وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے ایک ذیلی محکمہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) میں اندھیر نگری چوپٹ راج کا قانون سر چڑھ کر بول رہا ہے
حال ہی میں ای او بی آئی کے ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی کے قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل خالد نواز کے دستخطوں سے مورخہ 23 ستمبر 2021ء کو نوٹیفیکیشن نمبر225/2021 جاری کیا گیا ہے
جس کے مطابق ای او بی آئی کے ایک متنازعہ اور سزا یافتہ افسر محمد کلیم پرویز ( محمد کلیم پرویز بھٹہ)،ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کو قائم مقام ڈائریکٹر جنرل آپریشنز نارتھ ، ڈاکٹر جاوید اے شیخ، ڈائریکٹر کو قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بی اینڈ سی I سندھ و بلوچستان، مراتب علی ڈوگر ڈائریکٹر کو قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بی اینڈ سی II، لاہور، محمد طاہر فاروق، ڈائریکٹر کو ریجنل ہیڈ راولپنڈی، ناصر محمود عارف، ڈپٹی ڈائریکٹر کو ریجنل ہیڈ سرگودھا اور خورشید عالم، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو ریجنل آفس پشاور میں بیٹ افسر مقرر کیا گیا ہے
لیکن اس نوٹیفیکیشن کے پس منظر میں ایک حیرت انگیز کہانی پوشیدہ ہے ۔جس کے مطابق پرویز کلیم بھٹہ نامی شخص 3 جولائی 1989ء میں اس وقت کے ملتان سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر محنت و افرادی قوت مختار احمد اعوان کی بھاری سفارش پر ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ طور پر براہ راست ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدہ پر بھرتی ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا
اس حقیقت کے باوجود کہ اس سے قبل بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم بی اے کی ڈگری کا حامل کلیم پرویز بھٹہ ای او بی آئی کے افسران کے سب سے چھوٹے گریڈ ایگزیکٹیو افسر (گریڈ 16) کے لئے تحریری ٹیسٹ میں فیل ہوگیا تھا
ای او بی آئی میں کلیدی عہدہ پر بھرتی ہونے کے بعد پرویز کلیم بھٹہ ایمپلائی نمبر 916790 صوبہ پنجاب میں قائم ای او بی آئی کے زونل آفس لاہور اور اسلام آباد کے علاوہ، ریجنل آفس چکوال، ملتان، لاہور، پتوکی، لاہور نارتھ، مانگا منڈی، بی اینڈ سی لاہور، بی اینڈ سی اسلام آباد اور ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی لاہور کے کلیدی اور منفعت بخش عہدوں پر تعینات رہا ہے۔
اس دوران پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں 2010 تا 2013 کے دوران اس وقت کےچیئرمین EOBI ظفر اقبال گوندل کی جانب سے ای او بی آئی میں سیاسی بنیادوں پر سینکڑوں جیالوں کی بھرتیوں کے لئے قائم کی گئی سلیکشن کمیٹی میں سے کلیم پرویز بھٹہ کو صوبہ پنجاب کی سلیکشن کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا تھا۔
ای او بی آئی میں خالصتاً سیاسی بنیادوں پر بلا کسی ٹیسٹ اور انٹرویو بے شمار زائد العمر، غیر متعلقہ ڈگری کے حامل سینکڑوں افسران اور ملازمین کی بھرتیوں کی سفارش کی تھی
