ایف آئی اے کی متعدد ایف آئی آر میں نامزد اورکروڑوں ،اربوں روپے کی بدعنوانیوں میں ملوث معطل شدہ

اعلیٰ افسران قرار واقعی سزائوں سے محفوظ ،گھر بیٹھے بھاری تنخواہوں اور پر کشش مراعات سے فیضیاب ہورہے ہیں۔

ہزاروںبزرگ ،معذور اور بیوگان اپنی جائز پنشن کے لئے در بدر اورمارے مارے پھر رہے ہیں۔

وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل،حکومت پاکستان اسلام آباد کے ایک ذیلی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن(EOBI) کا قیام 1976ء میں عمل میں آیا تھا تاکہ سرکاری اداروں کی طرح نجی شعبہ میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور محنت کشوں کو بھی بڑھاپے ،معذوری اور ان کی وفات کی صورت میں ان کے لواحقین کو پنشن دی جاسکے ۔لیکن وقت گزرنے کے بعد ای او بی آئی کے قیام کے بنیادی مقاصد تو پس پشت چلے گئے اور یہ قومی فلاحی ادارہ انتہائی بدعنوان اور محنت کش دشمن افسران کی آماجگاہ بن گیا ہے۔اس فلاحی ادارہ کے وسائل کی مال مفت دل بے رحم کی ایک مثال لاکھوں ملازمین اورغریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ میں35،ارب روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل اور 290،ملین روپے مالیت کے شیئرز کی بھاری کمیشن کے لالچ میں مشکوک طور سے خریداری کی میں ملوث معطل اعلیٰ افسران کا قرار واقعی سزائوں کے برخلاف گھر بیٹھے بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات وصول کرنا ہے۔ای او بی آئی انتظامیہ کی نااہلی، چشم پوشی اور ملی بھگت کے باعث8،برس کا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی نہ تو ادارہ کوڈوبی ہوئی یہ بھاری رقوم واپس مل سکیں اور نہ ہی ملوث ان اعلیٰ افسران کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی عمل میں آسکی ہے ۔

ای او بی آئی کے ایک انتہائی بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے2010-13کے دور میں ملک کے مختلف شہروں میں18 اراضی اور املاک کی خریداری میں ہونے والے 35،ارب روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل اوربعد ازاں2015ء میں محمد ایوب خان، ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس کی جانب سے بھاری کمیشن کے لالچ میں 290،ملین روپے مالیت کے شیئرز کی مشکوک خریدار ی میں ملوث اور طویل عرصہ سے معطل شدہ اعلیٰ افسران کی جانب سے گھر بیٹھے بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات حاصل کر نے کا انکشاف ہوا ہے ۔ جن میں مشکوک طریقہ سے بھرتی ہونے والے بدعنوان اعلیٰ افسران میں محمد ایوب خان، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فنانس ہیڈ آفس، آصف آزاد، ڈائریکٹر فنانس،عاصمہ عامر، ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس، محمد اجمل خان ،ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس اورسجاد احمد، ریجنل ہیڈ فیصل آباد سائوتھ اور دیگر اعلیٰ افسران شامل ہیں۔

محمد ایوب خان،ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فنانس ہیڈ آفس
بتایا جاتا ہے کہ محمد ایوب خان ایمپلائی نمبر923444 ، مورخہ 6 ،نومبر2007ء کو چور راستے سے ای او بی آئی میں بھرتی ہونے
میں کامیاب ہوگیا تھا۔ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق کے محمد ایوب خان ولد امیر دوست محمد خان ساکن مکان نمبر26/200-B،ڈرگ روڈ کینٹ ،کراچی ، ڈائریکٹرفنانس، ای او بی آئی ہیڈ آفس،کراچی ای او بی آئی میں رجسٹرڈ لاکھوں غریب بیمہ دار افراد(Insured Person) کے امانتی پنشن فنڈ سے انوسٹمنٹ کے نام پر بھاری کمیشن کے عوض ایک غیر معروف کاروباری کمپنی میسرز ایم ٹیکس، کراچی کے 290 ،ملین روپے کے انتہائی کم مالیت کے شیئرز انتہائی مہنگے داموں پر خریدنے میں ملوث ہے۔
ای او بی آئی کے اعلیٰ افسرمحمد ایوب خان اور بشمول اس کاروباری کمپنی کے دیگر افراد فرید عالم،محمد اقبال اور طارق کے خلاف پولیس
اسٹیشن، ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل، کراچی میں ریاست بذریعہ علی مراد، انسپکٹر ایف آئی اے کی مدعیت میں مورخہ31،دسمبر2015ء کو ایک ایف آئی آر نمبر 27/2015درج کی گئی تھی ۔جس پرای او بی آئی انتظامیہ نے غریب محنت کشوں کے امانتی پنشن فنڈ کی اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے نام پر کروڑوں روپے کی بدعنوانیوں اور خرد برد میں ملوث ای او بی آئی کے اعلیٰ افسر محمد ایوب خان، قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، فنانس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کو 8،جنوری2016ء کو آفس آرڈر نمبر 07/2016کے تحت ملازمت سے معطل کردیا تھا۔

