ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے اوران گاڑیوں کی ریکوری یا گاڑیوں کی قیمت کی وصولی کو یقینی بنایاجائے۔لیکن بورڈ کے ان واضح احکامات کے باوجود ای او بی آئی کی انتظامیہ ان احکامات پر عمل پیرا ہونے کے بجائے اس اہم مسئلہ پر کسی قسم کی کارروائی کرنے کے بجائے دم سادھے بیٹھی رہی اورجب اسلام آباد میںپبلک اکائونٹس کمیٹی (PAC) کے اجلاس میں اس معاملہ پر برہمی کا اظہارکیا گیا تو ای او بی آئی کی انتظامیہ حرکت میں آئی اور اس نے انتہائی عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے واضح احکامات سے روگردانی کرتے ہوئے ان برطرف شدہ افسران سے ای او بی آئی کی 168گاڑیوں کی قانونی طریقہ سے ریکوری یا ان کی قیمت کی وصولی کے لئے 24مئی،2019 کوتھانہ فیروز آباد، کراچی میں اس وقت کے قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل لاء ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس، مرزا اویس سعید احمد کی مدعیت میںزیر دفعات 406,408اور34 ،تعزیرات پاکستان ایک مرکزی ایف آئی آرنمبر 288/2019 درج کراکے اپنی جان چھڑالی تھی۔
عبدالاحد میمن نے شعبہ قانون کے سربراہ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد بورڈ آف ٹرسٹیزکے فیصلہ پر عملدرآمد کو ہر حال میںیقینی بنانے کے لئے چیئرمین اظہر حمید کے احکامات پر ای او بی آئی کی ان168 گاڑیوں کی ریکوری کے معاملہ کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور تھانہ فیروز آباد کے بار بار دورے کرکے اور مقدمہ کے تفتیشی افسر سے رابطہ کرکے اس اہم کیس کو فعال کرایا ۔پھر عدالتی حکم کے ذریعہ اس برطرف شدہ ا ور غیر قانونی طور پر ای او بی آئی کی گاڑیاں لے کر فرار ہونے والے تمام افسران کو عدالتی سمن کے ذریعہ ان کی ذاتی پیشی کو بھی یقینی بنایا۔بعد ازاںعدالتی احکامات کے مطابق اس معاملہ کے فوری اورپائیدار حل کے لئے چیئرمین، ای او بی آئی اظہر حمید سے ان برطرف شدہ افسران کی اجتماعی ملاقات کا بندوبست کرایا ۔ جس میں چیئرمین،ای او بی آئی اظہر حمید نے عدالتی احکامات کی روشنی میں برطرف شدہ افسران کی اپیلیں سننے کے بعد ان کی بے روزگاری اور دیگرمعاشی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ان برطرف شدہ افسران کو مذکورہ سرکاری گاڑیوں کی قیمت معہ مارک اپ بذریعہ آسان اقساط میں ادائیگی کرنے کی اجازت دیدی تھی۔جس پر24،برطرف شدہ افسران نے فوری طور پر ای او بی آئی کو گاڑیوں کی مد میں یکمشت رقم کی ادائیگی کردی تھی اور ای او بی آئی نے انہیں کلیئرنس سرٹیفیکیٹ بھی جاری کردیا

