ملک کے غریب محنت کشوں کی پنشن کے قومی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) زیر نگرانی وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان میں بااثر اور قانون سے بالاتر اعلیٰ افسران کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور محنت کشوں کے امانتی پنشن فنڈ میں مال مفت دل بے رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاکھوں روپے کی لوٹ کھسوٹ کے نت نئے ہوشرباء ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں
لیکن ان کے خلاف ایکشن لینے والا کوئی نہیںایک تازہ رپورٹ کے مطابق ای او بی آئی کے 2007ء اور 2014ء میں مشکوک طریقہ سے بھرتی ہونے والے سات بااثر اور منظور نظر اعلیٰ افسران کی جانب سے سراسر غیر قانونی طور پر ایڈیشنل/ قائم مقام عہدہ کے الاؤنسز کے نام پر ای او بی آئی کو 46 لاکھ روپے کا ٹیکہ لگا نے کا انکشاف ہوا ہےجس کا سلسلہ تاحال جاری ہے

تفصیلات کے مطابق ان منظور نظر افسران میں 15 دسمبر 2014 کو صوبہ پنجاب کے کوٹہ پر لاء کیڈر میں بھرتی ہونے والا ایک جونیئر افسر قدیر احمد المعروف قدیر احمد چوہدری ایمپلائی نمبر 928494 موجودہ قائم مقام ڈائریکٹر ایڈجوڈیکینگ اتھارٹی لاہور شامل ہے ۔ جس کا اصل عہدہ ڈپٹی ڈائریکٹر لاء ہے لیکن وہ ایک بھاری سفارش کی بدولت ای او بی آئی آفس لاہور میں قائم مقام ڈائریکٹر لاء کے عہدہ پر خدمات انجام دے رہا ہے ۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قدیر چوہدری کی بھرتی کے مطابق اس کا اصل مقام تعیناتی لاء ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی ہے ۔
لیکن قدیر احمد چوہدری کچھ عرصہ قبل ماضی کی طرح ایک بار پھر سیاسی بھاری سفارش کے ذریعہ اپنے آبائی علاقہ کے قریب رہنے کی خاطر اپنا ٹرانسفر لاہور کرانے میں کامیاب ہو گیا تھا بتایا جاتا ہے کہ قدیر احمد چوہدری، قائم مقام ڈائریکٹر لاء ای او بی آئی آفس لاہور کی حیثیت سے غیر قانونی طور پر ایڈیشنل/ قائم مقام الاؤنس کی مد میں فروری 2021 سے اب تک باقاعدگی سے 22,000 روپے ماہانہ وصول کر رہا ہے اور قدیر احمد چوہدری اس مد میں اب تک 440,000 روپے کی بھاری رقم وصول کر چکا ہے
15 دسمبر 2014 میں صوبہ پنجاب کے کوٹہ پر لاء کیڈر میں بھرتی ہونے والا ایک اور جونیئر افسر سخن الیاس ملک ایمپلائی نمبر 930212 اس کا اصل عہدہ ڈپٹی ڈائریکٹر لاء ہے لیکن یہ B&C II آفس لاہور میں قائم مقام ڈائریکٹر لاء کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا ہے سخن الیاس ملک کی ای او بی آئی میں بھرتی کے مطابق اس کا اصل مقام تعیناتی لاء ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی ہے لیکن یہ بااثر افسر بھی کچھ عرصہ قبل ایک سیاسی سفارش کی بناء پر ای او بی آئی لاہور میں اپنی تعیناتی کرانے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔ سخن الیاس ملک بھی ایڈیشنل/ قائم مقام الاؤنس کے نام پر فروری 2021 سے غیر قانونی طور پر 22,000 روپے ماہانہ وصول کر رہا ہے اور اب تک اس مد میں 440,000 روپے کی خطیر رقم وصول کر چکا ہے
یکم مارچ 2007 میں اس وقت کے ایک انتہائی طاقتور چیئرمین بریگیڈیئر ریٹائرڈ اختر ضامن کی بھاری سفارش کی بدولت سندھ شہری کے کوٹہ پر بھرتی ہونے والا افسر سید علی متقی شاہ ایمپلائی نمبر 923375 ڈائریکٹر اور موجودہ ریجنل ہیڈ ناظم آباد کراچی بھی غیر قانونی طور پر ایڈیشنل/ قائم مقام الاؤنس کے نام پر فروری 2021 سے 35,000 روپے ماہانہ وصول کرکے اب تک ای او بی آئی سے 735,000 روپے کی بھاری رقم وصول کرچکا ہے یکم مارچ 2007ء میں صوبہ پنجاب کے کوٹہ پر بھرتی ہونے میں کامیاب ہونے والا افسر غلام محمد، ایمپلائی نمبر 923148کا اصل عہدہ ڈائریکٹر ہے لیکن غلام محمد اس وقت قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایڈجوڈیکینگ اتھارٹی لاہور کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا ہے اور یہ افسر بھی فروری 2021 سے غیر قانونی طور پر 35,000 روپے ماہانہ ایڈیشنل/ قائم مقام الاؤنس وصول کر رہا ہے اور اب تک اس مد میں 735,000 روپے کی خطیر رقم وصول کر چکا ہے
