ای او بی آئی میں قانون و انصاف کا خون ناحق

کسی بھی سرکاری ملازم کی زندگی میں Incrementیعنی سالانہ ترقی کی بڑی اہمیت ہے ۔جس سے اس کی ماہانہ تنخواہ ،مراعات اور مستقبل میں اس کی پنشن پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں ای او بی آئی کے گزشتہ22،برسوں سے اپنے ایک جائز اور قانونی انکریمنٹ سے محروم ایک ملازم سید محمد حیدر کاظمی کی داستان پیش کی جارہی ہے کہ جسے باقاعدہ مجاز اتھارٹی سے منظوری کے باوجود محض ادارہ کے چند قانون سے بالاتر اور انا پرست افسران کے ہاتھوں ان کے ایک جائز انکریمنٹ سے محروم کرکے سخت حق تلفی کی گئی ہے ۔

سید محمد حیدر کاظمی،ایمپلائی نمبر912834 نے8 ،اکتوبر1987ء کو اسسٹنٹ کی حیثیت سے ای او بی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس دوران انہوں نے1987ء سے 1994 ء تک ادارہ کے ہیڈ آفس کے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ(GAD) میں ٹیلی فون آپریٹر ِاورٹیلیکس آپریٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دینے کے علاوہ ، ادارہ کی گاڑیوں کی مرمت،مینٹینس ،گاڑیوں کی انشورنس اور کلیمز کے امور بھی بخوبی انجام دیئے تھے۔ 1994ء میں حیدر کاظمی کا تبادلہ ریجنل آفس ناظم آباد کردیا گیاتھا۔اگرچہ حیدر کاظمی کی رہائش رفاہ عام سوسائٹی، ڈسٹرکٹ ایسٹ کراچی میں تھی اور ان کا دفتر ان کی رہائش گاہ سے کئی کلو میٹر دورناظم آباد، ڈسٹرکٹ سنٹرل کراچی میں واقع تھا۔اس دور میں کراچی شہر میں لسانی فسادات ،ہنگامے اور کرفیو روز مرہ کا معمول تھے۔ لیکن اس کے باوجو د حیدر کاظمی نے باقاعدگی اور تندہی سے ریجنل آفس ناظم آباد میں اپنی ڈیوٹی انجام دی تھی۔ اس دوران حیدر کاظمی کو ای او بی آئی میں15برس تسلی بخش ملازمت کے باوجود اگلے گریڈ میں ترقی دینے کے بجائے2002ء میں انہیں Mone Over کے ذریعہ سینئر اسسٹنٹ کے عہدہ پر تعینات کردیا گیا تھا۔

آپ نے ریجنل آفس ناظم آباد میں تعیناتی کے دوران ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ چنانچہ آپ نے 1994ء میں سندھ یونیورسٹی ،جامشورو سے ایم اے اکنامکس کا امتحان پاس کیا ۔آپ نے ریجنل آفس ناظم آباد میں تقریبا دس برس یعنی 2004ء تک بحسن و خوبی اپنے فرائض انجام دیئے۔ 2005ء میں ایک بار پھر آپ کا تبادلہ ہیڈ آفس کردیا گیا اوریہاں آپ کی تعیناتیRconciliation Wing میں عمل میں آئی تھی۔حیدر کاظمی ای او بی آئی کے جس جس ڈپارٹمنٹ میں بھی تعینات رہے،وہاں احساس ذمہ داری، کام سے لگن ، بھرپور عبور اور مہارت کے ساتھ ساتھ اپنی ملنسار اور دوستانہ طبیعت کے باعث افسران بالا اور تمام ساتھیوں میں کافی مقبول رہے۔
حیدر کاظمی کے ایک انکریمنٹ سے محرومی کا قصہ یہ ہے کہ 2000ء میں ادارہ میںای او بی آئی ایمپلائیز فیڈریشن آف پاکستان (سی بی اے) کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری کے بعد ملازمین کی تنخواہوں کے پے اسکیلوں پر نظر ثانی سمیت تنخواہوں اور مراعات میں کل25،فیصد اضافہ عمل میں آیا تھا۔جس پر عمل درآمد کے لئے ای او بی آئی کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ،ہیڈآ فس نے مورخہ 2،جون2001ء کو ایک نوٹیفکیشن نمبر124/2001جاری کیا تھا۔ اس دوران فنانس ڈیپارٹمنٹ ہیڈ آفس میں ملازمین کے لئے نظر ثانی شدہ پے اسکیلوں کی تمام ملازمین کی توPay Fixation درست طریقہ سے کردی گئی لیکن چند ملازمین کی pay Fixation اورCalculationکے دورانافسران کی کوتاہی کے باعث حیدر کاظمی وغیرہ کی تنخواہ مقرر کرتے وقت غلط طور سے Fixation کی گئی جس میں ان کا ایک سالانہ انکریمنٹ کم شمار کیا گیا تھا۔کیونکہ فنانس ڈپارٹمنٹ کے افسران نے مذکورہ نوٹیفکیشن کی ہدایات کے برعکس حیدر کاظمی کی تنخواہ یکم جنوری2001ء کے بجائے دسمبر2000ء سے شمار کی تھی۔جبکہ چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری کے نوٹیفکیشن124/2001 کے مطابق ملازمین کی تنخواہ اور مراعات میںیکم جنوری 2001ء سے 25 ،فیصد اضافہ ہونا تھا۔