تھا۔ جبکہ مزید40،برطرف شدہ افسران نے بھی چیئرمین ای او بی آئی سے ملاقات کے دوران کئے گئے فیصلہ کے مطابق پہلی قسط کے طور پر فی کس ایک لاکھ روپے ،کل رقم40، لاکھ روپے بذریعہ پے آرڈر ای او بی آئی کے پاس جمع کرادیئے تھے۔لیکن اس دوران نہ جانے چیئرمین، اظہر حمید کس کے نادان کے بہکاوے میں آکر اچانک اپنے سابقہ موقف اقساط کے ذریعہ وصولیابی سے یکسر مکر گئے اوران برطرف افسران سے پے آرڈر کی وصولیابی پر عبدالاحد میمن پر اختیارات سے تجاوزکرنے کا الزام عائد کردیااور اس طرح چیئرمین، ای او بی آئی اظہر حمید کی جانب سے کئی برسوں سے زیر التواء ادارہ کی168 ،گاڑیوں کی ریکوری کے لئے عبدالاحد میمن کی حوصلہ افزائی اور ستائش کے بجائے ان کی ادارہ کے لئے مخلصانہ کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے چیئرمین ،اظہر حمید نے اپنے احکامات کی حکم عدولی کا الزام لگاتے ہوئے ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر لاکر تعینات کی جانے والی خاتون ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ ،شازیہ رضوی کے ذریعہ انہیں 15ء اکتوبر2020ء کو بلاجواز اور خودساختہ الزامات پر مبنی ایکExplanation Letter جاری کرادیا ۔
چیئرمین، اظہر حمید کی جانب سے گاڑیوں کی ریکوری کے لئے اقساط کے ذریعہ رقوم کی وصولیابی کے معاملہ پر اچانک اپنا موقف تبدیل کرنے ،ان کے عجیب و غریب رویہ اور ناقابل فہم صورت حال پرعبدالاحد میمن کو بہت دکھ اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ادارہ کے معاملات سے کافی دل برداشتہ ہوگئے اور دفتری امور سے ان کا دل اچاٹ ہوگیا تھا۔عبدالاحد میمن کی اس کیفیت کو بھانپتے ہوئے چیئرمین، اظہر حمید نے افسران کے ایک اجلاس کے دوران اور پھر ایک دن ذاتی طور پر عبدالاحد میمن کے دفتر میں جاکر ان کی دلجوئی کرتے ہوئے اس Explanation Letterکو جلد واپس لینے کا وعدہ اور یقین دہانی کرائی تھی اور انہیں اس معاملہ میں مکمل یقین دہانی کراتے ہوئے اسی جذبہ سے کام جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن اپنے وعدہ اور یقین دہانی کے باوجود چیئرمین، اظہر حمید نے سخت وعدہ خلافی کرتے ہوئے عبدالاحد میمن کو جاری کئے جانے والے اسExplanation Letter کو واپس نہیں لیا ۔
اس تشویشناک صورت حال پر انتہائی دل گرفتہ عبدالاحد میمن کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی ریکوری کے معاملہ میں چیئرمین اظہر حمید کی جانب سے بڑی ڈھٹائی سے اپنے موقف سے پھرجانے اور اناپرستی کے باعث ان کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچی تھی اور ای او بی آئی کے سربراہ کی جانب سے اختیار کئے جانے والے اس غیر ذمہ دارانہ رویہ سے نا صرف ان کی جانب سے گاڑیوں کی ریکوری کے لئے کی گئی جملہ کوششوں پر بھی پانی پھر گیا ، بلکہ انتظامیہ کے اس ناروا عمل سے ای او بی آئی کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اگر برطرف شدہ افسران کی جانب سے اقساط میں رقوم کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رہتا تو اب تک ای او بی آئی کو گاڑیوں کی ریکوری کی مد میں کافی رقم وصول ہوچکی ہوتی۔لیکن چیئرمین،ای او بی آئی اظہر حمید نے اس معاملہ میں اچانک اور پراسرار طور پر اپنے موقف کو بدل کر اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے ای او بی آئی کو شدید مالی نقصان پہنچایا ہے۔

ای او بی ایکٹ 1976ء میں مجوزہ ترامیم کا مسودہ کی تیاری

عبدالاحد میمن، قائم مقام ڈائریکٹر شعبہ قانون نے ای او بی آئی انتظامیہ کی ہدایت پر18ویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں وفاق سے محنت کا شعبہ صوبوں کے سپرد کئے جانے اور اس کے نتیجہ میں ای او بی آئی میں رجسٹر شدہ آجران کی جانب سے کنٹری بیوشن کی انتہائی کم شرح

سے ادائیگی اور پنشن میں بار بار اضافوں کے باعث کنٹری بیوشن کی وصولیابی اور پنشن کی تقسیم کی رقوم میں شدید مالی عدم توازن کے پیش نظر شبانہ روز کی کاوشوں اور انتہائی عرق ریزی سے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی غرض سے ای او بی ایکٹ1976ء میں ضروری ترامیم کا ایک مسودہ قانون تیار کیا تھا ۔ جسے ای او بی آئی کے اعلیٰ افسران نے بھی بہت سراہا تھا۔ایکٹ میں ضروری ترامیم پر مبنی اس قانونی مسودہ کو وزارت قانون اور انصاف، حکومت پاکستان سے منظوری کے بعد ای او بی آئی کی متعلقہ وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، اسلام آباد کی وساطت سے اسے باقاعدہ قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنا تھا ۔ لیکن عبدالاحد میمن کی بلاجواز معطلی کے بعد ای او بی ایکٹ 1976ء میں ترامیم کا یہ اہم ترین معاملہ بھی سرد خانہ کی نظر ہوگیا ہے۔

بینک الفلاح کی خدمات میں توسیع کا متنازعہ معاملہ

اسی طرح عبدالاحد میمن نے جراء ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادارہ کے مختلف امور میں چیئرمین، اظہر حمید کے غیر قانونی فیصلوں اور اقدامات سے اصولی اور قانونی طور پر اختلاف کیا تھا۔جن میں سے ایک اہم معاملہ، ای او بی آئی کے آجران سے کنٹری بیوشن کی وصولیابی اور پنشن تقسیم کرنے والے بینک ،بینک الفلاح لمیٹڈ کی خلاف ضابطہ طورپر مزید ایک برس کی توسیع کا معاملہ بھی شامل تھا۔ چیئرمین،اظہر حمید نے اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت بینک الفلاح سے معاہدہ میں ایک بار پھر ایک برس کی توسیع کے معاملہ میں عبدالاحد میمن، قائم مقام ڈائریکٹر قانون سے Legal Opinion طلب کیا تھا۔جس پر عبدالاحد میمن نے چیئرمین کی جانب سے بینک کے معاہدہ میں دوبارہ توسیع کو ان کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس معاملہ پر PPRAقوانین کے مطابق کھلے مقابلہ (Open Bidding)کے ذریعہ قانونی طریقہ اختیار کوکرنے کی رائے دی تھی۔ جس پرچیئرمین، اظہر حمید نے اپنی فرمائش پوری نہ کرنے پر عبدالاحد میمن سے دبے لفظوں میں اظہار ناپسندیدگی اورناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

