
ریگل چوک ماضی میں حکومت مخالف سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر مشہور رہا ہے، اس چوک پر سیاسی جماعتیں حکومت مخالف، طلباء اور مزدور تنظیمیں اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے اور ریلیاں منعقد کیا کرتی تھیں، اب حکومت مخالف مظاہروں اور اپنے مطالبات کے حق میں مظاہروں، ریلیوں اور دھرنوں کا مر کز کراچی پریس کلب بن گیا ہے،پہلے اس نوعیت کی ریلیوں کا آغاز یا اختتام ریگل چوک پرہوا کرتا تھا، جہاں مقررین اپنے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اب کراچی پریس کلب کے سامنے یہ کار خیر انجام دیاجاتا ہے، ماضی میں ایسی ریلیوں اور مظاہروں کی تشہیر کیلئے چلو چلو ریگل چوک کے نعرے شہر کی دیواروں پر جلی حروف میں تحریر ہوا کرتے تھے۔ان سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ریگل چوک پر خفیہ پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکار بھی موجود ہوا کرتے تھے۔ جبکہ ان کے افسران ریگل چوک کے اطراف میں واقع ہوٹلوں اور ریستورانوں میں بیٹھ کر حکومت مخالف سرگرمیوں کا جائزہ لیا کرتے تھے۔، ریگل چوک تو آج بھی مشہور ہے لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا اب تو سیاسی ورکرز ، مزدور ، سماجی رہنمااور صحافی بھی پریس کلب کے سامنے اپنا شور شرابہ کرکے فرض پورا کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں ریگل چوک پر مظاہروں کے علاوہ مداری تماشہ لگا کر کچھ چیزیں بشمول تعویز، سلاجیت وغیر بھی بیچتے تھے، ا س زمانے میں پاکستان کی سب سے بڑی الیکٹرونک مارکیٹ بھی یہیں تھی، ایک اخبار والا تھا ۔ اس وقت آج کی طرح ریگل چوک پرٹریفک کا رش اتنا نہیں ہوتا تھا مگر ٹاور سے شہر کے دیگر حصوں میں جانے والی گاڑیاں زناٹے کے ساتھ ریگل چوک سے ایمپریس مارکیٹ چلی جاتی تھیں ا س وقت کراچی کے پرانے درخت بھی ریگل چوک کی ایک پہچان تھے۔ جو دکانوں کے اشتہاری بورڈ نظر آنے میں دشواری کے سبب سنگدل اور ماحول دشمن دکانداروں نے کاٹ دئے یا کٹوا دہئے۔
ریگل چوک شیعہ فرقہ کے مذہبی جلوسوں کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے، 9,8محرم، یوم عاشور اور چہلم اور چپ تعزیہ سمیت یوم علی کے جلوس نشتر پارک سے بر آمد ہوکر ایمپریس مارکیٹ سے ہوتے ہوئے ریگل چوک سے گذر کر دوبارہ ایم اے جناح روڈ کی طرف جاتے ہیں ۔ ریگل چوک سے گذرنا ان کے روائتی اور الاٹ کردہ روٹ کا حصہ ہے۔ عید میلاد النبی کے جلوس بھی اسی چوک سے گذر کر ایم اے جناح روڈ کی طرف جاتے ہیں۔ یہاں ہم ریگل چوک کے اطراف کا اختصار سے جائزہ لیتے ہیں، جس سے ہمیں قدیم کراچی کے خدوخال ،تاریخی پس منظر کے متعدد گوشوں سے آگہی ہوسکتی ہے۔
