اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ماہِ رمضان کی برکتوں اور رحمتوں کو سمیٹنے والے عاشقانِ رسولِ عربی رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا بالخصوص انتظار کرتے ہیں
، اعتکاف کا اہتمام کرتے ہیں، شبِ قدر کو پا لینے کی حسین خواہش کو اپنے دل میں سمائے رکھتے ہیں اور انتہائی خشوع خضوع کے ساتھ جمعۃ الوداع ادا کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔
پروردگارِعالم کی ذاتِ پاک نے اپنے بندوں کو نوازنے کیلئے بعض دنوں کو دنوں پر اور بعض راتوں کو راتوں پر بہت زیادہ فضیلت عطا فرمائی ہے تاکہ امت مسلمہ اپنے دلوں کی سیاہی کو دھو ڈالے اور اللہ کی بارگاہِ مقدس میں سرخرو ہو سکے۔ جمعۃ المبارک وہ خاص دن ہے جس کو باقی دنوں پر خصوصی طور پر فضیلت و بزرگی بخشی گئی۔ جمعۃ المبارک کو ’’سید الایام‘‘ یعنی تمام دنوں کا سردار کہا اور مانا جاتا ہے اور اس کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے
کہ اسی دن اللہ تعالیٰ کے حکم سے ابو البشر سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کے اجزائے تخلیق جمع کیے گئے۔ ماہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ بہت زیادہ فضیلت والا دن ہے جس طرح ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں عبادت کثرت سے کی جاتی ہے بلکہ جمعۃ الوداع کو جس قدر کثرت سے عبادت کی جائے اس کی کئی سو گنا فضیلت و عظمت ہے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے کے ساتھ آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع نہایت اہمیت کا حامل ہے
اس کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے عبادت کریں، جس قدر ذکر الٰہی کر سکیں کریں، بڑی برکت ہے۔ عام حالات میں بھی جمعہ کا دن مبارک ہے لیکن ماہ صیام میں خاص طور پر اس دن کی فضیلت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب و جابر اسرائیل اور صہیونیت کی مخالفت ہوتا ہے، مسلمانوں کے قبلہ اول پر اسرائیل عرصہ دراز سے قبضہ جمائے ہوئے ہے، یہ کئی عشروں سے مظلوم فلسطینیوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھا رہا ہے
اور خود کو مہذب گرادننے والے ممالک اس کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔ عالمی ضمیر مردہ ہوا پرا ہے۔ اس حوالے سے مسلمانوں کی جانب سے منظم تحریک وقت کی اہم ضرورت ہے کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے استعمار سے نجات مل سکے اور قبلہ اول اس کے تسلط سے آزاد ہو سکے۔رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی نے کیا تھا۔امام خمینی کے اس اعلان کے وقت سے دنیا بھر میں قبلہ اول کی آزادی اورفلسطینی مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے یوم القدس منایا جاتا ہے۔ اس موقع پراسلامی جمہوریہ ایران، پاکستان، ہندوستان، لبنان، عراق، بحرین اور فلسطین سمیت دنیا کے کئی ممالک میں القدس ریلیاں نکالی جاتی ہیں،
جن میں کروڑوں افراد نے شرکت کرتے ہیں اور امریکہ، اسرائیل اورعالمی استکبار کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز اور اخبارات کے ذریعے مسلمان اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کرتے ہیں اور اس تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جو ان شاء اللہ بیت المقدس کی آزادی تک جاری رہے گی۔مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے اساسی اور بنیادی مسائل میں سے ایک ہے جس نے کئی عشروں سے امت مسلمہ کو بے چین کررکھا ہے ۔ارض فلسطین جسے انبیاکی سرزمین کہا جاتا ہے اور بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے اس وقت غاصب صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے۔ یوم القدس کو منانے کا مقصد ان صیہونی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے جو فلسطینیوں کی تباہی اور اس کے خاتمے کے خواہاں تھے۔
اسلامی علامتیں پاک سرزمین کی تشکیل کرتی ہیں۔ فلسطینیوں کے حقوق کا اعتراف اور اس کے اصل باشندوں کو زمین کی واپسی ہی ان تاریخی بحرانوں کا واحد حل ہے۔ صہیونیوں کی ناجائز سکیمیں صرف اس سرزمین تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ وہ دوسری مسلم سرزمین تک بھی توسیع کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ صیہونی پالیسیوں سے علاقائی اور عالمی سلامتی کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس عالمی دن قرار دینے کا مقصد محدود قومی یا نسلی نظریات کی خدمت کرنے کے بجائے مسلم برادری اور فلسطینیوں کے مفادات کی خدمت کرنا تھا۔
مسئلہ فلسطین ہو یا کشمیر یہ دونوں دراصل امت کی یکجہتی، اتحاد اور اتفاق کے لیے ہی نہیں عزم و حوصلے کے لیے بھی امتحان ہیں۔ ان دونوں مقامات پر قابض غیر مسلم استعماری قوتیں مسلم بچوں، نوجوانوں کا خون پانی کی طرح بہا رہی ہیں، خواتین اور بچوں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ یہ مظلوم دنیا بھر میں موجود 200 کروڑ کی مسلم قوم سے امداد کے منتظر ہیں۔ یہ کس قدر افسوسناک ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی آبادی کے حامل ہونے کے باوجود مسلمانوں کی کہیں کوئی اہمیت نہیں۔
وجہ صرف ایک ہے کہ ہم میں اتحاد نہیں اور ہم اللہ کی رسی کو چھوڑ کر تفرقہ بازیوں اور دنیاوی لذتوں میں گم ہو چکے ہیں۔ جمعۃ الوداع مسلمانوں میں خاصا اہمیت کا حامل ہے۔ اب یہ دن اگر زندگی رہی تو ہمیں اگلے برس ہی نصیب ہو سکے گا۔ اس لحاظ سے یہ ساعتیں بہت قیمتی ہیں۔ رمجان میں ایک ایک نیکی کا ثواب ستر گنا ملتا ہے، اسی طرح جمعہ کے یوم کی اہمیت ہے، رمضان المبارک میں بخشش اور نیکیوں کے یہ دونوں پیکیج بیک وقت امت مسلمہ کو میسر آتے ہیں۔ یہ دن تقاضا کرتا ہے کہ رب کے حضور گڑگڑا کر اپنے گناہوں پر بخشش طلب کی جائے۔
رمضان المبارک کی طرح آئندہ زندگی میں دینی تعلیمات پر مکمل عمل پیرا ہونے کا عہد کیا جائے۔ دینی احکامات کی پاسداری کی جائے۔ صرف رمضان ہی نہیں پوری عمل زندگی میں ایماندار، باکردار اور صالح فرد بننے کی کوشش کی جائے۔ سچ، حق گوئی کی راہ پر چلنے کی سعی کی جائے۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اختیار کیا جائے۔ دوسروں کی عزتِ نفس کا خیال رکھا جائے۔ حقوق العباد کی دینی تعلیمات کی روشنی میں ادائیگی کی جائے۔ بے کسوں، پریشان حال لوگوں کی اشک شوئی کے لیے جو ممکن ہو سکے، کیا جائے۔
امت مسلمہ بالخصوص وطن عزیز کو درپیش مسائل سے نجات کے لیے خلوص دل سے رب کے حضور گزارشات پیش کی جائیں۔ یقینا بارگاہ الٰہی میں یہ دعائیں ضرور قبولیت کا درجہ پائیں گی اور ان شاء اللہ ہم اس سنگین سماجی، معاشرتی، مالی اور معاشی صورت حالات سے نکل جائیں گے۔