سرکاری اسپتالوں کی صورتحال خوش کن نہیں ہے، کبھی یہاں ادویات کی قلت ہوتی ہے، تو کبھی مرض کی تشخیص کیلئے ٹیسٹوں کی مشینیں خراب ہوتی ہیں

عباسی شہید اسپتال میںا لٹرا سائونڈ اور ایمرجنسی سی ٹی اسکین مشینوں کے بعد اب اسپتال کی ایکسرے مشین بھی خراب ہوگئی ہے، انجیو گرافی مشین بھی دو سال سے زائد عرصے سے خراب پڑی ہے

جس کی وجہ سے مریضوں کو سول اور جناح اسپتال منتقل کیا جارہا ہے،علاج کے بغیر دوردرازاسپتال میں ایمرجنسی مریضوں کی منتقلی سے ان کی زندگیاں دائو پر لگ گئی ہیں ۔

اطلاعات کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے خراب مشینوں کی مرمت یا متبادل انتظام نہیں کیا گیا۔صحت عامہ کے حوالے سے یہ خراب صورتحال صرف عباسی شہید اسپتال تک محدود نہیں ہے، بلکہ کراچی کے تمام سرکاری اسپتالوں میں صحت عامہ کی صورتحال کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، تاہم سرکاری شعبے میں چلنے والے ادارہ امراض قلب کی کار کردگی قدر بہتر بتائی جاتی ہے۔

مجموعی طور پر شہر میں پبلک ہیلتھ کا انفرا سٹرکچر تباہ حال ہے، 51سال سے سرکاری شعبے میںکراچی میں ایک جنرل اسپتال عوام کو نہیں دیا گیا ہے، دوسری طرف شہر میں نجی اسپتال مسیحائی کے نام پر مال بنانے کی مشین بنے ہوئے ہیں، غریب اور نچلے متوسط طبقے کا شہری نجی اسپتالوں میں علاج کرانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے وہ سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتا ہے

،لیکن سرکاری اسپتالوں کی صورتحال خوش کن نہیں ہے، کبھی یہاں ادویات کی قلت ہوتی ہے، تو کبھی مرض کی تشخیص کیلئے ٹیسٹوں کی مشینیں خراب ہوتی ہیں، کبھی جونیئر ڈاکٹرز،نرسیں اور نیم طبی عملہ اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج، مظاہرے یا ہڑتال کرتا ہے ،اس کے منطقی نتیجے میں غریب طبقے کے مریض ہی متا ثر ہوتے ہیں جبکہ کراچی میںسماجی تنظیموں اور مختلف کمیونیٹیز کے تحت چلنے والے ایس آئی یوٹی، انڈس، الخدمت، میمن اور دیگر کی خدمات اورسرگرمیاں تسلی بخش ہیں۔کسی بھی سرکاری اسپتال میں اسٹیٹ آف آرٹ کی صورتحال نظر نہیں آتی ہے،

سرکاری اسپتالوںکی مجموعی طور پر خراب صورتحال کی تمام تر اسپتال کی انتظامیہ اور محکمہ صحت سندھ پر عائد ہوتی ہے، جہاں تک سرکاری اسپتالوں میں الٹرا ساؤنڈ، سی ٹی اسکین، انجیو گرافی اور ایکسرے مشین سمیت دیگر طبی آلات اور مشینوں کی خرابی کا تعلق ہے، اس کی دیکھ بھال اور مینٹینس کرنا اور اس کام پر متعین عملہ کی کار کردگی اور سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا اسپتال انتظامیہ کی ہوتی ہے، لیکن اطلاعات اور مشاہدہ کی بنا ء پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نہ صرف اسپتال انتظامیہ کے متعلقہ افسران طبی مشینوں اور آلات پر نظر رکھنے کے بجائے بر بنائے مصلحت چشم پوشی کرتے ہیں، بلکہ ان مشینوں کے ٹیکنیشنز کو منفی کام کرنے کی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں

، جس کی وجہ سے یہ مشینیں سال چھ ماہ کی مدت میں خراب ہوجاتی ہیں۔ ، انتظامی افسران کی اس مجرمانہ چشم پوشی سے فائدہ اٹھاکر سر کاری اسپتالوں کے ٹیکنیشنز مشینوں کی دیکھ بھال اور مینٹینس پر توجہ نہیں دیتے ہیں، بلکہ ان کے قیمتی پرزہ جات نکال کر بازار میں فروخت کر دیتے ہیں، اور اس کی جگہ ناکارہ پرزہ لگا دیتے ہیں، طبی مشینری کی خریداری کے وقت ملکی یا غیر ملکی کمپنی جو وارنٹی دیتی ہے، اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے

، جب مذکورہ کمپنی کا نمائندہ خراب ہونے والی مشین کو چیک کرنے آتا ہے تو وہ مشین میں کسی اور کمپنی کا ناکارہ پرزہ دیکھتا ہے تو وہ نہ تو اس مشین کا نقص دور کرتا ہے، اور نہ ہی وہ اس میں متبادل پرزہ لگاتا ہے، کیونکہ وہ وارنٹی کے تحت اپنی ہی کمپنی کا پرزہ ٹھیک کر نے یا اس کا متبادل لگانے کا پابند ہو تا ہے اس صورتحال سے سرکاری اسپتالوں میں آنے والے مریض ہی متا ثر ہوتے ہیں

، دوسری طرف یہ امر بھی قابل ذکر ہو گا کہ نجی اسپتالوں میں انہی کمپنیوں سے خریدی گئی طبی مشینیں اور آلات بر سوں کار آمدرہتی ہیں۔سرکاری اسپتالوں میں طبی مشینوں کی خرابی سے متعلقہ عملہ دہرا فائدہ اٹھا نے کیلئے مریضوں کو پرائیویٹ لیب بھیجتا ہے،اور وہاں سے اپنا کمیشن بھی بٹورتا ہے

، اس تکلیف دہ صورتحال سے عوام کو بچانے کیلئے وزیر صحت عذرا پیچوہو سے درخواست کرینگے کہ وہ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کا جائزہ لیں ،اور ان کی بہتری کیلئے دیگر اقدامات کے ساتھ محکمہ صحت سندھ کو ہدایت کریں کہ وہ سر کاری اسپتالوں کی کار کر دگی کی نگرانی کیلئے مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دے،جس میں منتخب اراکین اسمبلی کے ساتھ این جی اوز کو بھی نمائندگی دی جائے

، یہ کمیٹی اسپتالوں میں ادویات کی فراہمی سمیت طبی مشینری کا بھی گاہے بگاہے جائزہ لیتی رہے اور خامیوں اور بد عنوانی کا تدارک کرے۔

Leave a Reply