طویل عرصہ بعد مختلف عہدوں کے اسٹاف ملازمین کی ترقیاں، ادارہ کو اربوں روپے کی بدعنوانیوں سے بچانے والے اور اعلیٰ افسران کے خلاف جدوجہد میں مصروف ، 36 سالہ طویل ملازمت کے حامل سید مبشر رضی جعفری حق گوئی اور اصول پرستی کے باعث ایک بار پھر جائز ترقی سے محروم!

وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان، اسلام آباد کے ذیلی محکمہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن EOBI میں ایک طویل عرصہ بعد اسٹاف ملازمین کو ترقیاں نصیب ہوئیں ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ای او بی آئی کے موجودہ چیئرمین شکیل احمد منگنیجو کی خصوصی دلچسپی اور ای او بی آئی ایمپلائز فیڈریشن آف پاکستان سی بی اے کی مسلسل کاوشوں کی بدولت بالآخر ای او بی آئی میں بڑی تعداد میں اسٹاف ملازمین کو ترقیاں دیدی گئی ہیں ۔ لیکن ادارہ کے ایک حق گو اور ای او بی آئی کو افسران کے پنجہ سے بچانے والے ملازم سید مبشر رضی جعفری کو قانونی موشگافیوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر ان کی جائز ترقی سے محروم کردیا گیا۔

اس سلسلہ میں 28جنوری کو ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس نے ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کے دستخطوں سے جاری شدہ آفس آرڈر نمبر 23,33,34,35اور 36 جاری کئے ہیں ۔ جن میں آفس آرڈر نمبر 32 کے تحت چھ ایگزیکٹیو افسران کو ترقی دے کر اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز مقرر کیاگیا ہے ۔جبکہ آفس آرڈر نمبر 33 کے تحت مختار علی ایگزیکٹیو افسر ریجنل آفس کورنگی کو ترقی دے کر اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز ریجنل آفس کورنگی بنادیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ مختار علی 1990 سے ای او بی آئی میں ملازمت کر رہے ہیں ۔

لیکن ماضی میں ادارہ کے سابق چیئرمین اظہر حمید اور ان کے کارندہ خاص طاہر صدیق نے چند بس قبل انہیں اپنی سینیارٹی کے لئے آواز بلند کرنے پر ان کی حق تلفی کرتے ہوئے انہیں ان کی جائز ترقی سے محروم کردیا تھا۔آفس آرڈر نمبر 34 کے تحت ادارہ کے سات سپرنٹنڈنٹ کو ترقی دے کر ایگزیکٹیو افسر مقرر کیا گیا ہےآفس آرڈر نمبر 35 کے تحت چار پرسنل اسسٹنٹ کو ترقی دیتے ہوئے پرائیویٹ سیکریٹری بنادیا گیا ہےآفس آرڈر نمبر 36 کے تحت ادارہ میں سب سے زیادہ ترقیاں دی گئی ہیں ۔ جن میں ترقی پانے والے 38 سینئر اسسٹنٹ، اسسٹنٹ اور نائب قاصد کے عہدہ کے ملازمین شامل ہیں

آفس آرڈر کے مطابق صوبہ پنجاب کے مختلف عہدوں کے 13 ملازمین کو اگلے عہدوں پر صوبہ سندھ کے مختلف عہدوں کے 19 ملازمین کو اگلے عہدوں صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف عہدوں کے پانچ ملازمین کو اگلے عہدوں پر اور صوبہ بلوچستان کے ایک نائب قاصد کو ترقی دے کر قاصد بنایا گیا ہے جبکہ ادارہ کی ڈپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی کی سفارشات پر ادارہ کے سینئر اسٹاف ملازمین سید مبشر رضی جعفری سینئر اسسٹنٹ لاء ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی اور جنرل سیکریٹری ای او بی آئی ایمپلائز فیڈریشن آف پاکستان سی بی اے اور سیف الدین سینئر اسسٹنٹ ریجنل آفس بن قاسم کراچی کی ترقیاں لازمی ٹریننگ کورس میں عدم شرکت اور سال 2018,19,20اور 21 کی سالانہ خفیہ رپورٹ کی عدم دستیابی اور علی حسین اسسٹنٹ بی اینڈ سی III اسلام آباد کی سنگین بدعنوانیوں کے الزامات کے تحت ملازمت سے معطلی اور تادیبی کارروائی کے باعث ترقیاں مؤخر کردی گئی ہیں ۔

ای علی حسین نامی ملازم 2012 میں ریجنل آفس ایبٹ آباد میں تعیناتی کے دوران غیر قانونی طور پر کروڑوں روپے کے ای او بی آئی کے کنٹری بیوشن کو اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کرانے کے سنگین الزامات میں ملوث ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ انتہائی بدعنوان اور پنشن فنڈ میں کروڑوں روپے کے غبن میں ملوث ملازم علی حسین ای او بی آئی کے پہلے چیئرمین سید عمران شاہ کا قریبی عزیز ہے ۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو اس سے غبن شدہ کروڑوں روپے کی رقوم کی وصولی کی گئی اور نہ ہی اس کے خلاف تاحال کوئی تادیبی کارروائی عمل میں نہیں آئی ۔واضح رہے کہ ای او بی آئی میں ادارہ جاتی عدم توازن کے باعث ادارہ میں اسٹاف ملازمین کے مقابلہ میں بڑے پیمانے پر افسران کی اکثریت ہے ۔

