ای او بی آئی کی چیئر پرسن محترمہ ناہید شاہ درانی نے بڑھتی ہوئی عوامی شکایات اور میڈیا میں تسلسل سے شائع ہونے والی خبروں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اسٹاف افسر اور بیک وقت تین کلیدی عہدوں پر فائز انتہائی متنازعہ افسر محمد نعیم شوکت قائم خانی کو فوری طور پر تمام کلیدی عہدوں سے ہٹاکر جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کا انچارج مقرر کر دیا ہے جبکہ اس کی جگہ محمد عمران محسن قائم مقام ڈائریکٹر ری کنسیلیئشن ڈپارٹمنٹ کو اپنا ڈائریکٹر کوآرڈینیشن مقرر کردیا ہے
ای او بی آئی ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی کے جاری کردہ نوٹیفکیشن نمبر 385/2022 بتاریخ 3 نومبر 2022ء کے مطابق محمد نعیم شوکت قائم خانی قائم مقام ڈائریکٹر کو چیئرمین سیکریٹیریٹ سے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ محمد عمران محسن قائم مقام ڈائریکٹر کو ری کنسیلیئشن ڈپارٹمنٹ سے چیئرمین سیکریٹیریٹ اور متنازعہ اور غیر قانونی سرگرمیوں اور بڑے پیمانے پر کرپشن میں ملوث افسر طاہر صدیق المعروف طاہر صدیق چوہدری اسسٹنٹ ڈائریکٹر B&C II لاہور کو بھی اس کے کلیدی عہدہ سے ہٹا کر ریجنل آفس بہاولپور میں انچارج بینی فٹس سیکشن مقرر کیا گیا ہے
واضح رہے کہ محمد نعیم شوکت قائم خانی کا اصل عہدہ ڈپٹی ڈائریکٹر ہے لیکن وہ کافی عرصہ سے غیر قانونی طور پر قائم مقام ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا ہے
محمد نعیم شوکت قائم خانی کے خلاف 26 نومبر 2018 کو ای او بی آئی کا سالانہ آڈٹ کرنے والے گورنمنٹ آڈیٹرز کے سربراہ شیراز حسن وگن کی جانب سے سنگین الزامات پر مشتمل ایک آڈٹ پیرا بھی ہے جو ای او بی آئی کی انتظامیہ کو ضروری کارروائی کے لئے ارسال کیا گیا تھا
آڈٹ پیرا کے مطابق محمد نعیم شوکت قائم خانی کی پرسنل فائل کے ریکارڈ کی مدد سے معلوم ہوا کہ محمد نعیم شوکت کی 2007ء میں ای او بی آئی میں گریڈ 17 میں بھرتی ایک کوالیفائڈ امیدوار محمد نواز کی حق تلفی کرتے ہوئے کی گئی تھی ۔ گورنمنٹ آڈیٹرز نے محمد نعیم شوکت قائم خانی کی جانب سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر اور قائم مقام ڈائریکٹر کے عہدوں پر حاصل کردہ ترقیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں غیر قانونی قرار دیتے ہوئے محمد نعیم شوکت قائم خانی کے خلاف انکوائری کرنے اور اس کی جانب سے اس مدت کے دوران حاصل کی گئی تنخواہیں اور پرکشش مراعات کی ریکوری کا حکم دیا گیا تھا
لیکن اس آڈٹ پیرا کے باوجود انتہائی بااثر اور طاقتور افسر محمد نعیم شوکت قائم خانی نے اپنی قائم خانی برادری کے بھاری سیاسی و سرکاری اثر و رسوخ کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنے خلاف اس گورنمنٹ آڈٹ پیرا کو سرد خانہ میں ڈلوا دیا تھا اور وہ فنانس اینڈ آڈٹ کیڈر سے تعلق کے باوجود نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ چیئرمین سیکریٹیریٹ ہیڈ آفس میں بیک وقت تین کلیدی عہدوں اسٹاف افسر برائے چیئرمین، ڈائریکٹر کوآرڈینیشن اور ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ پر فائز تھا اور اس دوران بھاری تنخواہوں پرکشش مراعات اور ہر قسم کی سہولیات سے لطف اندوز ہو رہا تھا
ای او بی آئی کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد نعیم شوکت نے ای او بی آئی کے ایک سابق چیئرمین اظہر حمید کے خاص دست راست کی حیثیت سے بحریہ ٹاؤن پر واجب الادا ای او بی آئی کے کروڑوں روپے کے کنٹری بیوشن کی معاملہ میں ریجنل ہیڈز مزمل کامل ملک اور نوید فیاض قائم خانی کی ملی بھگت سے سودے بازی کرکے لاکھوں روپے کمیشن وصول کیا تھا