معلو م ہوا ہے کہ محمد ایوب خان، ای او بی آئی میں بھرتی ہونے سے قبل اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان میں معمولی اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھا۔ اگرچہ محمد ایوب خان نے مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ نہ ہونے کے باوجود6نومبر2007ء کو ای او بی آئی میں جوائننگ دی تھی ۔لیکن ریکارڈ کے مطابق وہ 12 نومبر2007ء تک بدستور اسٹیٹ لائف کی ملازمت میں رہا اور اس دوران ای او بی آئی اور اسٹیٹ لائف دونوں اداروں سے خلاف ضابطہ طور پر بھاری تنخواہیں اور مراعات بھی حاصل کرتا رہا اور اسٹیٹ لائف میں اس کا استعفیٰ 8نومبر2007ء کو منظور ہوا تھا ۔جس کا ذکر ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے ۔

لیکن ای او بی آئی میں مشکوک طریقہ سے بھرتی ہونے کے بعدمحمد ایوب خان نے جلد ہی اپنے پر پرزے نکالنے شروع کردیئے تھے۔ اس نے ایک بار طیش میں آکر اپنے سے سینئر افسر عبدالمجید، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فنانس سے دست و گریباں ہوکر دھمکیاں بھی دی تھیں۔ای او بی آئی میں شمولیت کے مختصر عرصہ میںمحمد ایوب خان جلد ہی اپنے زبردست سیاسی اثر ورسوخ کی بناء پر ای او بی آئی ہیڈ آفس کے انتہائی کلیدی اور منفعت عہدوں ڈائریکٹر، فنانس، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، فنانس اور ڈائریکٹر جنرل آڈٹ کے ساتھ ساتھ ای او بی آئی کے ذیلی ادارہ سہارا انشورنس کمپنی کا سی ای او بھی بن بیٹھا تھا۔

محمد ایوب خان،ایمپلائی نمبر923444 ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل( معطل) کی ماہانہ تنخوہ 228,153/- روپے بتائی جاتی ہے۔ جبکہ اس معطل شدہ اعلیٰ افسرکے زیر استعمال سرکاری گاڑی ٹویوٹا کرولا نمبرGW-920 بتائی جاتی ہے ۔ محمد ایوب خان کو معطلی کے باوجود ماہانہ خطیر تنخواہ کے علاہ ہزاروں روپے کے میڈیکل بلز اور دیگر فیول چارجز، ڈرائیور الائونس، ، گھریلو ملازم کی تنخواہ، گاڑی کی مرمت، رہائشگاہ پر ٹیلی فون، اخبارات اور انٹرٹینمنٹ کی مد میں77,213/-روپے ماہانہ ادا کئے جاتے ہیں ۔

آصف آزاد،ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس
بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے سیاہ دور2010-13 میں پنشن فنڈ کی انوسٹمنٹ کے نام پر کروڑوں روپے کے اراضی خریداری اسکینڈل کا دوسرا بڑا اور اہم کردارآصف آزاد ،ایمپلائی نمبر 923400 ولدمحمد آزاد، ڈائریکٹر انوسٹمنٹ28جون2007 کو مشکوک طریقہ سے ای او بی آئی میںبھرتی ہوا تھا۔آصف آزاد پر اس وقت کے بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل کی ایماء پر اس وقت کے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے چکوال میں مقیم قریبی عزیزوں راجہ مقصود الحق اور راجہ ثناء ا للہ کو
ای او بی آئی پنشن فنڈ سے بھاری مالی فوائد پہنچانے کے لئے ان سے موضع کلر کہار،ضلع چکوال میں واقع8کنال قطعہ اراضی بے تحاشہ داموں 32،ملین روپے میں خریدنے کا الزام ہے۔ اسی طرح آصف آزاد نے ظفر اقبال گوندل کی منشاء سے راجہ مقصود الحق اور راجہ ثناء اللہ سے چکوال تلہ گنگ روڈ پر1.9کنال رقبہ کا پلاٹ بی60.4ملین روپے میں خریدا تھا، لیکن رجسٹری کے وقت بدنیتی سے اس اراضی کی قیمت 11.7ملین روپے ظاہر کی گئی تھی۔