جن میں اسٹاف ملازمین کے برابر اعلیٰ تعلیم اور تجربہ بھی موجود نہیں ہے ۔ جبکہ ای او بی آئی میں اسٹاف ملازمین کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے ان کے ساتھ ہر معاملہ میں سوتیلی ماں کا سلوک کیا جاتا ہے ۔ ادارہ میں پچھلے 20 اور 25 سالوں سے خدمات انجام دینے والے والے اسٹاف ملازمین اپنے پورے ملازمتی کیریئر میں بمشکل ایک یا دو ترقیاں ہی حاصل کر پاتے ہیں اور اسٹاف ملازمین کے لئے باقاعدہ پروموشن پالیسی نہ ہونے کے باعث اعلیٰ تعلیم اور تجربہ کے باوجود یہ مظلوم طبقہ ایک طویل عرصہ سے اپنی جائز ترقیوں سے محروم چلا آرہا تھا ۔

صورت حال اس قدر تشویشناک ہے کہ اس دوران ادارہ کے بیشتر اسٹاف ملازمین یا تو اپنی ترقیوں کی حسرت لئے ملازمت سے ریٹائر ہوگئے یا اس دنیا ہی سے رخصت ہوگئے ۔ اس تمام تر صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد ادارہ کے نئے اور اصول پرست اور دیانتدار چیئرمین شکیل احمد منگنیجو نے ای او بی آئی کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کو فوری طور پر ترقی کے مستحق اسٹاف ملازمین کو فوری طور پر ترقیاں دینے اور ان کے جملہ جائز مسائل کے حل کے احکامات جاری کئے تھے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی میں اب بھی اسٹاف ملازمین کی ایک بڑی تعداد طویل عرصہ سے اپنی جائز ترقیوں کی منتظر ہے ۔ان ترقیوں کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں ایک طویل عرصہ سے اپنی جائز ترقی سے محروم رکھے جانے والے ای او بی آئی کے ایک سینئر اسٹاف ملازم سید مبشر رضی جعفری قابل ذکر ہیں ۔

جو ادارہ کی سی بی اے کے جنرل سیکریٹری ہونے کے ساتھ ساتھ ای او بی آئی جیسے قومی فلاحی ادارہ کے لئے بھی ایک بیحد قیمتی اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کی ای او بی آئی کی بقاء اور سلامتی کے لئے غیر معمولی خدمات کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے ان کی حق تلفیوں کا سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، تجربہ کار اور ماہر قانون ہونے کے باوجود سید مبشر رضی جعفری 1986ء سے ای او بی آئی میں ایک چھوٹے عہدہ کے ملازم ہیں اور اس 36 سالہ طویل عرصہ ملازمت کے دوران انہیں صرف ایک بار ترقی دی گئی ہے ۔

اس کی بنیادی وجہ اصول پرست اور انتہائی دیانتدار شخصیت سید مبشر رضی جعفری کی جانب سے ای او بی آئی میں مختلف ادوار میں انتظامیہ کی جانب سے سنگین مالی بدعنوانیوں،بد انتظامیوں اور اعلیٰ افسران کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ہے ۔ جس کی پاداش میں انہیں پابند سلاسل ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد بار اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے تھے ۔ جس کے باعث وہ سخت ذہنی دباؤ اور سنگین معاشی مشکلات کا شکار بھی رہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا ۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے

کہ اپنی تمام تر تعلیمی قابلیت اور بھرپور قانونی تجربہ اور ای او بی آئی کو بدعنوان افسران سے بچانے والی شخصیت سید مبشر رضی جعفری ای او بی آئی میں محض گریڈ 4 ( سینئر اسسٹنٹ ) کے عہدہ پر خدمات انجام دینے پر مجبور ہے ۔ جبکہ ان کے مقابلہ میں ای او بی آئی میں مشکوک ڈگریوں، مشکوک ڈومیسائل کے حامل ناتجربہ کار، نالائق اور خوشامدی افراد ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل جیسے کلیدی عہدوں پر براجمان ہیں جس پر جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ لیکن سب گواہ ہیں کہ اپنے ساتھ ہونے والی اس سنگین ناانصافی اور حق تلفی کے باوجود ای او بی آئی میں حصول انصاف کی جدوجہد میں کوشاں اور اصول پرست شخصیت سید مبشر رضی جعفری کے چہرے پر کبھی کسی قسم کے پچھتاوے کی لہر تک نہیں آئی ۔

