ای او بی آئی میں اصول پرست چیئرمین شکیل احمد منگنیجو کے ٹرانسفر ہوجانے اور کمزور منتظم چیئرپرسن کی تعیناتی کے بعد ایک بار پھر بدانتظامی اور بدعنوانی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے ای او بی آئی کے ہر شعبہ میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور بھاری کرپشن کی داستانیں جا بجا بکھری ہوئی ہیں ۔
بتایا جاتا ہے کہ حال ہی میں سنگین بدعنوانیوں اور آمدنی کے مقابلہ میں بھاری اثاثے بنانے کے سنگین الزامات کے تحت نیب کراچی کی تفتیش میں نامزد بھتہ خور فیلڈ افسر کرشن سولنکی افسران بالا کو بھاری نذرانے پیش کر کے ایک بار پھر فیلڈ آپریشنز ریجنل آفس کورنگی میں اپنی تعینات کرانے میں کامیاب ہوگیا ہے
تفصیلات کے مطابق اقلیتی برادری سے رکھنے والا کرشن کمار سولنکی ولد گنیش ایمپلائی نمبر 919700 اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز، پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں ایک بڑی سیاسی سفارش کے ذریعہ 7 ستمبر 1995 کو ای او بی آئی میں ایگزیکٹیو افسر کے عہدہ پر اپنی بھرتی کرانے میں کامیاب ہو گیا تھا

ای او بی آئی میں ابتداء سے یہ دستور رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی سفارشوں پر آنے والے بااثر افراد اپنی ای او بی آئی میں بھرتیوں کے بعد ایک بار پھر اپنے سرپرستوں کی بھاری سفارشوں کے ذریعہ اپنا ٹرانسفر فیلڈ آپریشنز کے منفعت بخش شعبہ میں کرا لیتے ہیں اور پھر اپنا پورا کا پورا کیرئیر فیلڈ آپریشنز میں رشوت خوری اور بھتہ خوری میں گزار کر ایک کروڑپتی شخص کی حیثیت سے ملازمت سے ریٹائرمنٹ ہو جاتے ہیں
ای او بی آئی میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے سفارشی کروڑ پتی افسران کی ایک طویل فہرست موجود ہے جو ماضی میں ای او بی آئی کے نام پر بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ اور بھتہ خوری کرکے اور لاکھوں محنت کشوں کو ان کی مستقبل کی پنشن سے محروم اور ان کی سخت حق تلفی کرنے کے بعد آج ملک کے مختلف شہروں میں ریئل اسٹیٹ، پٹرول پمپ، کیٹل فارمز کے بڑے بڑے بزنس کرنے میں مصروف ہیں
ای او بی آئی میں کے کے سولنکی کے نام سے معروف اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز کا شمار بھی اسی بدعنوان گروہ کے سرگرم ارکان میں کیا جاتا ہے
جو 1995 میں اپنی بھرتی کے وقت سے اب تک ای او بی آئی کے مختلف ریجنل آفسوں ویسٹ وہارف، ساؤتھ زون، کورنگی، کریم آباد، ناظم آباد، فیلڈ آفس گھوٹکی، کراچی سنٹرل اور کورنگی میں تعینات رہ کر علاقہ کے آجران اور اداروں سے ای او بی آئی میں رجسٹریشن کے نام پر جوڑ توڑ اور بلیک میلنگ کے ذریعہ ان کے اداروں میں خون پسینہ بہاکر روزی کمانے والے لاکھوں محنت کشوں اور ملازمین کو مستقبل میں ان کی پنشن کے حق سے محروم کرکے لاکھوں کروڑوں روپے کی کمائی کر چکا ہے

لیکن اوپر سے نیچے تک باقاعدگی سے مال غنیمت کا حصہ پہنچانے کے باعث گزشتہ 27 برسوں میں آج تک انتہائی بدعنوان اور بھتہ خور افسر کرشن سولنکی کا کوئی بال بیکا تک نہیں کرسکا ہے
بتایا جاتا ہے کہ کرشن کمار سولنکی صائمہ مال اینڈ ریزیڈنسی راشد منہاس روڈ کے ایک لگژری اپارٹمنٹ کا رہائشی ہے جس میں مالیت کئی کروڑ روپے بتائی جاتی ہے جبکہ اس کے آبائی علاقہ گھوٹکی میں زرعی اراضی اور بیش قیمت املاک بھی ہیں جو سب کی سب ای او بی آئی کے مال غنیمت سے خریدی گئی ہیں
ای او بی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل نیب کراچی نے کرشن کمار سولنکی کے خلاف بھتہ خوری اور رشوت ستانی کے ذریعہ اثاثہ جات بنانے کے الزامات کے تحت ایک انکوائری کا آغاز کیا تھا اور ای او بی آئی ہیڈ آفس سے اس کی تقرری کے طریقہ کار، تقرری کے وقت کے اس کے ڈیکلیئرڈ اثاثہ جات اور ملازمت کی ابتداء سے اب تک ادا کی گئی تنخواہوں کی اسٹیٹمنٹ کی تفصیلات طلب کی تھیں
لیکن ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس اور بی اینڈ سی ڈپارٹمنٹ عوامی مرکز کے بعض اعلیٰ افسران کی سرپرستی اور مال غنیمت میں ہم نوالہ ہم پیالہ ہونے کے باعث تاحال نیب کو یہ دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں اور اس معاملہ کو سرد خانہ میں ڈال دیا گیا ہے