جس پر ای او بی آئی ایمپلائیز فیڈریشن آف پاکستان(CBA) کے جنرل سیکریٹری سید مبشر رضی جعفری نے وطن عزیز میں ان سرکاری ملازمتوں کے صحیح معنوں میں حقدار اور مستحق اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہل نوجوانوں کی سخت حق تلفی کا احساس کرتے ہوئے اور چند اعلیٰ سیاسی اور طاقتور گھرانوں سے تعلق رکھنے والے 400 افراد کو ای او بی آئی کے مقررہ طریقہ کار کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے اعلیٰ اور کلیدی عہدوں پر بھرتی کرنے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک آئینی درخواست 6/2011 دائر کی تھی
اصول پرست شخصیت اور مظلوموں کی آواز سید مبشر رضی جعفری کی اس جراءت مندانہ جدوجہد کی پاداش میں اس وقت کے چیئرمین ظفر اقبال گوندل کی جانب سے نا صرف انہیں بلکہ ان کے ساتھی احمد انجم سینئر اسسٹنٹ کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بناتے ہوئے خود ساختہ اور من گھڑت الزامات لگاتے ہوئے فوری طور پر ای او بی آئی کی ملازمت سے برطرف کردیا تھا اور مزید انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ان کے چند مخلص ساتھیوں کا تبادلہ دور افتادہ مقامات پر کردیا گیا تھا
چیئرمین ظفر اقبال گوندل اور اس کے حواری افسران نے مبشر رضی جعفری اور ان کے ساتھیوں کو اس آئینی درخواست کی پیروی سے روکنے کے لئے ہر قسم کے سخت دباؤ اور دھمکیوں کے ساتھ سنگین نتائج بھگتنے کی بھی دھمکیاں بھی دی تھیں
سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس کیس کی سماعت کے دوران بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل اور ان کے حواری افسران سی بی اے کے جنرل سیکریٹری مبشر رضی جعفری اور ان کے وفادار ساتھیوں خلاف ادارہ کے تمام اختیارات اور وسائل کا بلا دریغ استعمال کیا کرتے تھے
لیکن اس تمام تر آزمائش، مشکلات اور محدود وسائل کے باوجود مبشر رضی جعفری اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ثابت قدم رہے اور انہوں نے ان نامساعد حالات کے باوجود نا صرف اپنی خداداد قانونی صلاحیتوں کی بدولت اس اہم ترین کیس کو سپریم کورٹ آف پاکستان اسلام آباد کے معزز فل بنچ کے سامنے ذاتی طور پر پیش ہو کر انتہائی موثر انداز میں اس کیس کی پیروی کی اور ای او بی آئی کی انتظامیہ کی جانب سے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے بھاری رقوم کے عوض مقرر کئے گئے مد مقابل ملک کے نامور اور چوٹی کے وکلاء کو دستاویزی ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر لاجواب کرکے رکھ دیا تھا اور اپنے مدلل انداز، قانونی اور منطقی دلائل کی بدولت عدالت عظمیٰ کے معزز ججوں کے سامنے اپنے موقف کو ثابت کرنے میں پوری طرح کامیاب رہے تھے۔
اس طویل قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں بالآخر مبشر رضی جعفری کی شبانہ روز کی محنت اور بھاگ دوڑ رنگ لائی اور ان کی اس آئینی درخواست پر جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم فل بنچ نے 17 مارچ 2014ء کو ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے ای او بی آئی میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ان 400 انتہائی بااثرافراد میں سے 385 افسران اور ملازمین کو فوری طور پر ملازمت سے برطرف کردیا تھا
