قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے احکامات کے باوجود پنشن فنڈ سیڈیفنس اتھارٹی گولف کلب کی رکنیت کی مد میں وصول کردہ 250,000 روپے اور23 لاکھ روپے کی خطیر رقم واپس کرنے سے صاف انکار اور قانونی کارروائی کی دھمکی !
جہاں ایک جانب موجودہ حکومت ملک میں کرپشن کے خاتمہ اور ہر سطح پر احتسابی عمل کے لئے کوشاں ہے، وہیں دوسری جانب منسٹری آف اوورسیز پاکستانی اینڈ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ، حکومت پاکستان کی زیر نگرانی غریب محنت کشوں کی پنشن کے محکمہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کے سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے واضح احکامات کے باوجود اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ای او بی آئی سے غیر قانونی طور پر ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈ گولف کلب کراچی کی رکنیت فیس کی مد میں وصول کردہ 250,000روپے اور23لاکھ روپے کی رقم واپس کرنے سے صاف انکارکرتے ہوئے الٹا ای او بی آئی کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی دیدی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ملک کے غریب محنت کشوں کے ای او بی آئی پنشن فنڈ میں زبردست لوٹ مار اور کرپشن کے واقعات سامنے آنے کے بعدقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منسٹری آف اوورسیز پاکستانی اینڈ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ، نے اسلام آباد میںاپنے اجلاس منعقدہ بتاریخ9،اپریل2021ء کو وزارت کے دیگر امور کے فیصلوں کے ساتھ ساتھ ای او بی آئی کے سابق چیئرمین اظہرحمید سمیت گزشتہ دس برسوں کے دوران دیگر چیئرمین حضرات کی جانب سے ای او بی آئی پنشن فنڈ سے غیر قانونی طور پر اسپورٹس کلبوں کی رکنیت حاصل کرنے اور اظہر حمید کی جانب سے ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈگولف کلب کراچی کی رکنیت کے لئے3ملین روپے کی خطیر رقم وصول کرنے کے معاملہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ای او بی آئی کی انتظامیہ کو ادارہ کے تمام سابقہ چیئرمین حضرات سے کلبوں کی رکنیت فیسیں فوری طور پر واپس وصول کرکے قائمہ کمیٹی کو اس کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔ جس پر عملدرآمد کے لئے وفاقی سیکریٹری ، منسٹری آف اوورسیز پاکستانی اینڈ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ حکومت پاکستان، عشرت علی نے فوری طور پرای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا ہنگامی بنیادوں پر اجلاس طلب کرکے بورڈ کے123ویں اجلاس منعقدہ29-30 جولائی2021ء میںای او بی آئی کے گزشتہ دس برسوں کے دوران تعینات رہنے والے سابق چیئرمین حضرات کی جانب سے مختلف تفریحی اور اسپورٹس کلبوں کی فیسوں کے نام پربھاری رقوم کی وصولیوں کی تفصیلات طلب کرلی تھیں۔ جس کے مطابق ای او بی آئی کے ایک سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل نے مالی سال2010-11 کے دوران تفریحی کلب فیس کی مد میں 600,000روپے ،سابق چیئرمین خاقان مرتضیٰ نے مالی سال2018-19کے دوران کلب فیس کی مد میں50,000روپے اور خصوصا سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید نے مالی سال2019-20 کے دوران گولف کلب کی
فیس کی مد میں 250,000روپے اور اظہر حمید نے دوبارہ مالی سال 2020-21 کے دوران کلب فیس کی مد میں2,300,000روپے وصول کئے تھے ۔جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی بیوروکریسی کے یہ سنگدل افسران کس بیدردی کے ساتھ ملک کے غریب محنت کشوں کے ای او بی آئی پنشن فنڈ پر ذاتی عیاشیاں کرتے رہے ہیں۔
