ر محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان 85 برس کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا جبکہ ان کی تدفین اسلام آباد کے ایچ 8 قبرستان میں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کر دی گئی
مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پسماندگان میں بیوہ اور 2 بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوئی ڈیڑھ ماہ قبل کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے، حالت بگڑنے پر انہیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا ، چند روز بعد ان کی طبیعت سنبھلنے لگی تھی اور انہیں واپس گھر منتقل کر دیا گیا تھا۔ تاہم انہیں اتوار کو دوبارہ ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہوں نے جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
وطن عزیز کو اقوام عالم میں معتبر ٹھہرانے والے ممتاز ایٹمی سائنس دان اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان 85 برس کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا جبکہ ان کی تدفین اسلام آباد کے ایچ 8 قبرستان میں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کر دی گئی۔ مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پسماندگان میں بیوہ اور 2 بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوئی ڈیڑھ ماہ قبل کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے، حالت بگڑنے پر انہیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا ، چند روز بعد ان کی طبیعت سنبھلنے لگی تھی اور انہیں واپس گھر منتقل کر دیا گیا تھا۔ تاہم انہیں اتوار کو دوبارہ ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہوں نے جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
عبدالقدیر خان 27 اپریل 1936 کو ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے تھے اور برصغیر کی تقسیم کے بعد 1947 میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کی تھی۔
کراچی میں ابتدائی تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وہ یورپ گئے اور 15 برس قیام کے دوران انہوں نے مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوین سے تعلیم حاصل کی۔ اکتوبر 1954 میں وزیر اعظم پاکستان محمد علی بوگرہ نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر آئزن ہاور سے ملاقات کی تھی جس کے بعد پاکستان نے ناصرف پے در پے امریکہ سے دفاعی معاہدے کیے بلکہ سینٹو اور سیٹو میں بھی شامل ہو گیا۔ اس دور میں امریکہ کے دفاعی معاہدے جارحیت کے تدارک کا ذریعہ سمجھے جاتے تھے۔
اس کے باوجود ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ معاہدے بالخصوص آئزن ہاور کا ایٹم برائے امن منصوبہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ 1960 میں یہ خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ انڈیا تیزی سے جوہری تجربات کی سمت بڑھ رہا ہے اس کے باوجود پاکستان کی قیادت نے جوہری اسلحہ کے میدان میں قدم رکھنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔1964 میں ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے ایٹمی اسلحہ کی تیاری کے حوالے سے پیش کی جانے والی تجویز کوصدر ایوب خان، وزیر خزانہ محمد شعیب اور دوسرے وزیروں نے یکسر مسترد کرتے ہوئے واضح فیصلہ کیا
کہ پاکستان جوہری اسلحہ کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرے گا۔1973 میں جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو انہوں نے پاکستان کے جوہری اسلحہ کی صلاحیت حاصل کرنے کے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے جوہری توانائی کمیشن کے سربراہ کو تبدیل کیا اور اعلیٰ سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام کو برطرف کر کے ہالینڈ سے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو پاکستان بلا لیا۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیے انہوں نے فرانسیسی حکومت کو جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پرانی پیشکش کی تجدید کے لیے آمادہ کیا۔بھٹو جوہری پروگرام میں جس تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے
اسے امریکہ نے قطعی پسند نہیں کیا اور اس زمانہ کے امریکی وزیر خارجہ کیسنجر نے تو کھلم کھلا دھمکی دی تھی کہ اگر بھٹو نے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ کے منصوبہ پر اصرار کیا تو وہ نہ رہیں گے۔ لیکن بھٹو نے جوہری صلاحیت کا جو پروگرام شروع کیا تھا اس پر تحقیقی کام جاری رہا۔ پاکستان کے سائنس دانوں نے کہوٹہ کی تجربہ گاہ میں 1974 میں یورینیم کی افزودگی کا کام شروع کیا۔ ان کی محنت رنگ لائی اور 1982 تک وہ نوے فیصد افزودگی کے قابل ہو گئے۔ 1974