حیدر کاظمی کوای او بی آئی میں24برس ملازمت کرنے کے بعد بالآخر7 ،مارچ 2011ء میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ پر ترقی دیدی گئی تھی۔اس طرح حیدر کاظمی کو ای او بی آئی میں30سالہ طویل ملازمت کے دوران یہ پہلی اور آخری مرتبہ نصیب ہوئی تھی۔

جبکہ حیدر کاظمی کے ایک انکریمنٹ کیس کے بالکل برخلاف فنانس ڈپارٹمنٹ اور انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کے انہی بقراطی افسران نے2012ء میں دوہرا رویہ اپناتے ہوئے اسPay Fixation میں فنانس ڈپارٹمنٹ کے افسران کی کوتاہی سے متاثرہ ای او بی آئی ہی کے ایک انکریمنٹ سے محروم ملازم محمد کامران، اسسٹنٹ، فنانس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کو Pay Fixation کے تنازعہ کو حل کرنے کے لئے قائم شدہ Anomaly Committee کی سفارش پر کسی نوٹیفکیشن کے اجراء کے بغیر ہی مارچ2014ء میں اس کی تنخواہ میں ایک انکریمنٹ شامل کرنے کے ساتھ ساتھ اسے پچھلے 14برسوں کے بقایاجات کی مد میں130,000/- روپے کی ادائیگی کردی گئی تھی ۔جو ای او بی آئی کی انتظامیہ کی دوہری پالیسی اور امتیازی سلوک کا واضح ثبوت ہے۔

محمد کامران کو ایک انکریمنٹ کی منظوری اور پچھلے بقایا جات کی ادائیگی کے بعد حیدر کاظمی نے اپنے انکریمنٹ کے مسئلہ کے حل کے لئے بھی4،اپریل2014ء کو انتظامیہ کے پاس درخواست جمع کرائی تھی اور حسب معمول کوئی جواب نہ ملنے پر ہر15یوم کے بعد تین Remiderبھی دیئے ۔لیکن اس کے باوجود ای او بی آئی کی غافل انتظامیہ کے کانوں پر کوئی جوں تک نہ رینگی۔یہاں سے مایوس ہوکر حیدر کاظمی نے مقررہ طریقہ کار کے مطابق ای او بی آئی بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر /وفاقی سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل،حکومت پاکستان،اسلام آباد کو بھی ایک اپیل ارسال کی تھی، لیکن اافسوس انہوں نے بھی اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے ہوئے اس اپیل پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

بعد ازاں حیدر کاظمی نے2015ء میں ای او بی آئی کے نئے چیئرمین صالح احمد فاروقی سے بھی اپنے انکریمنٹ کی منظوری کیلئے
اپیل کی تھی۔ انہوں نے ان کے کیس کا جائزہ لے کر اور اسے میرٹ پر قرار دے کر انہیں ایک انکریمنٹ کی منظوری کے ساتھ ساتھ پچھلے 15برسوں کے بقایاجات کی بھی منظوری دیدی تھی، لیکن اس موقع پر بھی چند پراسرار ہاتھوں نے ان کے کیس کی فائل کو غائب کردیا تھا۔

