ماہرین صحت کے مطابق تمباکو نوشی سے امراض قلب، بلڈ پریشر اور سانس سمیت دیگر بیماریاں انسانی جسم میں خاموشی کے ساتھ سرایت کر جاتی ہیں
تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والے امراض سے پاکستان میں ، دستیاب اعداد وشمار کے مطابق ایک لاکھ 70ہزارسے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں
کراچی انتظامیہ نے شہر کو سموک فری سٹی بنانے کی تیاریا ں شروع کر دی ہیں۔اس سلسلے میں کمشنر کراچی محمد اقبال میمن نے گذشتہ دنوں سموک فری کراچی سائکلنگ سنڈے ریلی کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا
کہ کراچی انتظامیہ شہر کو سموک فری بنانے کے لئے ہر ممکنہ اقدامات کر رہی ہے۔ اس حوالے سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ کراچی کو سمو ک فر ی بنانے کے لئے ضلعی انتظامیہ کے کردار کو مو ثر بنا یا جائے گا
اس سلسلہ میں تمام اضلاع میں تمباکو کنٹرو ل قوانین پر عملدرآمد کو موثر بنانے اور موثر مانیٹرنگ کے لئے تمام ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں ضلعی امپلی مینٹیشن اور مانیٹرنگ کمیٹیاں قائم کی جائیں گی اورکمشنر آفس میں ٹوبیکو کنٹرو ل روم بنایا جائے گا جو مانیٹرنگ اور رہنمائی کا کام کرسکے گا۔
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تمباکو نوشی کی عادت نہ صرف مضر صحت ہے بلکہ جان لیوا بھی ہے ،ماہرین صحت کے مطابق تمباکو نوشی سے امراض قلب، بلڈ پریشر اور سانس سمیت دیگر بیماریاں انسانی جسم میں خاموشی کے ساتھ سرایت کر جاتی ہیں، جس کی وجہ سے تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والے امراض سے پاکستان میں ، دستیاب اعداد وشمار کے مطابق ایک لاکھ 70ہزارسے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ کراچی کو سموک فری سٹی بنانے کیلئے صرف انتظامی اقدامات ہی کافی نہیں ہو سکتے،اس کیلئے کثیرالجہتی اقدامات کر نے کی ضرورت ہے، اور اس میں زندگی کے تمام طبقات کا تعاون درکار ہوگا۔
سب سے پہلے ہم اس مسئلے کے اقتصادی پہلو کا جائزہ لیتے ہیں،کیونکہ ہمارے ملک میں موجودہ ٹیکس کا نظام تمباکو کی صنعت کو سستا سگریٹ بیچنے میں مدد کرتا ہے، پاکستان میں سگریٹ کی قیمتیں دنیا میں سب سے کم ہیں۔ خوردہ قیمت کا اوسطاً 45.4 فیصد ایکسائز ٹیکس شیئر ڈبلیو ایچ او کی اس تجویز سے بہت کم ہے کہ ایکسائز ٹیکس خوردہ قیمت کا کم از کم 70 فیصد ہونا چاہئے۔ اس تجویز کے باوجود سگریٹ پر ایکسائز ٹیکس کی موثر شرح اب بھی وہی ہے جو 5 سال پہلے تھی.ف
یڈرل ایکسائز ٹیکس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ،اتنی آسان قیمت خرید کی وجہ سے ملک میں سگریٹ نوشوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں روزانہ 6 سے 15 سال کی عمر کے 1200 بچے سگریٹ نوشی شروع کردیتے ہیں، حالانکہ دکانداروں کی یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ 18سال سے کم عمر بچوں کو سگریٹ فروخت نہ کریں۔
صحت کے شعبے میں کام کر نے والے ماہرین اور کارکنوں کا شکوہ ہے کہ سال 2021-22 کے وفاقی بجٹ میں تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا، جس پر صحت کے شعبے میں کام کر نے والے ماہرین اورکارکنوں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو مالی سال 2021-22 کے لئے تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس کو حتمی شکل دیتے وقت افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح پر غور کرنا چاہیے تھا۔
ماہرین صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہ سگریٹ اور تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے مجموعی اخراجات کے پیش نظر تمباکو مصنوعات پر ٹیکسوں کی شرح کو کم از کم سو فیصد اضافہ کیا جائے ۔ مہنگائی میں اضافے اور ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے، زندگی گزارنے کے لئے بنیادی سامان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ، تمباکو کی مصنوعات کی قیمتیں پچھلے 4-5 سال سے یکساں ہیں۔ ان میں بھی اضافہ ہونا چاہئے تھا۔
کیونکہ سگریٹ سستے ہونگے تو لوگ زیادہ خریدیں گے ،ہمیں پاکستان کے شہریوں اورمستقبل کے معماروں کو سگریٹ نوشی اور اس سے پیدا ہونے والی مہلک بیماریوں سے بچانے کیلئے تمباکو مصنوعات کے خلاف اپنے گھر سے بھرپور مہم کا آغاز کرنا ہوگا اور اس میں تمام مذہبی ، سماجی رہنماؤں کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلنا ہوگااس کے ساتھ کم عمر بچوں ،اور پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی پر سختی کے ساتھ عملد رآمد کرانا ہوگا۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ تمباکو کی مصنوعات کی تشہیر پر پابندی عائد کرے ، اس کے ساتھ میڈیا تمباکو نوشی کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی مہم چلائے ، تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرے ، کیونکہ تمباکو کی مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگانے سے نہ صرف تمباکو کے استعمال اور اس کی رسائی میں کمی آئے گی بلکہ بچوں کو بھی تمباکو سے دور رکھا جاسکے گا۔
کراچی کو سموک فری سٹی بنانے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مقامی انتظامیہ کو کثیر الجہتی اقدامات کرنے کے ساتھ ان پر عملدرآمد کرانے کیلئے اپنا کردار موثر انداز میں ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر کراچی کو سموک فری سٹی بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