ای او بی آئی میںخلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن افسران کی تعیناتی کا معاملہ

چیئرمین،اظہر حمید کی جانب سے اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت ای او بی آئی کے سینئر افسران کی حق تلفی کرتے ہوئے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2013ء کے فیصلہ کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے دیگر سرکاری محکموں سے اپنی پسند کے ڈیپوٹیشن افسران کو

لاکرای او بی آئی کے کلیدی عہدوں پر فائز کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔عبدالاحد میمن نے ادارہ کے قائم مقام ڈائریکٹر قانون کی حیثیت سے فیڈرل لینڈ کمیشن کے ایک افسر ظفر علی بزدار ،کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر لاکر تعینات کرنے کے خلاف بھی اختلافیLegal Opinion دیا تھا۔ جس پر چیئرمین، اظہر حمید نے عبدالاحد میمن سے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی قانونی رائے کے باوجود اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ظفر علی بزدار کو ڈیپوٹیشن پر لاکر ڈائریکٹر بی اینڈ سیIII ،اسلام آباد کے کلیدی عہدہ پر
تعینات کردیا تھا ۔جو ای او بی آئی کے سینئر افسران کے لئے مختص پروموشن سیٹ ہے ۔چیئرمین،اظہر حمید کی جانب سے اس غیر قانونی اقدام کے باعث ای او بی آئی میں برسوں سے خدمات انجام دینے والے سینئر افسران اپنے ترقی کے حق سے محروم ہوگئے ہیں۔
عبدالاحد میمن نے ای او بی آئی کے قائم مقام ڈائریکٹر شعبہ قانون کی حیثیت سے سندھ ہائی کورٹ،لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت مختلف ماتحت عدالتوں میں بھی زیر سماعت ای او بی آئی کے پنشنرز اور آجران کے کیسوں،ای او بی آئی کے ملازمین کے ملازمتی تنازعات کی موثر انداز میں پیروی اور نگرانی کی تھی۔ آپ نے ای او بی آئی کے سربراہ شعبہ قانون کی حیثیت سے رجسٹرار اپیلیٹ اتھارٹی،سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت 35،ارب روپے مالیت کے میگا لینڈ اسکینڈل میں فوکل پرسن کی حیثیت سے سات مختلف انکوائریوں میں بھی ایف آئی اے کی بھی معاونت کی اوراس دوران ای او بی آئی نے آپ کو ادارہ کا مجاز افسر برائے رائٹ ٹو انفارمیشن بھی مقرر کیا تھا ۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبدالاحد میمن،سربراہ شعبہ قانون( زیر معطل) ای او بی آئی کے لئے کس قدر قیمتی اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

انتہائی جونیئر اور نان کیڈر افسر طاہر صدیق چوہدری، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے خلاف ضابطہ طور پراپنے کیڈرکو تبدیل کرانے اور اپنی سینیاریٹی تبدیل کرنے کے خلاف صدا ئے احتجاج بلند کرنا۔

عبدالاحد میمن، قائم مقام ڈائریکٹر قانون،ای او بی آئی کا ایک قصور یہ بھی تھا کہ انہوںنے3،نومبر2020ء کو ادارہ کے شعبہ قانون کے سربراہ کی حیثیت سے چیئرمین، اظہر حمید کے ایک انتہائی چہیتے اور جی حضوری افسرطاہر صدیق چوہدری، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے خلاف ضابطہ طور پر اپنے فنانس کیڈر سے آفس کیڈر میں تبدیلی اور آفس کیڈر کی سینیاریٹی فہرست میں ہیرا پھیری کرکے اپنے نام کو سینئر افسران سے اوپر ظاہر کرنے اور اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ا،یچ آر ڈپارٹمنٹ اور ایچ آر ڈپارٹمنٹ میںبیک وقت پانچ کلیدی عہدوں پر فائز ہونے اور ادارہ کے افسران کو ہراساں کرنے،تادیبی کارروائیوں کا نشانہ بنانے اور دور دراز علاقوں میں تبادلوں کے باعث مفادات کے ٹکرائو (Conflict of Interest) کے متعلق ڈائریکٹر جنرل ،ایچ آر ڈپارٹمنٹ کو ایک خط کے ذریعہ توجہ دلائی تھی اور غیر جانبداری اور شفافیت کے تقاضوں کے مطابق چیئرمین ،ای او بی آئی اظہر حمید کے اس انتہائی چہیتے افسر کو فوری طور پر ان پانچ اہم اور حساس عہدوںسے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔عبدالاحد میمن کی یہ جراء ت بھی چیئرمین، اظہر حمید اور ان کے جی حضوری اور چہیتے

