ای او بی آئی میں متعدد افسران گزشتہ 20 برسوں سے اپنی جائز سینیارٹی اور ترقیوں سے محروم۔
طاقتور اور بدعنوان افسران نے ترقی کے مستحق سینئر افسران کو سندھ ہائیکورٹ کے متعدد احکامات کے باوجود حق سے محروم کر رکھا ہے۔
کیس میں تین بار عدالتی احکامات اور تین بار توہین عدالت کے باوجود ای او بی آئی کی قانون سے بالاتر انتظامیہ میں نہ مانوں کی ہٹ دھرمی بدستور قائم ۔
وفاقی وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان اسلام آباد کے ذیلی محکمہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) میں انتظامیہ کی مسلسل ہٹ دھرمی اور کلیدی عہدوں پر فائز انتہائی جونیئر اور بدعنوان افسران کی لاقانونیت عروج پر پہنچ گئی ہے ۔ سندھ ہائیکورٹ کے تین عدالتی احکامات اور توہین عدالت کی بھی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ای او بی آئی میں 2007ء میں خلاف قانون بھرتی ہونے والے اور 2014 ء میں بلا کسی تجربہ اور انٹرویو بھرتی ہونے والے انتہائی جونیئر مگر طاقت ور افسران کے طاقتور گروپ کی جانب سے ادارہ کے متعدد سینئر افسران کی سینیارٹی اور ترقیوں کے معاملہ میں گزشتہ 17 برسوں سے سخت حق تلفی کی جارہی ہے ۔
جس کا اندازہ ای او بی آئی کے اپنی جائز سینیارٹی اور ترقیوں سے محروم چند سینئر افسران عبداللطیف ناریجو، اسسٹنٹ ڈائریکٹر عبدالقادر سومرو، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، محمد رمضان جامڑو، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور فاروق احمد عباسی، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں دائر ایک پٹیشن سے لگایا جاسکتا ہے ۔
جس میں معزز سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے تین بار واضح احکامات اور تین بار توہین عدالت کی مرتکب ہونے کے باوجود ای او بی آئی کی قانون سے بالاتر انتظامیہ اور بدعنوان افسران کے گروپ نے محض اپنے ذاتی انا اور مفادات کی خاطر اس عدالتی فیصلہ کو ہوا میں اڑا دیا تھا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے جو اس خود مختار ادارہ کا اہم پالیسی ساز ادارہ ہے اپنے 33 ویں اجلاس منعقدہ 1993ء اور 48 ویں اجلاس منعقدہ 1998ء میں فیصلہ کیا تھا کہ افسران کی 15 برس کی سروس مکمل ہونے کے بعد انہیں اگلے گریڈ میں ترقی دیدی جائے ۔
اس فیصلہ کے تحت ادارہ کے تین بیچز کو ترقی دیدی گئی تھی، لیکن 2004ء میں بورڈ کی جانب سے چوتھے بیچ کے افسران کی ترقی کی منظوری کے باوجود اس وقت کی انتظامیہ نے اختیارات کا ناجائز استعمال اور بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترقی کے مستحق ان افسران کی ترقیوں کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا تھا ۔ بلکہ ستم بالائے ستم یہ کہ 2005 ء میں آنے والی ادارہ کی انتظامیہ نے تو اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اسے شولڈر پروموشن کہتے ہوئے بورڈ کے فیصلہ کو ماننے سے صاف صاف انکار کردیا تھا ۔
انتظامیہ کی اس منفی پالیسی کے باعث ای او بی آئی کے 58 افسران سینئر افسران اپنی سینیارٹی اور ترقیوں سے محروم ہوگئے تھے ۔جن میں سے پانچ افسران نے حصول انصاف کے لئے سندھ ہائیکورٹ اور چار نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر رکھا ہے ۔ سندھ ہائیکورٹ میں ترقیوں میں حصول انصاف کے لئے درخواست گزار عبداللطیف ناریجو 8 فروری 1988 ء کو ای او بی آئی میں ایگزیکٹیو افسر کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تھے اور اپنی جائز سینیارٹی اور ترقی کا کیس لڑتے لڑتے بالآخر 31 دسمبر 2017 ء کو ملازمت سے ریٹائر ہوگئے تھے ۔ دوسرے درخواست گزار عبدالقادر سومرو، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ابتدائی طور پر 1982ء میں ادارہ میں بھرتی ہوئے تھے اور 18 جولائی 1989 ء کو ایگزیکٹیو افسر منتخب ہوئے تھے ۔