لیکن ان تمام تر رکاوٹوں اور پے درپہ حوصلہ شکن حالات کے باوجود حیدر کاظمی نے اپنے ایک جائز انکریمنٹ کے حصول کے لئے ہمت نہ ہاری اور انتظامیہ سے مسلسل اپیلیں کرتے رہے ۔بالآخر2017ء میں ان کی لگاتار کوششیں رنگ لائیں اور اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس، جناب نذر محمد بزدار،ڈائریکٹر جنرل، ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس نے حیدر کاظمی کو ذاتی شنوائی کا موقع فراہم کرتے ہوئے اس معاملہ پر ان کا موقف سنتے کے بعد بلال عظمت خان،ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس کی موجودگی میں اس معاملہ پر انتہائی تاخیر ہونے پر سخت برہمی کے اظہار کرتے ہوئے انہیں انصاف کی فوری یقین دہانی کرائی تھی۔ جس کے بعد حسب وعدہ جناب نذر محمد بزدار، ڈائریکٹر جنرل، ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے دستخطوں سے جاری شدہ دو صفحات اور پانچ پیرا گراف پر مشتمل تفصیلی نوٹیفکیشن نمبر286/2017 بتاریخ10،اکتوبر 2017ء کو اس وقت کے چیئرمین جناب خاقان مرتضیٰ کی منظوری سے فنانس ڈپارٹمنٹ کو واضح ہدایات جاری کی گئیں تھیں کہ’’ چیئرمین مسرت کے ساتھ، ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ اور سربراہ ایچ آرڈپارٹمنٹ پر مشتمل Anomaly Committee کی سفارشات اور اس وقت کے چیئرمین کی منظوری اورڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ/فنانشل ایڈوائزر کی سفارشات پر سید محمد حیدر کاظمی، سابق سپرنٹنڈنٹ، Rconciliation Wing کے Pay Fixation کے کیس کی منظوری دیتے ہیں، جو کافی عرصہ سے ای او بی آئی کے فنانس ڈپارٹمنٹ اور انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ کے درمیان حیلے بہانوں سے تنازعہ کی طرح لٹکا ہوا اور زیر التواء پڑا ہوا تھا۔

نوٹیفیکیشن کے دوسرے پیرا گراف میں ای او بی آئی کے فنانس ڈپارٹمنٹ کو یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ چیئرمین ای او بی آئی کے احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے اور حیدر کاظمی کو بقایاجات کی ادائیگی کے لئے یکم جنوری2001ء تا یکم جنوری2016ء تک کی مدت کا 189,599/- روپے کا وائوچر اور تصحیح شدہ Pay Fixation شیٹ تیار کرکے تصدیق کے لئے انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ بھیجیں۔ ‘‘

اس نوٹیفکیشن کے بعد فنانس ڈپارٹمنٹ میں حیدر کاظمی کے گزشتہ16 برسوں کے واجبات پر مشتمل 189,599/-روپے کا وائوچر بھی تیار کرلیا گیا تھا۔ لیکن افسوس اس مرحلہ پر بھی ای او بی آئی کی چندنادیدہ قوتوں نے حیدر کاظمی کے جائز انکریمنٹ اور بقایاجات کی ادائیگی کو رکوادیا تھا اور ایک بار پھرای او بی آئی میں قانون ہار گیا تھا اور لاقانون جیت گئے تھے۔