افسران کو سخت ناگوار گزری تھی۔لیکن انتظامیہ نے طاہر صدیق چوہدری کی مکمل پشت پناہی کرتے ہوئے اس خط پر کوئی کارروائی نہیں کی۔اس خط پر کوئی کارروائی نہ ہونے کے بعد عبدالاحد میمن نے اگلے مرحلہ میں طاہر صدیق چوہدری ،اسسٹنٹ ڈائریکٹرکی ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں تعیناتی کو مفادات کے ٹکرائو کے عین مترادف قرار دیتے ہوئے قانون کے مطابق ای او بی آئی ایمپلائیز سروس ریگولیشن مجریہ 1980ء کی دفعہ27کے تحت6،نومبر2020ء کو مقررہ طریقہ کار کے ذریعہ مجاز اتھارٹی کے پاس ایک پٹیشن داخل کی تھی۔لیکن ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں تعینات طاہر صدیق چوہدری نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال اور بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پٹیشن کو مجاز اتھارٹی کو بھیجنے کے بجائے روائتی انداز میں دبادیا ۔لیکن اس کے باوجود عبدالاحد میمن نے ادارہ میںجاری ان غیر قانونی امور اور اقدامات پر بھرپور مزاحمت کرنے سے ہار نہ مانی اور انہوں نے 15مارچ2021ء کو مذکورہ سروس ریگولیشن کی دفعہ33کے تحت مجاز اتھارٹی کے پاس ایک اپیل بھی داخل کردی۔لیکن اس موقعہ پر بھی طاہر صدیق چوہدری نے اس اپیل کو مجاز اتھارٹی کو ارسال کرنے کے بجائے بدنیتی سے اسے بھی دبالیا۔اس صورت حال سے تنگ آکر عبدالاحد میمن نے مجاز اتھارٹی، صدر بورڈ آپ ٹرسٹیز ،اسلام آبادکو اپنی اپیل کی پیشگی نقل بھی ارسال کردی تھی۔اس پرجب مجاز اتھارٹی نے ایچ آر ڈپارٹمنٹ سے جواب طلب کیا تو طاہر صدیق چوہدری نے مجاز اتھارٹی کو گمراہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ چونکہ عبدالاحد میمن نے خلاف ضابطہ طور براہ راست اپیل داخل کی تھی،لہذاء یہ دفتری طریقہ کار خلاف ضابطہ ہے اور اس اپیل کو داخل دفتر کیا جائے۔

ای او بی آئی میں چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل جیسے افسران بالا کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور بڑے پیمانے پر لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ چیئرمین، اظہر حمید نے طاہر صدیق چوہدری اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی تعیناتی کو مفادات کے ٹکرائو کے متعلق عبدالاحد میمن کی درخواست پر کسی قسم کی کارروائی کرنے اورعبدالاحد میمن کی اپیل کی شنوائی کے بجائے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل جاتے جاتے طاہر صدیق چوہدری کے فنانس کیڈر سے آفس کیڈر میں تبدیلی کی منظوری دی اور آفس کیڈر کی سنیاریٹی فہرست میں اس کا نام سب سے آخر میں درج کرادیا۔ای او بی آئی ملازمتی قوانین کے مطابق کسی افسر کی جانب سے اپنے کیڈر کی تبدیلی سے اس کی ملازمت کالعدم ہوسکتی ہے اورافسران کے کیڈر کی تبدیلی کا اختیار چیئرمین کے بجائے صرف بورڈ آف ٹرسٹیز کو حاصل ہے۔
ای او بی آئی کے یہ سازشی اور بدعنوان عناصر عبدالاحد میمن کے خلاف کسی مناسب موقع کی تاک میں رہے۔ چیئرمین، اظہر حمید کے اشارہ پر ایک دن انہیں اپنی حسرت پوری کرنے کا موقع مل ہی گیا اور عبدالاحد میمن، قائم مقام ڈائریکٹر قانون، کو ای او بی آئی کے ان سازشی اور انتہائی بدعنوان عناصر کی ایماء نوٹیفکیشن نمبرر196/2020 بتاریخ 16دسمبر2020ء کے تحت بلا کوئی الزام عائد کئے ای او بی آئی کے شعبہ قانون کے سربراہ کی حیثیت سے ملازمت سے معطل کردیا گیا ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کی معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے والا وہی انتہائی جونیئر اور نان کیڈرافسر طاہر چوہدری ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ا،یچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس تھا۔ جس کا اصل نام تو طاہر صدیق ہے، لیکن یہ ای او بی آئی کے ملازمین پر رعب جمانے کے لئے سرکاری ریکارڈ میں خود کو طاہر صدیق چوہدری ظاہر کرتا ہے۔لیکن اصولی طور

