
ان دنوں کراچی کی سیاسی فضاؤں میں کراچی صوبہ یا اسے وفاق کی تحویل میں دئے جانے کی آوزاوں کے ساتھ بمبئی پریذنسی کی گونج بھی سنائی دے رہی ہے۔
جب اور جہاں بھی کراچی صوبہ یا صوبہ جنوبی سندھ بنانے یا ملک کے اس سب سے بڑے شہر کو وفاق کے انتظامی کنٹرول میں دئے جانے کی بات کی جاتی ہے، تو بطور استدلال سندھ کی بمبئی پریذیڈنسی کے ساتھ سندھ کی وابستگی او ر کراچی کے 12سال تک وفاقی دارالحکومت رہنے کے حوالے لازمی طور پر دیئے جاتے ہیں۔ کراچی کا وفاقی دارالحکومت رہنا اور سندھ کی بمبئی پریزیڈنسی کے ساتھ وابستگی ایک تاریخی حقیقت ہے۔
ہم یہاں صرف بمبئی پریزیڈنسی کے تاریخی پس منظر، سندھ کے بمبئی پریذیڈنسی میں انضمام بعد ازاں سندھ کی اس علیحدگی کی جدوجہد کا جائزہ لیتے ہیں۔ جو قیام پاکستان کی جدوجہد کا ایک باب بھی ہے۔
بر صغیر کے طول و عرض پر حکمرانی کے دوران برطانوی سامراج نے اس خطے میں نظم و نسق برقرار رکھنے کے لئے 1668 میںتین انتظامی یونٹ بمبئی پریزیڈنسی، مدراس پریزیڈنسی اور بنگال پریزیڈنسی کے نام سے قائم کئے تھے, ہم یہاں صرف بمبئی پریزیڈنسی کی بات کرت ہیں۔
برٹش انڈیا گورنمنٹ ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی بمبئی پریذیڈنسی کا ہیڈ کورٹر بمبئی میں قائم کیاگیا تھا۔جس کا سربراہ گورنر کہلاتا تھا۔
جہاں تک سندھ کی بمبئی پریزیڈنسی میں شمولیت کو تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے، شواہد کے مطابق سر چارلس نیپئرکو1843 سندھ کے تالپور میروں کی برطانو ی سامراج کی فوج کے ہاتھوں شکست کے بعد سندھ کا گورنر مقرر کیا تھا،کراچی کا نیپئر روڈ اور نیپئر بیرکس اسی کے نام سے موسوم ہیں۔
چارلس نیپئر چار سال تک سندھ کا گورنر رہا،سرکاری ریکارڈ کے مطابق چارلس نیپئر کو گورنر سندھ کے فرائض انجام دینے کیلئے چار ہزار ماہانہ تنخواہ مقرر کی گئی تھی۔
چار لس نیپئر چار سال تک سندھ کا گورنر رہا، اس کی سبکدوشی کے بعدبرطانوی حکمرانوں نے یہاں پر نظم و نسق برقرار رکھنے کیلئے سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی میں شامل کر کے سندھ کو ایک انتظامی ڈویژن کا درجہ دے دیا، جس کا ہیڈ کوارٹر کراچی کو قرار دیا، اور انتظامی سربراہی کیلئے کمشنر مقرر کیا،اس طرح مسٹر پرنگل کراچی کے کمشنر مقرر کئے گئے،پرنگل کے بعد بارٹل فریئر کراچی کے کمشنر مقرر کئے گئے ۔بارٹل فریئر انتظامی امور کے رموز سے واقف ہونے کے ساتھ نظم و نسق برقرار رکھنے کی صلاحیتوں سے مالامال تھے۔اسی لئے وہ کراچی کی تاریخ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، فریئر روڈ اور کراچی کا فریئر ہال بھی انہی کے نام سے موسوم ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سندھ کا علاقہ بر صغیر میں سب سے آخرمیں برطانوی سامراج کے زیر تسلط آیا,1843میں تالپور حکمرانوں کی برٹش انڈیا فوج کے ہاتھوں شکست میں سندھ کے ہندوؤں نے اہم کرادار ادا کیا تھا، ہندوؤں کے اس تعاون پر بمبئی پریزیڈنسی کے گورنر چارلس نیپئرنے اپنے چار سالہ دور اقتدار میں ہندوؤں کی کافی مدد کی اور انہیں ہر طرح سے نوازا،ہندوؤں نے بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھایااور اپنی وفاداری کی پوری قیمت وصول کی۔