اس طرح چیئرمین ای او بی آئی، خاقان مرتضیٰ کی جانب سے2017ء میں حیدر کاظمی، سابق سپرنٹنڈنٹ کے ایک انکریمنٹ
کے برسوں سے زیرالتواء اس کیس کی واضح منظوری اور مذکورہ نوٹیفکیشن کے اجراء کے باوجود ای او بی آئی کے فنانس ڈپارٹمنٹ اور انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ کے خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے والے اور انا پرست افسران نے مقررہ طریقہ کار کے مطابق اس نوٹیفیکیشن پر عمل کرنے کے بجائے انتظامیہ کے ان احکامات کو بھی ہوا میں اڑادیا تھا۔جس پر حیدر کاظمی نے چیئرمین، خاقان مرتضیٰ سے اپیل کے علاوہ ملاقات بھی کی تھی ۔لیکن ان دنوں ان کی بے پناہ مصروفیات کے باعث وہ اس مسئلہ پر توجہ نہ دے پائے اور اسی د ور ان کا تبادلہ بھی ہوگیا تھا ۔

اس دوران سید محمد حیدر کاظمی مسلسل17برسوں تک ہر سطح پر اپنے جائز انکریمنٹ کے حصول کے لئے جدوجہد کرتے کرتے کرتے بالآخر اپنے جائز انکریمنٹ سے محروم رہ کر 18،فروری2017ء کو ای او بی آئی کی ملازمت سے ریٹائر ہوگئے تھے۔

لیکن ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی حیدر کاظمی اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹے اور اپنے حق کے لئے مسلسل جدوجہد کرتے میں مصروف ہے ۔انہوں نے ای او بی آئی کے اعلیٰ افسران، چیئرمین اورای او بی آئی بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر /وفاقی سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل،حکومت پاکستان،اسلام آباد کی جانب سے مذکورہ نوٹیفکیشن پر عملدرآمد سے مسلسل حکم عدولی اور ملازمت سے ریٹائر ہونے کے باوجود اپنے جائز حق سے محرومی اور اس تمام تر صورت حال سے بد دل ہوکربالآخر حصول انصاف کے لئے مورخہ 29،نومبر2018ء کو بذریعہ اپیل نمبر6257/2018 وفاقی محتسب سے رجوع کیا تھا۔ لیکن افسوس وفاقی محتسب نے بھی اس کیس کو اپنے دائرہ کار سے باہر قرار دے کر معذرت ظاہر کی تھی۔

جس پرحیدر کاظمی نے22 برسوں تک اپنے محکمہ ای او بی آئی میں نمایاں طور سے خدمات انجام دینے کے باوجودہر سطح پر اصول و قانون کی دھجیاں بکھرجانے، مختلف مجاز اتھارٹی اوراداروں سے حصول انصاف میں ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر اللہ کا نام لے کر 2،اکتوبر 2019ء کو سندھ ہائی کورٹ میں ایک آئینی پٹیشن نمبرCP-6270دائر کرکے انصاف کا دروازہ کھٹکھٹادیا تھا۔

دوسری جانب حیدر کاظمی کی جانب سے حصول انصاف کے لئے 2 ،اکتوبر 2019ء کوسندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے بعد جب سندھ ہائی کورٹ نے ای او بی آئی کی انتظامیہ کو نوٹس جاری کیا تو ای او بی آئی کی شاطر و چالاک اور قانون شکن انتظامیہ نے عدالت میں حقائق پیش کرنے کے بجائے انتہائی بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور ایک بار پھر قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہوئے مورخہ 28،جنوری2020ء کو ایک نوٹیفکیشن نمبر16/2020ء جاری کرکے ای او بی آئی کے سابق چیئرمین، خاقان مرتضیٰ کی منظوری سے2017ء میں جاری شدہ نوٹیفیکیشن 286/2017 بتاریخ 10اکتوبر2017ء کو بیک جنبش قلم واپس لینے کا اعلان کرکے سب کو تعجب میں ڈال دیا ہے۔
حیدر کاظمی کا کہنا ہے کہ بات ایک انکریمنٹ کی نہیں،بلکہ بات اصول اور حق کی ہے۔ ان شاء اللہ میں اپنے حق کے حصول کے لئے تادم ثابت قدم رہوں گا۔

اگرچہ سید محمد حیدر کاظمی کے جائز انکریمنٹ کا مقدمہ تاحال سندھ ہائی کورٹ کراچی میں زیر سماعت ہے۔ لیکن انہیں خدا کی ذات سے اور سندھ ہائی کورٹ سے انصاف ملنے کی پوری امید ہے۔

Leave a Reply