کراچی میں اعلیٰ پولیس حکام کے دعوئوں کے برعکس شہر میں لوٹ مار، گاڑیاں اور موبائل چھیننے سمیت اسٹریٹ کرائم اور قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پولیس کے اعلیٰ حکام نے گزشتہ دنوں دعویٰ کیا تھا کہ ماہ اکتوبر میں کراچی کے اسٹریٹ کرائمز سال 2021ء کی سب سے کم سطح پر رپورٹ کیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں ایڈیشنل آئی جی کراچی عمران یعقوب منہاس نے کہا کہ کراچی پولیس ٹیم کی کوششوں سے شہر میں اسٹریٹ کرائمز میں نمایاں کمی آنا شروع ہوگئی ہے اور کراچی پولیس صورتحال کو مزید بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

اس سلسلہ میں کراچی پولیس آفس کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں سب سے زیادہ 7064 اسٹریٹ کرائمز جون 2021ء میں رپورٹ ہوئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2021ء میں کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی جون سے بھی نصف 3404 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔

پولیس حکام کے مطابق ماہ اکتوبر میں کراچی میں موبائل فون چھیننے کی 1114 وارداتیں رپورٹ ہوئیں جبکہ اسی کیٹیگری کی وارداتوں کا اپریل 2021ء کا گراف اس سے دگنا سال کی سب سے زیادہ 2185 پر تھا۔ فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس سال سب سے زیادہ 30 فور ویلرز گاڑیاں چھینی گئیں جبکہ اکتوبر میں یہ تعداد 9 رہی۔

گرافکس کے مطابق کراچی کے شہریوں سے اگست 2021ء میں سال کی سب سے زیادہ 410 موٹر سائیکل اسلحہ کے زور پر چھینی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق ماہ اکتوبر میں اسلحہ کے زور پر چھینی گئی موٹر سائیکلوں کی تعداد 198 رہی۔ پولیس کے ان اعداد و شمار اور ایڈیشنل آئی جی کے دعوئوں کے برعکس شہر میں اسٹریٹ کرائم کے ساتھ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی چوری و چھیننے کی وارداتیں بڑھ گئیں۔

اکتوبر میں شہر کے مختلف علاقوں سے شہری مجموعی طور پر 234 گاڑیوں اور 4500 سے زائد موٹر سائیکلوں سے محروم کردیے گئے اس دوران اسٹریٹ کرائم میں شہریوں سے 2262 موبائل فون چھین لیے گئے۔ کراچی پولیس شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکام دکھائی دی۔ کراچی پولیس کی جانب سے کارکردگی کے حوالے سے ملزمان کی گرفتاریوں اور ان سے برآمدگی سے متعلق روزانہ کی بنیاد پر اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں

لیکن اس کے باوجود شہر میں گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور موبائل فونز کی چھینا جھپٹی کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس دوران شہر کے مختلف علاقوں میں شہریوں کو مجموعی طور پر 4 ہزار 505 موٹر سائیکلوں سے محروم ہونا پڑا جس میں 409 موٹر سائیکلیں سڑکوں سے چھین لی گئیں جبکہ 4 ہزار 96 موٹر سائیکلوں کو چوری کرلیا گیا۔

گزشتہ ماہ شہر میں اسٹریٹ کرائم کے دوران شہریوں سے 2 ہزار 262 موبائل فون بھی چھین لیے گئے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ایک جانب شہر کی سڑکوں پر دندناتے ہوئے اسٹریٹ کرمنلز نے لوٹ مچائی ہوئی ہے تو دوسری جانب گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی چوری اور چھن جانے کے واقعات سے شہری پریشان ہیں۔ شہر میں جاری لوٹ مار کے واقعات پر آئی جی سندھ کوئی نوٹس لیتے ہیں اور نہ کراچی پولیس چیف ما تحت افسران سے باز پرس کرتے ہیں۔

اعلیٰ پولیس افسران کے اس عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے شہریوں کو لٹیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ کراچی میں روز بروز بڑھتے ہوئے جرائم پر بظاہر پولیس کو کوئی پریشانی نہیں کچھ عرصہ قبل تک شہر کے حساس علاقوں اور نواحی بستیوں میں پولیس موبائلز تعینات ہوتی تھیں جو وقتا فوقتا علاقوں کا گشت لگا کر شہریوں کو جرائم پیشہ افراد خصوصاً عادی کرمنلز اور منشیات خریداری کے لیے پیسے اکٹھے کرنے کے سلسلے میں جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد سے تحفظ فراہم کرتی تھیںلیکن اب صورتحال یہ ہے کہ بیشتر موبائلز تھانوں کے باہر کھڑی رہتی ہیں یا تھانہ انچارج کے ذاتی معاملات اور بھتہ وصولی کے کام آتی ہیں۔ سڑکوں اور شاہراہوں پر عوام کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں غیر محفوظ ہیں

بلکہ اب تو چارجڈ پارکنگ سے بھی موٹر سائیکلیں چوری ہونے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ نے گزشتہ روز چارجڈ پارکنگ کیس کی سماعت کے دوران بلدیہ عظمیٰ کراچی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پارکنگ کرنے والوں کو جو ٹوکن دیا جاتا ہے اس پر تحریر ہوتا ہے کہ گاڑی کی حفاظت کی ذمہ داری گاڑی کے مالک پر ہے۔ عدالت عالیہ نے سوال کیا کہ چارجڈ پارکنگ کا کیا فائدہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چارجڈ پارکنگ پر تعینات دیہاڑی دار کارندے گاڑیوں کی حفاظت کی بجائے پیسے اکٹھے کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری کس ادارے پر ڈالی جاسکتی ہے۔

پولیس حکام اعداد و شمار جاری کرنے کے بجائے اگر اس شہر کی ٹریفک اور شہریوں کے تحفظ کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی تشکیل دیں اور اس پر دیانت داری اور سنجیدگی سے عمل پیرا ہوں تو قانون کے سامنے جرائم پیشہ افراد کو جھکایا جاسکتا ہے۔

Leave a Reply