ای او بی آئی کی تاریخ شاہد ہے کہ سید مبشر رضی جعفری کا تین دہائیوں پر مشتمل پورا عرصہ ملازمت ای او بی آئی کے افسران اور انتظامیہ کے خلاف سخت جدوجہد میں گزرا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں الحمدللہ ادارہ تو محفوظ رہا اور اس کے ملازمین کو ان کے جائز حقوق ملے ۔ لیکن دوسری جانب اس طویل جدوجہد کے دوران نا صرف سید مبشر رضی جعفری کا ملازمتی کیریئر تباہ ہوا بلکہ ان کی صحت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ لیکن ان سخت ترین آزمائشوں اور مصائب اور اپنے ناقابل تلافی ذاتی نقصان کے باوجود سید مبشر رضی جعفری کے پایہ استقامت میں کبھی بھی ذرہ برابر لغزش نہیں آئی ۔ سید مبشر رضی جعفری کی شخصیت کو ملک کے لاکھوں غریب محنت کشوں کی پنشن کے قومی ادارہ ای او بی آئی کو ان بدعنوان عناصر کے پنجہ سے بچانے کے لئے ای او بی آئی کا ایک حقیقی مزدور دوست شخصیت اور جاں نثار محافظ تصور کیا جاتا ہے ۔

جنہوں نے ذی او بی آئی اپنے 36 سالہ طویل ملازمتی دور میں ہمیشہ کسی طمع، لالچ اور ذاتی مفادات کے حصول کے بغیر صرف اور صرف ملک کے لاکھوں غریب محنت کشوں کے مفادات کی خاطر پنشن کے قومی فلاحی ادارہ ای او بی آئی کو ان لٹیروں اور غاصبوں سے بچانے کے لئے ایک طویل قانونی جدوجہد کی ہے اور اپنے جذبہ ایثار اور قائدانہ صلاحیت کی بدولت ای او بی آئی پنشن فنڈ کو لوٹنے کھسوٹنے والے ان تمام انتہائی بااثر اور طاقتور عناصر کو ہمیشہ شکست فاش دی ہے ۔سید مبشر رضی جعفری نے سال 2010 تا 2013 کے دوران اس وقت کے ای او بی آئی کے انتہائی بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل کی جانب سے ای او بی آئی میں کلیدی عہدوں پر بلا کسی تعلیمی قابلیت، تحریری ٹیسٹ، انٹرویو اور ڈومیسائل کے محض سیاسی بنیادوں پر 400 خلاف ضابطہ بھرتیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ادارہ میں ایک ماہ کی قلم چھوڑ ہڑتال کرائی تھی اور پھر اس صورت حال سے مایوس ہو کر حصول انصاف کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک آئینی پٹیشن 6/2011 داخل کی تھی ۔

جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے مارچ 2014 میں ناصرف ای او بی آئی میں ان تمام خلاف ضابطہ طور پر بھرتیوں کو کالعدم قرار دیا تھا ( سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ تاریخی فیصلہ آج بھی ای او بی آئی کی ویب سائٹ پر موجود ہے ) بلکہ ان بھرتیوں کے مرتکب اعلیٰ افسران کے خلاف NAB کو تحقیقات کرنے کی ہدایت بھی کی تھی جس پر نیب نے تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائی تھی ۔ جس کے تحت اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور اس وقت کے چیئرمین ای او بی آئی ظفر اقبال گوندل سمیت ای او بی آئی کے 11 اعلیٰ افسران کے خلاف ادارہ میں 400 غیر قانونی بھرتیوں کے الزامات کے تحت احتساب عدالت اسلام آباد میں ایک کیس تاحال زیر سماعت ہے جس کا فیصلہ جلد متوقع ہے ۔

اسی طرح سید مبشر رضی جعفری کی کوششوں سے ای او بی آئی میگا لینڈ اسکینڈل منظرعام پر آیا تھا ۔ جو اس وقت کے چیئرمین ای او بی آئی ظفر اقبال گوندل اور اس کے حواری بدعنوان افسران کی جانب سے ملک کے غریب محنت کشوں کے ای او بی آئی پنشن فنڈ سے سرمایہ کاری کے نام پر اور بھاری کمیشن کمانے کے لالچ میں ملک کے مختلف شہروں میں اربوں روپے مالیت کی 18 اراضی اور املاک کی غیر قانونی خریداریوں کا میگا اسکینڈل تھا اور اس اہم معاملہ پر جون 2013 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ای او بی آئی پنشن فنڈ میں ہونے والے اس میگا لینڈ اسکینڈل کا ازخود نوٹس لیا تھا ۔ یہ کیس نمبر 35/2013 عرصہ 9 برسوں سے تاحال سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی میں کیا عجب دستور قائم ہے

کہ ای او بی آئی جیسے فلاحی ادارہ کو تباہی اور بربادی سے بچانے والے اس دیانتدار، تجربہ کار اور مخلص ملازم کو مسلسل ان کی جائز ترقیوں سے محروم رکھا جاتا ہے اور دوسری جانب ای او بی آئی کو لوٹنے کھسوٹنے اور پنشن فنڈ میں غبن کرنے والے بااثر اور طاقتور افسران کو ترقیوں پر ترقیاں دی جاتی ہیں ۔

ای او بی آئی میں یہ تشویشناک صورت حال حکومت پاکستان، ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز اور انتظامیہ کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے!

Leave a Reply