تیسرے درخواست گزار محمد رمضان جامڑو 18 فروری 1988 ء کو ایگزیکٹیو افسر کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تھے اور چوتھے درخواست گزار فاروق احمد عباسی،اسسٹنٹ ڈائریکٹر 18 جولائی 1989ء میں ای او بی آئی میں بھرتی ہوئے تھے اور حال ہی میں ملازمت سے ریٹائر ہوگئے ہیں ۔
لیکن اس دوران ای او بی آئی کی انتظامیہ نے ان سینئر افسران کی داد رسی کرنے کے بجائے ایک اور انوکھا کارنامہ انجام دیا تھا ۔ ان سینئر افسران کی جائز ترقیوں کو یکسر نظر انداز کرکے اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے افسران کے عہدوں کی 15 خالی آسامیوں پر اور 6 انتہائی بااثر امیدواروں مزمل کامل ملک، کاشف ضیاء، عبدالمجید مغل،خالد شاہ اور ظہیر الدین طاہر کے IBA کے تحریری ٹیسٹ میں فیل ہوجانے کے باوجود ان 30 امیدواروں کو پروبیشنری افسر (PO) کی حیثیت سے بھرتی کرلیا تھا اور کچھ وقت کے بعد ان پروبیشنری افسران کو غیر قانونی طور پر آپریشنز کیڈر میں شامل کرکے آپریشنز کیڈر کے سینئر افسران کے اوپر سینیارٹی عطا کردی گئی تھی ۔
جس پر سینیارٹی سے متاثر ہونے والے ان افسران نے حصول انصاف کے لئے ادارہ کے چیئرمین سے رجوع کیا تھا ، لیکن اس وقت کے چیئرمین ای او بی آئی نے ان کی درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی ۔ 2010 ء میں ظفر اقبال گوندل کے چیئرمین EOBI کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بالآخر ان متاثرہ افسران کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز کے اگلے گریڈ میں ترقی تو دیدی گئی تھی لیکن ان کے سنیارٹی کے حق سے پھر بھی محروم رکھا گیا تھا ۔
اس صورتحال سے مایوس ہو کر ان متاثرہ افسران نے مقررہ طریقہ کار کے مطابق بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر، اسلام آباد کو اپیل دائر کردی تھی لیکن افسوس وہاں بھی 2007ء سے تعلق رکھنے والے تعینات بااثر افسر عاصم رشید، ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس اور2014ء سے تعلق رکھنے والے افسر جبران حسین،اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز کے ذریعہ ان متاثرہ افسران کے سینیارٹی اور ترقی کے جائز کیس کو دبادیا گیا تھا۔
طویل انتظار کے بعد اور انتظامیہ کے رویہ سے مایوس ان افسران نے 2014ء میں سندھ ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر دی تھی۔ جس پر سندھ ہائیکورٹ نے ای او بی آئی کی انتظامیہ کو میرٹ پر فیصلہ کرنے کے احکامات دیئے تھے۔ لیکن اس دوران ای او بی آئی میں منظر نامہ بدل چکا تھا ۔2007 ء میں بھرتی ہونے والے لاڈلے افسران کلیدی انتہائی عہدوں پر فائز ہوچکے تھے ۔
لہذاء انتظامیہ نے 2007 کے طاقتور گروپ کی ملی بھگت سے اس عدالتی فیصلہ کو ہوا میں اڑادیا تھا اور اس فیصلہ کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں اپیل دائر کردی تھی اور متاثرہ افسران کو عدالت سے دوبارہ رجوع کرنے سے باز رکھنے کے لئے ان پر سخت دباؤ ڈالنا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کردی تھیں ۔ اس دوران سندھ ہائیکورٹ نے متاثرہ افسران کی اپیل پر 2015ء ای او بی آئی کی انتظامیہ کو ایک بار پھر میرٹ پر معاملہ طے کرنے کے احکامات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ متاثرہ افسران کی ترقی کے نوٹیفکیشن کو عدالت میں جمع کرانے کا حکم صادر کردیا تھا ۔
لیکن اس کے باوجود ای او بی آئی کی ماورائے قانون انتظامیہ نے حسب دستور میں نا مانوں کی رٹ لگا کر سندھ ہائیکورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کے بجائے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس پر متاثرہ افسران نے انتظامیہ کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کردی تھی ۔