اس تشویشناک صورت حال پر ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے ایک متفقہ فیصلہ کے ذریعہ ای او بی آئی کی انتظامیہ کو ادارہ کے ان تمام سابقہ چیئرمین حضرات سے کلب فیسوں کی مد میں وصول کردہ یہ بھاری رقوم واپس لینے کی ہدایات کی تھی۔جس پر سابق چیئرمین خاقان مرتضیٰ نے تو فوری طور پر اپنے ذمہ واجب الادا رقم ای او بی آئی کے پاس جمع کرادی تھی۔لیکن قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے واضح فیصلہ کے باوجود ای او بی آئی کی قانون شکن انتظامیہ کے اعلیٰ افسران ڈیپوٹیشن پر تعینات ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی اور ڈائریکٹر جنرل فنانس ناصرہ پروین خان ای او بی آئی کے دیگر سابق چیئرمین حضرات سمیت اپنے سابق باس اظہر حمید، چیئرمین ای او بی آئی سے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے ڈیفنس اتھارٹی گولف کلب کی رکنیت کے لئے بٹوری جانے والی ان بھاری رقوم کی وصولی میں انتہائی عدم دلچسپی اور سرد مہری کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔ جس کے باعث ان اعلیٰ افسران کی طاقت کے سامنے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے فیصلے بالکل بے وقعت ہوکر رہ گئے ہیں۔
ای او بی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے گورنمنٹ آڈٹ اینڈ اکائونٹس گروپ آف پاکستان کے گریڈ20کے افسر اظہر حمید کو 19مارچ 2019ء کو دو برس کے لئے ای او بی آئی جیسے فلاحی ادارہ کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ لیکن اظہر حمید نے اپنے عہدہ کا چارج سنبھالتے ہی ای او بی آئی میں ماضی کے ایک سابق اور انتہائی بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کے غریب محنت کشوں کے400ارب روپے کے پنشن فنڈ کے امین کے اہم ترین منصب کی نگہبانی کے بجائے اس فلاحی ادارہ کو برطانوی وائسرائے کے انداز میں اپنی آمرانہ پالیسیوں اور مطلق العنانی اور لوٹ مار کے باعث ای او بی آئی کو ایک خود مختار ریاست بنادیا تھا۔ جس کے باعث اظہر حمید کے کے دو سالہ دور کو ای او بی آئی کی تاریخ کا سیاہ ترین دور کہا جا تا ہے۔ای او بی آئی ملک کے لاکھوں غریب محنت کشوں کے چندہ کی رقم (Contribution) سے چلتا ہے، جو ہر ماہ اپنی پنشن کی امید پر اپنا پیٹ کاٹ کر ای او بی آئی کے پاس اپناContribution جمع کراتے ہیں۔
سابق چیئرمین اظہر حمید نے ای او بی آئی میں اپنے دو برسوں کے دوران ای او بی آئی کے مقررہ طریقہ کار کو یکسر نظر اندازکرکے جنوری2020ء میں پہلے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل ،پنشنرز اور حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کئے ادارہ کے اثاثہ جات اور واجبات کی Actuarial Valuation کرائے بغیر وفاقی حکومت سے ای اوبی آئی پنشن میں اضافہ کا اعلان کرادیا تھا ۔لیکن وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پنشن میں اضافہ کی منظوری کے دوران وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی جانب سے پنشن میں اضافہ کے اس غیر قانونی اقدام پر اعتراض اٹھانے پر اس عمل کو روک دیا گیا تھا ۔ جس پر چیئرمین ای او بی آئی اظہر حمید نے وفاقی حکومت کو سبکی سے بچانے اور پنشن میں اضافہ کے اعلان کی لاج رکھنے کے لئے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت نہایت عجلت میں کراچی کی ایک غیر معروف کمپنیM/s Sir Cunsultants کراچی سے بلاٹینڈر شائع کرائے تھے اور اس کمپنی سے نہایت مشکوک طریقہ سے من مانے اعداد و شمار کی بنیاد پر Actuarial Valuation کراکے اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی ملی بھگت سے وفاقی حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ای او بی آئی کی پنشن میں اضافہ کرادیا تھا۔بعد ازاں یہ خبر منظر عام پر آنے کے بعدآڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ای او بی آئی سے اس مشکوک Actuarial Valuation کی رپورٹ پہلے ہی طلب کرلی ہے ۔