آصف آزاد، ڈائریکٹر فنانس ایف آئی اے کرائم سرکل، راولپنڈی کے تحت کل9 کیسوں میں ملوث ہے۔جن کے مطابق آصف آزاد ایف آئی اے کی جانب سے درج شدہ ایف آئی آر نمبر28/2013 در معاملہ کرائون پلازہ ،اسلام آباد، ایف آئی آر نمبر53/2013در معاملہ ریور ایج ہائوسنگ اسکیم ،لاہور ،ایف آئی آر نمبر54/2013 درمعاملہ ریور ایج ہائوسنگ اسکیم ،لاہور ، ایف آئی آر نمبر26/2013 درمعاملہ اراضی تلہ گنگ، چکوال،ایف آئی آر نمبر27/2013 درمعاملہ اراضی تلہ گنگ، چکوال،ایف آئی آر نمبر56/2013درمعاملہ دی مال ،لاہور، ایف آئی آر نمبر57/2013درمعاملہ پاک عرب ہائوسنگ اسکیم ،لاہور،ایف آئی آر نمبر75/2016درمعاملہ ایڈن ہائوسنگ اسکیم ،لاہور اور ایف آئی آر نمبر76/2016درمعاملہ ایڈن ہائوسنگ اسکیم ،لاہور میں نامزد ہے۔ آصف آزاد پر ای او بی آئی کے پنشن فنڈ کو اربوں روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے الزام ہے۔ جس کے باعث آصف آزاد،ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس کو23،جولائی2013کو آفس آرڈر نمبر256/2013 کے تحت فوری طور پرملازمت سے معطل کیا گیا تھا۔آصف آزاد تقریبا ڈیڑھ برس تک اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید رہنے کے بعد اب ضمانت پر ہے ۔جبکہ آصف آزاد ایمپلائی نمبر923400 ڈائریکٹر( معطل)کی موجودہ ماہانہ تنخواہ191,970/-روپے بتائی جاتی ہے۔ معطل شدہ اعلیٰ افسرآصف آزاد کے زیر استعمال سرکاری گاڑی نمبرGP-8960 بتائی جاتی ہے اور آصف آزاد کو معطلی کے باوجود ماہانہ خطیر تنخواہ کے علاہ ماہانہ ہزاروں روپے کے ٹی اے ڈی اے کے علاوہ میڈیکل بلز، فیول چارجز، ڈرائیور الائونس،، گھریلو ملازم، گاڑی کی مرمت، رہائشگاہ پر ٹیلی فون، اخبارات اور انٹرٹینمنٹ کی مد میں21,615/-روپے ماہانہ ادا کئے جاتے ہیں۔
ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملزم آصف آزاد اس وقت کے بدعنوان چیئرمین ای او بی آئی ظفر اقبال گوندل کی خوشنودی کے حصول کے لئے ای او بی آئی پنشن فنڈ سے ان اراضیوں اور املاک کی مشکوک خریداری کے سلسلہ میں اہم فائلیں اپنے اعلیٰ
افسران کے علم میں لائے بغیر با لا ہی بالا اس وقت کے انوسٹمنٹ ایڈوائزر واحد خورشید کنور اور چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے پاس لے جایا کرتا تھا۔ جبکہ اس وقت ای او بی آئی کے ایک دیانتدار اور اصول پرست افسراور آصف آزاد ڈائریکٹر کے افسر بالا اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، فنانس جناب عبدالمجید نے بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے ہر قسم کے دبائو اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان کے خلاف ضابطہ امور کی سختی سے مخالفت اور مزاحمت کی تھی اور ان غیر قانونی مالی امور کی کسی طور منظوری دینے سے قطعی انکار کردیا تھا۔ جس کی پاداش میں ظفر اقبال گوندل نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے فرض شناس افسر عبدالمجید کو جبری رخصت پر بھیج دیا تھا۔