جبکہ اس موقع پر ای او بی آئی ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے بعض بدنیت اعلیٰ افسران نے خلاف ضابطہ طور پر بھرتی شدہ پیپلز پارٹی کے جیالے اور اس وقت کے وفاقی وزیر محنت و افرادی قوت سید خورشید احمد شاہ کے گھریلو ملازمین کی فہرست میں ہیرا پھیری کرکے ان میں سے 42 جیالے ملازمین کو بچالیا تھا ۔ جو اب بھی غیر قانونی طور پر ای او میں اہم عہدوں پر ملازمت کر رہے ہیں
سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ اہم اور تاریخی فیصلہ آج بھی ای او بی آئی کی ویب سائٹ کی زینت ہے
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے 358 افسران اور ملازمین کی فوری برطرفی کے اپنے تاریخی فیصلہ میں ای او بی آئی میں ان سینکڑوں خلاف ضابطہ بھرتیوں کے ذمہ دار حکام اور اعلیٰ افسران کے خلاف نیب کو ریفرنس دائر کرکے انہیں سزا دینے کا حکم بھی دیا تھا۔
جس پر نیب نے اس بھرتی اسکینڈل کی تفصیلی تحقیقات کرکے اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت چیئرمین ای او بی آئی ظفر اقبال گوندل سمیت سلیکشن کمیٹی میں شامل ای او بی آئی کے 10 افسران کے خلاف تحقیقات کرکے سپریم کورٹ آف پاکستان میں رپورٹ جمع کرائی تھی
سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت ای او بی آئی کے اس وقت کے 10 اعلیٰ افسران کے خلاف بھرتی کیس تاحال نیب احتساب عدالت اسلام آباد میں زیر سماعت ہے اور اس دوران استغاثہ سمیت تمام گواہان کے بیانات ریکارڈ ہونے کے بعد اپنے منطقی انجام کی جانب گامزن ہے
کلیم پرویز بھٹہ کی جانب سے سلیکشن کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے ای او بی آئی میں 138 افسران کی خلاف ضابطہ بھرتیوں میں خصوصاً اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے داماد عظیم الحق منہاس بھی شامل تھے جنہیں کلیم پرویز بھٹہ کی سفارش پر براہ راست بھرتی کرکے اور ای او بی آئی کے سینئر افسران کی حق تلفی کرتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اسلام آباد کے منفعت بخش اور کلیدی عہدہ پر تعینات کیا گیا تھا
کلیم پرویز بھٹہ کو ان خلاف ضابطہ بھرتیوں کے لئے صوبہ پنجاب کی سلیکشن کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے ای او بی آئی میں اعلیٰ سیاسی اور طاقتور گھرانوں سے تعلق رکھنے والے 138 زائد العمر اور غیر متعلقہ تعلیمی قابلیت، بلا ڈومیسائل کے حامل افراد کی اعلیٰ عہدوں پر بھرتیوں اور ای او بی آئی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی، غفلت و نااہلی اور جان بوجھ کر ای او بی آئی کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے سنگین الزامات کے تحت 17 دسمبر 2014 کو چارج شیٹ جاری کی گئی تھی