بتایا جاتا ہے کہ اپنی تعیناتی کے گزشتہ دو برسوں کے دوران ای او بی آئی کے چیئرمین اظہر حمید کے آئے دن اسلام آباد کے دوروں کے باعث ای او بی آئی سے ماہانہ لاکھوں روپے کے ٹی اے، ڈی اے کی ادائیگیوں،مہنگے ہوٹلوں میں قیام وطعام ، گاڑیوں اور پٹرول کے بے تحاشہ استعمال ، بھاری رقوم کے میڈیکل بلوں اور سرکاری اجلاسوں میں شرکت کے نام پربھاری فیسیں بھی ای او بی آئی کو برداشت کرنا پڑی تھیں۔اس طرح ای او بی آئی کے سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں اور من مانی کے باعث ای او بی آئی کو ہر سطح پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ،جس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی ضرورت ہے۔
ای او بی آئی کے ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ سابق چیئرمین اظہر حمید نے ای او بی آئی کے ماضی کے ایک انتہائی بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل( ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ طور پر400افراد کو کلیدی عہدوں پر بھرتی کرنے کا ذمہ دار اور غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے نام نہاد سرمایہ کاری کے نام پر35ارب روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل کا سرغنہ ،یہ میگا لینڈ اسکینڈل 2013ء میںسپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس کے تحت تاحال زیر سماعت ہے) کی طرح اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت ای او بی آئی میں دیگر سرکاری محکموں سے موجودہ ڈائریکٹر جنرل ایچ آرڈپارٹمنٹ اور جی اے ڈی ڈپارٹمنٹ،میڈم شازیہ رضوی ( وزارت میری ٹائم افیئرزکی خاتون افسر اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت ایکNABریفرنس میں نامزد)،میاں عثمان علی شاہ،( وزارت نیشنل فوڈ سیکیوریٹی اینڈ ریسرچ اسلام آباد کا ایک سیکشن افسر ) ڈپٹی ڈائریکٹر اورپرسنل اسٹاف افسر معاون خصوصی زلفی بخاری، ظفر علی بزدار، ڈائریکٹر بی اینڈ سی، اسلام آباد،( فیڈرل لینڈ کمیشن اسلام آباد کا افسر) ثاقب حسین، اسسٹنٹ ڈائریکٹر انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس( گورنمنٹ آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروس کا جونیئر افسر) کو ڈیپوٹیشن پر لاکر اور ادارہ کے سینئر اور تجربہ کار افسران کو سائیڈ لائن کرکے ادارہ کے چند انتہائی جونیئر اور نان کیڈر جی حضوری افسران محمد نعیم شوکت قائم خانی، ڈائریکٹر کوآرڈینینشن اور ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ، ہیڈ آفس،( 2007ء میں ایک کوالیفائڈ امیدوار محمد نواز کا حق مار کر اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھرتی ہونے والا اور سندھ شہری کے ڈومیسائل کا حامل ہونے کے باوجود غیر قانونی طور پر سندھ دیہی کے کوٹہ پر بھرتی ہونے والا) میڈم نزہت اقبال، قائم مقام ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ ، شفیق احمد پتر،قائم مقام ڈائریکٹر فنانس ،( ای او بی آئی میں ہر غیر قانونی ادائیگیوں کا سب سے بڑا سہولت کار)خالد نوازمروت، قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل(مشکوک ایم بی اے کی ڈگری کے نام پر غیر قانونی طور پر ای او بی آئی سے لاکھوں روپے کے بقایاجات وصول کرنے کے اسکینڈل میں ملوث افسر) 2014ء میں بلا کسی تجربہ اور انٹرویو کے بھرتی شدہ قدیر احمد چوہدری،قائم مقام ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کو غیر قانونی طور پر نوازشات کی بارش کرکے اورقائم مقام ڈائریکٹر کا درجہ دے کر اور 2014ء میں بلاکسی تجربہ اور انٹرویو کے بھرتی ہونے والے اپنے ہم شکل انتہائی جونیئر اور نان کیڈر افسر طاہر صدیق ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کو بیک وقت پانچ(5) نہایت کلیدی عہدوں پر تعینات کرکے ای او بی آئی ہیڈ آفس میں اپنا ایک منظم نیٹ ورک قائم کرلیا تھا۔