جس پر سندھ ہائی کورٹ نے ایک بار پھر ای او بی آئی کی انتظامیہ کو ان متاثرہ افسران کی سینیارٹی اور ترقیوں کا نوٹیفیکیشن عدالت مین جمع کرانے کے احکامات جاری کئے تھے ۔ لیکن اس موقع پر بدعنوان چیئرمین اظہر حمید نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کے بجائے عدالت میں غلط بیانی اور اسے گمراہ کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ وہ اس معاملہ کو جلد از جلد ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے سامنے منظوری کے لئے پیش کریں گے ۔
لیکن شاطر و چالاک چیئرمین اظہر حمید نے سندھ ہائیکورٹ کو جل دیتے ہوئے اور اپنے2007 ء اور 2014 ء کے بیچ سے تعلق رکھنے والے چہیتے افسران کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے دکھاوے کے طور پر بورڈ آف ٹرسٹیز کا ہنگامی اجلاس تو طلب کرلیا تھا لیکن بورڈ اجلاس کے دوران بورڈ کے سامنے انتہائی غلط بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی بورڈ سے بورڈ آف ٹرسٹیز کی جانب سے ماضی میں 33 ویں اور 48 ویں اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کو ہی کالعدم قرار دلوا دیا تھا ۔ چیئرمین اظہر حمید کی جانب سے عدالتی احکامات کی حکم عدولی کے باوجود انصاف سے محروم عبداللطیف ناریجو اور دیگر متاثرہ افسران نے ہمت نہ ہاری اور اپنے مؤقف پر ثابت قدم رہے اور چیئرمین اظہر حمید کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ کے احکامات کے ساتھ کھلواڑ اور دھوکہ بازی کے مظاہرہ سے مایوس ہوکر ان متاثرہ افسران نے ایک بار پھر حصول انصاف کے لئے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا ۔
جس پر سندھ ہائیکورٹ نے ایک بار پھر ای او بی آئی کی انتظامیہ کو میرٹ پر فیصلہ کرنے کے احکامات دیتے ہوئے اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے ماضی میں 33 ویں اور 48 ویں اجلاسوں کے فیصلوں کو برقرار رکھنے اور موجودہ فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے متاثرہ افسران کی پچھلی تاریخوں سے سینیارٹی بحال کرنے کے احکامات دیئے تھے ۔ لیکن اس کے باوجود ای او بی آئی کی خود کو ماورائے قانون سمجھنے والی انتظامیہ نے اپنے2007 ء اور 2014 ء بیچ سے تعلق رکھنے والے انتہائی لاڈلے افسران کی سینیارٹی کو بچانے کے لئے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کے بجائے نامور وکلاء کو بھاری فیسیں ادا کرکے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔
جبکہ یہ واضح ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں قانون کے مطابق ایک ہی کیس میں دوبار اپیل دائر نہیں کی جاسکتی ۔ ای او بی آئی کی انتظامیہ کی جانب سے بار بار کے حیلے بہانوں اور دھوکہ بازی سے تنگ آکر ان متاثرہ افسران کی درخواست پر سندھ ہائیکورٹ نے 8 اکتوبر کو ای او بی آئی کی انتظامیہ کو اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے آخری وارننگ دی تھی ۔ جس پر ای او بی آئی کی قانون شکن انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی ہے اور اس نے عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد کے لئے سندھ ہائیکورٹ سے 11 اکتوبر تک کی مہلت طلب کی ہے ۔ اس صورت حال کے پیش نظر بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر عشرت علی وفاقی سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان نے اس اہم معاملہ پر غور و خوض کے لئے 11 اکتوبر کو کراچی میں بورڈ آف ٹرسٹیز کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے ۔