کراچی کا ریگل چوک تاریخی، تجارتی اور سیاسی حوالے سے ملک گیر شہرت رکھتا ہے۔ریگل چوک کراچی کے اولڈ سٹی ایریا کی معروف اور تاریخی اہمیت کی حامل سڑک پر واقع ہے، پریڈی اسٹریٹ کراچی کی ترقی اور اس کے نظم و نسق سے گہری دلچسپی رکھنے والے تاج برطانیہ کے دور کے پہلے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کیپٹن ایچ ڈبلیو پریڈی کے نام سے موسوم ہے۔اس سڑک کے اطراف میں میگزین لائن ہے، جہاں کبھی برطانوی فوجیوں کی رہائشگاہیں تھیں، اب یہاں کاروں کی ڈینٹنگ اور پینٹنگ کا کام ہوتا ہے۔ اس سڑک پر تاریخی ایمپریس مارکیٹ، ایڈلجی ڈنشا ڈسپینسری، جہانگیر پارک، گھڑیالی بلڈنگ،اور دیگر قدیم عمارتیں واقع ہیں۔ ریگل چوک کا نام ایک قدیم سینما گھر ریگل سینماکے نام سے مستعار لیا گیا ہے، یہ سینما بھی برطانوی دور کی یادگار ہے، یہ سینما گھر1930میں برطانوی فوجیوں کی تفریح کیلئے قائم کیا گیا تھا۔اب اس سینما کی جگہ پر تین عشروں قبل ریگل ٹریڈ اسکوائر قائم کیا گیا ہے۔

محل وقوع
ریگل چوک کے اطراف میں چند قدم کے فاصلے پر مشہورتجارتی، تاریخی اور،قومی اہمیت کی حامل قدیم عمارتیں واقع ہیں، جن میں نہ صرف اہم سرکاری دفاتر واقع ہیں، بلکہ وہ ایک ایسا ثقافتی پس منظر بھی رکھتی ہیں،جن کے سرسری جائزے سے قدیم کراچی کے خدوخال بھی واضح ہوجاتے ہیں۔ریگل چوک کے مشرق میں پچاس قدم کے فاصلے پر اکبر روڈواقع ہے ،جس کا نام مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے نام پر رکھا گیا ہے، اس روڈ پر کراچی میں موٹر سائیکلوں کی سب سے قدیم موٹر سایکل مارکیٹ واقع ہے، اس کے دائیں جانب ڈھائی سو سالہ قدیم مندر واقع ہے، اس میں ایک قدیم تالاب رتن تلاؤ کے نام سے آج بھی مشہور ہے،اس مندر کے قریب قدیم تعلیمی ادارہ نبی باغ گورنمنٹ کالج ہے۔یہاں ایک قدیم عمارت میں ریڈیو پاکستان کے سینئر فنکار منی باجی (پروین اختر)مرحوم اور فلم، ٹی وی اور ریڈیو کے فنکار مقصود رہا کرتے تھے۔ ریگل چوک سے شاہراہ لیاقت بھی شروع ہوتی ہے، جو آرام باغ ،فریسکو چوک سے ہوتی ہوئی نیو چالی پر ختم ہوتی ہے۔ ریگل چوک کے دائیں جانب الیکٹرونک مصنوعات اور موبائل فون کی خرید و فروخت کی بڑی بڑی مارکیٹیں واقع ہیں، ریگل چوک کے جنوب میں سو قدم کے فاصلے پر مشہور مسجد خضرا،پاسپورٹ آفس،پی آئی ڈی، اور ایف آئی اے کے دفاتر ہیں، اس چوک کے مشرق میں تا ریخی ایمپریس مارکیٹ واقع ہیں۔
سیاسی حوالہ

ریگل چوک سیاسی حوالے سے بھی ایک بڑا نام ہے، یہ نہ صرف سیاسی مظاہروں کا مرکز رہا ہے ،بلکہ اس چوک اور اس کے اطراف میں متعدد سیاسی رہنماؤں سمیت مزدور اور طلباء رہنماؤں کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں۔ یہاں پر سابق وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے بعد پیپلز پارٹی کے شعبہ خواتین کے تحت ایک بڑا احتجاجی مظاہر کا اہتما م کیا گیا تھا، جو بعد ازاں ہنگامہ آرائی میں تبدیل ہوگیا تھا، کئی خواتین رہنما بھی گرفتار کی گئی تھیں، اکتوبر 1999میں میاں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کے بعد سینیٹر مشاہداللہ مرحوم نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کی، بعد ازاں وہ کچھ لوگوں کے ساتھ مظاہرہ کیلئے ریگل چوک کی طرف جارہے تھے، انہیں روکا گیا، بعد ازاں مزاحمت کے بعد سینیٹر مشاہد اللہ کو ریگل چوک سے گرفتار کیا گیاتھا۔ریگل چوک پاکستان میں احتجاج کی تاریخ کاایسا مرکز رہا ہے، جس کے دامن میںسیاسی اور مزاحمتی سیاست کی کئی تاریخی داستانیں سمٹی ہوئی ہیں۔ ہم یہاں دو ایسی داستانوں کا زکر اختصار کے ساتھ کرتے ہیں ،جو کراچی میں سیاسی واقعات کے حوالے سے اہم رہی ہیں ،اور ان کے اثرات آج بھی محسوس کئے جاتے ہیں۔