14 فروری 2007 میں صوبہ پنجاب کے کوٹہ پر آپریشنز کیڈر میں بھرتی ہونے والا ایک اور افسر مراتب علی ڈوگر، ایمپلائی نمبر 923159 کا اصل عہدہ ڈائریکٹر کا ہے لیکن مراتب علی ڈوگر اس وقت ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل B&C II لاہور کے کلیدی اور منفعت بخش عہدہ پر فائز ہے ۔ مراتب علی ڈوگر بھی غیر قانونی طور پر فروری 2021 سے 35,000 روپے ماہانہ ایڈیشنل/ قائم مقام الاؤنس وصول کر رہا ہے اور اب تک اس مد میں 735,000 روپے کی بھاری رقم وصول کرچکا ہے
12فروری 2007 میں صوبہ پنجاب کے کوٹہ پر آپریشنز کیڈر میں بھرتی ہونے والا ایک اور بااثر افسر محمد فاروق طاہر ایمپلائی نمبر 923171 ڈائریکٹر اور موجودہ ریجنل ہیڈ راولپنڈی بھی فروری 2021 سے غیر قانونی طور پر ایڈیشنل/قائم مقام الاؤنس کی مد میں غیر قانونی طور پر 35,000 روپے ماہانہ وصول کرتا رہا ہے اور اب تک اس مد میں 735,000 روپے کی خطیر رقم وصول کرچکا ہے
28 اگست 1995ء میں صوبہ خیبر پختونخوا کے کوٹہ پر آپریشنز کیڈر میں بھرتی ہونے والا ایک اور بااثر افسر خالد نواز مروت المعروف خالد نواز ایمپلائی نمبر 919584 کا بھی اصل عہدہ ڈائریکٹر کا ہے ۔ لیکن خالد نواز مروت ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس میں قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے تعیناتی کے دوران موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے جنوری 2021 سے غیر قانونی طور پر ایڈیشنل/ قائم مقام الاؤنسز کی مد میں 35,000 روپے ماہانہ وصول کرتا رہا ہے اور اب تک اس مد میں 770,000 روپے کی بھاری رقم وصول کرچکا ہے ۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خالد نواز مروت گزشتہ دو برس کے دوران قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کی حیثیت سے اپنے کلیدی عہدہ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی متنازعہ MBA کی ڈگری کی کوالیفکیشن کے نام پر پچھلے 25 برسوں کے بھاری واجبات وصول کرکے ای او بی آئی جیسے فلاحی ادارہ کو لاکھوں روپے کا چونا بھی لگا چکا ہے ۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خالد نواز مروت نے 1995ء میں ای او بی آئی میں ملازمت MBA کی ڈگری کی بنیاد پر ہی حاصل کی تھی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ خالد نواز مروت موقع غنیمت جانتے ہوئے منظر عام سے ہٹنے کے لئے حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا کی ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت کی بھاری سیاسی سفارش کے ذریعہ ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی سے B&C III آفس اسلام آباد ٹرانسفر کرانے میں کامیاب ہو گیا ہے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ خالد نواز مروت کو ای او بی آئی میں اس دور کے ایک انتہائی بااثر اور اعلیٰ افسر شیر محمد مروت ڈائریکٹر فنانس اینڈ اکاؤنٹس ہیڈ آفس کی بھاری سفارش پر 1995 میں صوبہ سرحد میں بھرتی کیا گیا تھا اور وہ ای او بی آئی میں شیر محمد مروت کا منہ بولا بیٹا کہلاتا ہے اور ای او بی آئی میں شیر محمد مروت کے حوالے سے اس کا زبردست اثر و رسوخ پایا جاتا ہےواضح رہے کہ شیر محمد مروت طویل عرصہ تک ای او بی آئی میں ڈائریکٹر فنانس کے کلیدی عہدہ پر فائز رہا تھا اور بعد ازاں قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فنانس اینڈ اکاؤنٹس کے کلیدی عہدہ سے ریٹائر ہوا تھا ۔ واضح رہے کہ شیر محمد مروت کا شمار ای او بی آئی کی انتظامیہ کے اجی حضوری، متعصب اور اسٹاف ملازمین دشمن اعلیٰ افسران میں کیا جاتا تھا ۔ شیر محمد مروت خود بھی چند دیگر افسران کے ساتھ غیر قانونی طور پر ایک بھاری سفارش کے ذریعہ جیمز اسٹون کارپوریشن پشاور سے ای او بی آئی میں ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس کے عہدہ پر بھرتی ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔ شیر محمد مروت نے ای او بی آئی میں بھرتی کے بعد ادارہ میں اپنا ایک مضبوط لسانی گروپ بنالیا تھا اور وہ انتظامیہ کے ہر جائز وناجائز احکامات پر آنکھ بند کرکے عمل کیا کرتا تھا لیکن کمزور اسٹاف ملازمین کے ساتھ نہ صرف سخت بیر رکھتا تھا بلکہ ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور اذیت پہنچانے میں بھی پیش پیش رہا کرتا تھا جس کے نتیجہ میں ای او بی آئی کے کئی دیانتدار اسٹاف ملازمین کا نہ صرف ملازمتی کیرئیر بلکہ ان کی ذاتی زندگی تباہ ہوگئی تھی شیر محمد مروت کی انہی خصوصیات کی بناء پر 2010 تا 2013 کے دوران ای او بی آئی کے ایک چیئرمین ظفر اقبال گوندل نے اسے غیر قانونی طور پر اپنا اسپیشل ایڈوائزر مقرر کیا تھا اور شیر محمد مروت نے ای او بی آئی میں اپنی اس کلیدی حیثیت سے ظفر اقبال گوندل کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے فنانس اور انوسٹمنٹ کے ڈپارٹمنٹ میں 18 اراضیوں اور املاک کی مشکوک خریداری کے 35 ارب روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل میں اس کی بھرپور معاونت کی تھی ۔ شیر محمد مروت نے ظفر اقبال گوندل کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بے شمار غیر قانونی کام انجام دیئے اورظفر اقبال گوندل کے پس پردہ مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنی غیر معمولی خدمات کے صلہ میں اپنے کئی بیٹوں، داماد، بھانجے اور بھتیجوں( کل سات افراد) کو غیر قانونی طور پر ای او بی آئی میں مختلف عہدوں پر بھرتی کرادیا تھا ۔
لیکن 17 مارچ 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک حکم پر ای او بی آئی میں 400 غیر قانونی بھرتی شدہ افسران اور ملازمین کے ساتھ ساتھ شیر محمد مروت کے بچوں اور عزیزوں کو بھی فوری طور پر ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا لیکن بتایا جاتا ہے کہ شیر محمد مروت کا ایک چھوٹا بھائی راز محمد مروت اب بھی EOBI فیلڈ آفس بنوں میں ملازمت کر رہا ہے ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شیر محمد مروت سابق قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فنانس اینڈ اکاؤنٹس ہیڈ آفس اور اسپیشل ایڈوائزر برائے چیئرمین ظفر اقبال گوندل جیسا کائیاں اور چالاک اعلیٰ افسر 35 ارب روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل سمیت دیگر اسکینڈلز میں مرکزی کردار کی حیثیت سے ملوث ہونے کے باوجود FIA اور NAB کی جانب سے کی جانے والی تمام تحقیقات سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا شیر محمد مروت ریٹائرمنٹ کے خالد نواز مروت سے برابر رابطہ میں رہتا ہے اور اسے بوقت ضرورت مشورے فراہم کرتا ہے اور ای او بی آئی کی جانب سے بھاری ماہانہ پنشن اور پرکشش میڈیکل سہولیات سے لطف اندوز ہو رہا ہےای او بی آئی کے ان بااثر اور طاقتور افسران کی جانب سے گزشتہ 22 ماہ کے دوران ایڈیشنل/ قائم مقام الاؤنسز کے نام پر وصول کردہ کل رقم 4,590,000 روپے بنتی ہے اور اس خطیر رقم سے ای او بی آئی کے کم از کم 540 پنشن یافتگان کو ایک ماہ کی پنشن کی ادائیگی کی جاسکتی ہے
ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی کے Employees Service Regulation 1980 کے مطابق کسی افسر کی جانب سے ایڈیشنل/ قائم مقام افسر کا چارج سنبھالنے کے لئے چند شرائط لازمی ہیں ۔ جن کے مطابق قائم مقام افسر کی تعیناتی کے لئے لازمی ہے کہ وہ افسر تمام افسران میں سب سے زیادہ سینئر ہو اور اپنے عہدہ کی ایک برس کی مقررہ آزمائشی مدت مکمل کرچکا ہو ۔ اسی طرح قائم مقام کا چارج سنبھالنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس عہدہ کی نشست خالی ہو اور اس عہدہ پر کسی افسر کی خدمات لازمی درکار ہو ۔ جبکہ ان بااثر افسران کی ایڈیشنل الاؤنس کی وصولی اور قائم مقام افسران کی حیثیت سے تعیناتی میں ادارہ کے مقررہ قواعد و ضوابط کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے ای او بی آئی میں کافی عرصہ سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ مقررہ قواعد و ضوابط کو یکسر نظر انداز کر کے بااثر، بدعنوان اور انتظامیہ کے انتہائی منظور نظر افسران کو انتہائی مختصر مدت کے دوران ایک ترقی کے فوراً بعد ان کی اگلے گریڈ میں قائم مقام عہدہ پر تعیناتی کردی جاتی ہے جس کے باعث ان افسران کو لامحدود اختیارات کے ساتھ ساتھ پرکشش مراعات کا پیکج بھی حاصل ہو جاتا ہے ۔ جس کے باعث ان بااثر اور منظور نظر قائم مقام افسران کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں اور ادارہ کے سینئر اور تجربہ کار افسران ان بااثر افسران کے وسیع اختیارات اور ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر حیرت سے دنگ رہ جاتے ہیں ۔
قائم مقام افسران میں ڈائریکٹر کے لئے فرنشڈ اور ایئر کنڈیشنڈ آفس، 1000 سی سی کی سرکاری گاڑی، گاڑی کی مینٹیننس اینڈ ریپئر ، معہ ماہانہ 150 لٹر پٹرول، ڈرائیور کی سہولت، گھر پر دو اخبارات، گھر میں لینڈ لائن ٹیلیفون معہ ماہانہ بل اور 3000 روپے موبائل فون چارجز اور اسی عہدہ کے لحاظ سے انہیں بھاری ٹی اے ڈی اے، بھاری میڈیکل اور انٹرٹینمنٹ الاؤنس وغیرہ شامل ہے
جبکہ قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ کے افسر کے لئے فرنشڈ آفس معہ ایئر کنڈیشنڈ، 1300 سی سی کی سرکاری گاڑی، گاڑی کی مینٹیننس اور ریپئر، 300 لٹر ماہانہ پٹرول، دو ڈرائیوروں کی سہولت، گھر میں دو اخبارات، گھر میں لینڈ لائن ٹیلیفون کی سہولت معہ ماہانہ بل، ماہانہ موبائل فون چارجز 5000 روپے اور اسی قائم مقام عہدہ کے لحاظ سے انہیں دیگر افسران کے مقابلہ میں بھاری ٹی اے ڈی، بھاری میڈیکل اور انٹرٹینمنٹ الاؤنس وغیرہ شامل ہے
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہ قائم مقام افسران بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادارہ کی سرکاری دستاویزات اور خط وکتابت کے دوران دستخط میں خود کو قائم مقام افسر کے بجائے مستقل افسر ظاہر کرتے ہیں جس سے ان کے عہدہ پر مستقل ہونے کا تاثر ملتا ہے لہذا ای او بی آئی کے بااثر اور بدعنوان افسران قائم مقامی کے منفعت بخش عہدہ کے حصول اور پرکشش مراعات کے پیکج کے لئے ہر جائز وناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ادارہ میں بااثر افسران کی جانب سے ذاتی فوائد کو ترجیح دینے کے باعث ای او بی آئی کے قیام کے مقاصد یعنی ملک کے غریب محنت کشوں اور ملازمین کو بڑھاپے، معذوری اور ان کی ناگہانی وفات کی صورت میں ان کے پسماندگان کو پنشن فراہم کرنا تو پس پشت چلے گئے ہیں ۔ محنت کشوں اور ملازمین کی جانب سے مستقبل میں اپنی پنشن کی امید میں ای او بی آئی میں جمع کرائے جانے والے ماہانہ چندہ (Contribution) کے ذریعہ چلنے والا ای او بی آئی ایک ٹرسٹ ادارہ ہے اور ادارہ کے تمام افسران اور ملازمین اس قومی فلاحی ادارہ کے ٹرسٹی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