پر ایک متنازعہ، انتہائی جونیئر اور نان کیڈر افسر ہوتے ہوئے وہ اس نوٹیفیکیشن کے جاری کرنے کا قطعی مجاز نہیں تھا۔ڈائریکٹر شعبہ قانون کے سینئر عہدہ کی معطلی کے اس نوٹیفیکیشن کے اجراء کا مجاز ا فسرصرف اور صرف ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل یا ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ کا افسر ہوتا ہے۔
شواہد کے مطابق عبدالاحد میمن جیسے اصول پرست اور بے داغ کردار کے مالک افسر کی اس بلاجواز معطلی کے گھنائونے کھیل کے پیچھے اس وقت کے چیئرمین اظہر حمید کے انتہائی چہیتے طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا شیطانی ذہن کار فرما ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ اس
وقت کے چیئرمین، اظہر حمید کی جانب سے ای او بی آئی میں اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے ای او بی آئی کے تمام سینئر اور تجربہ کار افسران کو نظر انداز کرکے صرف اور صرف ایک ہی مخصوص صوبہ سے تعلق رکھنے والے انتہائی جونیئر اور جی حضوری اور خوشامدی افسران کی سرپرستی کی جاتی تھی اور انہوں نے اس وفاقی ادارہ میں’’ لڑائو اور حکومت کرو ‘ ‘کی پالیسی کے تحت قومیت اور زبان اور پسند نا پسند کی بنیاد پر عصبیت کا ماحول پیدا کر رکھا تھا۔اس صورت حال میں تمام تر فوائد سمیٹنے میں ملوث طاہر صدیق چوہدری نامی جونیئر اور نان کیڈر افسر سر فہرست ہے۔ جو ای او بی آئی کے خوشامد پسند اعلیٰ افسران کاجی حضوری،انتہائی خوشامدی اور ان کے ہر جائز و ناجائز احکامات پر لبیک کہنے کے باعث بیک وقت پانچ کلیدی عہدوں اسسٹنٹ ڈائریکٹر،ایچ آر ڈپارٹمنٹ،اسٹاف افسر برائے ڈائریکٹر جنرل ،ایچ آر ڈپارٹمنٹ، اسسٹنٹ ڈائریکٹرDisciplinary Action ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ٹرانسفرز اینڈ پوسٹنگ اوراسسٹنٹ ڈائریکٹر، ٹریننگ پر فائز ہے اور اسے اس وقت کے چیئرمین اظہر حمید اور موجودہ قائم مقام چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل شازیہ رضوی کی پشت پناہی، بھرپور سرپرستی اورمکمل آشیر باد حاصل رہی ہے۔ جس کے باعث ای او بی آئی کا یہ انتہائی جونیئر اور نان کیڈر افسر ملک کے ایک وفاقی فلاحی ادارہ ای او بی آئی کے سیاہ وسپید کا مالک بنا ہوا ہے اور چن چن کرادارہ کے دیانتدار اورفرض شناس افسران کے پسندیدہ مقامات پرتبادلوں، جائز و ناجائز ترقیوں،معطلی اور سزائوں کے فیصلے کرنے میں مصروف ہے ۔

عبدالاحد میمن کے خلاف بلا کسی الزامات پر مبنی چارج شیٹ کا اجراء
ای او بی آئی کے چیئرمین، اظہر حمید کی جانب سے عدالت کے واضح حکم پر ای او بی آئی کی 168،گاڑیوں کی ریکوری کے لئے برطرف شدہ افسران سے اقساط میں رقوم کی وصولیابی پر اپنے موقف سے یکدم یو ٹرن اختیار کرنے اور اس معاملہ میں عبدالاحد میمن کوExplanation Letter جاری کرکے سارا ملبہ عبدالاحد میمن پر ڈالنے کی مذموم کوشش کرنے اور بعد ازاں احساس ندامت پر یہ Explanation Letter واپس لینے کے اپنے وعدہ اور واضح یقین دہانی سے بھی پھر جانے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے عبدالاحد میمن کے خلاف باقاعدہ اورمنظم طریقہ سے انتقامی کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا تھا۔اس مقصد کے لئے عبدالاحد میمن ،سربراہ شعبہ قانون ،ای او بی آئی کو چیئرمین، اظہر حمید کی جانب سے ان کے متعدد خلاف قانون احکامات سے سرتابی اور ان کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اور مزاحمت کرنے کی پاداش میں انتقامی کارروائی کے طور پر چیئرمین، اظہر حمید نے ذاتی رنجش کے باعث