تاریخی مظاہرہ
سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ممتاز علی بھٹو کے دور میں سندھ اسمبلی میں ایک لسانی بل پیش کیا گیا تھا، جس میں سندھی کو صوبہ کی۹ سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔جبکہ ملک کین تینوں اسمبلیوں میں ایک ہی زبان اردو تسلیم کی جاچکی تھی، شہر کی ممتاز شخصیات نے اس بل کے خلاف سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکتر اشتیاق حسین قریشی کی قیادت میں مظاہرہ کیاتھا، یہ اردو زبان کے حق میں ایسا عظیم مظاہرہ تھا، جس میں کراچی کی ممتاز ترین ادبی سیاسی ،علمی، صحافتی شخصیات کے ہاتھوں میں بینرز تھے، یہ جمعہ کا دن تھا، اس روز کراچی اور حیدراباد سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں ہڑتال بھی کی گئی تھی۔ اس مظاہرہ کا اہتمام تحریک نفازاردو کے چیف آرگنائزر پروفیسر ڈاکتر ھفیظ الرحمٰن صدیقی نے کیا تھا۔ اس مظاہرے کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں جامعہ کراچی کے دو وائس چانسلرز نے شرکت کی تھی۔ جبکہ دیگر شرکاء میں وائس چانسلر ڈاکتر محمود حسین، اردو کالج کے پرنسپل عطا الرحیم، ممتاز محقق ڈاکتر ایوب قادری، تحریک پاکستان کے رہنما حسین امام، پروفیسر شاہ فرید الحق، محمود الحق عثمانی، محمود احمد مدنی، ظہور نیازی، رئیس امروہوی، پروفیسر سحر انساری، زاہدہ حنا، نثار احمد زبیری، طالب علم رہنما، دوست محمد فیضیِ ،صفدر علی، ظہورالحسن بھوپالی، محفوظ النبی،اظہار حیدری وغیرہ کے نام قابل زکر ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہوگا کہ اسی روز جنگ اخبار میں رئیس امروہوی کا قطعہ اردوکا جنازہ ہے زرا دھوم سے نکلے،1972ابلاغ عامہ کے ذرائع محدود ہونے کے باوجود یہ قطعہ اتنا مقبول ہوا تھا کہ ہر خاص و عام کی زبان پر ٹاک آف ٹاؤن بن گیا تھا۔

خفیہ پولیس کی آماجگاہ
نامورصحافی علی احمد خان کے مطابق ایک شاہ صاحب بھی ہوا کرتے تھے جو غالباً محکمہِ سراغ رسانی سے متعلق تھے اور ان کی بیٹ طلبا کی سرگرمیاں تھیں- چنانچہ عام دنوں میں ریگل چوک کے قریب ایسٹرن کافی ہاؤس، فریڈریک کیفے ٹیریا اور بختیاری ریسٹورنٹ کے اردگرد ہی پائے جاتے تھے، طلبا سے بہت بے تکلف تھے- علی احمد خان کہتے ہیں طلبا نے جب ایوب حکومت کے خلاف تحریک چلائی تو کوئی گیارہ طالب علم رہنماؤں کوگرفتارکر لیا گیا جن پر مارشل لا عدالت میں مقدمہ چلا اس مقدمے میں شاہ جی طلبا کے خلاف گواہ کے طور پر پیش ہوئے- ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ ان ملزمان کو پہچان سکتے ہیں تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں ان کی شکل دیکھے بغیر ان کی آوازوں سے پہچان سکتا ہوں ، چنانچہ عدالت نے انہیں پیٹھ عدالت کی طرف کرکے کھڑا ہونے کا حکم دیا اور باری باری تمام گرفتار طلبا کو بولنے کے لئے کہا- شاہ جی ان کی آواز سن کر ان تمام کے نام بتادئے۔