لہذا اس امانتی پنشن فنڈ میں خیانت ایک سنگین جرم کے مترادف ہے ۔
ای او بی آئی کی نئی خاتون چیئرپرسن محترمہ ناہید شاہ درانی حکومت پاکستان کی گریڈ 22 کی سینئر اور تجربہ کار افسر ہیں اور ان کے ماضی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے اچھی امیدیں وابستہ تھیں لیکن انہوں نے بھی ادارہ میں بڑے پیمانے پر بدانتظامی اور بدعنوانیوں پر پراسرار طور پر چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے
جبکہ ای او بی آئی کے افسران کے لئے مختص عہدہ پر خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن کے ذریعہ قابض ہونے والی خاتون افسر شازیہ رضوی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ اور ڈیپوٹیشن پر تعینات ناصرہ پروین خان بیک وقت فنانشل ایڈوائزر اور انوسٹمنٹ ایڈوائزر درپردہ ان بااثر اور قانون سے بالاتر افسران کی مکمل سرپرستی میں مصروف ہیں جس کے سدباب کے لئے بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر ذوالفقار حیدر کو فوری طور پر حرکت میں آنے کی ضرورت ہے
اسی طرح ای او بی آئی کے اسٹاف ملازمین کے چھوٹے چھوٹے معاملات میڈیکل بلز، قرضہ جات، جائز الاؤنسز اور ترقیوں میں میں بال کی کھال نکالنے کے ماہر ادارہ کے اسمارٹ اعلیٰ افسران محمد اجمل خان، قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فنانس اینڈ اکاؤنٹس اور بلال عظمت خان، قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی غیر قانونی ایڈیشنل/قائم مقام الاؤنسز کے اسکینڈل کے معاملہ میں صرف اس لئے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے کہ وہ خود بھی غیر قانونی طور پر ایک طویل عرصہ سے 35,000 روپے اور 40,000 روپے ماہانہ کے حساب سے ایڈیشنل/قائم مقام الاؤنس اور پرکشش مراعات کے پیکیج کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ۔ اسی طرح عبدالاحد میمن قائم مقام ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ بھی قائم مقام الاؤنس حاصل کر رہے ہیں ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بااثر افسران کی جانب سے ان غیر قانونی الاؤنسز پر واجب الادا ٹیکس سے بچنے کے لئے تنخواہوں کے اسٹیٹمنٹ میں شامل کرنے کے بجائے علیحدہ سے ادائیگی کی جاتی ہے ای او بی آئی کے اسٹاف ملازمین اور EOBI کے لاکھوں پنشن یافتگان نے وفاقی وزیر ساجد حسین طوری اور EOBI کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر ذوالفقار حیدر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ای او بی آئی کے ان بااثر اور بدعنوان افسران کی جانب سے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ میں لاکھوں روپے کی لوٹ مار کا سخت نوٹس لیں اور ان افسران کی جانب سے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے وصول کئے جانے والے ان غیر قانونی الاؤنسز کو فوری طور بند کیا جائے اور ان طاقتور افسران کی جانب سے ادارہ کے قواعد و ضوابط کے برخلاف غیر قانونی الاؤنسز کی مد میں وصول کی گئی لاکھوں روپے کی بھاری رقم کو فوری طور پر ریکور کرکے ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ ای او بی آئی کے کسی بھی بااثر افسر کو غریب محنت کشوں کے امانتی پنشن فنڈ میں لوٹ کھسوٹ کی ہمت نہ ہوسکے