بتایا جاتا ہے کہ کرشن کمار سولنکی کے نیب کے ریڈار پر آجانے کے بعد ای او بی آئی کے پچھلے اصول پرست چیئرمین شکیل احمد منگنیجو نے کرشن کمار سولنکی کو فوری طور پر فیلڈ آپریشنز سے ہٹا کر بی اینڈ سی عوامی مرکز ٹرانسفر کرکے گراؤنڈ کردیا تھا
لیکن بعد ازاں شکیل احمد منگنیجو کے ٹرانسفر ہوتے ہی ای او بی آئی کے فیلڈ آپریشنز کے بدعنوان افسران کے ٹولے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور انہوں نے جشن بھی منایا
جب چند ماہ قبل خاتون چیئر پرسن ناہید شاہ درانی نے ای او بی آئی میں اپنے عہدہ کا چارج سنبھالا تو وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت سندھ میں اپنے ماضی کے انتظامی اور مالی امور کے شاندار ریکارڈ کے برعکس وہ ای او بی آئی کے لئے ایک بیحد کمزور منتظم ثابت ہوئی ہیں جس کے باعث نہ صرف شکیل احمد منگنیجو کی جانب سے ای او بی آئی میں اختیارات کے غلط استعمال اور کرپشن کے خلاف نافذ کردہ زیرو ٹولیرنس پالیسی اور فیلڈ آپریشنز سے کالی بھیڑوں سے صفایا کرنے کی مہم کا خاتمہ ہوگیا ہے بلکہ بدعنوان اور بھتہ خور فیلڈ افسران کو ایک بار پھر مادر پدر آزادی مل گئی ہے
ذرائع کا کہنا ہے کہ عقیل احمد صدیقی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز ساؤتھ ( سندھ و بلوچستان) کے دو برس قبل ہونے والے تبادلہ کے بعد آج تک ان کا عہدہ اب تک خالی پڑا ہے جس کے باعث انتہائی جونیئر گریڈ کے افسران ڈائریکٹر جنرل آپریشنز کے اختیارات استعمال کر رہے ہیں
بتایا جاتا ہے کہ پچھلے دنوں کرشن سولنکی کو ایک بار پھر فیلڈ آپریشنز میں ایڈجسٹ کرنے کےلئے پہلے مرحلہ میں اس کا ٹرانسفر بی اینڈ سی عوامی مرکز سے بینی فٹس افسر کی حیثیت سے ریجنل آفس کورنگی کیا گیا
بعد ازاں معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد دوسرے مرحلہ میں اسے کراچی کے شارع فیصل جیسے اہم کاروباری اور تجارتی علاقہ کا بیٹ افسر مقرر کردیا گیا ہے اور اس کے دائرہ اختیار میں کم وبیش 500 چھوٹے بڑے ادارے آتے ہیں ۔ کرشن کمار سولنکی اپنی تعیناتی کے بعد حسب سابق بلا خوف و خطر شارع فیصل کے سینکڑوں آجروں اور اداروں سے ای او بی آئی کے نام پر ڈرا دھمکا کر ان سے بھاری بھتہ خوری میں مصروف ہوگیا ہے
واضح رہے کہ ای او بی آئی فیلڈ آپریشنز کراچی میں کورنگی کے صنعتی علاقہ کو سونے کا انڈا دینے والی مرغی سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس وسیع صنعتی علاقہ میں کراچی کے دیگر صنعتی علاقوں کی نسبت ہر قسم کی ہزاروں صنعتوں اور اداروں کا ایک وسیع جال بچھا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ ای او بی آئی کے فیلڈ آپریشنز کے کماؤ پوت افسران ریجنل آفس کورنگی میں اپنی تعیناتی کرانے کے لئے بڑھ چڑھ کر بولی لگاتے ہیں ۔
معلوم ہوا ہے کہ ای او بی آئی کا ایک بدعنوان ریجنل ہیڈ مزمل کامل ملک بھی ریجنل ہیڈ کورنگی کے منفعت بخش عہدہ پر تعیناتی کرانے کے لئے بھاری سفارشیں کرانے میں مصروف ہے ۔
ذرائع کا کہنا ہے اس کھیل کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ای او بی آئی فیلڈ آپریشنز میں تعینات بیٹ افسران کی جانب سے آجران اور اداروں کی ای او بی آئی میں رجسٹریشن کے نام پر ان کی ملی بھگت سے اصل تعداد کے بجائے کم تعداد میں ملازمین ظاہر کرنے اور جوڑ توڑ کے ذریعہ بڑے پیمانے پر بھتہ خوری اور رشوت ستانی کے باعث اس کا سب سے زیادہ نقصان لاکھوں محنت کش اور ملازمین کو اپنی حق تلفی کی شکل میں برداشت کرنا پڑتا ہے جو ای او بی آئی میں اپنی بروقت رجسٹریشن نہ ہونے اور بصورت دیگر ای او بی آئی رجسٹریشن کارڈ PI-03 نہ ہونے کے باعث مستقبل میں اپنی ریٹائر منٹ کے بعد نہ صرف اپنی تاحیات پنشن سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ ان کی وفات کی صورت میں ان کی بے سہارا بیوائیں بھی اپنی پنشن کے حق سے محروم ہو جاتی ہیں
جو کسی انسانی المیہ سے کم نہیں