بعض سرکاری حکام کے مطابق کوئٹہ میں اب تک خواتین کے حوالے سے جو ویڈیو سکینڈل سامنے آئے ہیں ان میں شاید یہ سب سے بڑی ہو
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں خواتین کے حوالے سے ایک اور بڑا ویڈیو سکینڈل سامنے آیا۔ بعض سرکاری حکام کے مطابق کوئٹہ میں اب تک خواتین کے حوالے سے جو ویڈیو سکینڈل سامنے آئے ہیں ان میں شاید یہ سب سے بڑی ہو۔
خواتین کے حوالے سے حالیہ ویڈیو سکینڈل اس وقت منظر عام پر آیا جب ایک خاتون نے کوئٹہ شہر میں قائد آباد پولیس سٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی۔ اس ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ان کی دونوں بیٹیوں کی نازیبا ویڈیوز اور فوٹو بنانے کے بعد ملزمان ان کو دھمکیاں دیکر زبردستی عصمت فروشی کرا رہے ہیں۔
پولیس نے اس الزام میں دو ملزمان کوگرفتار کیا ہے جو کہ آپس میں بھائی ہیں۔ان کے ساتھ ایک اور ملزم بھی ہے جو کہ ابھی تک گرفتار نہیں ہوا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے مفرورملزم کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں ۔پہلی ایف آئی آر کے بعد ایک اور متاثرہ لڑکی نے بھی قائد آباد تھانے میں درج کرائی ۔ انہوں نے تینوں ملزمان کو نامزد کیا ہے۔
اس لڑکی کے مطابق وہ بھی ملازمت کی تلاش میں کسی اور لڑکی کے ساتھ ملزمان کے پاس گئی تھی جہاں ان کی جال میں پھنس گئی تھی اور انہوں نے ان کی بھی نازیبا ویڈیوز بنائی تھیں۔اس لڑکی کے مطابق جب انہوں نے ملزمان کے پاس جانے سے انکار کیا تو انہوں نے ان کی نازیبا ویڈیوز ایک جعلی آئی ڈی سے سوشل میڈیا پراپ لوڈ کرائی۔گرفتار ملزمان سے تحقیق کا سلسلہ جاری ہے پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان سے 8سے دس خواتین کی قابل اعتراض ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئی ہیں۔
تاہم بعض دیگر اطلاعات کے مطابق ملزمان کے قبضے سے برآمد کی جانے والی ویڈیوز کی تعداد 100 کے لگ بھگ ہے۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملزمان لڑکیوں کو ان کی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر کے ذریعہ بلیک میل کرکے ان کو مختلف غلط کام کرنے پر مجبور کرتی تھیں۔ پولیس نے تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ٹیم بنائی ہے جس میں آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہیں ۔ پولیس کے مطابق جس خاتون نے مقدمہ درج کردیا وہ نہ صرف لاپتہ ہیں بلکہ ان کی متاثرہ دونوں بیٹیاں بھی منظر عام سے غائب ہیں ۔ پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان میں ہیں ۔او
ر لڑکیوں کی جو آخری ویڈیوز ہیں ان کی لوکیشن افغانستان کی ہے جبکہ ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ کے مطابق وہ کابل میں ہیں۔بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ امور میر ضیاء اللہ لانگو کے مطابق خواتین کو افغانستان سے بازیابی کے لیے وفاقی حکومت نے افغان حکام سے رابطہ کیا ہے۔
قوم پرست جماعت ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، مجلس وحدت المسلمین کے علاوہ سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں نے کوئٹہ میں خواتین کے نئی ویڈیو سکینڈل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلے میں غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنے اور اس میں ملوث تمام افرادکو عوام کے سامنے بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے مطالبے کے علاوہ کوئٹہ شہر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ ان میں سے بعض جماعتوں کی جانب سے اس رائے کا اظہار بھی کیا گیا
کہ اگر یونیورسٹی میں رونما ہونے والی ویڈیو سکینڈل کے حوالے سے حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی تو شاید یہ دوسرا واقعہ پیش نہیں آتا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور پولیس حکام سے سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں اور عہدیداروں نے ملاقاتیں بھی کیں اور انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کیا ۔ وزیر اعلیٰ اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ملزمان سے کوئی رعایت نہیں کی جائے گی
اور انہیں کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ اگرچہ سرکاری حکام ہر ایسے گھنائونے سکینڈلز کے بعد یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ ان میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی تاکہ آئندہ کسی کو قوم کی بیٹیوں کے ساتھ اس طرح کے مذموم عمل دہرانے کی جرأت نہ ہولیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں اور بظاہر یہ پہلے رونما ہونے والے واقعات سے بڑے اور سنگین ہوتے ہیں۔اس سے قبل یونیورسٹی آف بلوچستان میں رونما ہونے والے سکینڈل کے حوالے سے دو تین افراد کو ملازمت سے فارغ کیا گیا لیکن لوگوں نے اس وقت بھی یہ کہا تھا کہ بڑے لوگوں کو چھوڑ کر چند چھوٹے لوگوں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ ہماری متعلقہ حکام سے گزارش ہے کہ حالیہ سکینڈل کے حوالے سے کسی بھی قسم کی کوتاہی کا مظاہرہ نہ کریں
بلکہ ایسے واقعات میں ملوث تمام افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں خواہ وہ کتنے بااثرکیوں نہ ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور متعلقہ حکام کو چائیے کہ وہ لوگوں بالخصوص خوتین میں شعور اور آگہی پیدا کرنے کے لیے مہم بھی چلائیں تاکہ وہ روزگار یا کسی اور لالچ میں ایسے گھنائونے کام کرنے والوں کی جال میں پھنس نہ جائیں۔