طبی ماہرین نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ اگر حکومت نے بروقت حفاظتی اقدامات نہیں کئے تو پاکستان بھی کرونا کی پانچویں لہر جس کا نام اومیکرون بتایا جارہا ہے، کا شکار ہو سکتا ہے، اخبارات اور نیوز چینلز کی رپورٹس کے مطابق جنوبی افریقہ میں کوویڈ 19 کی نئی قسم یعنی اومیکرون کی نشاندہی پر عالمی ادارہ صحت نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے،

جس نے پوری دنیا میں خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے، کیونکہ اسکے پھیلائو کی شرح بہت زیادہ ہے۔ کرونا کی پانچویں لہر کا وائرس اب تک کم از کم 19 ممالک میں پھیل چکا ہے۔ جن ممالک میںاومیکرون کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں ان میں آسٹریلیا، آسٹریا، بیلجیئم، بوٹسوانا، کینیڈا، جمہوریہ چیک، ڈنمارک، جرمنی، ہانگ کانگ، اسرائیل، اٹلی، جاپان، نیدرلینڈ، پرتگال، یورپی یونین، جنوبی افریقہ، ا سپین، سوئٹزر لینڈ اور برطانیہ شامل ہیں ،عالمی ادارہ صحت نے تمام ممالک سے مطالبہ کیا ہے
کہ وہ نئے کورونا وائرس اومیکرون سے نبرد آزما ہونے کے لئے عملی اقدامات کریں ۔پاکستان کے طبی ماہرین نے دو سال قبل بھی کوڈ 19سے متعلق قبل از وقت آگاہ کر دیا تھا، اور وفاقی و صوبائی حکومتوں نے بھی بروقت لاک ڈاؤن سمیت دیگر حفاظتی اقدامات کئے تھے، جس کے باعث پاکستان میں کرونا سے ہلاکتوں کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں قدرے کم رہی۔ اس مر تبہ بھی پاکستان کے طبی ماہرین نے قبل از وقت کرونا کی پانچویں لہر کے بارے میں آگا ہ کرتے ہوئے حفاظتی انتظامات کر نے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس حوالے سے گذشتۃ دنوں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا ہنگامی اجلاس پی ایم اے ہاؤس کراچی میں منعقد ہوا جس میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے سامنے آنے کے بعد ملک میں کوویڈ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا،اجلاس میں پی ایم اے کے عہدیداروں اور دیگر شرکاء نے حکومت کو خبردار کیا کہ وہ وہ ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار اور چوکس رہے او ر کرونا کی نئی قسم کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے فوری طور پر حفاظتی اقدامات کرے۔ انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا
کہ وہ ہوائی اڈوں، بندر گاہوں اور ملک کے دیگر داخلی راستوں پر مسافروں کی ا سکیننگ اور نگرانی کے لیے سہولیات کو بہتر بنائے اور ایئر پورٹس پر اینٹی کوویڈ 19 ٹیسٹ دوبارہ شروع کرے، خاص طور پر ہائی رسک ممالک سے آنے والے مسافروں کی سخت نگرانی کرے۔ اگر کسی میں کوویڈ 19 کی علامات پائی جاتی ہیں
تو اسے قرنطینہ میں رکھا جائے۔اور فوری طور پر ملک بھر میں ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کرائے۔ اس وقت عوامی سطح پر عام تاثر یہی ہے کہ کرونا ختم ہو چکا ہے، لوگوں نے سماجی فاصلے ختم کر دئے ہیں ماسک کا استعمال قدرے کم ہوچکا ہے، کاروباری مراکز اور شادی ہالز میں ایس او پیز پر عملدرآمد نظر نہیں آرہا ہے، عوامی سطح پر کرونا ختم ہونے یا اس کے غیر موثر ہونے کے رجحان کو نہ روکا گیا اور حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد نہ کرایا گیاتو خدشہ ہے
کہ پاکستان ایک بار پھر کرونا کی پانچویں لہر کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ اس سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ اب تک جن لوگوں نے ویکسین نہیں لگوائی ہے وہ فوری طور پر ویکسین لگوائیں، اس مقصد کے لئے حکومت ویکسینیشن سینٹرز کی تعداد میں اضافہ کرے اور عوام میں میڈیا اور دیگر ذرائع سے آگاہی مہم شروع کرے ، کیونکہ جن لوگوں نے ویکسین نہیں لگوائی وہ بیماری کی پیچیدگی کا سامنا کر سکتے ہیں، اس کے ساتھ پاکستان میڈیکل ایسو سی ایشن نے مشورہ دیا ہے
کہ جن لوگوں کو چھ ماہ پہلے ویکسین لگائی گئی تھی انہیں ویکسین کی بوسٹر خورا ک لگوانی چاہیے۔ بوسٹر خوراک مفت فراہم کرنے کیلئے وفاقی حکومت اور خاص طور پر سندھ حکومت نے انتظامات کئے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے جب تک پاکستان میں 80 فیصد آبادی کو ویکسین نہیں لگائی جاتی ہم مسلسل کورونا کی مختلف اقسام کا سامنا کرتے رہیں گے۔ہم عوام سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر اپنائیں، جب بھی باہر نکلیں ماسک پہنیں، سماجی فاصلہ رکھیں، مناسب وقفوں سے اپنے ہاتھ دھوئیں یا سینیٹائز کریں، ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے گریز کریں۔
مزید برآں ہم تاجروں ،شادی ہالز، شاپنگ مالز کی انتظامیہ سے گذارش کرینگے وہ بھی اپنے طور پر حفاظتی انتظامات پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں،کیونکہ کووڈ جیسی بیماریوں کو روک کر ہی وہ اپنی تجارت اور کاروبار کو جاری رکھ سکتے ہیں ورنہ حکومت دوبارہ ک لاک ڈاؤن سمیت کرونا سے متعلق دیگر پابندیاں لگانے پر مجبور ہو سکتی ہے۔