کراچی: وزیراعظم شہباَز شریف نے کہا ہے پی ٹی آئی چیئر مین عمران خان نے اگلی حکومت کیلئے جال بچھایا ، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی دیکھ کر تیل سستا کر دیا ، نئی سرکار کو سرمنڈواتے ہی اولے پڑے، اب مشکل آن
پڑی ہے تو پھر قربانی دینا پڑے گی ، ہمارے مقتدر ادارے کی جانب سے جو تعاون لاڈلے کو ملا اگر اس کا 30 فیصد بھی ہماری کسی حکومت کو ملتا تو پاکستان راکٹ کی طرح اوپر جارہا ہوتا ، پچھلی حکومت کو پتہ چلا کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجائے گی تو کسی چلتر آدمی نے مشورہ دیا کہ پیٹرول اور تیل کی قیمتیں سستی کر دیں ، گندم پہلے برآمد ہوتی تھی اب درآمد ہونے لگی کیا یہ سیاسی افراتفری کا نتیجہ تھا،

ایل این جی کی قیمت مارکیٹ میں 3 ڈالر فی یونٹ تھی نہیں خریدا لیکن مہنگا ترین تیل خریدا اور جب ایل این جی 60ڈالر پر پہنچ گیا تو پھر سودے کر رہے ہیں تو کیا یہ سیاسی افراتفری کا نتیجہ تھا، خدارا اس کا تحمل، برداشت اور ایمان داری سے تجزیہ کرنا چاہیے۔ جمعہ کو کراچی چیمبر آف کامرس کی جانب سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا آج مجھے کراچی آنا تھا کہ پاکستان نیوی نے تقریب کا انعقاد کیا تھا جہاں پر ترکی اور پاکستان کے تعاون سے ایک جنگی جہاز لانچ کیا جانا تھا ، میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کراچی میں آپ لوگوں کی خدمت میں حاضر اور موجودہ صنعتی، معاشی اور مالی صورت حال ہے

اس بارے میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں ، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، مفتاح اسماعیل اور کراچی چیمبر کا شکر گزار ہوں۔ وزیراعظم نے کہا میں یہاں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے نہیں آیا اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہے، جو اصل مسائل ہیں اس کا حل جاننے آیا ہوں ، ڈالر اگست 2018میں 115 روپے کا تھا جب عدم اعتماد کے ذریعے جب ہماری متحدہ حکومت بنی اور 11اپریل کو میں نے حلف لیا تو ڈالر 189پر تھا جو 115روپے سے سفر کرتا ہوا 189پر آیا تھا ، یہ جو 60سے 65روپے کی اڑان تھی اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا البتہ حلف لیا تو 8روپے ڈالر سستا ہوا اور سٹاک مارکیٹ اوپر گئی۔ انہوں نے کہا پچھلی حکومت کو پتہ چلا کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجائے گی

تو کسی چلنتر آدمی نے مشورہ دیا کہ پٹرول اور تیل کی قیمتیں سستی کر دیں ، دنیا میں تاریخ کی بلند ترین قیمتیں ہیں اور پاکستان قرضوں پر زندگی بسر کر رہا ہے، حقیقت یہی ہے اور پھر کہیں یہ جال بچھایا جا رہا تھا کہ عدم اعتماد کامیاب ہوجائے تو اگلی حکومت اس جال میں پھنس جائے گی تو یہ چال تھی ، ہماری سیاسی مجبوری بھی تھی کہ سرمنڈھاتے ہی اولے پڑے، جنہوں نے ساڑھے 3سال ایک دھیلے کا عام آدمی کو ریلیف نہیں دیا اور یاد نہیں آیا اور قرضے ہی قرضے لیتے رہے ، اب مشکل آن پڑی ہے تو پھر قربانی دینا پڑے گی ۔ انہوں نے کہا پاکستان میں کوئی ایک منصوبہ بتائیں جس کا معاش، زراعت، سماج سے تعلق ہو، پچھلی حکومت کسی منصوبے کو سنجیدگی سے کیا

اور اس کا پھل کھانے کا وقت ہوا ہو ، 2018سے 30مارچ 2022تک قرضوں میں 80فیصد اضافہ ہوا، اس وقت تو سیاسی افراتفری نہیں تھی، اس وقت لاڈلی اور لاڈلی حکومت کو ہمارے مقتدر ادارے نے وہ تعاون کیا جو پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں نہ کسی کو ملی اور نہ آئندہ کسی کو ملے گی، یہ بلاخوف و تردید کہنا چاہتا ہوں ، بڑی انکساری سے کہتا ہوں جو تعاون اس لاڈلے کو ملے تھی اگر ہماری کسی حکومت کو اس کا 30فیصد بھی ملا ہوتا تو بڑی عاجزی سے کہتا ہوں کہ پاکستان راکٹ کی طرح اوپر جا رہا ہوتا، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا میں کسی خیال دنیا میں لے کر نہیں جا رہا بلکہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے، سی پیک آیا، پورٹ قاسم اور پنجاب میں منصوبے لگے