12فروری،2021ء کو عبدالاحد میمن کو بلاجواز خودساختہ اور من گھڑت الزامات پر مبنی چارج شیٹ جاری کردی تھی۔
ستم بالائے ستم یہ کہ عبدالاحد میمن کی عزت نفس مجروح کرنے اور انہیںذہنی ایذا پہنچانے کے لئے چیئرمین اظہر حمید کے جی
حضوری اور انتہائی چہیتے افسرطاہر صدیق،اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ نے اظہر حمید کی خوشنودی کی خاطراس چارج شیٹ کو مقررہ طریقہ کار کے مطابق ڈاک کے ذریعہ ارسال کرنے بجائے ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں تعینات اپنے سے ایک سینئر افسر اور ایک سینئراسٹاف ملازم پر سخت دبائو ڈال کر ان کے گھر وصول کرانے بھیجا گیا ۔عبدالاحد میمن کے خلاف اس قدر ذاتی عناد، امتیازی سلوک اور ماورائے قانون عمل سے ای او بی آئی کے ان بدعنوان،حاسد اور سازشی افسران کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور ذہنی پستی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
چیئرمین،ای او بی آئی اظہر حمید کی جانب سے اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک ہی مخصوص صوبہ سے تعلق رکھنے والے انتہائی جونیئر اور جی حضوری اور خوشامدی افسران کی پشت پناہی اور سرپرستی کی جاتی تھی اور انہوں نے اس وفاقی ادارہ میں افسوس ناک حد تک قومیت اور زبان کی بنیاد پر عصبیت کا ماحول پیدا کر رکھا تھا۔عبدالاحد میمن کی قائم مقام ڈائریکٹر قانون سے کے عہدہ سے معطلی کے فورا بعد طاہر صدیق چوہدری نے عبدالاحد میمن کے ہی ایک ماتحت افسر اور اپنے2014ء سے تعلق رکھنے والے اپنے گہرے دوست قدیر احمد چوہدری، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو PIMکے نام نہاد آن لائن ٹریننگ کورس کی بنیاد پر ایچ آر ڈپارٹمنٹ سے تبادلہ کراکے پہلے اسے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدہ پر ترقی دلائی اور پھر خلاف ضابطہ طور پر ایک برس کی آزمائشی مدت مکمل کئے بغیر اسے راتوں رات قائم مقام ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ کے عہدہ پر فائز کرکے شعبہ قانون کا سربراہ تعینات کرادیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ طاہر صدیق چوہدری کے دل میں عبدالاحد میمن کے خلاف رنجش کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ عبدالاحد میمن اپنی اصول پرستی اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور ان اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔انہوں نے دسمبر2019ء میں شعبہ قانون کے سربراہ اور بطور رکن سینیاریٹی پر اعتراضات کمیٹی کی حیثیت سے محترمہ ناصرہ پروین خان، فنانشل ایڈوائزر کی سربراہی میں قائم ای او بی آئی کے افسران کی سنیاریٹی پر اعتراضات پر غور اور فیصلوں کے دوران2014ء میں صوبہ پنجاب کے لئے مختص کوٹہ سیٹ پر فنانس کیڈر میں بھرتی ہونے والے طاہر صدیق چوہدری، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی جانب سے فنانس کیڈر سے آفس کیڈر میں تبدیلی کو خلاف قانون قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف تادیبی کارروائی اور اسے ضابطہ کے مطابق تبدیل شدہ آفس کیڈر کی سنیاریٹی فہرست میں سب سے نیچے رکھنے کی سفارش کی تھی۔ جس کا بدلہ چکانے کے لئے طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ایچ آر ڈپارٹمنٹ نے اپنے آقا اور چیئرمین اظہر حمید کی آشیر باد سے ادارہ کے اس دیانتدار اور فرض شناس افسر عبدالاحد میمن کو نا صرف ملازمت سے معطل کرادیا ہے بلکہ ان کی جائز ترقی سے بھی محروم کردیا گیا
عبدالاحد میمن کی16 دسمبر2020ء کو ملازمت سے معطلی کے بعد سے ای او بی آئی کی168،گاڑیوں کی ریکوری کا معاملہ بھی سرد

خانہ میں چلا گیاہے اور معلوم ہوا ہے کہ ای او بی آئی کی جانب سے اس اہم کیس میں عدم دلچسپی اور عدم پیروی کے باعث تھانہ فیروز آباد
کراچی میں درج 168 گاڑیوں کی ریکوری کی ایف آئی آر بھی کلاسBمیں داخل ہوچکی ہے ۔لیکن ای او بی آئی کی ڈیپوٹیشن اور انتہائی جونیئر اور جی حضوری افسران پر مشتمل انتظامیہ اس تشویشناک صورت حال بے خبر چین کی بانسری بجاری ہے۔
اگرچہ عبدالاحد میمن اپنے 17،سالہ بے داغ ملازمتی کیریئر اور اچھی شہرت کے باجود محض چند سازشی عناصر کے اوچھے ہتھکنڈوں اور حکام بالا کے خلاف قانون احکامات کی عدم بجاآوری اور اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف کام نہ کرنے کی پاداش میں زیر عتاب آگئے ہیں ۔
انہیںملازمت سے معطلی کے بعد بڑے پیمانے پر مختلف سماجی اور معاشی اور دیگر مسائل کے دبائو کابھی سامنا کرنا پڑا۔فرض شناس اوربے گناہ افسر ہونے کے باوجود چند طاقتوربدعنوان عناصر کے ہاتھوںبلاجوازمعطلی کے بعد ان کا شمار بھی گناہ گاروں میں کیا جانے لگا۔حساس اور دردمند طبیعت کے مالک عبدالاحد میمن محسوس کرتے ہیں کہ اس صورت حال کے باعث ماضی میں مسکراکر ملنے جلنے والے ادارہ کے افسران اور ملازمین کی اب نظریں ہی بدل گئیں ہیں اوران کے ر ویوں میں فرق آگیا ہے اور وہ بے گناہ ہونے کے باوجود اپنے ہی ادارہ میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں۔
عبدالاحد میمن کو ملازمت سے معطلی کے بعد مختلف سہولیات ختم ہوجانے اورمعاشی مسائل کے باعث کرائے کے ایک مناسب مکان کو چھوڑ کرچوتھی منزل پر واقع ایک چھوٹے سے فلیٹ میں منتقل ہونا پڑا اور اپنے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے ایک معیاری اسکول سے ان کے نام خارج کراکے ایک کم فیس والے اسکول میں داخل کرانا پڑگیا۔واضح رہے کہ ان کے بڑے صاحبزادہ (Special Child)ہیں۔جن پر ذاتی توجہ کے ساتھ ساتھ ان کی خصوصی تعلیم اور تربیت پر کافی اخراجات صرف ہوتے ہیں ۔ہماری عبدالاحد میمن کے گھرانے سے واقفیت ہے ،یہ ایک متوسط طبقہ کادینی مزاج اور مذہبی اقدار کا حامل گھرانہ ہے۔ آپ کی معمر والدہ محترمہ اور تمام اہل خاندان مستقل طور سے اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔عبدالاحد میمن نے صرف اپنے ملازمتی فرائض کی انجام دہی کے لئے کراچی کا رخ کیا تھا ۔آپ کے اہل خانہ نے اس تمام ترتشویشناک صورت حال اور اس وقتی آزمائش کو رضائے الٰہی سمجھ کر قبول کرلیا ہے اور خدا تعالیٰ سے انصاف کے طلب گار ہیں۔
عبدالاحد میمن کا کہنا ہے ان شا اللہ وہ جلد ہی سرخرو ہوں گے ۔لیکن انہیں اس بات کا قلق ضرور ہے کہ ان کی بلا جواز معطلی سے ادارہ کے چند بدعنوان اور جی حضوری افسران کی دلی آرزو تو ضرور پوری ہوگئی ہے۔ لیکن انہیں افسوس ہے کہ ان کی طویل عرصہ سے معطلی کے باعث ای او بی آئی میں ملک بھر کے لاکھوں رجسٹر شدہ بیمہ دار افراد اور بزرگ پنشنر حضرات کی فلاح و بہبود کے اس قومی ادارہ کے مختلف اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت نہایت اہم قانونی کیسوں کی پیروی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ جس کے باعث ملک کے لاکھوں ملازمین اور غریب محنت کشوں کی پنشن سے وابستہ اہم مالی مفادات کو نا قابل نقصان پہنچ رہا ہے،آخراس ناقابل تلافی نقصان کا ازالہ کون کرے گا۔؟
ای او بی آئی کی ڈیپوٹیشن اور انتہائی جونیئر افسران پر مشتمل انتظامیہ عبدالاحد میمن سے ذاتی دشمنی اور عناد میں اس قدر اندھی ہوگئی