عاصمہ عامر،ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس
اسی طرح ایک خاتون اعلیٰ افسر عاصمہ عامر یکم دسمبر2007کو مشکوک طور سے ای او بی آئی میں بھرتی ہونے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔ عاصمہ عامرایمپلائی نمبر923455ڈائریکٹر فنانس، ہیڈ آفس کو 31جولائی 2017 کو بذریعہ آفس آرڈر نمبر216/2017 ای او بی آئی ریجنل آفس کوٹری کے ایک ریٹائرڈ نائب قاصد ڈوڈو خان کو سپریم کورٹ آف پاکستان ،وفاقی محتسب اور ای او بی آئی کی انتظامیہ کے واضح احکامات کے باوجود سنگین حکم عدولی اورپنشن منظور نہ کرنے پر ملازمت سے معطل کیا گیا تھا۔علاوہ ازیں عاصمہ عامر ای او بی آئی پنشن فنڈ سے بھاری انوسٹمنٹ کے نام پر بینک آف پنجاب کے شیئرز کی مشکوک خریداری میں بھی ملوث پائی گئی ہیں اور ان کا کیس نیب لاہور میں زیرتفتیش ہے۔ عاصمہ عامر، ڈائریکٹر(فنانس)کی ماہانہ تنخواہ194,493/-روپے بتائی جاتی ہے۔عاصمہ عامر کو معطلی کے باوجود ماہانہ خطیر تنخواہ کے علاہ ماہانہ ہزاروں روپے کے میڈیکل بلز اور دیگر فیول چارجز، ڈرائیور الائونس، گھریلو ملازم، گاڑی کی مرمت، رہائشگاہ پر ٹیلی فون، اخبارات اور انٹرٹینمنٹ کی مد میں36,879/-روپے ماہانہ ادا کئے جاتے ہیں۔ جبکہ معطل شدہ خاتون افسرعاصمہ عامر کے ای او بی آئی کی سرکاری گاڑی نمبرGP-8997 بھی زیر استعمال ہے۔

عاصمہ عامر،ڈائریکٹر فنانس Reconciliation Deptt. کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں بالکل ناکام رہی ہیں۔ان کی نا اہلی، ناتجربہ کاری اور سنگین غفلت کے باعث ای او بی آئی کی جانب سے مختلف بینکوں یو بی ایل، تعمیر مائیکروفنانس بینک ،نیشنل بینک آف پاکستان اور بینک الفلاح کو ای او بی آئی کے پنشنرز کے لئے ماہانہ پنشن کی تقسیم کی مد میں سالانہ اربوں روپے کی بھاری رقومات کی ادائیگی کے بعد طریقہ کار کے مطابق ان رقوم کو Reconcileنہیں کیا جاسکا ہے۔جس کے باعث ای او بی آئی پنشن فنڈ کے اربوں روپے طویل عرصہ سے ان بینکوں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔لیکن ای او بی آئی کی انتظامیہ کی اس اہم معاملہ میں مجرمانہ غفلت اور لاپروائی کے باعث ای او بی آئی کے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کو کروڑوں روپے ماہانہ کا ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہاہے ۔
اس سلسلہ میںای او بی آئی انتظامیہ نے حال ہی میں بینک الفلاح میں پنشن کی تقسیم کے لئے پھنسی ہوئی بھاری رقوم کے باعث ای او بی آئی کو بھاری مالی نقصان پہنچانے کے ذمہ دار افسران کا تعین کرنے کے لئے مورخہ30،اپریل2021ء کو خالدنواز، قائم مقام
ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل،ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کے دستخطوں سے جاری نوٹیفکیشن نمبر131/2021 کے تحت تمام قائم مقام افسران
مراتب علی ڈوگر،قائم مقام ڈپٹی دائریکٹر جنرل بی اینڈ سیI،عوامی مرکز کراچی کی سربراہی محمد امین، ڈائریکٹر ریجنل آفس لاہور نارتھ ، نرمل الیاس نام دیو ، قائم مقام ڈائریکٹر آئی ٹی ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس، شفیق احمد پتر،قائم مقام ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس اور سخن الیاس ملک،قائم مقام ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ لاہور پر مشتمل ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی اوراسے ایک ہفتہ کے اندر(7مئی تک) رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی ۔لیکن تحقیقاتی رپورٹ میں ای او بی آئی ہیڈ آفس کے چند بااثر پردہ نشینوں کے نام آنے کے باعث اس رپورٹ کو خفیہ رکھا جارہا ہے۔