، پنجاب اور یہاں بجلی کے منصوبے لگے ، اربوں ڈالر کے 4منصوبے لگائے گئے، اتنی کم مدت میں سستے اور جدید ترین مشینری کے منصوبے پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں نہیں لگے، منصوبے لگے اور لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی لیکن اب لوڈشیڈنگ کیوں شروع ہوئی۔ انہوں نے کہا یہ جو 10، 12 روپے ڈالر بڑھا ہے، اس کی کئی تاویلیں ہوسکتی ہیں لیکن میں پوچھتا ہوں کہ لوڈ شیڈنگ جو ختم ہوئی تھی دوبارہ کیوں شروع ہوئی اور 22 کھرب کا قرضہ کہاں گیا ، یہ چبھتے ہوئے سوالات ہیں، جس کا قوم جواب مانگتی ہے اور جواب ملنا چاہیے، چینی برآمد کریں، لیکن غریب قوم کو سبسڈی دیں ، گندم پہلے برآمد ہوتی تھی اب درآمد ہونے لگی کیا یہ سیاسی افراتفری کا نتیجہ تھا، ایل این جی کی قیمت مارکیٹ میں 3 ڈالر فی یونٹ تھی نہیں خریدا لیکن مہنگا ترین تیل خریدا اور جب ایل این جی 60 ڈالر پر پہنچ گیا تو پھر سودے کر رہے ہیں تو کیا یہ سیاسی افراتفری کا نتیجہ تھا، خدارا اس کا تحمل، برداشت اور ایمان داری سے تجزیہ کرنا چاہیے

، اگر مجھے سے غلطی ہوئی تو معافی مانگنی چاہیے، کبھی غلط ہوا ہے تو اس کا ازالہ ہونا چاہیے لیکن ساڑھے تین برسوں کی بدترین حکومت کے بعد غداری اور وفاداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹے جائیں۔ وزیراعظم نے کہا یہ پاکستان اس لیے بنا تھا کہ آپ ملک کو کھوکھلا کردیں، تباہ و برباد کر دیں اور پھر کہیں غداری ہوئی، یہ غدار اور یہ وفادار ہیں، اس بحث میں گئے تو بات دور تلک جائے گی، ہمارے دور میں سی پیک آیا، جب لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی تو دوبارہ کیوں ہورہی ہے، قوم ان چھبتے ہوئے سوالوں کا جواب مانگ رہی ہے، روپیہ کی قدر تیزی سے نیچے جا رہی ہے، اربوں روپے خرچ کر کے چینی کو ایکسپورٹ کیا گیا، کیا یہ سیاسی افراتفری کا نتیجہ تھا؟ ایل این جی 3 ڈالر تب ایل این جی نہیں منگوائی گئی؟ خدارا ہمیں بہت تحمل، ایمانداری سے تجزیہ کرنا ہو گا، اگر کہیں مجھ سے غلطی ہوئی تو معافی مانگنی چاہیے، ساڑھے تین سال کی حکومت میں غداری کے سرٹیفیکٹ بانٹے گئے، غداری اور وفاداری کی بحث میں جائیں گے تو بات دور تک جائے گی، روپیہ ہچکولے کھا رہا ہے، صورتحال سب کے سامنے ہے، کاروباری حضرات ساری صورتحال کو سمجھتے ہیں، خدارا حکومت کو حل بتائیں، ایک دورانئے کے لیے لگژری آئٹمز پر پابندی عائد کی گئی ہے، امپورٹڈ اشیا پر پابندی لگانے کا مقصد ڈالر میں استحکام آئے،