13 اگست 2015 ء کو شجاعت علی، ایڈیشنل سیکریٹری فنانس ڈویژن اسلام آباد کو پرویز کلیم بھٹہ کے خلاف غیر قانونی بھرتی کیس کا انکوائری افسر مقرر کیا گیا تھا ۔ لیکن اس دوران کلیم پرویز بھٹہ نے انکوائری سے بچنے کے لئے 10 نومبر 2015 ء کو انکوائری افسر کی اہلیت پر اعتراض اٹھادیا تھا کلیم پرویز بھٹہ اور انکوائری افسر کے درمیان یہ انکھ مچولی کافی عرصہ تک چلتی رہی اور کلیم پرویز بھٹہ مختلف حیلے بہانوں اور بھاری سفارشوں کے ذریعہ انکوائری افسر کے سامنے پیشی سے بچتے رہے اور کسی نہ کسی طرح انکوائری کو طول دیتے رہے ۔ لیکن بالآخر کلیم پرویز بھٹہ 17 جنوری2016 ءکو انکوائری افسر کے سامنے پیش ہونے پر مجبور ہوگئےانکوائری افسر شجاعت علی، ایڈیشنل سیکریٹری فنانس ڈویژن اسلام آباد نے کلیم پرویز بھٹہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کو اپنے دفاع کے لئے تمام ممکنہ مواقع فراہم کرنے کے بعد کلیم پرویز بھٹہ پر سنگین الزامات کا جائزہ لینے کے بعد ان پر عائد تمام الزامات کو درست قرار دیدیا تھا۔انکوائری افسر کی رپورٹ کے بعد مجاز اتھارٹی نے ضابطہ کے مطابق کلیم پرویز بھٹہ کو ذاتی شنوائی کے لئے 16 نومبر 2016 کو پیش ہونے کی ہدایت کی، لیکن اس بار بھی کلیم پرویز بھٹہ بیماری کا بہانہ کرکے پیش نہیں ہوئے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دوران مجاز اتھارٹی کی جانب سے کلیم پرویز بھٹہ کو 14 نومبر2017ء سے 22 مئی 2019ء تک ذاتی شنوائی کے کم از کم 10 مواقع فراہم کئے گئے تھے جو ایک ریکارڈ ہےلیکن اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کلیم پرویز بھٹہ اپنی بیماری اور مختلف حیلے بہانوں کے ذریعہ مجاز اتھارٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور اس دوران انہوں نے انتہائی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 24 مئی 2019ء کو لاہور ہائیکورٹ میں ایک پیٹیشن نمبر 2019/31815 دائر کردی ۔ جس میں عدالت نے انہیں مناسب شنوائی کا موقع فراہم کرنے اور اس معاملہ میں ان کے کردار کا ازسر نو جائزہ لینے کے احکامات جاری کئے تھے
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت کلیم پرویز بھٹہ کی صحت اس قدر خراب ہے کہ وہ اپنی ٹانگوں پر چلنے پھرنے سے قاصر ہیں اور انتہائی ناگفتہ بہ جسمانی حالت کے باعث وہیل چیئر پر زندگی گزار نے پر مجبور ہیں اور انہیں رفع حاجت کے لئے بھی بیگ لگا ہوا ہے ۔ ادویات کھلانے اور ایمرجنسی کے لئے ایک میڈیکل اٹینڈنٹ ہمہ وقت ان کے ساتھ رہتا ہے اور انہوں نے اپنے دفتری امور کی انجام دہی کے لئے بھی ایک ذاتی اسسٹنٹ کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں
سوال یہ ہے کہ آخر کلیم پرویز بھٹہ اس سنگین معذوری اور نیب ریفرنس میں نامزد ہونے کے باعث ای او بی آئی کے ڈائریکٹر جنرل (آپریشنز) نارتھ کے اہم عہدہ کی ذمہ داریاں کیسے نبھا سکتے ہیں ۔ جس کا دائرہ اختیار پورا پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت و بلتستان تک پھیلا ہوا ہے ۔ اس کلیدی عہدہ کی اہم ترین ذمہ داریوں میں روزانہ آجران سے ملاقاتیں اور ای او بی آئی اور دیگر متعلقہ دفاتر کے دورے بھی کرنے ہوتے ہیں ایک بیمار اور معذور افسر کس طرح یہ بھاری ذمہ داریاں انجام دے سکتا ہے!