سندھ کے تعلیمی، اور کاروباری شعبے کے ساتھ سرکاری محکموں کے اعلیٰ مناصب پر چھا گئے۔
جس کے نتیجے میں سندھ کا ہندو سیٹھ کہلانے لگا،جبکہ مسلمان اقتصادی طور پر پسماندہ رہ گئے، یا سماجی سطح پرچھوٹی موٹی سرکاری ملازمتوں کے اہلکار وں کے طور پر ملازم ہوگئے، چالاک ہندو سیٹھوں نے مسلمانوں کی پسماندگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمان زمینداروں کی اراضی اونے پونے دام رہن رکھنا شروع کر دی اور جلد ہی ہندو سیٹھ مسلمان زمینداروں کی 40فیصد اراضی بطور رہن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔بالاخرسندھی مسلمان ہندو سیٹھوں کے معاشی غلام بن کر رہ گئے۔
بمبئی پریذیڈنسی کے ساتھ سندھ کا انضمام غیر فطری ثابت ہوا،ہندو مہاجنوں نے انگریزون کے ساتھ وفاداری اور چالا کیوں کے بدولت سندھ میں معاشی اور سماجی برتری حاصل کرلی،اور اعلی سرکاری مناصب حاصل کر کے سندھ کے مقامی انتظامی امور پر بھی تصرف حاصل کر لیا۔
سندھ کے مسلمانوں پر ہندو ؤں کی بالادستی کم و بیش ایک صدی جاری رہی،1940میں قیام پاکستان کیلئے قرارداد لاہور کے منظور ہوتے ہی،پہلے ہدف کے طور سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے سندھ کو علیحدہ کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ قائداعظم کے 14نکات میں بمبئی پریذیڈنسی سے سندھ کو نکالنے کا نکتہ بھی شامل تھا۔
اس وقت سندھ سمیت بمبئی پریذیڈنسی میں شامل علاقوں کی مجموعی آبادی 2کروڑ 54 لاکھ تھی، جس میں سب سے زیادہ ہندو آبادی ایک کروڑ 99 لاکھ16ہزار438تھی، مسلمانوں کی مجموعی آبادی45لاکھ67ہزار276تھی۔
جین مت سے تعلق رکھنے والے5لاکھ35ہزار959تھے۔پارسی78ہزار522اورعیسائی2لاکھ16ہزار215تھے،
سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدہ کرنے کی تاریخی جدوجہد35 سال جاری رہی ،جس کی قیادت قائد اعظم محمد علی جناح کر رہے تھے۔
اس تحریک کے جو قائدین روح رواں تھے، ان مین سر آغا خان، جی ایم سید، جی ایم بھر گڑی، عبداللہ ہارون اور خان عبدالقیوم خان نمایاںتھے۔
ان زعماء کی ان تھک محنت سے یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی،اوریکم اپریل1936کوبرٹش انڈیا گورنمنٹ نے 1935کے ایکٹ کی زیلی دفعہ(3)40کے تحت دہلی سے سندھ کی بمبئی ریذیڈنسی سے علیحدگی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔
اور سندھ کوبرٹش انڈیا گورنمنٹ کے انتظامی ڈویژن کا درجہ حاصل ہوگیا۔قیام پاکستان کے بعد سندھ پاکستان کا صوبہ اور کراچی نئی مملکت خداد کا دارالحکومت قرار پایا۔