عرصہ دراز سے معطل شدہ لیکن بااثر اعلیٰ افسران محمد ایوب خان، آصف آزاد اور عاصمہ عامر کو ای او بی آئی ہیڈ آفس کے بعض اعلیٰ افسران کی مکمل آشیرباد حاصل ہے اورانہیں ای او بی آئی کی سرکاری اور اہم دستاویزات تک باآسانی رسائی بھی حاصل ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ معطل شدہ ان تینوں اعلیٰ افسران نے ای او بی آئی ہیڈ آفس کے بعض ہمدرد افسران کی مدد سے ای او بی آئی کے سرکاری ریکارڈ سے دستاویزات حاصل کرکے عدالتوں، ایف آئی اے اور نیب میںای او بی آئی کے خلاف کئی مقدمات بھی قائم کر رکھے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اہم سرکاری دستاویزات اور فائلوں کی ہزاروں کی تعداد میں فوٹو کاپیاں بھی ای او بی آئی کے اخراجات پر کرائی جاتی ہیں ۔انہی اہم دستاویزات کی بنیاد پر ان تینوں معطل اعلیٰ افسران محمد ایوب کان،آصف آزاد اور عاصمہ عامر نے چوری سینہ زوری کے مصداق ای او بی آئی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میںمختلف کیسز دائر کرنے کے علاوہ ایف آئی اے اور نیب میں بھی کیس دائر کررکھے ہیں۔جس پر ای او بی آئی کو وکیلوں کی بھاری فیسوں اورمقدمہ کے اخراجات پر بھاری رقوم اور وسائل خرچ کرنے پڑرہے ہیں۔ ای او بی آئی کے ایک سابق چیئرمین خاقان مرتضیٰ نے ان تینون معطل شدہ افسران کو باقاعدگی سے دفتر آنے کے واضح احکامات دیئے تھے۔ لیکن ان کے تبادلے کے بعد یہ تینوںمعطل شدہ افسران دوبارہ اپنی روش پر آگئے ہیں۔

محمد اجمل خان ڈائریکٹر فنانس،ہیڈ آفس
محمد اجمل خان،ڈائریکٹر فنانس، ہیڈ آفس کراچی، بھی ملک کے غریب محنت کشوں کے ای او بی آئی پنشن فنڈ سے بھاری کمیشن کے لالچ میں کرائون پلازہ ،اسلام آبادکی انتہائی زائد قیمت پر خریداری کے کیس میں ملوث پائے گئے تھے اورمحمد اجمل خان اس وقت کے چیئرمین ا ی او بی آئی ظفر اقبال گوندل اور دیگر اعلیٰ افسرا ن کے ساتھ ایف آئی اے کرائم سرکل راولپنڈی کی جانب سے ایف آئی آر نمبر 28/2013 میں شریک ملزم نامزد ہیں۔ایف آئی اے کی جانب سے اس کیس کی تحقیقات کے دوران مورخہ22،مارچ2013کو Nespakکی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ2012ء میں خریدی گئی اس عمارت کی مارکیٹ قیمت 626،ملین روپے تھی۔ جبکہ ای او بی آئی کے اعلیٰ افسران نے اس عمارت کو1050ملین روپے میں خریدا تھا۔اسی طرح محمد اجمل خان، پنشن فنڈ سے انوسٹمنٹ کے نام پربینک آف پنجاب کے بھاری شیئرز کی مشکوک خریداری میں ملوث ہے۔جو نیب لاہور میں زیر تفتیش ہے اور ان سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود بااثر افسر محمد اجمل خان کو نہ تو ملازمت سے معطل کیا گیا اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی عمل میں آئی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس اس انتہائی بااثر افسرمحمد اجمل خان کو مزید نوازتے ہوئے اس وقت انوسٹمنٹ ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل(انوسٹمنٹ) کے انتہائی کلیدی عہدہ پر فائز کیا گیاہے ۔ جو ای او بی آئی کی انتظامیہ کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے؟

