فیض احمد فیض،ابن انشا، حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی ‘‘ادا جعفری ‘ احمد فراز ‘ زہرہ نگاہ ‘ کشور ناہید ‘ اسلم فرخی ‘فہمیدہ ریاض ‘ شاہدہ حسن سمیت بہت سے شعرا وشاعرات نے فلسطین پرطبع آزمائی کی ہے

کشمیر اور فلسطین دو ایسے مسائل ہیں ،جنہوں نے سیاسی اور سفارتی سطح کے ساتھ ادبی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں، کشمیر اور فلسطین کے حوالے اردو شاعری اور نثری ادب میں مزاحمت کا عنصر غالب نطر آتا ہے، اسے دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر اور فلسطین نے اردو شاعری اور نثر میں مزاحمتی ادب کو فروغ دیا ہے ۔ہم یہاں پر فلسطین کے حوالے سے اردو شعراء اور نثر نگاروں نے جس مزاحمتی ادب کو فروغ دیا ہے اس کا اختصار سے جائزہ لیتے ہیں۔ ادب میں مسئلہ فلسطین بلا شبہ ایک بڑا المیہ ہے۔ اس بڑے المیے کے سبب قلم کاروں کے احساسات درد وکرب کے گوناں گوں تجربات سے گزرے ہیں، جس کے اظہار نے ادب کو وسعت بخشی ہے۔ ناول، کہانی، نظم سمیت نثر اور شاعری کی بہت سی اصناف میں فلسطین کا درد بیان کیا گیا ہے۔ اس سے مزاحمتی ادب میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ارض فلسطین پر یہودیوں کے غاصبانہ قبضے اور وسیع تر اسرائیل کے منصوبے کے خلاف قلم کاروں نے احتجاج درج کرایا ہے۔
فلسطین کے حق میں مزاحمتی شاعری کا سب سے اہم شاعر محمود درویش کو مانا جاتا ہے۔ وہ عربی زبان کے نمائندہ اور بے باک شاعر تھے۔ ان کا اپنا نقطہ نظرتھا۔ محمود درویش نے تو فلسطین کے غم کو اپنی زندگی کا جز بنا لیا تھا۔ ان کو فلسطین کی سانس کہا گیا۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ’تتلی کا بوجھ‘ ہے۔ تتلی کو انھوں نے اپنے وطن کا استعارہ بنایا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ اقوام عالم ان کی تتلی کو بوجھ سے نجات دلائیں۔۔ محمود درویش نے فلسطین کا قومی ترانہ لکھا۔ ان کے تقریباً تیس شعری مجموعے ہیں۔ جن میں بے بال و پر پرندے، زیتون کے پتے، انجام شب، بندوق کی روشنی میں لکھنا، گلیلی میں پرندے مر رہے ہیں، دور کی خزاں میں اترنے والی ہلکی بارش، اجنبیوں کا بستر اور وہ ایک جنت تھی وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام کتابوں کی ایک ایک سطر مقبوضہ فلسطین کے کرب اور فلسطینیوں کے احساسات کا اظہاریہ ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں محمود درویش کی نظم ’شناختی کارڈ‘ پر بحث ہوئی۔جہاں تک برصغیر یا اردو قلمکاروں کا تعلق ہے علامہ اقبال سے ہی یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے فلسطین کے حق میں مولانا حسرت موہانی نے بھی آواز بلند کی۔ فیض احمد فیض کی تو اس موضوع سے خصوصی دلچسپی رہی ہے۔ اسرائیل کا قیام یوں تو اقبال کی وفات کے تقریباً دس برس بعد عمل میں آیا، لیکن وہ پہلے ہی سے اس خطے میں سامرا جی سازشوں سے آگاہ تھے۔ ضرب کلیم میں شامل ایک نظم ’شام و فلسطین‘ میں انھوں نے یہودیوں کے دعوے کی تردید کی ہے ۔فیض احمد فیض نے فلسطینی مجاہدوں کے لئے ایک ترانہ لکھا تھا جو ان کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کی طرز پر ہے:
حقّا ہم اک دن جیتیں گے
بالاآخر اک دن جیتیں گے
قد جائالحق و زَہَق الباطِل
فیض احمد فیض نے فلسطینی بچے کے لیے لوری لکھی:
مت رو بچے
امی، ابا، باجی، بھائی
چاند اور سورج
تو گر روئے گا تو یہ سب
اور بھی تجھ کو رلوائیں گے
فیض احمد فیض کی ایک اور مشہور نظم ہے:
میں جہاں پر بھی گیا ارضِ وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے
تیری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے
اس کے علاوہ ابن انشا، حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی ‘‘ادا جعفری ‘ احمد فراز ‘ زہرہ نگاہ ‘ کشور ناہید ‘ اسلم فرخی ‘فہمیدہ ریاض ‘ شاہدہ حسن سمیت بہت سے شعرا وشاعرات نے فلسطین پر نظمیں لکھیں۔ احمد ندیم قاسمی کا ایک بہت مشہور شعر ہے:
یک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا
پاکستان میں الطاف فاطمہ، خالدہ حسن، انتظار حسین، خالد سہیل نے اپنی کہانیوں میں فلسطین کے مسئلہ کو اجاگر کیا۔ الطاف فاطمہ نے تو فلسطین کے غم کو اپنا غم بنالیا تھا، جیسے خود فلسطینی ہوں۔ وہ کہتی تھیں فلسطین کی تحریک آزادی میں لفظ اتنے ہی اہم ہیں جتنی تلواریں۔عرب ممالک کے شعرا کی فلسطین پر کی گئی شاعری کے تراجم کی روایت بھی مستحکم ہے۔ پاکستان میں امجد اسلام امجد، کشور ناہید، زاہدہ حنا، محمد کاظم اور ا ٓصف فرخی وغیرہ نے یہ کام کیا ہے۔
امجد اسلام امجد نے تقریباً چار دہائی قبل احمد ندیم قاسمی کی تحریک پر سید محمد کاظم کے تعاون سے عرب دنیا کے کچھ شاعروں کی فلسطین پرکہی گئی مختلف نظموں کے منظوم تراجم کا سلسلہ شروع کیا تھا جن میں محمود درویش، نزار قبانی، سمیع القاسم، فدویٰ توقان اور عبدالوہاب البیاتی اور نازک الملائکہ وغیرہ کا کلام شامل تھا۔
پاکستان کے معروف شاعر و ادیب فراست رضوی نے کتاب ‘‘سلام فلسطین’’ لکھی۔ فلسطین کی تاریخ و تہذیب کے ساتھ فلسطین پر صہیونی غاصبانہ تسلط اور فلسطینیوں کی انتفاضہ کی تحریک اور فلسطینیوں کا دفاع کرتے ہوئے صہیونی بلڈوزروں تلے دب کر شہید ہونے والی امریکی نوجوان لڑکی راشیل کوری سمیت لیلی خالد، جارج حبش، شیخ احمد یاسین اور فلسطین کے شہداء کی قربانیوں پر کل 37 نظموں کا مجموعہ سلام فلسطین میں شامل ہے۔ فراست رضوی کی یہ کتاب سلام فلسطین آنے والی نسلوں کے لئے مسئلہ فلسطین کے افہام میں بھی معاون ثابت ہو گی۔