یہ بھی واضح رہے کہ حکومت پاکستان کے گریڈ 21 کے ایک اصول پرست پرست اور دیانتدار اعلیٰ افسر شکیل احمد منگنیجو نے حال ہی میں ای او بی آئی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا ہے جو اس قومی فلاحی ادارہ سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور سنگین بدعنوانیوں کا خاتمہ کرکے ایک پنشن خدمت گار ادارہ بنانے کے خواہش مند ہیں ۔
لیکن سابقہ انتظامیہ کے چہیتے افسران نے ماضی کی طرح انہیں بھی ای او بی آئی کے لاکھوں بیمہ داروں اور پنشنرز کو درپیش مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنے غیر قانونی امور اور ذاتی مسائل کے گرداب میں پھنسا لیا ہے ۔ جس کا سراسر خمیازہ ای او بی آئی کے لاکھوں پنشنرز کو بھگتنا پڑے گا ۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ای او بی آئی جیسے قومی فلاحی ادارہ میں مادر پدر آزاد محض مشکوک ڈگریوں کے حامل، انتہائی ناتجربہ کار لیکن انتہائی کلیدی عہدوں پر راج کرنے والے افسران 2007ء کے بیچ کے سرغنہ محمد نعیم شوکت ڈائریکٹر کوآرڈینیشن اور 2014ء کے سرغنہ طاہر صدیق چوہدری اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے تسلط کے باعث ای او بی آئی میں انصاف، اصول اور قانون کا جنازہ نکل چکا ہے ۔
ان دونوں گروپوں کے انتہائی جونیئر لیکن طاقتور افسران نے محض اپنی گروپ کی ناجائز سنیارٹی اور ترقیاں برقرار رکھنے کے لئے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلوں کے ساتھ کھلواڑ کرکے نہ صرف قانون کا مذاق اڑایا ہے بلکہ اس اہم کیس میں من مانے فیصلہ کرانے کے لئے ملک کے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے مال مفت دل بے رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکلاء کی ٹیم کو لاکھوں روپے کی بھاری فیسوں سے نوازا ہے ۔
جس کی ذاتی طور نگرانی 2014 ء میں بھرتی ہونے والا انتہائی جونیئر افسر اور طاہر صدیق چوہدری کا گہرا دوست قدیر احمد چوہدری، موجودہ قائم مقام ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ کر رہا ہے ۔
ای او بی آئی کی انتظامیہ کو ان بدعنوان افسران سے ایک ایک پائی وصول کرکے ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی میں ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ اور چیئرمین کی سطح پر حل کئے جانے والے سینیارٹی اور ترقیوں کے اس دیرینہ مسئلہ پر بورڈ آف ٹرسٹیز جیسے اہم ترین ادارہ کے دو عام اور دو ہنگامی اجلاس طلب کرکے ایک کروڑ روپے تک کے اخراجات کئے گئے جاچکے ہیں ۔
کیوں کہ ملک بھر سے 16 رکنی بورڈ آف ٹرسٹیز کے صرف ایک اجلاس پر بورڈ کے ارکان کے لئے ہوائی جہاز کے دو طرفہ کرائے، بڑے بڑے ہوٹلوں میں قیام اور طعام اور 25 ہزار روپے فی کس ڈیلی الاؤنس اور دیگر انتظامی اخراجات صرف ہوتے ہیں ۔
جو ای او بی آئی کے غریب محنت کشوں کے امانتی پنشن فنڈ پر بڑا مالی بوجھ ہے۔ ای او بی آئی کے انتہائی باخبر ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کی 11 اکتوبر کے اجلاس کے لئے بااثر افسران محمد نعیم شوکت اور طاہر صدیق چوہدری نے جو ورکنگ پیپر تیار کیا ہے اس میں بھی اس کیس کے متعلق گمراہ کن حقائق بیان کئے گئے ہیں ۔
جس کے باعث ای او بی آئی میں ایک سنگین قانونی بحران کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے ۔ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ای او بی آئی جیسے ملک کے غریب محنت کشوں کی پنشن کے قومی فلاحی ادارہ میں آئندہ اس قسم کی صورتحال کی روک تھام کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ محمد نعیم شوکت ، ڈائریکٹر کوآرڈینیشن چیئرمین آفس اور طاہر صدیق، چوہدری اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس جیسے بے لگام افسران کو لگام ڈالی جائے اور انہیں ای او بی آئی کے مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے الزام میں عبرت ناک سزا دی جائے۔