معطل شدہ اعلیٰ افسران محمدایوب خان،آصف آزاد اور عاصمہ عامر کی تنخواہیں ہر ماہ ان کے بعض مہربان افسران کے تعاون سے باقاعدگی سے ان کے بینک اکائونٹ میں پہنچ جاتی ہیں۔اس کے علاوہ یہ تینوں افسران جب چاہیں اپنی مرضی سے دفتر آتے ہیں اور اپنی ماہانہ پرکشش مراعات بھاری میڈیکل بلز،گاڑیوں کے پٹرول،گاڑیوں کی مرمت،اخبارات کے بلز اور ہزاروں روپے کی دیگر مراعات وصول کرنے ہیڈ آفس آتے رہتے ہیں تو اس موقعہ پرادارہ میں ان کے ہمدر بعض سینئر افسران شازیہ رضوی، ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ،محمد نعیم شوکت، ڈائریکٹر کوآرڈینیشن، طاہر صدیق چوہدری، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ اور دیگر عاقبت نا اندیش افسران ان معطل شدہ افسران کی بڑی آئو بھگت کرتے ہیں اور ان ملزمان اور معطل شدہ اعلیٰ افسران کے ہر قسم کے بھاری بلوں کی فوری طور پر ادائیگی بھی کرائی جاتی ہے ۔محمد ایوب خان کا یہ بھی وطیرہ رہا ہے کہ وہ ای او بی آئی میں آنے والے نئے اعلیٰ افسران کے سامنے اپنی بیگناہی کی فرضی داستانیں سنا سنا کر اورانہیں گمراہ کرکے انہیںNABاورFIAکے نام سے ڈرا کر کام کرنے سے روکنے کی ترغیب دیتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ملک کے سرحدی علاقہ سے تعلق کے باعث محمد ایوب خان افسران کو طالبان کے نام سے دھمکیاں دے کر خوفزدہ بھی کرتا ہے۔
سجاد احمدڈائریکٹر/ ریجنل ہیڈ فیصل آباد( سائوتھ)
اس وقت کے انتہائی بدعنوان چیئرمین ای او بی آئی ظفر اقبال گوندل کے ذاتی استعمال کے لئے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے ممنوعہ ہارس پاور4100cc کی لگژری گاڑی ٹویوٹا لینڈ کروزر پراڈو گاڑی خریدنے میں معاونت کے الزام میں ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل راولپنڈی میںدرج شدہ ایف آئی آر نمبر25/2013اور اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے قریبی عزیزوں سے موضع کلر کہار، چکوال میں سستی اراضی انتہائی مہنگے داموں خرید کر پنشن فنڈ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے الزام میں درج ایف آئی آر26/2013 میں نامزد ملزمان آصف آزاد، ڈائریکٹر انوسٹمنٹ ڈپارٹمنٹ، ہیڈ آفس اور سجاد احمد ایمپلائی نمبر92064 ،ڈپٹی ڈائریکٹر( اب ریجنل ہیڈ فیصل آباد،سائوتھ) کو 23جولائی2013کوکو سنگین مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے پرآفس آرڈر نمبر256/2013 کے تحت فوری طور پرملازمت سے معطل کیا گیا تھا۔

