پاکستان میں اپریل کے دوسرے ہفتے میں تحریک عدم اعتماد کی منظوری، نئے وزیراعظم کے انتخاب اور نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سابقہ حکمران جماعت اس کے چیئرمین اور دیگر عہدے دار مسلسل ایسا بیانیہ دہرا رہے ہیں جن میں ملک کے مقتدر حلقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

پاک فوج کے بارے میں مسلسل منفی گفتگو کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان امریکہ کی غلامی کے حوالے سے مسلسل جو گفتگو کر رہے ہیں وہ ملک کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے۔

اب ان کی پارٹی کے بعض رہنما فوج میں تعیناتی تقرر اور آرمی چیف کے حوالے سے جو گفتگو کر رہے ہیں اس پر محب وطن حلقے اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں اور کر بھی رہے ہیں

مگر اس وقت کی اپوزیشن جو انداز اختیار کر رہی ہے اس سے ملک کی سلامتی اور تحفظ سے متعلق اداروں کے بھی تحفظات ظاہر ہو رہے ہیں۔

اس حوالے سے گزشتہ روز فوج کے تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے ایک طویل بیان جاری کیا ہے جس میں سیاستدانوں کے بیانات اور طریق کار کے حوالے سے فوج کی رائے کا اظہار کرتے ہوئے

انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں محتاط رہیں اور ملک کے مسائل میں اضافہ نہ کریں۔ جمعرات کے روز جاری کردہ بیان میں فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ فوج کو متنازع نہ بنائیں۔ بیان میں کہا گیا ہے

کہ سیاستدان اور میڈیا ادارے فوج کو سیاسی گفتگو سے دور رکھیں۔ فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ آرمی چیف کے عہدے کو موضوع بحث نہ بنایا جائے۔

کور کمانڈر پشاور کے حوالے سے بیانات انتہائی نامناسب ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ملک میں الیکشن کب ہونا ہے اس کا فیصلہ سیاست دانوں نے کرنا ہے۔ اس میں فوج کا کوئی کردار نہیں۔ اس لئے فوج کو اس معاملے سے نتھی نہ کیا جائے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر فوج سے متعلق تنقید نہیں پراپیگنڈہ ہو رہا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے دورہ پر میرے پاس معلومات نہیں ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فوج کے اندر تقسیم ہو سکتی ہے تو اس کو پاک فوج کے بارے میں علم ہی نہیں ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فوج کبھی سیاست دانوں کو ملاقات کے لئے نہیں بلاتی۔ جب سیاست دانوں کی درخواست آتی ہے تو پھر آرمی چیف کو ملنا پڑتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ کچھ عناصر کی مسلح افواج اور عوام کے درمیان محبت و اعتماد کے رشتے میں دراڑ کی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ پشاور کور پاکستان آرمی کی ممتاز فارمیشن ہے۔ پشاور کور دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے اس اہم کور کی قیادت ہمیشہ پروفیشنل ہاتھوں میں سونپی گئی ہے۔

پشاور کور کے حوالے سے اہم سینئر سیاستدانوں کے حالیہ بیانات انتہائی نامناسب ہیں۔ ایسے بیانات سپاہ اور قیادت کے مورال اور وقار پر منفی طو رپر اثرانداز ہوتے ہیں افواج پاکستان کے بہادر سپاہی اور افسر ہمہ وقت ملک کی خودمختاری اور سالمیت کی حفاظت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کر رہے ہیں۔ اس لئے سینئر قومی سیاسی قیادت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ادارے کے خلاف ایسے متنازع بیانات سے اجتناب کریں۔

پاک فوج کے ترجمان نے اپنے بیان میں جن امور کی طرف اشارہ کیا ہے ان سب پر ان کی گفتگو متوازن اور آئینی حدود میں درست ہے۔ سیاستدانوں کو چاہے وہ برسراقتدار ہوں یا اقتدار سے باہر ہوں ملک کی سلامتی اور تحفظ کے ادارے کے حوالے سے کسی بھی گفتگو سے اجتناب کرنا چاہئے۔ آرمی چیف کے تقرر کا ایک طریق کار موجود ہے جب نئے آرمی چیف کے تقرر کا وقت ہو گا تو اس پر طریق کار کے مطابق عمل ہو گا۔ اس کے لئے فوج کی طرف سے وزیراعظم کو جو سمری بھیجی جائے گی اس پر اس وقت جو بھی وزیراعظم ہو گا وہ فیصلہ کرے گا۔