ہے کہ جس کے باعث ای او بی آئی کے عظیم تر مفاد ات بھی دائو پر لگ گئے ہیں۔لیکن اس اہم مسئلہ کی کسی کو بھی ذرہ برابر فکر نہیں ہے۔
عبدالاحد میمن کو یہ فکر بھی ستائے جارہی ہے کہ ای او بی آئی میں ان کے 17،برسوں پر محیط شاندار اور بے داغ کیریئر پر جو دھبہ لگایا گیا ہے اس کا مدوا کون کرے گا ۔؟
عبدالاحد میمن کی بلاجوازمعطلی کو تقریبا 9ماہ ہونے کو آرہے ہیں۔واضح رہے کہ ای او بی آئی ایمپلائیز سروس ریگولیشن مجریہ1980ء کے تحت کسی بھی ملازم کو90،دنوں سے زائد ملازمت سے معطل نہیں رکھا جاسکتا۔لیکن اس کے باوجود عبدالاحد میمن کی
معطلی کو پس پردہ مقاصد اور جان بوجھ کر کو طول دیا جارہا ہے۔ انہوں نے اپنے قانونی حق کے مطابق اپنے خلاف خودساختہ چارج شیٹ میں لگائے گئے الزامات کا جواب دینے کے لئے بھی انتظامیہ سے چارج شیٹ میں لگائے گئے الزامات کی دستاویزات کیCertified Copies بھی طلب کی ہوئی ہیں، لیکن عبدالاحد میمن سے مخصوص عناد اور بغض کے باعث ان کی اس درخواست پر بھی جان بوجھ کر کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔
عبدالاحد میمن کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی انتظامیہ کی جانب سے انہیں بلاجواز معطل کرنے اور دفتری کام نہ لینے کے باعث نا صرف ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے بلکہ انہیں بار بار یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کیا بدترین زمانہ آگیا ہے کہ ای او بی آئی میں صدق
دل سے کام کرنے والے افسران کی کوئی قدر اور ستائش نہیں ہے بلکہ یہاں تو ہر جانب صرف جی حضوریوں اور خوشامدیوں کے ٹولہ منظم راج قائم ہوگیا ہے،جس میں قومی اداروں کی تباہی و بربادی کا راز پنہاں ہے۔
عبدالاحد میمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ الحمد للہ! میرا شمار تو ادارہ کے بے داغ اور باصلاحیت افسران کی فہرست میں کیا جاتا ہے اور بدعنوان عناصر نے مجھے جان بوجھ کر اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر ہٹادیا ہے۔ لیکن ای او بی آئی کے جو چند انتہائی بدعنوان اعلی ٰافسران، جو اختیارات کے ناجائز استعمال، کروڑوں روپے کی بھاری کرپشن،غبن اور خردبرد میں ملوث رہے ہیں اور یہ بدعنوان افسران FIA اورNABکی جانب سے ایک نہیںبلکہ کئی کئی ایف آئی آر میں نامزد ہیں اور ایک ڈائریکٹر فنانس تو اڈیالہ جیل میں ڈیڑھ برس تک قید رہنے کے بعد اب ضمانت پر ہے، اس قدر سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود ادارہ کی مصلحت پرست انتظامیہ ملک کے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والے ان انتہائی بدعنوان اعلیٰ افسران کے خلاف طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود کسی قسم کی کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جارہی ہے ۔جس کے باعث یہ تینوں بدعنوان افسران نہایت دیدہ دلیری سے آزاد گھوم رہے ہیں،بلکہ کئی کئی ماہ دفتر سے غائب رہنے اور دوسری ملازمتیں کر نے کے باوجود ہر ماہ بھاری تنخواہوں اور پرکشش مراعات کی شکل میں ای او بی آئی سے بھاری وظیفہ بھی حاصل کر رہے ہیں۔
انتظامیہ کی امتیازی پالیسی اور چشم پوشی کے باعث ان تینوں بااثر اعلیٰ افسران کو دفتر میں حاضری اورہر قسم کی جوابدہی سے بھی چھوٹ حاصل ہے ۔جبکہ اس کے برعکس ادارہ کے چندانتہائی جونیئر اور نان کیڈر افسران اوران کے گماشتے میری روزمرہ نقل وحرکت اور دفتر

میںحاضریوں کی باریک بینی سے نگرانی میں مصروف ہیں۔ جو ای او بی آئی کی انتظامیہ کے امتیازی سلوک پر ایک سوالیہ نشان ہے!
بحیثیت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک شہری، میرے 40سالہ عملی مشاہدہ اور بحیثیت ای او بی آئی کی40سالہ مدت ملازمت کے بعد، میں یہ رائے قائم کرنے میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں طلوع ہونے والی ہر نئی سحر کے ساتھ اداروں میں مخلص، دیانتدار اور فرض شناس سرکاری ملازمین کے لئے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے سرکاری ملازمت جاری رکھنا ناممکن نہیں تو
انتہائی مشکل ضرور ہوتا جارہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرحکومت کی جانب سے انصاف کی فراہمی کے نعروں اور ملک سے بدعنوانیوں کے خاتمہ کی کوششوں کے باوجود مخلص، فرض شناس اور دیانتدار سرکاری ملازمین ہی زیر عتاب کیوں ہیں!
وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل،حکومت پاکستان،بورڈ آف ٹرسٹیز اور ای او بی آئی کی انتظامیہ کے لئے مقام شرم اور صد افسوس ہے کہ ای او بی آئی کا عبدالاحد میمن جیسا فرض شناس، بیحدکارآمد اور آزمودہ کار افسر،ان بدعنوانی اور سازشی عناصر کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں اور انصافی کے باعث بیکاری کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔
یہاںسوال یہ بھی ہے کہ اگر اہل ،دیانتدار اور فرض شناس سرکاری ملازمین کے لئے ایمانداری سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی پر ان کی قدردانی اور ستائش کے بجائے ان کی ر اہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرکے اور انہیں زیر عتاب رکھ کر ملک و قوم اور اداروں کی ترقی و خوشحالی کا خواب کس طرح شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ۔!
یہاںیہ امر بھی افسوس ناک ہے کہ دیانتدار اور فرض شناس سرکاری کے خلاف بلاجواز تادیبی کارروائیوں اور انہیں انتقام کا نشانہ بنانے سے نہ ہمارا معاشرہ ان کی پشت پر کھڑا نظرآتا ہے اور نہ ہی پرنٹ ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا ان کے حق میں آواز بلند کرتا ہے۔
اگر خدانخواستہ یہی روش جاری رہی تو خاکم بدہن اس وطن عزیز کا دفتری اور انتظامی ڈھانچہ شدید طور سے متاثر ہوگا اور دیانتدار اور فرض شناس سرکاری ملازمین میں ایسا خوف اور مایوسی جنم لے گی اور ہر ادارے میں نااہل اور بدعنوان عناصر پوری طرح غالب آجائیں گے، جو کسی طور بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہ ہوگا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ای او بی آئی کے دائرہ کار میں آنے والے ای او بی آئی کے سب سے اہم اسٹیک ہولڈرز، آجران،نجی شعبہ کے ملازمین،محنت کشوںاورمزدور انجمنوں کے نمائندوں، سول سوسائٹی ، صحافیوں،وکلاء اورباضمیر شہریوں کو آگے بڑھ ای او بی آئی کے اس فرض شناس اور سینئر افسر عبدالاحد میمن کے حق میں صدا ئے احتجاج بلند کرنی چاہئے اور فوری طور پر ان کی بلا جواز معطلی اور ان کے ساتھ رواظلم وستم کو ختم کرکے ان کو فوری انصاف کی فراہمی کے لئےJustice for Abdul Ahad Memon کے نعرہ کو پھیلائیں اوران کی عزت اور وقار کے ساتھ ملازمت فوری بحالی اور ای او بی آئی کے انتہائی بدعنوان اور انتظامیہ کے چہیتے افسران کے خلاف سخت ترین کارروائی اور ملک کے لاکھوں ملازمین اور محنت کشوں کی فلاح وبہبودملک کے لئے قائم ان قومی فلاحی ادارہ کو تباہی و

بربادی کے دہانے تک پہنچانے والے ان بااثر، سفارشی ،راشی اور بھتہ خور افسران مافیا سے بالکل پاک کرنے کی مہم چلائیں ۔
تاکہ ملک کے لاکھوں ملازمین اور محنت کشوں اور ان کے پسماندگان کے لئے پنشن کی امیدوں اور آرزوئوں کا مرکز قومی فلاحی ادارہ ای او بی آئی سدا قائم و دائم رہ سکے۔

Leave a Reply