ہمیں مشکل آن پڑی ہے تو پھر قربانی دینا پڑے گی، ہماری حکومت نے سستے ترین بجلی کے منصوبے لگائے۔ انہوں نے کہا غریب آدمی، بیواں کے پاس دودھ کے پیسے نہیں ہیں، ایک طرف اشرافیہ ہر چیزامپورٹڈ اشیاء منگواتی ہے، امپورٹڈ اشیا پر پابندی لگانا صحیح قدم ہے، امپورٹڈ اشیاء پر پابندی سے لوکل انڈسٹریز کو فائدہ ہو گا۔ کاروباری حضرات پاکستان کے عظیم معمار ہے، اگر ہم اکٹھے ہو کر دن رات محنت کریں گے تو اگلے پانچ سے 10 سال میں ملک کی تقدیر بدل جائے گی، جرمنی، جاپان آج کہاں سے کہاں پہنچ گئے، کیا ہماری تقدیر میں لکھا ہے غریب اور بھکاری رہیں گے، ساڑھے 3 سالوں میں معیشت کا بیڑہ غرق ہوا، شو منتر سے نہیں دن رات محنت اور قربانی دینا ہو گی، اگر ہم اسی طرح رہے تو پھر 500 سال بھی حالت نہیں بدلے گی، دن رات محنت کریں گے تو ترقی کریں گے، بھارت تعلیم، ایکسپورٹ، آئی ٹی سمیت ہر چیزمیں کہاں سے کہاں چلا گیا۔ پاکستان آئی ٹی کی ایکسپورٹ 15ارب ڈالر کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کراچی میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے، پانی کے حوالے سے ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگائیں گے تو مسئلہ حل ہو جائے گا، سعودی عرب کی ایک ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ ٹیبل پر موجود ہے، سندھ حکومت عقیل کریم ڈھیڈی، موتی والا کو ساتھ بٹھائے، سارے صوبوں میں آئی ٹی ٹاور بننے چاہئیں ، پاکستان نے اگر آگے بڑھنا ہے تو ایکسپورٹ پر توجہ دینا ہو گی، قومیں اس طرح نہیں بنتی بینک سے لون لیا اور پھر معاف کرا لیا، قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو وقت کی قدر کرتی ہیں، ایکسپورٹ کے لیے انڈسٹریل زون بنائے جائیں، چین پر بھونڈے الزامات لگائے گئے، چین دوبارہ راضی ہوگیا ہے۔ درآمدات پر پابندی کے حوالے سے شہباز شریف نے کہا امپورٹ پر پابندی لگانے سے غیر ملکی زرمبادلہ بچے گا اور مقامی صنعت کو فروغ ملے گا، امپورٹ پر پابندی کے بعد مقامی صنعت کی ناجائز منافع خوری روکنے کیلئے مقامی اشیا کی قیمتیں کنٹرول بھی کرنا ہوں گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی میں پانی کے مسئلے کے حل کیلئے سعودی عرب نے ایک ارب ڈالرز سرمایہ کاری کا تحفہ دیا ہے، سعودی عرب جاتے ہیں، وہ ہمارے بھائی ہیں، وہ انکار نہیں کریں گے لیکن ہم کس منہ سے سعودی عرب جاتے ہیں، کس شکل سے جاتے ہیں، یہ ہمارا ہی حوصلہ ہے، سعودی عرب، قطر اور دیگر ملکوں سے پیسے مانگنے میں ہم ڈھیٹ بن چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوست ملک کا نام نہیں بتائوں گا لیکن اس نے قرض رول اوور کرنے کی پیشکش خود کی، میں نے دوست ملک کا شکریہ ادا کیا، شرم آرہی تھی کہ کس منہ سے پہلی گفتگو میں کہیں کہ کشکول لے آئے، کب تک کشکول پر زندہ رہیں گے؟ 75 سال گزر گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا یورپی یونین کو ہم کیا کیا صلواتیں نہیں سنا چکے، انہوں نے پھر بھی ہمیں اچھی یقین دہانی کرائی ہے ، ہیگ سے ٹیولپ روزانہ آسکتے ہیں تو سندھ کی زرعی پیداوار خلیجی ممالک کیوں نہیں بھیجی جاسکتی؟ ۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ گزشتہ روز چینی وفد سے ملاقات ہوئی، وہ پچھلی حکومت سے بہت ناراض ہیں، نہ ونڈ پاور پر نہ سولر پاور پر کام کیا، ساڑھے تین سال پچھلی حکومت کیا مکھیاں مارتی رہی ہے؟ سولر پاور اور ونڈ پاور پر بہت تیزی سے کام کرنا ہوگا، کوئی جادو یا چھو منتر نہیں، آگے بڑھنے کیلئے محنت کرنا ہوگی ۔ انہوں نے سولر ٹیکنالوجی کی درآمد پر 17 فیصد ٹیکس فوری ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

اس کے علاوہ وزیراعظم نے معاشی صورتحال کی بہتری کیلئے صنعت کاروں سے تجاویز بھی مانگیں ۔ علاوہ ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے ضلع شیرانی میں صنوبر کے درختوں کو آگ لگنے کا نوٹس لے لیا، تین افراد کے جاں بحق ہونے پر رنج و غم اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے ہنگامی امداد کیلئے وفاقی اداروں کو فوری کارروائی کرنے کی ہدایت کردی۔ وزیراعظم نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر سات کلومیٹر کے دائرے میں لگی آگ کو بجھانے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے ۔

نوائے بروج میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply