قوم کی بدقسمتی ہے کہ گورے سے جان چھڑانے کے باوجود اسی کی سامراجی قائم ہے اور حاکمین وقت عوام کی زندگی میں کوئی لمحہ آسودگی کے حق میں نہیں

سیاسی حکومتیں عوام کو سہولیات پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں کیوں کہ یہی لوگ عوامی ترجمان ہوتے ہیں انہیں دوبارہ عوام سے اعتماد حاصل کرنا ہوتا ۔ مگر اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ گورے سے جان چھڑانے کے باوجود اسی کی سامراجی قائم ہے اور حاکمین وقت عوام کی زندگی میں کوئی لمحہ آسودگی کے حق میں نہیںاور آئے روز نظام بہتر بنانے کے بجائے بدتر بنانے پر من و عن مامور ہیں۔

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اشرافیہ اس ملک کو قوم کی خیر خواہ ہے یا دشمن ؟ اور نہ ہی یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ پالیسیاں بنانے والے ذہنی طور پر دیوالیہ ھو چکے ہیں یا پھر ذہین ترین لوگ ہیں ۔اسکے نتیجے میں ریاست پاکستان میں مافیاز اس قدر طاقتور اور بے لغام ہو چکے ہیں کہ بلا خوف و خطر ریاست کے قوانین کی دھجیاں اڑاتے پھر رہے ہیں۔

پورے ملک میں نالائقی، نااہلی اور بد انتظامی کا جن، آدم بُو، آدم بُو، کی آوازیں لگا رہا ہے۔سب ٹھیک چل رہا تھا اچانک پھر ایک دن کھڑکی کھلی تو!!! عوامی جمہوری سندھ سرکار کو سندھ کی عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے اور شفافیت کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرنے اسے استعمال کرنے خبط چڑگیا اور حکومت سندھ نے گیارھویں جماعت میں داخلے کی پالیسی کو جدید اور سہل بنانے کےلئے پالیسی بنا ڈالی

جس کے نتیجے میں ” سندھ الیکٹرونک سینٹرالائزڈ ایڈمیشن پالیسی “(SECAP) تخلیق کر دی گئی، یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ داخلے کی پالیسی بنانے والے ذہنی طور پر دیوالیہ ہیں یا ذہین ترین لوگ ہیں ؟ اور کمال یہ ہے کہ پرائیویٹ کالجز نے طلبہ کو رزلٹ سے پہلےہی داخلہ دے کر کلاسسز شروع کر دیں۔” سندھ الیکٹرونک سینٹرالائزڈ ایڈمیشن پالیسی “(SECAP) کے تحت آن لائن داخلے کی شرائط ، 1- پانچویں کا سرٹیفکیٹ، 2- آٹھویں کا سرٹیفکیٹ، 3- میٹرک کا سرٹیفکیٹ، 4-

ڈومیسائل، 5-پی آر سی، 6- میٹرک کی مارک شیٹ، 7-کریکٹر سرٹیفکیٹ، 8- والد کا شناختی کارڈ، 9- نویں جماعت کی امتحانی سلپ، 10- نادرا جاری کردہ ویکسی نیشن سرٹیفکٹ، 11-طالب علم کا شناختی کارڈ/ب فارم، 12- چھ عدد تصاویر (اس پر تو داد بنتی ہے) 13۔بچے کا ای میل اکاؤنٹ ، رکھی گئی ہیں ۔ سوال یہ ھے جبکہ کالج میں داخلہ کیلئے میٹرک کی مارک شیٹ اور والد کا شناختی کارڈ ہی کافی ہوا کرتا تھا ۔ اس نئی پالیسی نے عوام کی زندگی ا س قدر سہل کردی ہے کہ عام آدمی یقیناً یہ سوچنے پر مجبور ہوچکا کہ عوامی جمہوری حکومت کی تعلیم ہی اولین ترجیح ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے

محکمہ تعلیم کے ماتحت سرکاری و نجی تعلیمی ڈائریکٹوریٹ سے یہ معلومات لی جانی چاہیں تھی بورڈز کے پاس معلومات موجود ہیں تو انکو استعمال کرنے کے بجائے قوم کی دوڑیں کیوں لگوائی جا رہی ہیں؟ یہاں یہ سوال بھی بنتا ہے کہ داخلہ پالیسی بنانے والوں کے ذہن میں کیا چل رہا ھےاور یہ پالیسی کس کو نوازنے کیلئے بنائی گئی ہے ؟ دوسری طرف ڈومیسائل اور پی آر سی اضافی رقم کی ادائیگی ۔ افلاطونوں نے پہلے ہی 99فیصد بچوں کو پاس اور چھپڑ پھاڑ نمبرز دے دئیے جبکہ ماضی میں میٹرک کا رزلٹ 45 سے 60 فیصد تک تھا۔ سرکار کی تعلیم دوستی کے سبب موجودہ دستیاب وسائل میں پاس ہونے

والے بچوں میں سے صرف 20 فیصد بچےہی داخلہ لے سکیں گے۔ شاہکار تو یہ ہوگا کہ حکومتی احمقانہ پالیسی کے سبب 90 فیصدسے زائد نمبر حاصل کرنے والے ہی داخلے کی دوڑ میں رہ جائیں گے۔ جبکہ نوے فیصد نمبرز لینے والے بچے حکومت سندھ کی داخلہ پالیسی کی شرائط کو پورا نہیں کر پائیں گے ۔ اس پالیسی کا نتیجے میں 80فیصد بچوں کو نجی تعلیمی اداروں کا رخ کرنا پڑے گا یا اپنی تعلیم کا خاتمہ میٹرک پر ہی کرنا ہوگا۔ نجی اداروں میں بھاری فیس کے عوض صرف میٹرک کی مارک شیٹ پر داخلہ مل جائے گا ۔’ ’ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھاـ‘‘۔

اسے کہتے ہیں پالیسی نجی اسکول مالکان بھی خوش ، سرکاری افسران بھی خوش۔ بدترین مہنگائی، معاشی طور پر تباہ حال والدین بچوں کے مستقبل کےخاطر مزید قرضے میں دھنستے ہیں تو دھنس جائیں ۔ وزیر تعلیم سندھ سے اپیل ہی کی جا سکتی ھے کہ اس مسئلہ کا نوٹس لیں ۔داخلہ شرائط فوری ختم کرائیں، اور تمام سرکاری کالجز میں دوسری شفٹ شروع کرائیں۔ جس سے بیس فیصد کے بجائے 40 فیصد میٹرک پاس طلبہ کا تعلیمی سلسلہ جاری رہے گا ۔

اس کے علاوہ تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو 25فیصد یا اس سے زائد طلبہ کو معمولی فیس(موجودہ کل فیس کا 5 یا 10 فیصد ) پر داخلہ کا پابند کریں۔ ان اقدامات سے جو والدین فیس کی ادائیگی کی سکت رکھتےہیں وہ بچوں کو نجی تعلیمی اداروں سے اور باقی سرکاری کالجز سے اپنے بچوں کو انٹر کرا لیں ۔ورنہ عوام سوچ لے کہ موجودہ داخلہ پالیسی سے لگتا ھے کہ حکومت اپنے بچوں کو پڑھانے کے بجائے دشمن کے بچوں کو پڑھا رہی ہے

Leave a Reply