میں پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے یورینیم کی افزودگی کے معاملے پر رابطوں کے بعد 1976 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان واپس پاکستان آئے اور 31 مئی 1976 کو انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کا نام یکم مئی 1981 کو صدر پاکستان جنرل ضیاالحق نے تبدیل کر کے ان کے نام پر ’’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
ڈاکٹر قدیر نے ایک کتابچے میں خود لکھا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسے پروان چڑھایا۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ ایک طویل عرصہ تک اس پروگرام کے سربراہ رہے تاہم مئی 1998 میں جب پاکستان نے انڈیا کے ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب جوہری تجربہ کیا تو بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان کے پاس نہیں تھی بلکہ یہ سہرا پاکستان اٹامک انرجی کے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے سر رہا۔
ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیں جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کر دیا تھا۔ انہیں دو مرتبہ ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نشانِ امتیاز دیا گیا۔
پہلے چودہ اگست 1996 کو صدر فاروق لغاری اور پھر 1998 کے جوہری دھماکوں کے بعد اگلے برس 1999 میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے انہیں اس اعزاز سے نوازا۔ اس سے قبل 1989 میں انہیں ہلال امتیاز بھی دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق پاکستان کے جوہری سائنسدانوں نے 1984 میں جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی اور انہوں نے جنرل ضیاالحق سے کہا تھا کہ وہ کھلم کھلا پاکستان کی طرف سے جوہری بم کی تیاری کے عزم کا اعلان کریں لیکن ان کے امریکی نواز وزیر خارجہ اور دوسری وزیروں نے سخت مخالفت کی۔ آخر کار مئی 1998 میں جب انڈیا نے جوہری تجربات کیے تو پاکستان کے لیے کوئی چارہ کار نہیں رہا
کہ وہ بھی جوہری تجربات کرے اور یوں پاکستان بھی جوہری طاقتوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات تو روز اول سے ہی کشیدہ رہے ہیں تاہم ان میں چند مواقع ایسے بھی آئے جب کسی بھی لمحے جنگ چھڑ جانے کے امکانات تھے۔ یہ وہی دور تھا جب جنرل ضیاالحق نے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو دھمکی دی تھی کہ بھارتی فوجیں پیچھے نہ ہٹیں تو وہ جوہری حملہ کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بم پہلے ہی موجود ہے، عملی تجربہ کریں یا نہ کریں، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ 1990 کے وسط میں ہم اپنے بم کے کمپیوٹر پر تجربات کر چکے ہیں۔ ہمارے بموں کے ‘وائبریشن ٹیسٹ’ (لہریں پیدا کرنے والے تجربات) پہلے ہی ہو چکے ہیں۔ لہٰذا ہمارے پاس بم موجود ہیں اور ہمارا دشمن یہ بات پہلے ہی جانتا ہے۔
ڈاکٹر اے کیو خان کے انسٹی ٹیوٹ نے ان کی سربراہی میں نا صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کیلئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مار کرنے والے متعدد میزائل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں مشیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عہدے پر فائض رہے تاہم قوم کے دفاع کو مضبوط بنانے والے اس عظیم محسن کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب مغرب کی غلامی کرنے والے حکمرانوں نے اپنے آقاؤں کے حکم پر انہیں ایٹمی ٹیکنالوجی کی سمگلنگ میں ملوث قراردیا۔
مغربی اشاروں پر قوم کے محسن کو مجرم بنادیا گیا۔ پھر 4 فروری 2004 کو قوم نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سرکاری ٹیلی ویژن پر وہ کچھ کہہ رہے ہیں جس کا یقین شاید کسی پاکستانی نے کبھی بھی نہیں کیا۔ اس بیان کے بعد انہیں ان کے گھر میں نظربند کر کے ان پر پابندیاں لگادی گئیں۔ ساری قوم مغربی قوتوں کے الزامات اور حکمرانوں کے اقدامات کے باوجود انہیں ملک کا ہیرو مانتی رہی اور ان کے وقار اور عزت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ان کی رہائی اور آزادی کے حق میں مظاہرے ہوتے رہے۔
ایک قومی اخبار نے تو ان کی نظربندی کے دنوں کو گننے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس اخبار میں ہرروز ایک اشتہار شائع ہوتا تھا جس میں یہ بتایا جاتا تھا کہ محسن قوم کی نظربندی کو کتنے دن گزر چکے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں ڈاکٹر خان کو بے مثل جوہری سائنسدان تصور کیا جاتا ہے۔
اس معاملے میں کسی کو ان کے ہم پلہ نہیں سمجھا جاتا، کسی اور کا ان سے کوئی موازنہ نہیں ہو سکتا، وہ پاکستان کی سلامتی کی علامت اور جوہری بم کے خالق و بانی ہیں۔ پرویز مشرف ایسے آمر نے اگر ان کو نظر بند کیا اور ان پر بے جا الزامات عائد کیے تو بعد میں آنے والی حکومتوں سے بھی قوم کو یہ شکوہ ہی رہا کہ ان کو رہائی نہیں ملی۔
عدالتوں کی طرف سے اگرچہ ان کی نظر بندی ختم کر دی گئی تھی اس کے باوجود وہ ’آزاد‘ نہ تھے۔ بہرحال اب وہ ان تمام دکھ و الم سے آزاد ہو چکے۔ اللہ ان کے درجات بلند اور ان کی قبر کو منور فرمائے، آمین