ای او بی آئی کے جی حضوری افسران کا یہ گروپ سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کے ہر جائز و ناجائز حکم کی تعمیل کے لئے ان کی ابرو کے ایک اشارہ کے منتظر رہا کرتے تھے ۔یہ تمام کے تمام جی حضوری افسران اظہر حمید کو ان کی ریٹائرمنٹ کے دن 23لاکھ روپے کی دو ادائیگیوں میں پوری طرح ملوث تھے۔واضح رہے کہ 18فروری2021ء کو اظہر حمید کو دو علیحدہ علیحدہ چیکوں کے ذریعہ23لاکھ روپے کی دو ادائیگیاں کی گئی تھیں۔ان میں ایک چیک ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈ گولف کلب کی رکنیت فیس کا جبکہ دوسرا چیک اظہر حمید کیLPR اور اپیلیٹ اتھارٹی کی فیسوں کے متعلق تھا۔ لیکن اظہر حمید کے جی حضوری افسران نے 23،لاکھ روپے کے دوسرے چیک کو بورڈ آف ٹرسٹیز سے جان بوجھ کر پوشیدہ رکھا تھا۔وزارت کے سیکریٹری اورای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر عشرت علی نے ای او بی آئی کو سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کی باقیات سے پاک کرنے کا عزم کررکھا ہے۔جس کے تحت انہوں نے منسٹری کا چارج سنبھالنے کے فورا بعد انہوں نے نا صرف سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کی ای او بی آئی میں دوبارہ کنٹریکٹ پر 3برسوں کے لئے مسلط ہونے کی چال کو بری طرح ناکام بنایا بلکہ اظہر حمید کے ایک خاص دست راست ڈیپوٹیشن پر تعینات محمد اعجاز الحق، ڈائریکٹر جنرل آپریشنز(نارتھ) اور معاون خصوصی زلفی بخاری کے PSO میاں عثمان علی شاہ کی بھی چھٹی کرکے ان کے اصل محکمہ واپس بھیج دیا تھا۔ای او بی آئی کے ملازمین نے منسٹری کے اصول پرست سیکریٹری اوربورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر عشرت علی سے اپیل کی ہے کہ وہ ای او بی آئی کو کرپشن سے مکمل پاک کرنے کے لئے اظہر حمید کی باقایات اور اس کے ذاتی مفادات کے محافظ محمد نعیم شوکت قائم خانی، ڈائریکٹر کوآرڈینیشن اور ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ اور طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ سمیت ان تمام بدعنوان اور جی حضوری افسران کو فوری طور پر انتہائی کلیدی عہدوں سے ہٹانے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے واضح احکامات کے باوجود ای او بی آئی میںخلاف ضابطہ طور پرڈیپوٹیشن پر تعینات ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ، شازیہ رضوی اور میڈم ناصرہ پروین خان ڈائریکٹر، جنرل فنانس ہیڈ آفس نے اپنے سابق باس ای او بی آئی کے سابق چیئرمین اظہر حمید سے غریب محنت کشوں کے ای او بی آئی پنشن فنڈ سے غیر قانونی طور پر ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈ گولف کلب کراچی کی رکنیت کی مد میں وصول کردہ 23لاکھ روپے کی خطیر رقم کی وصولی کے لئے ان کی ناراضگی مول لینے کے بجائے اور ان سے اپنی تسلی بخش سالانہ خفیہ رپورٹ (ACR) لکھوانے کے ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر23لاکھ روپے کی غیر قانونی وصولی کا خط اپنے دستخطوں سے ارسال کرنے کے بجائے اس مقصد کے لئے سراسر غیر قانونی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے فنانس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کے ایک فرض شناس لیکن جونیئر افسر عامر جاوید، ڈپٹی ڈائریکٹر کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے24اگست2021ء کو سابق چیئرمین اظہر حمید کو ان کے دستخطوں سے خط ارسال کرایا گیا۔لیکن اظہر حمید نے اس خط پر کوئی توجہ نہ دی، جس پر سابق چیئرمین اظہر حمید کو دوبارہ 29ستمبر2021ء کوعامر جاوید کے دستخطوں سے ایک اور خط بھجوایا گیا۔ جس پرای او بی آئی کے سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید نے بالآخر8اکتوبر2021ء کوعامر جاوید ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کے بجائے پنے انتہائی جی حضوری افسر اور سابقہ فرنٹ مین محمد نعیم شوکت ،ڈائریکٹر جنرل ایچ آر اور ڈائریکٹرجی اے ڈی ڈپارٹمنٹ، کو عامر جاوید ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کے توسط سے ای او بی آئی کو23لاکھ روپے کی گولف کلب کی فیس واپس کرنے کے بجائے ایک دھمکی آمیز جواب بھجوایا ہے۔اپنے اس جوابی خط میں سابق چیئرمین اظہر حمید نے بڑی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے غریب محنت کشوں کے امانتی پنشن فنڈ کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے اوراپنے حق میںمختلف تاویلیں پیش کرتے ہوئے اس رقم کو قانونی اور اپنا جائز حق قرار دیتے ہوئے نا صرف 23لاکھ روپے کی خطیر رقم ای او بی آئی کو واپس کرنے سے انکار کیا ہے، بلکہ اس خط کو واپس نہ لینے کی صورت میں ای او بی آئی کو قانونی کارروائی کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے۔واضح رہے کہ سابق چیئرمین اظہر حمید کو گولف کلب کی فیسوں کی مد میں ادا شدہ 250,000روپے اور 2,300,000 روپے کی بھاری رقوم سے8,500روپے ماہانہ پنشن کے حساب سے ای او بی آئی کے 300پنشنرز کوپورے ایک ماہ کی پنشن ادا کی جاسکتی تھی۔کیا ستم ظریفی ہے کہ ای او بی آئی کے سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کی رقم سے گولف جیسا مہنگے کھیل سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور دوسری طرف ای او بی آئی کے ہزاروں رجسٹرڈ بوڑھے اور بیوائیں ایک عرصہ سے اپنی پنشن کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ ای او بی آئی کے سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید نے ادارہ میں اپنے چند لاڈلے اور جی حضوری افسران محمد نعیم شوکت، ڈائریکٹر کوآرڈینیشن اور ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ اور طاہر صدیق ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کو غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ میں ہر قسم کی کھلی لوٹ مار ،ماہانہ بنیاد پر کراچی ،لاہور اسلام آباد کے ہوائی سفراور مجاز نہ ہونے کے باوجود بورڈ آف ٹرسٹیز اور بورڈ کی ذیلی کمیٹیوں اور پبلک اکائونٹس کمیٹی اسلام آبادکے مختلف اجلاسوں میں شرکت ، بڑے بڑے ہوٹلوں میں قیام و طعام ، ماہانہ بھاری ٹی اے ڈی اے بلوں کی وصولی، ایڈیشنل الائونسز اور فیلڈ آپریشنز کے ریجنل ہیڈز، ڈپٹی ریجنل ہیڈز اور بیٹ افسران کے ٹرانسفرز اور پوسٹنگ کے نام پر منہ مانگی بھاری رقوم اور نذرانوں کی وصولی کے لئے کا لائسنس دے رکھاتھا۔ان میں بحریہ ٹائون سے ای او بی آئی کنٹری بیوشن کے کروڑوں روپے کی رقوم میں جوڑ توڑ کرکرکے کئی کروڑ روپے بٹورنے والا معاملہ بھی قابل ذکر ہے۔
ای او بی آئی کے سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کی جانب سے ان بدعنوان ، انتہائی جونیئر اور نان کیڈر افسران محمد نعیم شوکت، بیک وقت ڈائریکٹر کوآرڈینیشن اور ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن ہیڈ آفس، 2014ء میں بلا کسی تجربہ اور انٹرویو بھرتی ہونے والاطاہر صدیق، اسٹاف افسر برائے ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی اوراسسٹنٹ ڈائریکٹرایچ آر ڈپارٹمنٹ، 2007ء میں
IBAکے انٹری ٹیسٹ میں فیل ہوجانے کے باوجود بھرتی ہونے والا انتہائی کرپٹ افسر مزمل کامل ملک، ریجنل ہیڈ کراچی سنٹرل، شفیق احمدپتر،قائم مقام ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس،ڈیپوٹیشن پر تعینات ثاقب حسین، اسسٹنٹ ڈائریکٹر انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ کی اب تک ان کلیدی عہدوں پر موجودگی منسٹری کے اچھی ساکھ کے حامل سیکریٹری عشرت علی اور ای او بی آئی کے موجودہ ایماندار اور اصول پرست چیئرمین شکیل احمد منگنیجو کی ساکھ پر ایک سوالیہ نشان ہے!