اس میں دیگر سیاسی رہنمائوں کی کیا دلچسپی ہے۔ فوج کا ادارہ بار بار یہ اعلان کر رہا ہے کہ ان کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور وہ سیاسی معاملات میں دخل دے رہے ہیں نہ اس میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں تو ان کو بعض اقتدار سے محروم ہونے والے سیاسی لیڈر بار بار کیوں ملوث کر رہے ہیں۔ فوج کے ترجمان بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج نے آئین میں دی گئی حدود میں رہ کر اپنے فرائض سرانجام دینے کا فیصلہ کر چکی ہے

اور وہ اس پر سختی سے قائم ہیں۔ اس حوالے سے فوج حالیہ کچھ عرصے کا ذکر کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ خود تمام سیاستدانوں نے تسلیم کیا ہے کہ کچھ عرصے میں فوج نے خود کو ہر طرح کے سیاسی معاملات سے دور رکھا ہے اور کسی امر میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ فوج ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ آرمی چیف نے کبھی کسی سیاست دان کو ملاقات کی دعوت نہیں دی۔ جب بھی سیاست دانوں نے ملاقات کی درخواست کی تو آرمی چیف نے ملاقات کی۔ پاکستان کے سیاست دانوں کا المیہ ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے لئے چور راستوں کو تلاش کرتے ہیں اور اس کے لئے فوج سے رابطہ اور اس کے حوالے سے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک سیاسی جماعت کے سربراہ خود کو ہمیشہ گیٹ نمبر چار کی پیداوار قرار دیتے ہیں اور اس کو اپنی کامیابی کی وجہ بتاتے ہیں۔ فوج کی طرف سے سیاست سے دور رہنے سے یہ راستہ بند ہونے کے خدشے نے کئی سیاستدانوں کی راہ تاریک کر دی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے تمام سیاسی جماعتیں اور قائدین اس بات کا عہد کریں کہ وہ آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں گے اور وہ کسی چور راستے کو تلاش نہیں کریں گے۔ اس ملک کی ترقی، جمہوری نظام کی بقا اور آئین کی سربلندی کے لئے ضروری ہے تمام سیاستدان درست راستے پر چلنے کا نہ صرف عہد کریں

بلکہ اس پر عمل بھی کریں۔ ہر راستہ اقتدار میں موجود اور اپوزیشن والے تمام سیاستدانوں کے لئے ہے۔ ملک اس وقت جس معاشی بحران، سیاسی تقسیم، علاقائی تعصبات، لسانی منافرت اور سیاسی دوری کا شکار ہے ان سے نمٹنے کے لئے قوم کے اتحاد کی ضرورت ہے۔ سابق حکمران جماعت جس بیانیے پر چل رہی ہے اس سے اسے کچھ حاصل نہیں ہو گا ملک میں جو معاشی مسائل اس وقت موجود ہیں اس کی ذمہ دار سابق حکومت ہے

جو پونے چار برس میں ملکی معیشت کی بہتری کے لئے ایک قدم بھی آگے نہ رکھ سکی۔ موجودہ حکومت اگر بہتری لانے کی کوشش کر رہی ہے اور اپنی بے وقت کی سیاسی تحریک سے اس کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہے ملکی مفاد اور عوام کی بھلائی کے لئے پارلیمنٹ ہی واحد راستہ ہے۔

اس وقت کی اپوزیشن اسمبلیوں میں آ کر معاملات میں حصہ ڈالے اور بطور اپوزیشن اپنا کردار ادا کرے اور درست طرح سے اپنا کردار ادا کرے نہ کہ منفی راستہ اختیار کر کے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافے کا سبب بنے۔

Leave a Reply