ارشاد نبویؐ ہے: ’’ جس نے لوگوں سے ان کا مال زیادہ جمع کرنے کی نیت سے مانگا وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے، چاہے کم مانگے یا زیادہ
رب العالمین سے مانگنے والے کبھی مایوس نہیں ہوتے اور جو لوگ ہر ایک سے ہر وقت ہر چیز مانگتے ہیں انہیں ان سے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا

رب العالمین سے مانگنے والے کبھی مایوس نہیں ہوتے اور جو لوگ ہر ایک سے ہر وقت ہر چیز مانگتے ہیں انہیں ان سے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا، لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کو ہی بھیک کہا جاتا ہے
اور یہ انسان کی غیرت و حمیت کے خلاف ہے۔ کاہل و کام چور انسان لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔ پیشہ ور بھکاری مانگنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کا گھر بھرا ہوتا ہے
اور انہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر مانگیں گے ضرور۔ شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر، عزت نفس بیچ کر، ڈانٹ پھٹکار سن کر بس مانگے جائیں گے، ہاتھ پھیلاتے جائیں گے، آہ و زاری کرتے جائیں گے۔
جسم توانا ہوگا، ہاتھ پاؤں سلامت ہوں گے مگر بھیک مانگنا نہ چھوڑیں گے۔ حیلے بہانے ، روپ بدل کر، خود کو بیمار و اپاہج ظاہر کرکے اور مختلف تدبیروں سے بھیک مانگنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ پیشہ ور بھکاری شہریوں کو لوٹنے اور بچے اغوا کرنے ایسے خطرناک جرائم میں بھی ملوث پائے جاتے ہیں۔
اسی طرح کے پیشہ ور گداگروں، بھکاریوں اور جعلی معذوروں کے خلاف لاہور میں پولیس کی کارروائیاں جاری ہیں۔ رواں برس گداگروں کے خلاف 5 ہزار 214 مقدمات درج کیے گئے۔ کریک ڈاؤن کے دوران 5ہزار 653گداگروں کو گرفتار کیا گیا۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے بھی 138مقدمات گداگروں کے خلاف درج کرائے گئے۔
ارشاد نبویؐ ہے: ’’ جس نے لوگوں سے ان کا مال زیادہ جمع کرنے کی نیت سے مانگا وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے، چاہے کم مانگے یا زیادہ۔ ‘‘
وطن عزیز میں متعدد ایسے نجی اور سرکاری ادارے موجود ہیں جو غربا میں کھانا تقسیم کر رہے ہوتے ہیں۔ سرکاری سطح پر احساس مراکز اور پناہ گاہیں بھی موجود ہیں ۔ ان سب کے باوجود یہ پیشہ ور اپنی عادت سے باز نہیں آتے۔ اسلام میں بھیک مانگنا منع ہے۔ اسلام ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا، وہ محنت مزدوری کر کے کمانے کھانے پر زور دیتا ہے،
دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی اجازت بہ درجہ مجبوری ہے۔ اسلام میں پیشہ ورانہ بھیک مانگنے اور اسے اپنا خاندانی حق سمجھنے کی قطعاً گنجائش نہیں۔ جس دین نے بھیک مانگنے سے سب سے زیادہ منع کیا ہو، محنت سے کمانے کھانے اور کوشش و جدوجہد سے روزی حاصل کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا ہو، اسی دین کے نام لیواؤں میں بھکاریوں کا تناسب سب سے زیادہ ہو، ہر چوراہے، گلی کوچے، مسجد کے سامنے بھیک مانگنے والوں کی بھیڑ دکھائی دے
تو یہ کس قدر افسوس ناک اور باعث شرم بات ہے۔ ہم سب کو ہر حال میں اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں صرف اپنے در کا سوالی بنائے رکھے، اس لیے کہ در در کے سوالی کبھی خوش حال نہیں ہوتے۔ حکومت کو چاہیے
کہ ان پیشہ ور گداگروں کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ ان کا عمل بیرون ملک وطن عزیز کے لیے شرمندگی اور اندرون ملک شہریوں کے لیے پریشانی کا موجب نہ بنے۔