ذرائع کا کہنا ہے کہ کلیم پرویز بھٹہ ملتان سے تعلق رکھنے والے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بھاری سفارش کے ذریعہ یہ کلیدی عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنی انکوائری کے دوران کلیم پرویز بھٹہ ریڑھ کی ہڈی کی سخت تکلیف میں مبتلا ہوگئے تھے اور انہوں نے گھرکی ٹرسٹ اسپتال لاہور سے اپنی ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن کرایا تھا جو کامیاب نہ ہوسکا۔ جس پر انہوں نے اتفاق اسپتال لاہور سے اپنی ریڑھ کی ہڈی کا دوسرا آپریشن کرایا، بدقسمتی سے یہ بھی ناکام رہا اور ان آپریشنز کے نتیجہ میں ان کا نچلا دھڑ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور وہ چلنے پھرنے سے بالکل معذور ہوگئے ہیں اور وہیل چیئر پر آگئے ہیں کلیم پرویز بھٹہ کے علاج و معالجہ پر ای او بی آئی کو لاکھوں روپے کے اخراجات اور انہیں دوران علاج گھر بیٹھے بھاری تنخواہوں اور پرکشش مراعات کی ادائیگی کے اخراجات برداشت کرنا پڑے تھےای او بی آئی کی جانب سے محکمہ جاتی انکوائری میں الزامات ثابت ہونے پر اس وقت کے چیئرمین ای او بی آئی اظہر حمید نے ضابطہ کی کارروائی پوری کرنے کے بعد کلیم پرویز بھٹہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل (آپریشنز) کو بذریعہ نوٹیفیکیشن نمبر2019/127 مورخہ 10 جولائی2019ء کو ای او بی آئی کے قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی، نااہلی اور غفلت اور جان بوجھ کر ای او بی آئی کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے سنگین الزامات کے تحت جبری طور پر ملازمت سے ریٹائر کردیا تھا کلیم پرویز بھٹہ کی ای او بی آئی کی ملازمت سے بطور سزا جبری برطرفی کا تفصیلی نوٹیفیکیشن 15 صفحات پر مشتمل ہے لیکن عدالت کے واضح حکم کے باوجود ای او بی آئی کے ایک انتہائی جونیئر اور نان کیڈر افسر طاہر صدیق چوہدری، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ ( ڈسپلنری ایکشن) نے حسب عادت اپنے پس پردہ مقاصد اور متاثرہ افسر سے بھاری رقم اینٹھنے اور کلیم پرویز بھٹہ کی 14 فروری 2022ء کو ریٹائرمنٹ تک اسے سنہری موقع فراہم کرنے کی غرض سے اس اہم کیس کی دوبارہ انکوائری کو سرد خانہ میں ڈال دیا ہے۔ اس صورت حال کے باعث غریب محنت کشوں کی پنشن کے ادارہ ای او بی آئی کو کروڑوں روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
مذکورہ نوٹیفیکیشن کے تحت تبادلہ کئے جانے والے ایک اور اہم افسر مراتب علی ڈوگر ایمپلائی نمبر 923159 قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز ہیں جن کا تعلق 2007ء کے بیچ سے ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ ملتان سے تعلق رکھنے والے افسر مراتب علی ڈوگر نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بڑی منت سماجت اور فرمائشیں کرکے ان کی بھاری سفارش پر 13 جنوری 2021ء کو اپنا تبادلہ بی اینڈ سی I عوامی مرکز کراچی کراچی کرایا تھا ۔ لیکن پچھلے چیئرمین اظہر حمید کی ریٹائرمنٹ اور ادارہ کے نئے اصول پرست چیئرمین شکیل احمد منگنیجو کی آمد سے ان کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنی مدت پوری کئے بغیر ای او بی آئی کے نو تقرر شدہ چیئرمین شکیل احمد منگنیجو کا سامنا کرنا کے خوف سے اور اپنے بچاؤ کے لئے ایک بار پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بھاری سفارش پر اپنا تبادلہ عوامی مرکز کراچی سے بطور قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بی اینڈ سی II ، لاہور کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں
مراتب علی ڈوگر قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کو کراچی سے لاہور تبادلہ سے نوازے جانے اور انہیں ایڈجسٹ کرنے کے لئے محمد فاروق طاہر ایمپلائی نمبر 923171 قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کو ان کی احسن کارکردگی اور نمایاں خدمات کے باوجود قربانی کا بکرا بناکر ریجنل ہیڈ راولپنڈی جیسے چھوٹے عہدہ پر تبادلہ کی سزا بھگتنی پڑی ہے
ای او بی آئی کے ایک سینئر افسر ناصر محمود عارف ایمپلائی نمبر 919448 ڈپٹی ڈائریکٹر کو بطور ریجنل ہیڈ،ریجنل آفس سرگودھا تعینات کیا گیا ہے
جبکہ خورشید عالم ایمپلائی نمبر 919788 اسسٹنٹ ڈائریکٹر (آپریشنز) کو بطور بیٹ افسر ریجنل آفس پشاور تعینات کیا گیا ہے