پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی تین برسوں میں جون2021 تک پاکستان اسٹیل ملزکو49.45ارب روپے کے نقصانات اور56.23ارب روپے کی اضافی ادائیگیوں کا سامنا رہا۔

مالی سال2020-21 کے سالانہ اور2021-22 کے ششماہی آڈٹ شدہ مالی حسابات تاحال جاری نہ ہوسکے۔ آفیسر ایسوسی ایشنز، ملازمین تنظیموں اور اسٹیک ہولڈرز گروپ نے موجودہ انتظامیہ کے احتساب اور سی ای او کی برطرفی کا مطالبہ کر دیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے صرف ابتدائی تین برسوں میں جولائی2018تا جون2021پاکستان اسٹیل ملز کو 49.45ارب روپے کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ قابل ادا واجبات میں56.23 ارب روپے کا اضافہ ہوا، موجودہ انتظامیہ کی جانب سے نہ تو گزشتہ مالی سال 2020-21 کے آڈٹ شدہ مالی حسابات جاری کئے گئے

اور نہ ہی موجودہ مالی سال 2021-22 کے ابتدائی چھ ماہ کے حسابات کی تفصیلات دستیاب ہے۔ تفصیلات کے مطابق جب پی ٹی آئی حکومت برسراقتدار آئی تو آڈٹ شدہ حسابات کے مطابق30جون2018تک اسٹیل ملز کے ذمہ قابلِ ادا واجبات210.53ارب روپے اور مجموعی نقصانات کا حجم173 ارب روپے تھا۔ اس وقت اسٹیل ملز میں تقریباً 14000سے زائد ریگولر ملازمین موجود تھے

تاہم اسکے باوجود مالی سال-18 2017 کا خسارہ7.05ارب اور -17 2016کا خسارہ 6.19 ارب روپے تھا جبکہ30جون 2021تک کے عبوری حسابات(غیرآڈٹ شدہ) کے مطابق قابلِ ادا واجبات 266.76 ارب روپے اور مجموعی نقصانات کا حجم222.45ارب روپے تک پہنچ چکاہے۔ یوں مالی سال-21 2020کے اختتام تک اسٹیل ملزکے مجموعی نقصانات اور قابل ادا واجبات کا کل حجم489.22ارب روپے ہوچکاہے۔ صرف پچھلے مالی سال-21

2020میں اسٹیل ملزکو13.22ارب روپے کا نقصان ہوا اور قابلِ ادا واجبات میں 18.54ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ پچھلے مالی سال کے دوران موجودہ انتظامیہ نے 5000سے زائد تربیت یافتہ ملازمین کو نوکریوں سے جبری برطرف کرکے اخراجات بچانے کے بلند بانگ دعوے بھی کئے۔ ان سب حقائق کے باوجود میرٹ کے برخلاف 60سال سے زائد العمر اور مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ نہ رکھنے والے موجودہ سی ای او برگیڈیئر (ریٹائرڈ) شجاع حسن خوارزمی20اگست2020سے اسٹیل ملز میں تعینات ہیں

جبکہ انکی خلاف ضابطہ تعیناتی پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ برائے -21 2020میں بھی اعتراض اٹھایا تاہم اس بدترین مالی کارکردگی پر پی ٹی آئی حکومت نے انکا احتساب کرنے کے بجائے انہیں مزید ایک سال کی توسیع دیدی۔ پی ٹی آئی حکومت الیکشن سے قبل اسٹیل ملزکو سرکاری کنٹرول میں چلانے کے دعوئوں کے برعکس11لاکھ ٹن سالانہ پیداواری صلاحیت کے حامل اس پلانٹ سے اب تک ایک ٹن اسٹیل بھی بنانے میں ناکام رہی ہے

اور اب آئی ایم ایف کے ایما پر اسٹیل مل مین پلانٹ بشمول1229ایکڑ زمین پر مشتمل ایک ذیلی کمپنی اسٹیل کورپ پرائیویٹ لمیٹڈ بناکر اسکی نجکاری کا عمل بذریعہ پرائیویٹائزیشن کمیشن انجام دیا جا رہاہے

جس پر اسٹیل ملز کارپوریشن اسٹیک ہولڈرز گروپ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو لکھے گئے اپنےخط PSMCSG/6/9/2021مورخہ14 ستمبر 2021میں تفصیلی تحفظات کا اظہار کر چکاہے۔گروپ کے مطابق اسٹیل ملز پلانٹ اور مشنری کے اثاثوںکی کل مالیت کا تخمینہ ایک لوکل انشورنس ویلیویٹر کمپنی میسرز جوزف لوبو پرائیویٹ لمیٹڈ کے ذریعہ صرف134ارب روپے لگایا گیا ہے اور1229ایکڑ زمین پلانٹ کی زمین کا کوئی تازہ تخمینہ سرے سے سبسڈری کمپنی کے اثاثوں میں شامل ہی نہیںکیا گیا

جبکہ مشترکہ مفادات کونسل سے اس نجکاری کے عمل کی موجودہ حکومت نے کوئی منظوری بھی حاصل نہیں کی جو نہ صرف خلاف آئین ہے بلکہ ماضی میں اسٹیل ملز کی ناکام نجکاری کے تناظر میں آئینی درخواستCP-9/2006 کے ذیل میں دئے گئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تاریخی فیصلے کی بھی واضح خلاف ورزی ہے۔

اسٹیک ہولڈرگروپ نے بذریعہ خطPSMCSG/11/1/2021 مورخہ22نومبر2021منسٹری آف انڈسٹریز اینڈپروڈکشن اور پی آئی ڈی سی سے اسٹیل ملزکی9000ایکڑ زمین پر انڈسٹریل زونز اور ٹاؤن شپ بنانے کیلئے اظہارِ دلچسپی کی درخواستوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسے قواعدو ضوابط کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

اسٹیل ملز آفیسر ایسوسی ایشنز، ملازمین تنظیموں اور اسٹیک ہولڈرز گروپ نے احتساب کے قومی اداروں بشمول نیب، ایف آئی اے اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے اسٹیل مل کو پہنچائے جانے والے مذکورہ نقصانات، مبینہ غیرقانونی نجکاری عمل اور زمینوں کی اس بندر بانٹ کا نوٹس لینے، موجودہ انتظامیہ کے احتساب اور سی ای او کی فوری برطرفی کا مطالبہ کیا ہے

تاکہ قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کو روکا جا سکے۔

Leave a Reply