سجاد احمد موجودہ ریجنل ہیڈ فیصل آباد سائوتھ کے بارے میں ذرائع کا کہنا ہے وہ آئی بی ( انٹیلیجنس بیورو) کا سابق ملازم ہے جو خلاف ضابطہ طور پرای او بی آئی میں معمولی پی اے بھرتی ہونے میں کامیاب ہوگیا ۔سجاد احمد ریجنل ہیڈ فیصل آباد کی تعلیمی قابلیت، ایم اے
( پنجابی ) ہے جو ای او بی آئی میں افسر کے عہدہ کے لئے کی ایک غیر متعلقہ ڈگری ہے ۔لیکن سجاد احمد اپنے زبردست اثرورسوخ اور شاطرانہ چالوں اور اعلیٰ افسران کی پشت پناہی کے ذریعہ ادارہ کے سینئر ملازمین خصوصا محمد ابراہیم فاروقی، سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹرآئی ٹی ڈپارٹمنٹ کی حق تلفی کرتے ہوئے انتہائی قلیل مدت میں خلاف ضابطہ طور پر ترقی پر ترقیاں حاصل کرتا رہا ہے۔جی حضوری اور انتہائی چہیتے افسرسجاد احمد 2010-13کے دوران اس وقت کے انتہائی بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے انتہائی طاقتور اسٹاف افسر کی حیثیت سے ای او بی آئی میں سیاسی بنیادوں ر400خلاف ضابطہ بھرتیوں سمیت ظفر اقبال گوندل کے ہرسنگین جرم میں اس کا ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھا۔ای او بی آئی میںخلاف ضابطہ طور پر بھرتی شدہ 400افسران اور ملازمین میں سے 358افسران اورملازمین ای او بی آئی ایمپلائیز فیڈریشن آف پاکستان (سی بی اے) کے جنرل سیکریٹری سید مبشر رضی جعفری کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر ایک آئینی درخواست نمبر6/2011 کے نتیجہ میں 17مارچ 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کے بعد ملازمت سے برطرف کردئیے گئے تھے۔ جبکہ ای او بی آئی ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے بعض بدنیت افسران نے ان خلاف ضابطہ بھرتی شدہ افراد کی فہرستوں میں ہیرا پھیری کرتے ہوئے ان میں سے وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کے خاص42ملازمین کو بچالیا تھا۔جو(Dead Wood) کے طور پرآج بھی ای او بی آئی میں ملازمت کے نام پر ہر قسم کی جائز اور ناجائز سہولیات حاصل کرکے موجیں کرنے میںمصروف ہیں۔

لیکن ای او بی آئی جیسے فلاحی ادارہ میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والی ان 400خلاف قانون بھرتیوں اور ای او بی آئی گیسٹ ہائوس ڈیفنس سوسائٹی کراچی میں بھرتیوں کے ریکارڈ کو چھپانے کے ذمہ دار اور مسلسل جھوٹ کا مظاہرہ کرنے والے سجاد احمد نے بالآخر ایف آئی اے کے سخت دبائو پر پورا ریکارڈ ان کے حوالہ کردیا تھا۔ لیکن بعد ازاں بدعنوان اور جی حضوری افسر سجاد احمد اپنے بھاری سیاسی اثر ورسوخ کی بناء پر اس اہم کیس میںسلطانی گواہ بن کر ناصرف ای او بی آئی اپنی غیر قانونی بھرتی،ناجائز ترقیوں پر ترقیوں اورظفر اقبال گوندل کے دور میں ای او بی آئی میں 400خلاف ضابطہ بھرتیوں کے اسکینڈل اور35ارب روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل میں براہ راست ملوث ہونے کے باوجودایف آئی اے اور نیب کی تمام کارروائیوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیاہے۔جبکہ ان دونوں اسکینڈل کی بدولت ای او بی آئی کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔لیکن اس کے باوجود سجاد احمد کا کوئی بال بیکا نہ کرسکا اور وہ ای او بی آئی میں اپنی خلاف ضابطہ بھرتی کے حوالہ سے آڈیٹرجنرل آف پاکستان کے آڈٹ پیرا کو بھی ختم کراچکا ہے ۔ سجاد احمد اب ای او بی آئی انتظامیہ کے ایک اہم افسران میں شمار ہوتا ہے اور اب وہ اگلے گریڈ پر ترقی کے لئے پر تول رہا ہے۔اب ای او بی آئی کا اللہ ہی حافظ ہے۔
غریب محنت کشوں کے فنڈ میں کروڑوں اور اربوں روپے کی بدعنوانیوں اور خرد برد میں ملوث ای او بی آئی کے افسران محمد ایوب خان اور آصف آزاد اور عاصمہ عامر ملازمتوں سے معطلی کو ایک طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود آج تک نہ صرف اپنی سزائوں سے بچے ہوئے ہیں بلکہ غریب محنت کشوں کے چندہ (Contribution)پر گھر بیٹھے نوکری کے بھرپور مزے لوٹ رہے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس جن ملازمین اور محنت کشوں کی پنشن کی فراہمی کے لئے ای او بی آئی کے محکمہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔وہ لاکھوں بیمہ دار(Insured person)بزرگ، معذور اور بیوہ پنشنرز اپنے ای او بی آئی رجسٹریشن کارڈ کے حصول اور اپنی پنشن کے لئے ای او بی آئی کے ریجنل آفسوں میں در بدر اور مارے مارے پھر رہے ہیں۔ان کمزوروں کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے۔