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرFIAاورNAB ای او بی آئی کے سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید اور ان کے خاص دست راست اور ان کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور بھاری کرپشن کے رازداں افسران محمد نعیم شوکت اور طاہر صدیق کے دو سالہ بدترین کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے ریکارڈ کی تحقیقات کرے تو نہایت سنسنی خیز انکشافات سامنے آئیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ اظہر حمید کو ان کی ریٹائرمنٹ کے دن18فروری2021ء کے دن 46،لاکھ روپے ( 23لاکھ روپے ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈ گولف کلب اور23لاکھ روپےLPRکی مد میں ) کی ادائیگی کو ہر حال میں یقینی بنانے کے لئے2014ء میں بھرتی ہونے والے طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے ڈیپوٹیشن پر تعینات خاتون ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کی ایماء پر سمری تیار کی تھی،2014ء میں بھرتی ہونے والے انتہائی جونیئر لیکن جی حضوری افسر قدیر احمد چوہدری،قائم مقام ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ نے ان غیر قانونی ادائیگیوں ک کو قانونی قرار دینے کا Legal Opinion فراہم کیا تھا،جبکہ شفیق احمد پتر،قائم مقام ڈائریکٹر فنانس نے بھی اپنا پورا پورا حصہ ڈالتے ہوئے سابق چیئرمین اظہر حمید کے دست راست محمد نعیم شوکت،ڈائریکٹر کوآرڈینیشن کو کھڑے کھڑے23لاکھ روپے مالیت کے دو چیک تیار کرکے دیئے تھے ۔یہ تمام لاڈلے قائم مقام افسران اظہر حمید کو غیر قانونی ادائیگیوں کے عمل میں پوری طرح ملوث ہیں اور سخت انضباطی کارروائی کے مستحق ہیں۔
واضح رہے کہ سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید ان تمام جی حضوری جونیئر افسران سے سودے بازی کی نیت سے اور اپنے غیر
قانونی امور میں مزاحمت نہ کرنے کے وعدہ پر ای او بی آئی کو ٹرسٹ انسٹی ٹیوشن کے بجائے اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے ان تمام جونیئر اور لاڈلے افسران کو پرکشش مراعات،ہر ماہ بھاری ٹی اے ڈی اے، سرکاری گاڑیاں، ماہانہ سینکڑوں لٹر پٹرول،ڈرائیور کی تنخواہیں، موبائل فون چارجز،اخبارات و میگزین کی سہولیات فراہمی کرکے غیر قانونی طور پر قائم مقام ڈائریکٹر زکے عہدوں پر فائز کیا تھا ۔
ای او بی آئی میں اندھیر نگری چوپٹ راج کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سابق اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید اورای او بی آئی کی ایک پارٹ ٹائم خاتون ڈائریکٹر جنرل ایث آر دپارٹمنٹ،میڈم شازیہ رضوی کی مددسے بھاری مالی فوائد اور پرکشش مراعات سمیٹنے کے باوجود اورآفس ڈرافٹنگ، نوٹنگ اور سمری تیار کرنے کی صلاحیتوں سے بالکل محروم اور طاہر صدیق ،اسسٹنٹ ،ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی مدد سے آفس کے روزمرہ امور تیار کراکے آگے پیش کرنے والی ،سندھ اسمال انڈسٹریز کارپوریشن کراچی کی ایک سابق جونیئر ملازمہ اوربھاری سفارش کے ذریعہ ای او بی آئی میں بھرتی ہوکر سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح احکامات کے باوجود غیر قانونی طور پر ای او بی آئی کی ملازمت میں ضم ہونے والی، ای او بی آئی کے افسر کے عہدہ کے لئے ہر لحاظ سے ناقابل قبول ایم اے اردو کی غیر متعلقہ تعلیمی ڈگری، کراچی شہر سے تعلق کے باوجود ضلع دادو ( سندھ دیہی) کے مشکوک ڈومیسائل کی حامل خاتون افسرمیڈم نزہت اقبال،قائم مقام ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس نے تو ای او بی آئی میںخوشامد کا ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا تھا۔
جس کے تحت نزہت اقبال، قائم مقام ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ نے سابق و بدعنوان چیئرمین اظہر حمید اور ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کی خصوصی دلچسپی سے خود کو قائم مقام ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ بنائے جانے کے بعد اظہر حمید سے اپنی نمک حلالی کا حق ادا کرتے ہوئے اور ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کی ایماء پر مجاز افسر نہ ہونے کے باوجودچیئرمین اظہر حمید کی ریٹائرمنٹ کے بعد22مارچ2021ء کو ای او بی آئی میں اظہر حمید کے دوسالہ دور پر ان کی شان میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے نو(9) انتہائی مبالغہ آمیز دعووں اور خودساختہ کارناموں پر مبنی جعلی کارکردگی پیش کرکے حکومت پاکستان کو اظہر حمید کے لئے سول ایوارڈ کی سفارش کرتے ہوئے پانچ صفحات پر مشتمل خط بھی ارسال کیا تھا، جو وفاقی حکومت کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے، جس کے باعث میڈم نزہت اقبال ،قائم مقام ڈائریکٹرکے خلاف بھی سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