ای او بی آئی فیلڈ آپریشنز میں یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ ای او بی آئی کے ملک بھر کے 46 ریجنل آفسوں میں بڑے بڑے ایمپلائیرز کے کروڑوں روپے کنٹری بیوشن کے تنازعات والی اہم ترین فائلیں براہ راست محمد نعیم شوکت کے نام پر مختص کردی جاتی ہیں ۔ جنہیں فیلڈ آپریشنز اصطلاح میں “فائل بخشنا” کہا جاتا ہے تاکہ محمد نعیم شوکت قائم خانی ان ایمپلائیرز سے سودے بازی کرکے اپنا کمیشن کھرا کرسکے ۔ ای او بی آئی فیلڈ آپریشنز میں یہ کھیل کافی عرصہ سے جاری ہے اگر اس قسم کے کیسوں کی چھان بین کی جائیں تو سنسنی خیز انکشافات کی توقع ہے
بتایا جاتا ہے کہ محمد نعیم شوکت قائم خانی اپنی محدود تنخواہ کے باوجود انتہائی پرتعیش زندگی بسر کر رہا ہے اس کے استعمال میں ای او بی آئی کی سرکاری گاڑی معہ پٹرول کے علاوہ PRIMCO کی گاڑی معہ پٹرول اور ایک بدنام زمانہ اور انتہائی بدعنوان ریجنل ہیڈ مزمل کامل ملک کی جانب سے تحفہ میں دی جانے والی نئے ماڈل کی گاڑی بھی ہے جن پر وہ باقاعدگی سے ای او بی آئی سے ماہانہ ٹرانسپورٹیشن چارجز بھی وصول کرتا ہے ۔ اس مقصد کے تحت اس نے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس میں غلام اصغر شیخ نامی جی حضوری اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنا خاص دست راست بنا ہوا ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ سرے سے ای او بی آئی کا ملازم ہی نہیں ہے بلکہ وہ تو اپنے سسر نور الدین صدیقی سابق فنانشل ایڈوائزر کی سفارش پر ای او بی آئی کے ایک ذیلی ادارہ PRIMACO میں کنٹریکٹ پر بھرتی ہوا تھا لیکن کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد غیر قانونی طور پر ای او بی آئی میں اپنا ٹرانسفر کرانے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن ای او بی آئی کا ملازم نہ ہونے کے باوجود غلام اصغر شیخ نہ صرف ای او بی آئی ہیڈ آفس میں ٹرانسپورٹ افسر کی حیثیت سے ملازمت کررہا ہے بلکہ ادارہ کی سینکڑوں سرکاری گاڑیوں کے ہزاروں لٹر ماہانہ پٹرول، گاڑیوں کی مینٹیننس اور مرمت کے نام پر بڑے پیمانے پر ہیرا پھیری میں مصروف ہے غلام اصغر شیخ کی جانب سے ای او بی آئی سے غیر قانونی طور ماہانہ تنخواہ اور پرکشش مراعات وصول کرنے پر ادارہ کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ آڈٹ ڈپارٹمنٹ اور فنانس ڈپارٹمنٹ نے مکمل چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے
جبکہ غلام اصغر شیخ نے صابر کشمیری نامی نائب قاصد کو اپنا فرنٹ مین رکھا ہوا ہے صابر کشمیری ایک ریٹائرڈ ڈرائیور محمد ایوب کا بیٹا بتایا جاتا ہے ہے جو ادارہ مین بک بائنڈر کی خالی اسامی پر بھرتی کیا گیا تھا لیکن صابر کشمیری بک بائنڈر کے بجائے ای او بی آئی کی سرکاری گاڑیوں کا انچارج بنا ہوا ہے جو گاڑیوں کی مرمت کے نام پر پارٹس اور پٹرول کارڈ کے ذریعہ اپنی دیہاڑی لگانے میں مصروف ہے اور غیر قانونی طور پر ادارہ کی سرکاری گاڑیوں کو اڑائے اڑائے پھرتا ہے صابر کشمیری کی بالائی آمدنی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ معمولی نائب قاصد ہونے کے باوجود اپنی ذاتی گاڑی میں آفس آتا ہے جبکہ صابر کشمیری کی جگہ ای او بی آئی کے سرکاری ریکارڈ کی بک بائنڈنگ کے لئے بھاری معاوضہ پر ایک بک بائنڈر کی خدمات حاصل کی گئی ہیں