چونکہ اس وقت ای او بی آئی میں ہر کلیدی عہدہ پر ڈیپوٹیشن اور ان کے چہیتے انتہائی جونیئر اور ناتجربہ کار سفارشی افسران کا راج
ہے۔جس کے باعث ہر شعبہ میں ای او بی آئی کی کارکردگی متاثر ہورہی ہ اورپنشن فنڈ میںکروڑوں اور اربوں روپے کی سنگین بدعنوانیوں
میں ملوث ان اعلیٰ افسران کے خلاف اب تک کسی قسم کی تادیبی کارروائی نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ اس اہم ترین سیکشنDisciplinary Action کی ذمہ داری ای او بی آئی میں2014ء میں بلا تجربہ اور انٹرویو بھرتی ہونے والے ایک متنازعہ لیکن انتہائی چہیتے اور خوشامدی ٹائپ افسر اور نان کیڈر اسسٹنٹ ڈائریکٹر طاہر صدیق عرف طاہر صدیق چوہدری،اسسٹنٹ دائریکٹر ایچ آر دپارٹمنٹ کو سونپی گئی ہے۔ جو محکمہ کے بعض اعلیٰ افسران کی مکمل سرپرستی میںاس اہم ترین عہدہ کے ساتھ ساتھ بیک وقت مزید پانچ(5) کلیدی عہدوں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ( Disciplinary Action )،اسسٹنٹ ڈائریکٹر،ٹریننگ سیکشن،اسسٹنٹ ڈائریکٹر ٹرانسفر اینڈ پوسٹنگ سیکشن اور خصوصی طور پر تخلیق شدہ عہدہ اسٹاف افسر ٹو ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈی کے مزے بھی لوٹ رہا ہے۔جو ای او بی آئی ایمپلائیز سروس ریگولیشن مجریہ 1980ء کے تحت مفادات کے ٹکرائو کے عین مترادف ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ طاہر صدیق چوہدری ، ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس میں بیک وقت پانچ(5) کلیدی عہدوںپر براجمان ہوکر پنشن فنڈ میںسنگین بدعنوانیوں کے مرتکب ان اعلیٰ افسران سے من مانی شرائط پر سودے بازی اوراپنی فرمائشیں پوری کراکے ان اہم ترین انکوائری کیسوں میں چارج شیٹ کے اجراء اور انکوائری کے عمل کو کافی عرصہ سے ا لتواء میں ڈالے ہوئے ہے اورایک عرصہ سے محض و دکھاوے، وقت گزاری کے لئے اور فائلوں کا پیٹ بھرنے کے لئے ہر90دن بعد معطل شدہ اعلیٰ افسران کی معطلی کی مدت میں توسیع پر توسیع دی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ ای او بی آئی قانون مجریہ1976ء کے تحت ای او بی آئی ایک فلاحی ٹرسٹ ادارہ ہے اور اس کے افسران اور ملازمین400،ارب روپے کے پنشن فنڈ کے کسٹوڈین کی حیثیت سے پنشن فنڈ کے ٹرسٹی شمار ہوتے ہیں۔
لیکن اس اہم ترین قانونی اور اخلاقی ذمہ داری عائد ہونے کے باوجود ای او بی آئی کی بے پراہ انتظامیہ کی سنگین غفلت اور لاپروائی سے ملک کے غریب ملازمین اورمحنت کشوں کے پنشن فنڈ میںسنگین مالی بدعنوانیوں کے مرتکب یہ معطل شدہ اعلیٰ افسران گھر بیٹھے باقاعدگی سے بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات حاصل کرکے غریب محنت کشوں کے پنشن کے محکمہ ای او بی آئی پر ایک بھاری بوجھ بن گئے ہیں۔ ای او بی آئی جیسے فلاحی محکمہ میں بڑے پیمانے پرلاقانونیت اور بدعنوانیاں اور ای او بی آئی کے لاکھوں بزرگ،معذور اور بیوگان بیمہ دار اور پنشنرز حالت زار وفاقی حکومت،وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل،اسلام آباد، ای او بی آئی کے سہ فریقی بورڈ آف ٹرسٹیز اور ای او بی آئی کی انتظامیہ کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ۔

Leave a Reply