بتایا جاتا ہے کہ محمد نعیم شوکت قائم خانی نے چیئرمین سیکریٹیریٹ میں تعیناتی کے دوران گزشتہ چار برسوں میں اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے نہ صرف بڑے پیمانے پر ای او بی آئی کے وسائل پر ہاتھ صاف کیا بلکہ وہ ادارہ کے دیگر ملازمین کے برعکس اور ای او بی آئی کے میڈیکل قوانین کے خلاف اپنا اور اپنی فیملی کا بیحد مہنگا علاج و معالجہ آغا خان اسپتال اور ساؤتھ سٹی اسپتال کلفٹن سے کراتا ہے اور اس کے ماہانہ بھاری رقوم کے میڈیکل بلوں کی ادائیگی بھی ہاتھوں ہاتھ کردی جاتی ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس محمد نعیم شوکت قائم خانی نے میڈیکل ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے نہایت سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادارہ کے اسٹاف ملازمین اور ان کے ضعیف العمر اور شدید بیمار والدین کے جائز میڈیکل بلوں اور شدید بیماری کی حالت میں ان کے اسپتال میں داخلہ پر پابندی عائد کر دی تھی
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ محمد نعیم شوکت کی جانب سے ای او بی آئی میں بڑے پیمانے پر اختیارات کے غلط استعمال اور بھاری کرپشن اور غریب محنت کشوں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کو ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات خاتون افسر شازیہ رضوی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر اینڈ جی اے ڈپارٹمنٹ کی مکمل پشت پناہی حاصل رہی ہے کیونکہ محمد نعیم شوکت ادارہ میں شازیہ رضوی کے انتہائی چہیتے افسر کی حیثیت سے مشہور ہے ۔ کیونکہ محمد نعیم شوکت گزشتہ برس طاہر صدیق اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے ساتھ مل ان کے بیمار شوہر کو علاج ومعالجہ کے لاکھوں روپے کے بلوں کے تنازعہ کے دوران ساؤتھ سٹی اسپتال سے ذاتی ضمانت پر بحفاظت باہر نکال لایا تھا اور بعد میں ای او بی آئی کی جانب سے ان کے شوہر کے علاج ومعالجہ کے لئے 12 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی تھی
ذرائع کا کہنا ہے کہ خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات اور سیکریٹیریٹ گروپ حکومت پاکستان کی گریڈ 20 کی خاتون افسر ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی ای او بی آئی میں سارے فتنہ اور فساد کی جڑ سمجھی جاتی ہے جس نے محض کراچی میں رہنے کی خاطر اپنی پوسٹنگ ای او بی آئی میں کرائی ہوئی ہے ۔ شازیہ رضوی اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت ای او بی آئی کے ملازمین میں گروپ بندی کو فروغ دے کر ” لڑاؤ اور حکومت کرو ” کی پالیسی پر گامزن ہے
یہی وجہ ہے کہ شازیہ رضوی نے ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی حیثیت سے موجودہ چیئر پرسن ناہید شاہ درانی کے چارج سنبھالنے کے موقع پر ادارہ کے متعلق اپنی بریفنگ کے دوران انہیں مختلف امور پر گمراہ کیا تھا اور وہ ہر صورت موجودہ چیئر پرسن کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہیں
دریں اثناء ای او بی آئی کی چیئر پرسن محترمہ ناہید شاہ درانی کی جانب سے ای او بی آئی کی معروف کالی بھیڑوں محمد نعیم شوکت، اور طاہر صدیق کے تبادلوں پر ادارہ کے افسران اور اسٹاف ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور انہوں نے چیئر پرسن سے مطالبہ کیا ہے کہ محمد نعیم شوکت، اور طاہر صدیق کی جانب سے کافی عرصہ سے اختیارات کے غلط استعمال اور بڑے پیمانے پر کرپشن میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات پر FIA یا NAB سے ان کے خلاف غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کرائی جائے تاکہ ملک کے لاکھوں محنت کشوں کے قومی فلاحی ادارہ EOBI میں آئندہ کسی افسر کو اختیارات کے غلط استعمال اور پنشن فنڈ میں لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کی جراءت نہ ہو سکے